اربوں کی کرپشن ،خواجہ سعد رفیق کے لیے شکنجہ تیار

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) نیب حکام نے آشیانہ سکیم کرپشن سکینڈل میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو بھی طلب کرلیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی ملکیتی کمپنی پیراگون کا اس سکینڈل میں اہم کردار ہے اور مبینہ طور پر 20 ارب روپے سے زائد 74 ہزار غریبوں کی کمائی لوٹی گئی ہے۔ پیراگون کے علاوہ کاسہ کمپنی میں بھی خواجہ سعد رفیق کا کردار ہے۔ نیب ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق چیئرمین ایل ڈی اے احد چیمہ کو بھی طلب کیا جائے گا تاہم افسران کی طلبی خواجہ سعد رفیق کے بعد کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم کرپشن سکینڈل مسلم لیگ ن کی حکومت کا سب سے بڑا کرپشن سکینڈل سامنے آرہا ہے۔ اس سکینڈل میں غریب 74 ہزار شہریوں کی جمع پونجی لوٹی گئی ہے اور 8 سال سے لوگوں کو پلاٹ بھی نہیں دیئے گئے۔ ڈی جی نیب لاہور نے خواجہ سعد رفیق کو طلب کرنے کی اجازت ہیڈکوارٹر سے حاصل کرلی ہے اور اگلے چند دنوں میں خواجہ سعد رفیق کے نام کے سمن جاری ہوجائیں گے۔

 

ڈی جی ،فرانزک لیب کا زینب قتل کیس کے حوالے سے نئے انکشافات

لاہور (آئی اےن پی) فرانزک لیب کے سربراہ محمد اشرف طاہر نے زےنب قتل کےس کے ملزم کی گرفتاری کےحوالے سے مےڈےا برےفنگ کے دوران بتاےا کہ اگر یہ فرانزک لیب نہ ہوتی تو ہمارے لیے قاتل کو پکڑنا بہت بڑا چیلنج تھا اور شاید یہ ناممکن بھی ہوتا‘ دنیا میں تین کیسز ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک میں لندن میں1986 میں ہوا تھا جس میں انہوں نے 6807 ڈی این اے کیے تو پتہ چلا جبکہ دوسرے کیس میں8 ہزار ڈی این اے کیے تو معلومات سامنے آئیں لیکن ہمارا آئیڈیا 5 ہزار کا تھا لیکن ہم نے 1150 ہی کیے لیکن اللہ کے کرم سے ہمیں 814 پر ہی مل گیا اگر یہ لیب نہ ہوتی تو یہ ممکن نہیں تھا اور یہ سب اللہ کی مہربانی ہے‘ میں 40 سال ملک سے باہر رہا ہوں اور مجھے وہاں سے شہبازشریف نے بلایا میں اپنی فیملی چھوڑ کر ملک آیا جبکہ میری فیملی ابھی بھی وہیں پر ہے شہبازشریف کی مہربانی ہے کہ یہ مجھے جانے دیتے ہیں کہ چلو سال میں دو یا چار مرتبہ چلے جایا کرو ‘فرانزک لیب کے سربراہ بات کر رہے تھے کہ ایک دم شہبازشریف میدان میں آئے اور کہنے لگے کہ یہ دو چار مرتبہ نہیں بلکہ سال میں آٹھ سے دس مرتبہ جاتے ہیں شہبازشریف کی جانب سے یہ الفاظ سن کر پریس کانفرنس میں ہرکوئی قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔

زینب کا قاتل کیا کرتا تھا ،حیرت انگیز انکشاف

قصور (بیورو رپورٹ‘ڈسٹرکٹ رپورٹر)ذرائع کے مطابق ننھی زےنب کے علاوہ اور کئی معصوم بچوں کی زندگےا ں برباد کرنے والا سفاک درندہ محافل مےں نعتےں پڑ ھتااور نقابت بھی کرتاتھا ۔ ملزم راجگےری کا کام کرتا تھا اور فارغ وقت مےں محافل وغےرہ مےں جا کر نعتےں پڑھتا تھا ۔ ذرائع کا کہنا ہے ملزم کے چار بھا ئی اور تےن بہنےں ہےں ۔ ملزم کا والد گزشتہ دنو ں وفات پا چکا ہے ۔ ملزم کے بارے مےں اس قسم کے کاموں کا کسی کو اندازہ نہ تھا ۔ملزم نے فےس بک پر عمران علی نقشبندی کے نام سے آئی ڈی بھی بنا رکھی ہے۔ملزم کے بےان کے بعد پولےس نے اس کے تما م گھر والوں کو بھی ہراست مےں لے کر تفتےش شروع کردی ہے۔

الیکشن کمیشن نے ا نتخا با ت کی منظوری دے دی،شیڈول بھی جاری

اسلام آباد (آئی این پی ) الیکشن کمیشن نے سینیٹانتخابات کی منظوری د یدی ، شیڈول2فروری کو جاری کیا جائیگا۔منگل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایوان بالا کی 50فیصد نشستوں پر سینیٹ انتخابات2018 کرانے کی منظوری د یدی ہے جسکا شیڈول2فروری کو جاری کیا جائیگا جبکہ سینیٹ انتخابات کیلئے ریٹرنگ اور پولنگ افسران کے شیڈول کی منظور دیدی گئی ہے ۔

زینب کا قاتل کس کے کہنے پر درندگی کرتا تھا،شرمناک انکشاف

قصور (بیورو رپورٹ‘ ڈسٹرکٹ رپورٹر) ننھی زےنب کو زےادتی کے بعد قتل کرنے والے عمران کو پولےس چند روز پہلے بھی روز مرہ کی کارروائی مےں گرفتار کر چکی ہے۔ لےکن ملزم نے ڈی اےن اے کر وانے سے انکار کردےا اور غشی اور مرگی کاڈرامہ کر نے کی وجہ سے پولےس نے اس کو رہا کر دےا ۔ جس کے بعد ملزم نے گھر سے نکلنا چھوڑ دےا اور اپنا حلےہ بھی پوری طر ح تبدےل کر لےا اور کام پر بھی جانا چھوڑ دےا ۔جس وجہ سے اس کے گھر والوں کو بھی اس پر شک گزرنا شروع ہو گےا۔ لےکن گزشتہ روز دوبارہ پولےس نے ملزم کو روز مرہ کی کارروائی کے مطابق ڈی اےن اے کرنے کے لےے گھر سے پکڑا اور ڈی پی او آفس لے جا کر اس کا ڈی اےن اے کرنا چا ہا ۔لےکن اس نے پہلے ہی اعتراف جرم کر لےا جس پر پولےس نے اسے ڈی آئی جی سامنے پےش کر دےا ۔پوچھ گچھ کر نے کا ملزم نے اعتراف کےا کہ مےرا پےر مجھ پر دم کرتا ہے جس وجہ سے مجھ مےں جن حا ضر ہو جاتے ہےں اور مےں ےہ گھناﺅنا کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں ۔ پولےس ذرائع کے مطابق ملزم نے زےنب کے علاوہ قصور مےں سات بچےوں کے ساتھ ساتھ زےادتی کے قتل کے علاوہ وےہاڑی اور دےگر علاقوں مےں مزےد آٹھ سے زائد بچوں کے ساتھ زےادتی کا انکشاف بھی کےا ہے۔ پولےس نے ملزم کے بےان کے بعد اس کے حافظ سہےل نامی پےر کو بھی قصور کے علاقے سے گرفتار کر لےا گےاہے جس کو مزےد تفتےش کے لےے سی آئی اے پولےس کے حوالے کردےا گےا ہے۔پولےس کے مطابق ملزم انتہائی شاطر ہے اور کئی بار پولےس کو چکما دےنے مےں کامےاب ہو چکا ہے۔ ملزم کئی دنوں سے پولےس کی تفتےش اور ڈی اےن اے کے متعلق لو گوں سے معلومات حاصل کر رہا تھا ۔پولےس نے ملزم کو انتہائی سکےورٹی مےں لاہو ر منتقل کر دےا جس کو سپرےم کورٹ بےنچ کے سامنے پےش کےا جائے گا۔

 

زینب کی بہن کی باتوں نے سب کے دل ہلا کر رکھ دیے

قصور (بیورو رپورٹ، ڈسٹرکٹ رپورٹر) قصور کی ننھی کلی زینب کی بہن نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی بہن کے قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے اور باقی لوگوں کیلئے نشان عبرت بنایا جائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کی بڑی بہن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بہن کے قاتل کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے اور یہ کہتا ہے کہ اسے جن آتے ہیں تو اس کے جن بھی سرعام نکالے جائیں۔ زینب کے بھائی کا کہنا تھا کہ میری بہن کے قاتل کو پوری قوم کے سامنے پھانسی کی سزا دی جائے اور اسے نشان عبرت بنایا جائے۔

لیگی حکومت نے کتنے ارب قرضہ لیا ، حقائق نے سب کی آنکھیں کھول دیں

اسلام آباد، لاہور (نیااخبار رپورٹ) برآمدات میں تیزی سے کمی درآمدات میں اضافہ، منی لانڈرنگ، قرضوں میں جکڑی مفروضوں پر مبنی معیشت، ٹیکس لگا کر ریونیو اکٹھا کرنیکا پرانا فارمولا، عوام کو مطمئن کرنے کیلئے حقائق کے برعکس اعدادوشمار، سوئی گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ سے تنگ تین ہزار صنعتکاروں کا بیرون ملک کاروبار منتقل کرنا، ایف بی آر کی زیاتیاں اقتصادی صورتحال کیلئے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہیں، جنوری 2017ءمیں سینٹ میں حکومتی اعتراف کہ 8784 ارب روپے قرضہ لیا گیا،، نے خطرے کی گھنٹی بجادی، حکومت نے سینٹ کو بتایا تھا کہ پانچ سال کے دوران ن لیگی حکومت نے 206.35 ملین غیر ملکی کمرشل قرضہ بھی لیا جبکہ سکوک بانڈز کے اجراءکیلئے تین موٹرویز (ایم ون، ایم ٹو، ایم تھری) جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی کو بطور ضمانت گروی رکھوایا ۔ وزارت خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ 38 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ بھی ہوا۔ وفاقی وزیرتعلیم انجنیئر بلیغ الرحمن کے مطابق ملک میں 27 اے کیٹیگری 25 بی کیٹیگری منی ایکسچینج کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ ملک میں غیرقانونی طور پر منی ٹرانسفر کی روک تھام کیلئے سٹیٹ بینک نے 660 کیسز نیب کو بھجوائے ہیں۔ ن لیگی حکومت کشکول توڑنے کے وعدے پر 2013ءمیں برسراقتدار آئی تھی لیکن کشکول توڑنے کی بجائے اسے مزید بڑا کر دیا گیا۔90 ارب ڈالر کے قرضے پر تو چینی ذرائع ابلاغ بھی چیخ اٹھے۔ ڈیلی چائنہ پیپلز نے تو اداریئے لکھ کر سی پیک کے حوالے سے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ چینی سرمایہ کاری سے ڈبل پاکستان کے قرضے میں ان کی ادائیگی کون کرے گا۔ چین کے اخبارات میں اس حوالے سے خاص بحث و تمحیض کا سلسلہ جاری رہا۔ موجودہ صورتحال میں قرضوں کی کی ادائیگی کیلئے بھاری سود پر پھر قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز، واپڈا ، پی ٹی سی ایل جیسے قومی یکجہتی کی علامت اداروں سے جس طرح شرمناک طریقے سے زیادتی کی گئی ۔ مہذب ممالک میں اس کی مثال نہیں ملتی، پی ٹی سی ایل کا سالانہ 60 ارب کیش منافع تھا، نجکاری بیمار، خسارے میں چلنے والے اداروں کی ہوتی ہے۔ پی آئی اے فروخت کیلئے تیار جبکہ ریلوے کو ذبح کرنے کی منصوبہ بندی جاری، واپڈا پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے، 2013 میں نگران وزیراعظم نے آرڈر جاری کیا کہ تمام کمپنیوں کو ختم کرکے واپڈا کو متحد کیا جائے تو ورلڈ بینک نے فوری مداخلت کرکے احکامات منسوخ کروائے اور کہا کہ پہلے ہمارے قرضے واپس کرو ورنہ ہماری شرائط مانو۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر بین الاقوامی طاقتوں کے منصوبے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، اربوں ڈالر سے بیرون ملک کاروبار کیا، بچے برطانوی نیشنلٹی ہولڈر ہیں، اور اب مستقل قطر میں ڈیرے لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ممتاز قادری کی پھانسی، بین الاقوامی سٹیک ہولڈروں سے وعدے پر عملدرآمد کی طرف پہلا قدم اٹھا کر ملک کو سیکولر سٹیٹ بنانا تھا، حالانکہ توہین رسالت نے الزام میں 44کے قریب قیدی مختلف جیلوں میں قید ہیں، ملک کی جی ڈی پی کا 67 فیصد تقریباً سود کی شکل میں عالمی مالیاتی اداروں کو ادائیگی کی صورت میں جا رہا ہے جبکہ وزارت خزانہ کے ذمہ دار افراد نے مارکیٹ سے ڈالر کو بلیک میں خرید کر روپے کی مارکیٹ ویلیو کا جنازہ نکال دیا، شہباز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ لوڈشیڈنگ کے اندھیرے ختم نہ کرسکا تو میرا نام تبدیل کردیا جائے، زیادہ تر منصوبے کاغذوں تک محدود رہے، ملک کی موجودہ نازک صورتحال کا محب وطن قوتوں کو ملکر مقابلہ کرنا ہوگا۔ عالمی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کو قرضوں میں جکڑ کر معاشی طور پر دلیوایہ قرار دیکر ایٹمی پروگرام رول بیک کیا جائے، یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ 1970ءکے انتخابی نتائج نے ملک کو دو ٹکڑے کر دیا تھا اور2013ءکے انتخابی نتائج بھی خوفناک تھے جن کے نتیجے میں چار صوبوں میں چار مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بنیں، ان خوفناک نتائج نے دانشور حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس سے مرکز کو لاحق خدشات نے ان گنت خطرات کو جنم دیا۔ گریٹر پنجاب، پختونستان، آزاد بلوچ، جناح پور کے نقشے و نعرے، امریکہ، برطانیہ سویڈن میں منظم مہم سیمینار، ریلیاں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، اس حوالے سے ترکی، ایران، چین سب سے زیادہ فکر مند ہیں، لیکن افسوس ملک کے موجودہ سٹیک ہولڈر ان آنے والے خطرات کو دانستہ نظرانداز کرکے ملکی خزانے کو اپنی پبلسٹی اور سکیورٹی پرخرچ کرنے میں مصروف ہیں، نیلسن منڈیلا فرماتے ہیں سیاستدان الیکشن، لیڈر قوم کے مستقبل پر نظر رکھتا ہے۔ پاکستان کی بقاءو سالمیت کیلئے ہر آنے والا دن کسی نئے خطرے کا الارم بجا رہا ہے۔ قوم خواب خرگوش میں مزے لے رہی ہیں، پانی سر سے گزر چکا۔ 2007-8ءمیں جب آصف زرداری صدر بنے تو نواز شریف نے کہا تھا کہ قوم کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، دیہاتی پس منظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بھینس کو ہاتھ کب ہوتا ہے، حالیہ جلسے میں نواز شریف نے کہا کہ مجھے اگر پتہ ہوتا کہ انصاف اتنا مہنگا ہے تو میں اس نظام کو ٹھیک کرتا، یہ تو کم علمی والی بات ہوئی کہ تین بار وزیراعظم رہے اور گھر کی خبر نہیں پھر آئندہ عالمی معاملات کیسے دیکھیں گے۔ موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر قوم کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ ماضی کے روایتی سیاستدانوں کو انتخابات میں موقع دیتے ہیں یا ڈالروں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ورلڈ کپ قوم کے نام کرنے والے عمران خان جو لوکل سیاست کوسمجھنے کے ساتھ ساتھ عالمی تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ان کی سازشوں کو سمجھنے کا ادراک رکھتے ہیں، دانشوروں پر مشتمل پاکستان تھنکرز کلب کے صدر سلیم چوہاں، یاسر ارشاد ارشاد کے مطابق قوم کو کسی بڑے المیے سے بچانے کیلئے متعلقہ ذمہ دار اداروں کو فوری بولڈ قدم اٹھائیں۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے محب وطن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیں، عوام نے بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

زینب کے والد اور رانا ثناءاللہ کی گفتگو کی و یڈیو نے بھا نڈا پھوڑ دیا

لاہور‘قصور (مانیٹرنگ ڈیسک ‘نمائندگان خبریں) پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل رانا ثنااللہ اور زینب کے والد کے درمیان گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا سمیت ٹی وی چینلز پر گردش کر رہی ہے جس میں رانا ثناللہ زینب کے والد کو گفتگو کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’مجھے نہیں پتا کہ آپ نے کیا مطالبات لکھے ہوئے ہیں لیکن اس وقت آپ ملزم کی سزا کے حوالے سے ہی مطالبہ کیجئے گا باقی چیزیں ہم آپ سے علیحدہ بیٹھ کر طے کر لیں گے اور جس طرح کی آپ مدد چاہیں گے آپ کو فراہم کی جائے گی۔ اس پریس کانفرنس کے بعد زینب کے والد نے کہا کہ مجھے پوری بات کرنے کا موقع نہیں دیا اور میرا مائیک بند کردیا گیا۔ پولیس کو شاباشی دینے کیلئے تالیاں بجائی گئیں جبکہ میں تالیاں بجانے اور قہقہے لگانے کی بات سے متفق ہوں لیکن یہ تالیاں بجانے کا موقع نہیں تھا۔
قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی زینب کے والد امین انصاری نے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کو سرعام پھانسی دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم عمران کا ہماری فیملی سے کوئی تعلق نہیں ملزم ہمارے محلہ کا رہائشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کے حلیہ بدلنے پر ہمیں شک ہوا تھا جس پر ملزم کے ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کیا گیا۔ امین انصاری نے کہا کہ اب تک کی تحقیقات سے ہم مطمئن ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری بچی کے قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے۔ زینب کے والد حاجی امین انصاری نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ تفتیش سے مطمئن ہیں اور عمران علی ولد ارشد انکا محلہ دار ہے اور ان کے پیچھے گھر میں رہائش پذیر ہے لیکن اس کے ساتھ محلے داری کے علاوہ کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہے۔

حرام گوشت کے بعد حرام دودھ ، چونکا دینے والے انکشافات

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) ملک میں حلال اور حرام اور مضرصحت اجزا کی پہچان کے بغیر ہی سالانہ اربوں روپے کے ہزاروں ملین ٹن دودھ کی درآمد کا انکشاف ہوا ہے۔ درآمدی سطح پر دودھ کی ہیت ترکیبی کی چیکنگ کا کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ درآمد کیا جانے والے دودھ کے نمونے کو کبھی آج تک عملی طور پر چیکنگ کے لئے نہیں بھیجا گیا اس کے لئے امپورٹ کی سطح پر صرف کاغذی کارروائی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ رپورٹ پر اتنا وقت نہیں ہوتا کہ دودھ کو لیبارٹری سے چیک کرنے کے لئے روک لیا جائے۔ درآمدکنندگان درآمدی ملک کی جانب سے صرف حلال کا سرٹیفکیٹ پیش کرکے دودھ کی کنسائنمنٹ کلیئر کرواتے ہیں کی کبھی تصدیق نہیں کی جاتی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آج تک مختلف شکلوں اور پیکنگز میں جتنا بھی دوذدھ پاکستان درآمد کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کن جانوروں کا ہے اس کے بارے میں پتہ لگانے کا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ درآمدی سطح پر دودھ کی ہیت ترکیبی کی چیکنگ کا کوئی قانون ہی نہیں۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ درآمد کئے جانے والے دودھ کے نمونے کو آج تک عملی طور پر چیکنگ کے لئے نہں بھیجا گیا اس کے لئے امپورٹ کی سطح پر صرف کاغذی کارروائی پر انحصار کیا جاتا ہ۔ پورٹ پر اتنا وقت نہیں ہوتا کہ دودھ کو لیبارٹری سے چیک کرنے کے لئے روک لیا جائے جبکہ پاکستان کے امپورٹ پالیسی آرڈر میں درج ہے کہ کھانے پینے کی کوئی چیز جو انسانی صحت کے لئے مضر ہوگی ملک میں درآمد کی نہیںکی جاسکتی جبکہ کھانے پینے کی جو چیزیں بھی بیرون ملک سے درآمد کی جائیں گی اس کے حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی ایکسپورٹر ملک سے لیا جائے گا۔ یہ اختیار پاکستان کے اداروں کے پاس ہونا چاہیے تھا کہ وہ تصدیق کریں کہ بیرون ملک سے آنے والے کھانے پینے کی چیز حلال اور انسانی جان کے لئے مضر نہیں۔ یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں درآمد کئے جانے والے دودھ میں کینسر پیدا کرنے والا کیمیکل فارمولین بھی شامل ہے جبکہ باقی دنیا کے کئی ممالک میں دودھ کو محفوظ رکھنے کے لئے فارمولین کا استعمال ممنوع ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں مضرصحت دودھ کے حوالے سے کیس کی سماعت بھی مقامی طور پر پیکنگ اور کھلے دودھ کو محفوظ رکھنے کے لئے فارمولین سمیت دیگر اجزاءملانے کا سخت نوٹس لیا گیا تھا۔ اب پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میں بھی متعلقہ ہیلتھ حکام نے فارمولین کو انسانی صحت کے لئے مضر قرار دیا ہے۔ ایف بی آر نے حکومت سے حرام اور مضرصحت اجزاءپر مشتمل دودھ کے حوالے سے قانون وضع کرنے اور وزارت تجارت کو اس حوالے سے سرگرم کردار ادا کرنے کی سفارش کی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی درآمدکنندگان نے گزشتہ تین سالوں میں دنیا کے 49 مختلف ممالک بشمول امریکہ انڈیا‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ تھائی لینڈ‘ پولینڈ‘ پرتگال‘ جنوبی افریقہ ‘ سنگاپور‘ سری لنکا‘ برازیل‘ فن لینڈ‘ اٹلی اور جاپان سمیت دیگر کئی یورپین ممالک سے پچاس ارب روپے کا 749,185 میٹرک ٹن دودھ درآمد کیا ہے لیکن ایسا کوئی قانون اور قاعدہ موجود نہیں جس کے تحت کلیئرنس کے وقت یہ جائزہ لیا جاسکے کہ درآمد کیا جانے والا دودھ حلال ہے یا حرام ہے اور اس کو کس جانور سے لیا گیا ہے۔ کاغذی کارروائی کے لئے صرف غیرملک سے جاری حلال سرٹیفکیٹ پر انحصار کیا جاتا ہے جس پر تصدیق کا کوئی میکنزم نہیں۔ پاکستانی درآمدکنندگان نے سب سے زیادہ دودھ امریکہ‘ نیوزی لینڈ‘ فرانس‘ جرمنی‘ بلجیم‘ برطانیہ آئرلینڈ اور ہالینڈ سے درآمد کیا ہے تاہم حیران کن طور پر پاکستان کے قریبی دوست اور آزادانہ تجارت کے معاہدے کے حامل دوست ملک چین سے گزشتہ تین سالوں میں صرف 37 لاکھ روپے کا دودھ امپورٹ کیا جاسکا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ چین نے اپنی دو کمپنیوں کے مالکان کو جو بچوں کا پینے والا دودھ دنیا میں برآمد کررہی تھیں دو سے تین سال قبل صرف اس بنا پر پھانسی دے دی تھی کہ اس میں معمول کے اجزاءکی صرف مقدار زیادہ تھی جو کینسر کا سبب بن رہے تھے اور دنیا میں بچے اس سے متاثر ہوئے تھے کیونکہ بچوں میں بڑوں کی نسبت قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ اس وقت سرکاری طور پر پاکستان کی چین کے ساتھ باہمی تجارت 13 ارب ڈالر اور غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق 19 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے اور پاکستان میں ہر چیز چین سے برآمد کی جارہی ہے۔ ادھر کراچی سے کسٹمز کے ایک آفیسر نے بتایا کہ کبھی اس چیزپر دھیان نہیں دیا کہ امپورٹڈ دودھ مضرصحت یا حرام اجزاءپر بھی مشتمل ہوسکتا ہے کسٹمز حکام کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ددھ یا اس کے اجزائے ترکیبی کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لئے بھجوائیں ہم صرف حلال کا سرٹیفکیٹ دیکھتے ہیں اس میں کسی جانور کا نام نہیں لکھا ہوتا صرف لکھا ہوتا ہے کہ یہ حلال دودھ ہے جبکہ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے کونسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں اور مزید کیا اجزاءشامل کئے جاتے ہیں۔ یہ انسانی صحت کے لئے مضر ہیں یا نہیں یہ سب بھی چیک نہیں کیا جاتا۔ پیکنگ والے دودھ کی امپورٹ پاکستان کسٹمز ٹیرف کے پی سی ٹی کوڈ کے اندر آتی ہے۔ تاہم پی سی ٹی کوڈ میں صرف دودھ کی ڈیوٹی زیربحث لائی گئی ہے جو کسی بھی امپورٹڈ دودھ پر بیس فیصد تک عائد ہے۔ وزارت تجارت کے ذرائع کے مطابق بیرونی ممالک میں کھانے پینے کی وہ چیزیں جو زائد المیعاد ہوجاتی ہیں یا ان کے اپنے ملک میں عوام کو نہیں دی جاتیں پاکستان ان کے لئے بہترین منڈی بن چکا ہے اور ہمارے لوگوں کو ان امپورٹڈ خوردنی اشیاءکو صحت مند سمجھ کر استعمال کرکے بیمار ہورہے ہیں۔ ادھر وزارت تجارت کے ذرائع نے یہ حیران کن بات بتائی ہے کہ امپورٹڈ خوردنی اشیاءکے ساتھ آنے والے حلال سرٹیفکیٹ کی تصدیق کا پاکستان میں سرکاری سطح پر کوئی انتظام نہیں بس کاغذ کے اس ٹکڑے پر بھروسہ کافی ہوتا ہے۔

ویل ڈن شہباز شریف ! اب دوسرے مجرم بھی پکڑیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ زینب کا قاتل پکڑا گیا ہے۔ مزید تحقیقات کے بعد اصل کہانی سامنے آئے گی۔ اس قسم کے کریمینل سب سے پہلے صفائی پیش کرنے کے لئے خود کو پاگل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملزم کا یہ کہنا کہ جنات اس پر آئے تھے اور جرم پر اکساتے تھے۔ یہ سب جھوٹ ہے بکواس کر رہا ہے۔ جرم کو چھپانے کے لئے خود کو جنات کے تابع شو کرے گا۔ پھر صفائی کے وکلاءعدالت میں اسے پاگل ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی گرفتاری سے اضطراب کی کیفیت حتم ہو گئی ہے زینب کا واقعہ پہلا نہیں ہے۔ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر اس قسم کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ جنسی تسکین کی یہ ایک بیماری ہے جس سے مجرم کو سکون محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان واحد ملک نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہے حالانکہ وہاں آزادانہ ماحول بھی موجود ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بدکاری کو آسان اور نکاح جیسی مقدس چیز کو مشکل کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ واقعات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ اوسطاً ہر ہفتے 10 واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کو دلی طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے خصوصی دلچسپی لی اور زینب قتل کیس کے ملزم کو پکڑ لیا۔ صرف ایک دن پہلے پنجاب کے آئی جی، سینٹ کی کمیٹی کے سامنے کہہ چکے تھے، کہ 3 دنوں میں کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے اس میں پندرہ سے تیس دن لگ سکتے ہیں اس لحاظ سے یہ پنجاب حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس پر جے آئی ٹی کی ٹیم اور پولیس کی کارکردگی بھی قابل تحسین ہے۔ اس قسم کے کیس کی سزا تقریباً دس سال قید بنتی ہے۔ لیکن جس قسم کا یہ واقعہ ہے۔ اس پر ایسے ملزم کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے۔ جس طرح شہباز شریف نے سرعام پھانسی کا تقاضا کیا ہے۔ انہیں چاہئے کہ پنجاب میں بھی ان کی حکومت ہے اور مرکز میں بھی اور سینٹ میں بھی اس کی بازگشت پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا قانون سازی کریں اور ایسے مجرم کو پھانسی پر چڑھا دیں۔ اب اس پر بھی چھان بین ہونی چاہئے کہ اس سے قبل سات بچیوں کے ساتھ یہ واقعہ ہو چکا ہے۔ پولیس پہلے بھی موجود تھی۔ ڈی پی او پہلے بھی موجود تھے۔ کیوں ان کیسز میں اس مجرم کو پکڑا نہیں گیا۔ یہ چھوٹے سے علاقے میں ہونے والے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے۔ یہ ملزم پہلے بھی پکڑا گیا۔ لیکن اس وقت اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا گیا۔ میں پہلے بھی وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست کر چکا ہوں کہ پولیس میں سے کالی بھیڑوں کو علیحدہ کریں اور انہیں معطل نہ کریں بلکہ فارغ کر کے ہمیشہ کے لئے گھر بھیج دیں۔ زینب کیس پہلے شہر میں پھر صوبے میں اور پھر ملک میں اتنی تیزی سے پھیلا کر اس بازگشت دوسرے ممالک تک بھی جا پہنچی۔ کیا زینب کی طرح باقی سات بچیاں کسی کی لخت جگر نہیں تھیں، کیا ان کے والدین کو تکلیف نہیں پہنچی تھی؟ ان کے گھروں پر صف ماتم نہیں بچھی ہو گی۔ جناب شہباز شریف باقی متاثرہ بچیوں کے لواحقین کے سروں پر بھی ہاتھ رکھیں اور خود ان کے پاس جائیں جیسا کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جن افسروں نے، جن اہلکاروں نے، جن پولیس والوں نے جن ڈی سی اوز نے اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی۔ اور ایک سیریل کلر اور ریپسٹ کو پہلے نہیں پکڑا گیا۔ انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ معروف عالم دین علامہ کوکب نورانی نے کہا ہے کہ کسی شخص کے دینی محفلوں میں جانے سے، داڑھی رکھ لینے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ وہ مذہبی ہے اور اس کی تربیت مذہبی نکتہ نگاہ سے پوری ہوتی ہے اور اس نے مذہب کو درست طریقہ سے مذہب کو سمجھا ہے؟ جرائم کو ختم کرنے کے لئے معاشرے میں سزاﺅں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عدل و انصاف کا چرچا ہونا چاہئے۔ ہمارے یہاں تو حیثیت پر سزا نہیں ہوتی ہیں جو چھوٹی چوری کرتا ہے اسے سزا دے دی جاتی ہے۔ بڑے مگر مچھ بچ جاتے ہیں۔ ہر طبقے میں مختلف قسم کے لوگ ملیں گے۔ اگر زینب کا قاتل خود کو مذہبی کہتا ہے تو مذہب نے ہی اس کے لئے سزائیں مقرر کی ہیں۔ اسلامی تاریخ کی تمام مثالیں موجود ہیں۔ اس کی وجہ سے ان معاشروں میں جرائم پروان نہیں چڑھتے تھے۔ ہمارے ہاں نصاب دنیا کمانے کے طریقے سکھاتا ہے اخلاق نہیں سکھائے جاتے ہمیں تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہو گا۔ اگر یہ ملزم خود تو مذہبی کہلاتا ہے تو وہ زیادہ سزا کا حقدار ہے۔ نمائندہ خبریں قصور، جاوید ملک نے کہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی آج کی پریس کانفرنس ماضی کی تمام کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتی تھی۔ زینب کیس میں پکڑا جانے والا ملزم عمران علی نقشبندی، مذہبی پروگراموں میں نقابت وغیرہ کرتا رہا ہے۔ اس بندے نے آٹھ بچیاں ریپ کی ہیں اور انہیں قتل کیا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق اس ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں نے 3 لڑکیاں زندہ چھوڑ دیں تھیں۔ 8 کا ریپ اور قتل تو وہ مان گیا ہے۔ ایک جگہ جھگڑا ہو گیا تو یہ وہاں سے بھاگ گیا۔ زینب کے چچا سے ہم نے بات کی۔ انہوں نے کہا ہم نے اس بندے کو پکڑایا تھا۔ اس نے تھانے جا کر الٹیاں کرنا شروع کر دیں۔ پولیس والے اس سے خوفزدہ ہو گئے اور اسے بغیر ڈی این اے کئے چھوڑ دیا۔ طاہرالقادری جو نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں اس کی دوسری صف میں یہ شخص کھڑا ہے۔ اسپیشل برانچ نے پولیس کی کارکردگی پر پردہ ڈال دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے پچھلے واقعات پر کوئی بات نہیں کی۔ اس کامداوا کیا ہے؟ وزیراعلیٰ کہتے تھے کہ گزشتہ متاثرین کو امداد دی گئی جبکہ ایک بھی شخص کو امداد نہیں ملی۔ روزنامہ خبریں، قصور میں بکنے والا سب سے بڑا اخبار ہے۔ ہم نے بچیوں کا یہ ایشو سب سے زیادہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح ہمارے چینل نے سب سے زیادہ اس پر رپورٹنگ کی ہے۔ اور کسی بھی میڈیا نے اتنی کوریج نہیں کی جتنی ہم نے کی ہے۔میاں شہباز شریف اگر اتنے بہادر تھے تو ایک طرف ایم این اے اور ایک طرف ایم پی اے کو بٹھا کر پبلک میں پریس کانفرنس کرتے۔ حلفاً کہتا ہوں کہ وہاں ان کو جوتے پڑتے۔