را کا بانی کاﺅ،تم نہ ہوتے تو بنگلہ دیش نہ بنتا،رپورٹ نے حقائق سے پردہ اٹھا دیا

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) 1996 میں انڈیا بھر میں بنگلہ دیش کی 25ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی، اور اس موقعے پر متعدد تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں بنگلہ دیش کے ایک صحافی نے ایک لمبا، پرکشش صورت والا شخص دیکھا جو ہال کے پچھلے حصے میں بیٹھا ہوا تھا۔ صحافی نے ان کے پاس جا کر کہا: ‘سر، آپ کو تو سٹیج پر ہونا چاہیے تھا، آپ کے بغیر تو 1971 ممکن ہی نہیں تھا۔’اس شخص نے جواب دیا: ‘نہیں، میں نے کچھ نہیں کیا۔ سٹیج پر بیٹھے لوگ تعریف کے مستحق ہیں۔’ اس کے بعد یہ شخص اٹھا اور ہال سے باہر چلا گیا۔ان کا نام رمیشور ناتھ کاو تھا اور وہ انڈیا کے خفیہ ادارے را کے بانی تھے۔ 1982 میں فرانس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کاو¿نٹ الیکساندر نے 70 کی دہائی کے پانچ چوٹی کے انٹیلی جنس سربراہوں میں کاو کا نام بھی شامل کیا تھا۔ رمیشور ناتھ کاو 1918 میں بنارس میں پیدا ہوئے تھے۔ 1940 میں وہ پولیس میں بھرتی ہو گئے۔ جب تقسیم کے بعد 1948 میں انٹیلی جنس بیورو قائم ہوا تو انھیں اس کا رکن بنا کر اس وقت کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کی سکیورٹی پر تعینات کر دیا گیا۔1955 میں انھوں نے ایک چینی جہاز کے تباہ ہونے کے پیچھے تائیوان کا ہاتھ ہونے کا سراغ لگایا جس کی وجہ سے وہ خاصے مشہور ہو گئے۔ اس پر انھیں چین کی طرف سے خصوصی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔1968 میں اندرا گاندھی نے امریکی ادارے سی آئی اے اور برطانوی ادارے ایم آئی 6 کی طرز پر انڈین خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ یعنی را کی بنیاد رکھی جس کا کام بیرونِ ملک انٹیلی جنس کے معاملات پر نظر رکھنا تھا۔کاو اس کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔را کے سابق ڈائریکٹر اور کاو کے دوست آنند کمار ورما نے بی بی سی کو بتایا: ‘یحیٰ خان کے دفتر میں ہمارے ایک آدمی نے ہمیں بتا دیا تھا کہ کس دن حملہ کیا جائے گا۔’انڈین فضائیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ دو دن گزر گئے مگر حملہ نہیں ہوا۔ فضائیہ کے سربراہ نے کہا ہم زیادہ دیر ہائی الرٹ پر نہیں رہ سکتے۔ کاو نے ایک اور دن کی مہلت مانگی۔’اسی دن یعنی تین دسمبر کو پاکستان نے جب حملہ کیا تو انڈیا پوری طرح سے چوکس تھا۔‘اندرا گاندھی کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں بھی کاو کے کندھوں پر تھیں۔ اندر ملہوترا اس بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔’کاو نے ہمیں بتایا کہ ہم دولتِ مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آسٹریلیا کے شہر ملبورن گئے۔ ایک دن آسٹریلین سکیورٹی ٹیم کا ایک اہلکار مجھ سے ملا اور کہنے لگا کہ ‘آپ کی وزیرِ اعظم ایک عظیم ملک کی عظیم رہنما ہیں مگر آسٹریلیا میں ان کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔’اس نے اپنی بات جاری رکھی: ‘پتہ نہیں آپ لوگوں کے ہاں کیا رواج ہے مگر وہ جب گاڑی سے اترتی ہیں تو اپنا پرس اور چھتری مجھے تھما دیتی ہیں۔ میں ان سے تو نہیں کہہ سکتا مگر آپ سے کہہ رہا ہوں کہ جب کوئی رہنما گاڑی سے اترتا ہے یا سوار ہوتا ہے تو دہشت گردوں کے پاس گولی چلانے کا یہی بہترین موقع ہوتا ہے۔ اس موقعے پر ان کی حفاظت کے لیے میرے دونوں ہاتھ خالی ہونے چاہییں۔’کاو نے جب یہ بات اندرا گاندھی کو سمجھائی تو انھوں نے اس اہلکار کو چھتری اور پرس دینا بند کر دیا۔جب 1977 میں اندرا گاندھی کو انتخابات میں شکست ہوئی اور مرار جی ڈیسائی اقتدار میں آ گئے تو کاو پر الزام لگا کہ 1975 میں لگنے والی ایمرجنسی کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔ کاو نے اس کی تردید کی اور کہا کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔اس مقصد کے لیے ایک کمیشن بٹھا دیا گیا۔ چھ ماہ کی تحقیقات کے بعد اس نے فیصلہ دیا کہ ایمرجنسی میں کاو یا را کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔را کے تقریباً سبھی اہلکار کاو کو بڑی محبت سے یاد کرتے ہیں۔جیوتی سنہا ان کے دور میں را کے ایڈیشنل سیکریٹری تھے۔ وہ کہتے ہیں: ‘انھوں نے کبھی کسی کا دل دکھانے والی بات نہیں کی۔ وہ کہا کرتے تھے اگر کوئی شہد سے مرتا ہے تو اسے زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم اس وقت نوجوان تھے، یہ باتیں ہمارے لیے ہیرے جواہرات تھیں۔’ایک بار امریکہ کے سابق صدر اور سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج بش سینیئر نے انھیں ‘کاو¿ بوائے’ کا ایک چھوٹا سا مجسمہ تحفے میں دیا تھا۔ بعد میں جب کاو کے مداحوں کو ‘کاو¿ بوائز’ کہا جانے لگا تو انھوں نے اس مورتی کا فائبر گلاس ماڈل بنایا جو آج بھی را کے ہیڈکوارٹر کی زینت ہے۔

زرداری ،فضل الرحمن ملاقات،پختو نخوامیں تبدیلی،تحریک انصاف میں تشویش

لاہور (این این آئی) تحریک انصاف کے بعض رہنماﺅں میںیہ سوچ پائی جاتی ہے کہ خیبر پختوانخواہ میں بلوچستان طرز کی کسی تبدیلی سے چوکنا رہنے اور نمٹنے کیلئے یشگی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں (ن) لیگ کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی مہم اور اس کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کے بعض رہنماﺅں کی سوچ یہ ہے کہ خیبر پی کے میں اس طرز کا کوئی اقدام اٹھایا جا سکتا ہے تاہم پارٹی کی قیادت اور قربت رکھنے والے رہنماﺅں میں اس طرح کے کسی خطرے کومحسوس کیا گیا اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمن کی شہباز شریف اور آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد اگلے روز میں میڈیا میں آنے والی خبروں نے پی ٹی آئی کے رہنماﺅں کو اس تشویش میں مبتلا کیا ہے جس کے بارے میں انہوںنے پارٹی کے اندر گفتگو کی ہے تاہم اسے ابھی تک باضابطہ قیادت کی سطح پر زیر بحث نہیں لایا گیا ۔ ان رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ مخالفین کی جانب سے صوبے میں اس طرح کا کوئی بھی اقدام پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ کےلئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے اس لئے قیاد ت کو پیشگی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اپنے تمام اراکین اور اتحادیوں سے روابط کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے ۔