کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) سینٹ انتخابات کے معاملہ پر فاروق ستار اور عامر خان میں پارٹی اجلاس کے دوران جھگڑا، عامر خان نے فاروق ستار کو تھپڑ مار دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس کے دوران تلخ کلامی ہوئی، عامر خان نے فاروق ستار کو تھپڑ مار دیا۔ سینٹ الیکشن کیلئے پی ایس پی اور متحدہ پاکستان میں جلد رابطہ کا بھی امکان ہے۔ ایم کیو ایم میں دو دھڑے کھل کر سامنے آ گئے، ایک ہی وقت میں دو جگہ اجلاس ہوا، ایک اجلاس کی صدارت فاروق ستار جبکہ دوسرے کی صدارت عامر خان نے کی۔ دونوں دھڑوں کے الگ الگ اجلاس ہوئے، متحدہ سربراہ نے ڈپٹی کنوینر پر پارٹی پر قبضہ کرنے کا الزام لگا دیا۔ ذرائع کے مطابق سینٹ الیکشن کے لئے امیدواروں کا چناﺅ ایم کیو ایم پاکستان کو تقسیم کر گیا ہے، رابطہ کمیٹی نے فروغ نسیم، امین الحق، شبیر قائم خانی اور نسرین جلیل کو ٹکٹ دینے کی منظوری دی، نام نکالنے پر کامران ٹیسوری نے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ فاروق ستار نے بھی کامران ٹیسوری کی حمایت کی جس پر متحدہ سربراہ اور عامر خان گروپ میں جھگڑا ہوا، رابطہ کمیٹی کے ارکان اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ عامر خان گروپ کے ارکان نے جھگڑے کے بعد بہادر آباد میں اپنا اجلاس کیا جبکہ فاروق ستار کے حامی پی آئی بھی مرکز جمع ہو گئے جہاں کارکنوں نے متحدہ سربراہ کے حق میں نعرے لگائے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کا نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عامر خان پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اس معاملے میں خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جمیل بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ فاروق ستار پارٹی کے کنوینر ہیں اور پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی رکنیت بھی چھ ماہ کے لئے معطل کر دی گئی ہے۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی کا کہنا تا کہ سینٹ الیکشن آنے والے ہیں ہماری پارٹی کے چار ارکان سنیٹر شپ سے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں اسی بنا پر ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ بھی ہماری پارٹی کے چار سنیٹر ہی بنیں گے جس کے لئے ہم نے پارٹی میں تجربے اور خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈپٹی کنوینر نسرین جلحیل، فروغ نسیم، امین الحق، شبیر قائم خانی کے نام دیئے جبکہ عامر خان اور کامران ٹیسوری کے نام پانچویں اور چھٹے نمبر پر تھے، لیکن عامر خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ سینٹ الیکشن میں حصہ لینا نہیں چاہتے۔ ذرائع نے بتایا کہ بہادر آباد کا اجلاس عامر خان کی زیر صدارت جاری ہے جس میں نسرین جلیل، فروغ نسیم، خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، شبیر قائم خانی، امین الحق اور دیگر رہنما بھی شریک ہیں۔ اجلاس میں فروغ نسیم، نسرین جلیل، امین الحق اور شبیر قائم خانی کو سینٹ کا امیدوار نامزد کیا گیا تھا جبکہ فاروق ستار کامران ٹیسوری کو نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ آئندہ ماہ ایم کیو ایم پاکستان کے 8 میں سے 4 سنیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں جن میں کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی، ڈاکٹر فروغ نسیم، مولانا تنویر الحق تھانوی اور نسرین جلیل شامل ہیں۔ سینٹ انتخابات 3 مارچ کو منعقد ہوں گے۔ سندھ کی دوسری سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم پاکستان سندھ کی 12 نشستوں پر انتخابات لڑے گی جہاں اسے 50 اراکین سندھ اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو صوبائی اسمبلی میں 94 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار نے پی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں میڈیا کا شکریہ ادا کرتا ہوں صبح کارکنا کا بڑا اجلاس بلاﺅں گا۔ رابطہ کمیٹی کے جن ارکان نے میڈیا سے بات کی وہ تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور غیرقانونی ہوا یہ اجلاس میری مرضی کے خلاف بلایا گیا آج میں ساتھیوں سے پوچھتا ہوں آپ کو بااختیار سربراہ چاہیے یا ڈمی۔ اگر ڈمی چاہیے تو مجھے سربراہی قبول نہیں پارٹی دستور کے خلاف بہادر آباد میں کارکنان کو بلایا گیا۔ بڑی تعداد میں ایم پی ایز اور ایم این ایز میرے ساتھ ہیں اور یہاں موجود ہیں۔ 22اگست کو ہم بکھر گئے تھے۔ ٹوٹ گئے تھے تنکا تنکا کرکے میں نے جمع کیا۔ کارکنان فیصلہ کریں کہ کسی اور کو سربراہ چننا ہے تو چن لیں۔ میرے بغیر بڑے بڑے فیصلے کئے گئے یہ پارٹی ڈسپلن کے خلاف ہے۔ اسی طرح میں پارٹی کو نہیں چلا سکتا۔ میں ایسی پارٹی نہیں چلاﺅں گا جہاں لوگوں کی منتیں کرنی پڑیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھے بغیر ڈپٹی کنوینئر کو 6ماہ کےلئے معطل کردیا میں سرکولر بھجوایا کہ جب تک میں نہ آﺅں اجلاس نہیں بلایا جاسکتا۔ ان فیصلوں کے پیچھے 15ماہ کی کہانی ہے اگر کسی بات پر اختلاف تھا تو بیٹھ کر بات کی جاسکتی تھی۔ ذاتی مفاد کیلئے کبھی سیاست نہیں کی۔ مجھے ہٹایا گیا تو فیصلہ قبول کیا۔ میں نے 23اگست کو علیحدگی کرنے کے بعد پارٹی کا مرجر کسی نے نہیں کیا۔ اور اب تک پارٹی چلا کر دکھائی ورثے میں ملنے والے افراد کو ساتھ لے کر چلا۔ اگر پی ایس پی کے ساتھ الحاق کے وقت غلط فیصلے ہوگا۔ اگر لندن والے ہوتے تو ڈکٹیٹر شپ ہوتی۔ میں نے پارٹی میں جمہوریت قائم کی غلطیاں سب سے ہوجاتی ہیں۔