مسلمان مخالف ری ٹوئٹ پر ٹرمپ نے معافی مانگ لی

واشنگٹن (آئی این پی) امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لندن کے انتہا پسند گروپ کے مسلمان مخالف ٹوئیٹ کو ری ٹوئیٹ کرنے پر مسلمانوں سے معافی مانگ لی۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ مسلمان مخالف ٹوئیٹ پر وہ جن کی دل آزاری ہوئی ہے اس پر معافی مانگتا ہوں۔ انہوں نے برطانوی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان مجھ سے چاہتے ہیں کہ مسلمان مخالف ری ٹوئیٹ پر معافی مانگوں تو میں معافی مانگتا ہوں۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ برطانیہ کی اس مسلمان مخالف تنظیم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی وہ ایسے لوگوں سے منسلک ہونا چاہتے ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں برطانیہ کے دائیں بازو کے ایک سخت گیر گروپ کے نفرت انگیزی پر مشتمل سزایافتہ سربراہ کی جانب سے مسلمان مخالف تین ویڈیوز ٹوئٹر پر شائع کی گئیں تھیں جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ری ٹوئیٹ کردیا تھا۔برطانیہ میں ٹرمپ کی جانب سے ری ٹویٹ کے بعد اشتعال پھیل گیا تھا اور کئی سیاست دانوں سمیت مشہور شخصیات کی جانب سے اس قدم پر تنقید کی جارہی تھی۔ برطانیہ کے دائیں بازو کے انتہاپسند گروپ کے ایک حملے میں ہلاک ہونے والے ایم پی جو کوس کی بیوہ برینڈن کوکس کا کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ نے اپنے ملک میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں کو قانونی بنایا ہے اور وہ اب ہمارے ملک میں ایسا ہی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

 

اسحاق ڈار ،انکی اہلیہ کے اکاﺅنٹس گاڑیوں کی تفصیلات عدالت میں پیش

اسلام آباد(وقا ئع نگار) سابق وزیر خزانہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس کی سماعت کے دوران اسحق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے اکا ﺅ نٹس اور گاڑیوں کی تفصیلات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی،نادرا کے برطرف ڈائریکٹر قابوس عزیز سمیت 3 گواہوں کے بیانات بھی قلمبند کر لیے گئے ،عدالت نے کیس کی سماعت 29 جنوری تک ملتوی کردی ۔ جمعہ کو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی سربراہی میں نیب ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں استغاثہ کے گواہ محمد نعیم، ظفر اقبال اور قابوس عزیز پیش ہوئے۔ استغاثہ کے گواہ ظفر اقبال نیب لاہور کے بنکنگ ایکسپرٹ ہیں، محمد نعیم کا تعلق ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن لاہور سے ہے جب کہ قابوس عزیز سابق ڈائریکٹر نادرا ہیں، گزشتہ سماعت پر ان کا بیان مکمل نہیں ہوسکا تھا۔اس موقع پر عدالت میں اسحاق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیوں کے بینک اکاونٹس کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں، بینک کریڈٹ رپورٹ 4 صفحات پر مشتمل ہے۔استغاثہ کے گواہ محمد نعیم نے عدالت کو بتایا کہ 15 اگست کو نیب لاہور کی جانب سے خط موصول ہوا اور 22اگست کو نیب لاہور میں تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا جس میں اسحاق ڈار اور ان کے فیملی ممبرز کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔سماعت کے دوران استغاثہ کے دوسرے گواہ ظفر اقبال مفتی نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرایا جس میں انہوں نے کہا کہ اگست 2017 کو اسحاق ڈار، فیملی ممبران اور کمپنیوں کے اکاونٹ کی تفصیلات مانگی گئیں، اسٹیٹ بینک نے معلومات طلبی کے لیے مختلف بنکوں کو سمن کیے، رپورٹ کے مطابق اسحاق ڈار، اہلیہ اور کمپنی کے 15 اکاونٹس تھے جن میں 9 اکاونٹس البرکا بنک میں تھے، البرکا بنک میں موجود اکاونٹس میں سے 8 کمپنی جب کہ ایک تبسم اسحاق کا تھا۔استغاثہ کے گواہ ظفر اقبال نے کہا کہ الائیڈ بینک پارلیمنٹ ہاوس برانچ میں اسحاق ڈار کے اکاونٹ میں 8کروڑ 46 لاکھ 78 ہزار 10 روپے موجود تھے، اسحاق ڈار کے بینک الفلاح کے اکاونٹ میں 49 لاکھ 77 ہزار 781 روپے جب کہ حبیب بینک کے اکاونٹ میں58 لاکھ 83 ہزار 463 روپے موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے اکاونٹس کی بینک کریڈٹ ان فلوز رپورٹ تیار کی جب کہ اکاونٹس کے حوالے سے معلومات اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل کیں اور تفتیشی افسر نے نیب کے آفیسر اقبال حسن اور عبید سائمن کی موجودگی میں میرا بیان قلمبند کیا۔عدالت میں سماعت کے موقع پر استغاثہ کے تیسرے گواہ بر طرف ڈائریکٹر نادرا قابوس عزیز کا بیان بھی قلمبند کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ چیرمین نادرا کی ہدایت پر 21 اگست 2017 کو نیب لاہور میں پیش ہوا، نیب کو اسحاق ڈار کے فیملی ٹری سے متعلق دستاویزات پیش کیں، اسحاق ڈار کی بیٹی صدیقہ عادل رانا کے حوالے سے پرسنل انفارمیشن بھی فراہم کی، نیب کو فراہم کردہ دستاویزات ڈیٹا بیس سسٹم سے پرنٹ کیے اور دستاویزات کے کور لیٹر پر پی ایس ٹو چیئرمین کے دستخط ہیں۔استغاثہ کے گواہ محمد نعیم نے عدالت کو بتایا کہ نیب کی طرف سے طلبی کے بعد 22 اگست کو نیب لاہور میں پیش ہوا اور نیب کو اسحاق ڈار اور ان کی اہلیہ کے نام پر موجود گاڑیوں کی تفصیلات فراہم کیں، اسحاق ڈار کے نام پر موٹر رجسٹریشن اتھارٹی میں 3 گاڑیاں رجسٹرڈ ہوئیں، 34لاکھ کی ایل زیڈ ای 19 نمبر گاڑی اسحاق ڈار نے بیوی کے نام پر منتقل کردی، ایل آر ایس 9700 نمبر کی گاڑی اسحاق ڈار نے سیدہ زہرہ منصور کے نام پر منتقل کردی۔ محمد نعیم کا کہنا تھا کہ تفصیلات فراہم کرنے کے بعد تفتیشی افسر نے میری فراہم کردہ دستاویزات کا سیزر میمو تیار کیا اور بیان بھی قلمبند کیا۔

a

کمسن بچوں کی غیر اخلاقی فلمیں بنا کر یورپ بھجوانے کا انکشاف

سرگودھا (محمد کامران ملک سے) سرگودھا میں کمسن بچوں کی غیراخلاقی وڈیو بنا کر دنیا بھر میں پھیلانے والے گرفتار ملزم سعادت حسن منٹوکیس میں اہم انکشافات کے بعد ایف آئی اے نے تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا اس سلسلہ میں اس اسکینڈل میں ملوث مزید ملزمان کی گرفتاری کیلئے سرگودھا اور منڈی بہاولدین میں کاروائی شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ سال اپریل میں ایف آئی اے کی طرف سے سرگودھا سے گرفتار ہونیوالے ملزم سعادت حسن منٹو نے ابتک کی تفتیش میں ساڑھے 6سو سے زائد ایسی ویڈیوز برآمد کرلی ہیں، جن میں پاکستانی کمسن بچوں کی غیر اخلاقی وڈیو شامل ہیں جو ملزم یورپین ممالک میں فروخت کرتا تھا، ملزم کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ کیمپوٹر سافٹ ویئر اور انٹر نیٹ کا ماسٹر تھا، جو ملکوال، بھلوال کے بعد سرگودھا میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کر کے یہ گھناونا کاروبار کر رہا تھا، جسے ایف آئی اے حکام نے کارپوریشن ٹاون سلانوالی روڈ کے ایک مکان سے گرفتار کر کے تفتیش کا دائرہ کار واسیع کردیا دوران تفتیش ملزم نے ساڑھے 6لاکھ سے زائد بچوں کی غیراخلاقی اور ہراساں کرنے والی بہناک وڈیوز برآمد کرائی اور اس گھناونے کاروبار میں سرگودھا سے تین بھلوال سے دو اور ملکوال، منڈی بہاوالدین میں چھ افراد کی نشاندہی کی جواس کے ساتھ یہ کاروبار کرتے تھے۔ جن کیخلاف ایف آئی اے نے کاروائی شروع کردی ہے، اس ضمن میںسرگودھا سے معتدد متاثرہ بچوں کے والدین کے بھی بیانات قلمبند کیے گئے، ذرائع کے مطابق ملزم اور اس کے ساتھی کمپیوٹر کے ماہر تھے جو سرگودھا میں مختلف سرکاری محکموں، اہم شخصیات اور مقامی پولیس کو آئی ٹی مہارت فراہم کرتے تھے، اس لیے اُنکے خلاف پولیس نے کاروائی نہیں کی تاہم ایف آئی اے کے چھاپے کہ بعد فیکٹری ایریا پولیس نے مکان کے مالک محمد سلطان اور سعادت حسن عرف منٹو وغیرہ کے خلاف غیر قانونی رہائش رکھنے کے جرم میں مقدمہ درج کرلیا ،ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ملزم سعادت حسن منٹو سلانوالی روڈ پر واقع کار پوریشن ٹاﺅن میں کرائے کے ایک مکان میں رہائش پذیر تھا ، جس نے اپنے ساتھی توقیر اور طاہر وغیرہ کے ساتھ یہ گھناونا دھندہ کر رہاتھا۔

 

زینب کیس اورحکمران

خدا یار خان چنڑ …. بہاولپور سے
ہمارے ہاں وٹہ سٹہ کا رواج ہے۔ بھائی عشق سے شادی کرنا چاہتا ہے تو بیچاری بہن کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ظلم نہیں کہ اپنی خوشیوں کی خاطر کسی کی زندگی برباد کردو۔ان وٹوں سٹوںکے چکر میں بچیوں کے ماں باپ شامل ہوتے ہیں۔بچیوں کو گائے، بھینس کی طرح جہاںچاہےں باندھ دیتے ہیں۔بچیوں سے مشورہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں بے زبان بچیوں کو اپنے باپ کی عزت بچاناہوتی ہے کہیں برادری میں ہمارے باپ کی ناک نہ کٹ جائے باپ کی ناک بچاتے بچاتے کئی بچیوںکی زندگیاں اِس و ٹہ سٹہ کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں اگر کسی ایک کا گھرنا بنا تو اس کی سزا چاروںکو ملے گی ایک نہیں دو بچیوں کی زندگی برباد ہوجاتی ہے ۔
قصور کی بے قصور زینب کے بعد تو عجیب کیفیت ہے سمجھ میںنہیں آتا ان معصوم بچیوں پر ہونے والے ظلم کہاںسے شروع کروںاور کہا ںتک لکھوںاس کائنات میںکتنی زینب ہیں، کتنی مر گئیںاور کتنی زندہ ہیں؟قصورکی زینب کے واقعہ سے پورا پاکستان سوگ کی حالت میں ہے ۔جب زینب کی خبر جنگل کی آگ طرح پھیلی تو ہر آنکھ اشک بار تھی ہر شخص اپنے اپنے گھروں میںصف ماتم بچھا کے بیٹھا تھا ہر گھر میں بچے ،نوجوان خوف زدہ ہیںپہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کے تمام اخبارات ، ٹی وی چینل ،تمام کالمسٹ ،اور اینکر حضرات نے بھرپور کردار اداکیاہے۔ چیف جسٹس صاحب ،افواج پاکستان ،تمام حکومتی ادارے،اور اپوزیشن نے زینب کے اس واقعہ پر بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ ظالم کے خلاف سب ادارے ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہیںشکر ہے کہ وہ غلیظ درندہ پکڑا گیاہے جوںہی یہ خبر پھیلی تو پاکستان کے ہر شخص نے اسے سرعام پھانسی دینے کامطالبہ کیاتاکہ یہ شخص عبرت کا مقام بنے آئندہ کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرا¿ت نہ کرے یہ کمینہ شخص آٹھ بچیوںکے ساتھ پہلے بھی زیادتی کے بعد قتل کر چکا ہے ۔دیکھنایہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی دشمن قوت تو نہیں؟
حکومت پاکستان کو چاہئے اس عمران جیسے درندے کو پولیس سے ہٹ کرحساس اداروں سے تفتیش کروانی چاہئے اس ظالم شخص اور اس کی پشت پناہی کرنے والے چہرے کھل کر عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ کچھ قوتیں ایسا چاہ رہی ہیں کہ اس درندے کو جلد از جلد سزائے موت ہو جانی چاہئے تاکہ کوئی راز نہ کھل سکے اس کو سزائے موت سے پہلے اس غلیظ اور گھناﺅنے جرم کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے خفیہ اداروں کواس کی تفتیش کا دائرہ بڑھا کرمجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے تا کہ اس پاک سر زمین پرکوئی اور زینب ایسے درندوں کی درندگی سے محفوظ رہ سکے اگر اس گھناﺅنے جرم کو جڑ سے نا اکھاڑا گیاتو آئے دن عوام کے گھروں میں صفِ ماتم بچھتی رہے گی اور ظالم درندوںکی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی ۔اس واقعہ سے حکومت اور پاکستانی عوام کو سبق حاصل کرنا چاہئے زینب کا یہ واقعہ حکومت اور پاکستانی قوم کیلئے ایک سوالیہ نشان بن گیاہے ایسے حالات میںپورے پاکستان میں کوئی زینب محفوظ نظر نہیں آتی۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف زینب کا قاتل پکڑاکر خو ب خوشیاں منائیں ۔لاہور میں ایک پروقار پریس کانفرنس کی جس میں زینب کے والد کوا سپیشل قصور سے اٹھاکر لائے تھے۔ مقتول زینب کے باپ کی بے بسی نظر آ رہی تھی۔ پولیس کے بڑے بڑے افسروں کو بھی مدعو کیاگیا تھا ۔اس ساری فلم کے ہدایت کاررانا ثناءاللہ تھے زینب کے والد کو پہلے خوب تیار کیا بس آپ نے یہ بولنا ہے اور کچھ نہیں بولنا ۔رانا ثناءاللہ کو شاید یہ ڈر تھا کہیںمیرا استعفیٰ ہی نہ مانگ لیا جائے اسی لیے اسے سمجھا رہا تھا کہ آپ نے بس اپنا انصاف مانگنا ہے اور کوئی بات نہیں کرنی۔ زینب کا باپ بیچارہ بہت پریشان تھا ۔میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے جب زینب کے والد کو بات کرنے کا موقع دیا تو شہباز شریف نے شعبدہ بازی خوب دکھائی، رانا ثناءاللہ سے چار قدم آگے نکلے ابھی محمد امین صاحب نے بات شروع ہی کی تھی تو وزیراعلیٰ صاحب خود لپکتے ہوئے امین صاحب کے مائک بند کر دئے زینب کے والد نے جب یہ واقع دیکھا توانتہائی دکھی چہرے کے ساتھ اپنی مظلومیت کا ماتم کرتے ہوئے اندر ہی اندر مر رہا تھاکچھ دیر تک شہباز شریف کے چہرہ کو ٹک ٹکی لگا کر دیکھتا رہا وہ ایسے گم تھاجیسے کوئی لاش بیٹھی ہو ۔اوپر سے تالیوں کا سماںجیسے کوئی جشن منایا جارہاہو ۔ہر آفیسر کو بلاکر خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھااور بڑے خوشگوار موڈمیں قہقہے لگ رہے تھے جیسے حکومت نے کوئی بڑا تیر مارا ہو ۔مجرموں اور قاتلوںکو پکڑنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟پولیس کی ذمہ داری نہیں؟گیارہ واقعے قصور میں ہوئے مجرموں کو نہ پکڑنے پر کسی پولیس آفیسر کوکوئی سزا ملی؟اگر پہلے ناقص کا رکردگی پر کسی کو سزا نہیں دی گئی تو خراج تحسین پیش کیوںکیا گیا؟ زینب کے والد سے حکومت یا پولیس کونسا ایوارڈلینا چاہتی تھی ۔زینب کے والد کی تو زبان بندی کردی گئی بس اس کے آگے ایک لفظ بھی نہیں بولنا اس بیچارے کو تو دل کی بات کرنے کا موقع ہی نہ دیاگیا اس کا درد تو عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیا ۔ہو سکتا ہے وہ پاکستانی قوم کو پیغام دینا چاہتا ہو قصور کی اور بھی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے شاید وہ پورے قصور کی نمائندگی کر کے دوسری بچیوں کے والدین کیلئے بھی انصاف مانگنا چاہتا ہو۔وہاں تو سین کوئی اور ہو گیا تھا جوایک تھانیدار یا ایک اے ایس آئی تفتیشی افسرکاکام تھا وہ وزیراعلیٰ اور تمام اداروںکے آفیسر زکر رہے ہیں ۔ آئے دن کتنی بچیوں کے واقعات ہورہے ہیںپھر ان پر بھی جے آئی ٹیبنے گی؟ زینب کے واقعہ سے پہلے بھی تو کئی واقعات ہوئے ہیں کہاں گئے تھے یہ سارے پولیس آفیسران ؟کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی۔ زینب کی لاش پر دس ہزار انعام مانگنے والے وہ پولیس والے نہیں تھے انکا کسی نے کچھ بگاڑا؟ٹھیک ہے پولیس آفیسران کی اچھی کارکردگی پر سراہنا چاہتے تھے اس کے ساتھ کسی شخص کی عزت کا جنازہ نہیں نکالنا چاہئے تھا۔ زینب کا جب ڈاکٹر طاہرالقادری جنازہ پڑھا رہا تھااس کے پیچھے دوسری لائن میں تو یہ عمران قاتل کھڑا تھامحلہ داروں کے ساتھ مل کرکئی بار تھا نے میں بھی گیا۔زینب کو ڈھونڈنے میں بھی سب سے آگے آگے ہوتا تھا ۔ایک دفعہ قصور کی پولیس نے پکڑ کر اسے بے قصور ٹھہرایا۔ اگر پہلے دن ہی پولیس بڑا ایکشن لے لیتی تو شاید زینب آج اس دنیا میں موجود ہوتی ۔کیا یہ دانستہ پولیس کی نااہلی نہیں؟پاکستان میں پہلی بار کسی لاش کے اوپر تالیاں بجانا ،قہقہے لگانا، سیاست چمکانامیری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کے بچے بچیوں کودرندوں اوران درندوں ،وحشیوں کی پشت پناہی کرنے والوں سے محفوظ رکھے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کیونکہ مزید انکشافات بھی متوقع ہیں۔
(تحریک صوبہ بہاولپور کے چیئرمین ہیں)
٭….٭….٭

ملزم عمرا ن علی کے دوسرے شناختی کا رڈ کی بھی چھان بین ہو گئی ،کتنی رقم تھی ،سٹیٹ بینک نے حقائق جا ری کر دئیے

اسلا م آباد(ویب ڈیسک)ملزم عمرا ن علی کے دوسرے شناختی کا رڈ کی بھی چھان بین ہو گئی ہے ۔سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ملزم کے صرف پہلے والے شناختی کا رڈ کے اکاﺅنٹ میں ہی 130روپے کی رقم تھی،دوسرے اکاﺅنٹ کا کو ئی وجو دنہیں ہے۔