تازہ تر ین

ایم کیو ایم میں بنتے ٹوٹتے دھڑے ، اس کا ورکر لاوارث نظر آتا ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے پہلے دو حصے ہو چکے تھے۔ اب تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک ایم کیو ایم لندن جو ”را“ کی مدد سے کراچی کو سندھ سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا گروپ پاک سرزمین کے نام سے علیحدہ ہوا۔ باقی بچی ہوئی پارٹی اب دو حصے میں تقسیم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ کامران ٹیسوری ڈیڑھ سال قبل مسلم لیگ فنگشنل کو چھوڑ کر اس میں شریک ہوئے تھے اُس وقت عامر گروپ کے کسی فرد نے ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور یہ ڈپٹی کنوینر بن گئے۔ ایئرمارشل اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال سے ہر دوسرے چوتھے روز4،5 افراد نکل جاتے تھے۔ وہ ہر بار کہتے تھے کہ اب پارٹی مضبوط ہو گی۔ بیرسٹر سیف آپ بتائیں کیا ایم کیو ایم اس تقسیم کے بعد مضبوط ہو گی۔ ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد فاروق ستار اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس سے تاثر پیدا ہوا کہ یہ دھڑے دوبارہ ملنے جا رہے ہیں۔ یہاں تک بات سامنے آئی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں ملا رہی تھی۔ کیا ایم کیو ایم کے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آگے ہیں؟ کامران ٹیسوری، ڈپٹی کنوینر تھے یعنی فاروق ستار کے بعد نمبر2 اس وقت عامر خان وغیرہ کو اس پر اعتراض نہیں تھا۔ اب سینٹ کا ٹکٹ دینے پر انہیں کیوں اعتراض ہو گیا۔ ایم کیو ایم اکثر ایسے اچانک فیصلے کرتی ہے۔ ٹیسوری والے معاملے پر بھی کچھ لوگ ایک طرف ہو گئے ہیں اور کچھ لوگ دوسری جانب۔ ایم کیو ایم کو چاہئے کہ دونوں دھڑے اس وقت مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کے پی کے میں عمران خان نے پولیس کی کارکردگی کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔ زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔ دوسرے نمبر پر فرانزک لیبارٹری کا سسٹم نہ تو کے پی کےکے پاس ہے نہ ہی سندھ حکومت کے پاس۔ فرانزک لیبارٹری آج کے ترقی یافتہ دور میں بہت اہم ہے۔ صوبائی حکومتوں کو سبق ملتا ہے کہ فوراً اس لیبارٹری کا قیام کریں۔ پنجاب میں یہ لیبارٹری موجود ہے۔ یہ قابل فخر بات ہے میاں شہباز شریف صاحب کے لئے قصور کا ملزم پکڑا گیا تو اس کے ڈی این اے میچ کرنے کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا۔ لگتا ہے ایم کیو ایم والی سٹوری عنقریب پشاور میں دہرائی جانے والی ہے۔ تحریک انصاف کا مطلب ہے عمران خان۔ ان کے کرکٹر ہونے کے حوالے سے، شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی بنانے کے حوالے سے تمام میتھ انہی کے نام سے بنی ہوئی ہے۔ اب پرویز خٹک اسے نان ٹیکنیکل آدمی کہہ رہے ہیں۔ تو وہ خود بھی کوئی پی ایچ ڈی کریمنلوجی نہیں ہیں۔ ہمارے سیاستدان بات کرنے سے پہلے کم سوچتے ہیں۔ پھر ان کے الفاظ ان کے لئے مصیبت بن جاتے ہیں۔ پھر توڑ مروڑ کی رٹ شروع ہوتی ہے۔ نوازشریف نے شاید اب فیصلہ کر لیا ہے کہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے شاید وہ چاہتے ہیں کہ اب ایکس پارٹی فیصلے ہونے دیں۔ اگر وہ پیش نہیں ہوں گے تو یکطرفہ فیصلے ہوں گے۔ دانیال عزیز، طلال چودھری، خواجہ آصف، عابد شیر علی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچا۔ یعنی نوازشریف کو نقصان پہنچا۔ نوازشریف شاید اب بچوں کی طرح ضد میں آ گئے ہیں۔ نوازشریف کو خوشامدیوں نے گھیر رکھا ہے۔ جنہوں نے انہیں رستے سے ہی ہٹا دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ وہ اس کے سربراہ ہیں۔ 3 مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ایک دفعہ وزیراعلیٰ رہ چکے۔ ان میں بلوغت نظر آنی چاہئے اور بچپن سے نکل آئیں۔ پرویز رشید میری بڑی عزت کرتے ہیں۔ میرے بڑے پرانے دوست ہیں۔ ان کے بارے یہ شعر درست ہے۔یہ لوگ کورٹس سے ناامید ہو چکے ہیں۔ پہلے ہر کسی نے حسب توفیق کورٹس کو برا بھلا کہا۔ پھر بابا رحمتے بھی خوب ڈٹا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ میں سوچ یہ ہے کہ وہ توہین عدالت میں نوازشریف کو نہ پکڑیں۔ نوازشریف پر بہت سنجیدہ الزامات ہیں۔ ان کے وکلاءنے ان الزامات کو غلط ثابت کرنا ہے۔ لہٰذا تمام بوجھ وکیل صفائی پر ہے۔میں ملتان گیا اور وائس چانسلر صاحب سے خود ملا۔ میں نے انہیں تمام شکایات بتائیں اور مشورہ دیا کہ آپ اس پر سخت ایکشن لیں۔ مرجان بچی والدین کے ساتھ ملتان میں خبریں کے دفتر میں بھی آئی۔ میں اس کی بہادری سے خوش ہوں اس نے کہا اگر میں اسے چھوڑ کر یہاں سے کہیں اور چلی گئی تو اور کتنی لڑکیوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔ میں روزانہ کورٹ جاﺅں گی یہاں ہی رہوں گی۔ پوری کوشش کروں گی کہ ملزمان کو سامنے لاﺅں۔ اس نے سمیرا نامی ایک لڑکی کے بارے کہا کہ وہ دس سال سے ہاسٹل میں رہ رہی ہے۔ ایک ایم اے کر لیتی ہے۔ دوسرے میں داخل ہو جاتی ہے وہ لڑکی تمام مجرمان کی سہولت کار ہے۔ وہ لڑکیوں کو ورغلا کر چھ ملزمان کے ٹوولے کے حوالے کر دیتتی ہے۔ مرجان نے بتایا کہ پہلی مرتبہ اسے کلاس روم میں ریپ کیا گیا۔ میں نے کہاں وہاں تو کرسیاں ہوتی ہیں اس نے کہا فرش پر۔ اس نے کہا دو لوگ دروازے پر گن لے کر کھڑے تھے۔ وہاں کا لیکچرار جس کا نام اجمل مہار ہے۔ وہ شعبہ سرائیکی کا استاد ہے اس شعبے کے چھ استاد اور 7 طالب علم ہیں۔ علی رضا قریشی تو سرائیکی بول بھی نہیں سکتا۔ یہ روتگی ہے۔ یہ کل چھ ملزمان کا ایک گینگ ہے۔ اجمل مہار نے تین شادیاں کیں۔ تمام اسے چھوڑ کر بھاگ گئیں۔ یہ اکیلا ہی وہاں رہتا ہے۔ اس کا گھر بدمعاشی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یونیورسٹی ٹیچر فورم اس بدمعاش اجمل مہار کو بچاتا ہے۔ یو ٹی ایف کا وہی کردار ہے جو جماعت اسلامی کا پنجاب یونیورسٹی میں ہے۔ لیاقت بلوچ، سراج الحق صاحب سے میری بڑی نیاز مندی ہے۔ سراج الحق صاحب آپ ذرا وہاں کے اسلامی جمعیت کے طلبہ کے لچھن دیکھیں یو ٹی ایف میں سب سے زیادہ اثرسوخ اسلامی جمعیت کا ہے۔ ہمارے دور کی جمعیت اور تھی۔ وہ شب بیداری کیا کرتے تھے۔ لوگوں کو تبلیغ کیا کرتے تھے۔ آج ان کے ہاتھوں میں گن ہوتی ہے۔ دھونس دھاندلی سے داخلے کرواتی ہے اسٹاف لگواتی ہے۔ دوسری تنظیمیں بھی ایسی ہی ہیں۔ اجمل مہار اپنے گھر پر گونگے بہرے ملازم رکھتا ہے تا کہ وہ کسی واقعہ کو بیان نہ کر سکیں وہاں لڑکیوں کی چیخیں نکلتی ہیں۔ ان کا شور مچتا ہے۔ جب کسی کو پکڑ کر لاتے ہیں وہ شور مچاتی ہے۔ ان کی فلمیں بنتی ہیں۔ اس لڑکے کے مووبائل سے 70 ویڈیوز نکلی۔ 12 مختلف لڑکیوں کے ساتھ ریپ ہوا۔ یہ لڑکی بتاتی ہے کہ اس کے ساتھ دو اور لڑکیوں کی ویڈیوز بنائی گئیں۔ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ بدمعاشی کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے ایک بڑی ببلڈنگ پر قبضہ جما رکھا ہے وہاں کل 7 اسٹوڈنٹ ہیں۔ جن کے لئے 6 استاد ہیں 5 دیگر ملازمین۔ ایک اسٹوڈنٹ پر دو ملازم۔ یہ وہاں اوپن گن لے کر پھرتے ہیں۔ سراج الحق صاحب، جمعیت مکمل طور پر ان بدمعاشوں کو سپورٹ دے رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے موجودہ اختلافات وقتی ہیں۔ ہر پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اس طرح کے اختلافات ہوا کرتے ہیں۔ اسے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صرف کچھ طریقہ کار پر اختلاف پیدا ہوا ہے۔ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم (لندن) کوئی پارٹی نہیں ہے یہ میڈیا کی اصطلاح ہے ہماری آئینی قانونی حیثیت ہے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں 52 ارکان ہیں۔ سینٹ کی سیٹ کی تقسیم پر ایک نام پر اختلاف سامنے آیا۔ کامران ٹیسوری کے مسئلہ نے خاصے خدشات کو جنم دیا ہے مجھے یقین ہے یہ مسئلہ رات تک حل کر لیا جائے گا۔ فاروق ستار کی کچھ ناراضی پیدا ہوئی ہے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد یہ تاثر پھیلا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوشش کی گئی یہ ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن پی ایس پی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ موجود ہے وہ اسے مینج کرنے کی کوشش کرتی ہے اسی وجہ سے اس کے مسائل بنے ہوئے ہیں اور پی ایس پی شہر کراچی میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain