ملتان ( رپورٹنگ ٹیم) یونیورسٹی میں طالبہ زیادتی کیس میں بھی سیاسی مداخلت شروع ہوگئی۔ ایک طرف رانا محمودالحسن گروپ دیگر اہم عہدیداروں کی آشیرباد سے تمام ملزمان کو کم سے کم سزا دلوانا اور کیس پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے اور دوسری طرف وحید ارائیں گروپ کی طرف سے وزیراعلیٰ کو بریفنگ دی گئی ہے کہ یہ کیس سوفیصد صحیح ہے اور یہ کوئی ایک کیس نہیں بلکہ اس طرح کے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سالہاسال سے طالبات بلیک میل ہو رہی تھیں اور اب اندرون شہر کا منشیات مافیا بھی گزشتہ کئی سال سے یونیورسٹی کے طلبہ کو منشیات فراہم کر رہا ہے۔ ملتان کینٹ کے ایک گیسٹ ہاﺅس سے 16لڑکیاں یونیورسٹی کی گرفتار کی گئی تھیں مگر انہیں بھی رانا گروپ کی وجہ سے چھڑوا لیا گیا اور معاملہ ختم کر دیا گیا جبکہ اسی طرح کے متعدد واقعات میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے یونیورسٹی کے حالات کنٹرول نہ ہوسکے اور یہ پہلا موقع ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران یونیورسٹی میں سالہاسال کے دوران اہم عہدوں پر براجمان متعدد انتظامی افسران کو نکال دیا گیا ہے تاہم یونیورسٹی اساتذہ کی دونوں تنظیمیں اپنے اپنے حامی اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کرنے کیلئے کرپٹ اور اخلاقی حوالے سے بدنام اساتذہ پر بھی پردے ڈالتی ہیں۔ دریں اثناءیونیورسٹی میں ابھی تک خوف کی فضا ہے جبکہ حاضری میں بھی کمی جاری ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹی ہاسٹل میں لگاتار 12سال سے مقیم طالبہ سمیرا کو بھی پولیس نے پوچھ گچھ کیلئے پولیس سٹیشن طلب کرلیا ہے اور ذرائع کے مطابق انہوں نے بھی جو انکشافات کئے ہیں ان سے اس کیس کی سنگینی میں اضافہ ہوگیا ہے اور دوسری طرف پروفیسر اجمل مہار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کی شہرت انتہائی بری تھی۔ انہوں نے تین شادیاں کیں اور تینوں ناکام ہوگئیں اور ان کی تینوں بیویوں نے بھی ان پر غیراخلاقی الزام لگائے۔ بتایا گیا ہے کہ ان کے غیراخلاقی شوق کی وجہ سے تینوں بیویوں نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جبکہ ان میں سے ایک اہلیہ نے ایک سابق وائس چانسلر سے ملاقات کرکے انہیں پروفیسر اجمل مہار کے تمام کرتوتوں سے آگاہ کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ چھوٹی عمر کے گونگے لڑکے لڑکیوں کو ملازم رکھتے ہےں جب ایک سابق وائس چانسلر نے کارروائی کا فیصلہ کیا تو اساتذہ کی دونوں تنظیمیں اس میں مداخلت کرنے لگیں کیونکہ اس نوعیت کے بعض الزامات دیگر اساتذہ پر بھی لگتے تھے مگر وہ اس سے سنگین نہ تھے۔ بتایا گیا ہے کہ پروفیسر اجمل مہار بہاولپور رہنے والا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی سے ایم اے سرائیکی کیا اور ریسرچ آفیسر زکریا یونیورسٹی پھر اس نے ڈاکٹر انوار کے ذریعے خود کو لیکچرار بنوالیا۔ بتایا گیا ہے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی عمارت بہت وسیع جبکہ اس میں طلبہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور یونیورسٹی کے جس طالب علم کو بھی تخلیہ درکار ہو وہ اس ڈیپارٹمنٹ کا رخ کرتا ہے کیونکہ غیراخلاقی امور کا سب سے بڑا سہولت کار خود پروفیسر اجمل مہار تھا جس نے ڈیپارٹمنٹ کے نچلے عملے کو بھی قابو کر رکھا تھا۔ طالبہ مرجان نے الزام عائد کیا تھا کہ سب سے پہلے سرائیکی ڈپارٹمنٹ میں اسلحہ کی نوک پر اسے بے آبرو کیا گیا تھا۔ اس الزام کی تصدیق کیلئے ”خبریں“ ٹیم نے گزشتہ روز سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کیا اور حالات کا جائزہ لیا تو وہاں جس کلاس روم نمبر 1میں طالبہ کو بے آبرو کیا گیا وہ سنسان کمرہ ہے۔ ڈیپارٹمنٹ بہت بڑا ہے اور طلبہ کی تعداد اس وقت صرف 7ہے اور جب سے یہ ڈیپارٹمنٹ بنا ہے اس میں زیادہ سے زیادہ طلبہ وطالبات کی تعداد 12رہی اور جس طالب علم کو کسی شعبے میں داخلہ نہیں ملتا اور وہ محض یونیورسٹی کا طالب علم ہونے کا ٹھپہ لگوانا چاہتا ہے وہ اس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیتا ہے۔ اس شعبہ میں اساتذہ کی تعداد پانچ جبکہ ملازمین کی تعداد طلبہ کی تعداد سے زیادہ ہے۔ 11بجے کے بعد یہ ڈیپارٹمنٹ عملاً بند ہو جاتا ہے تو اس میں پروفیسر اجمل مہار کا اساتذہ پر مشتمل ایک گروپ اکثر اوقات غیرعلمی گفتگو کرنے آ جاتا ہے۔ اس گروپ میں پروفیسر قاضی عابد سپورٹس آفیسر عابدہ، لیکچرار رضیہ شبانہ، پروفیسر شاہدفرید سابق سیکرٹری آفیسر زاہد خان کے علاوہ کئی اساتذہ شامل ہیں جبکہ ایک اور گروپ جس کے سربراہ آر او مقرب اکبر، سپورٹس سائنسز کے ڈاکٹر ریاض ، سابق چیئرمین سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ غلام یٰسین، فرخندہ اور لائبریرین سائنس اور رانا ایاز جس کا گھر باقاعدہ طور پر اسی کام کیلئے استعمال ہوتا آیا ہے اس کے علاوہ پچھلے 10سال سے تعینات سکیورٹی انچارج جوکہ سکیورٹی کے نام پر گراﺅنڈ میں بیٹھے مختلف طالبہ وطالبات کو ہراساں کرکے بلیک میل کرتا ہے جس کا اپنا بیٹا بھی ایسے کئی واقعات میں ملوث ہے اور یونیورسٹی میں چوروں ڈکیتوں کاسربراہ بھی ہے۔ یونیورسٹی میں ہی کارکن یو ٹی ایف کے لیکچرار کی موٹرسائیکل 125چوری ہوگئی تھی جس پر سکیورٹی انچارج خلیل کھور کو پریشرائز کیا گیا تو موٹرسائیکل وہیں سے برآمد ہوگئی جہاں کھڑی تھی جبکہ اور بھی کئی موٹرسائیکلیں اور کاریں، نثار شاہ اور اقصیٰ ارم شہزادی کی کار بھی یہیں سے چوری ہوئی جس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منظم گروہ کا سرغنہ بھی یہی سکیورٹی انچارج خلیل کھور ہے اور جو جوڑے یونیورسٹی میں رنگ رلیاں مناتے پکڑے جاتے ہیں تو ان کو بھی سکیورٹی انچارج پیسے لے کر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر ان کو اپنے مقاصد کیلئے بلیک میل کرکے یہ اور ان کا گروپ جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ سکیورٹی انچارج خلیل کھور نے اپنے ہی ایک کلرک امین جو کہ گزشتہ ماہ ہونے والے منشیات کے مقدمہ میں بھی ملوث تھا کو خصوصی طورپر اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے اور اس سے جنسی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی طالبات کو ویڈیو بنا کر بلیک میل کیاجاتا ہے۔ ایسی طالبات میں زیادہ تر تعداد ان کی ہے جو مضافاتی علاقوں سے آئی ہوتی ہیں اور یہ گروپ کھلے عام اپنے دفتر میں شراب وغیرہ اور دیگر منشیات کا استعمال بھی کرتے ہیں اور ان کی بات نہ ماننے والی طالبات کو فیل کروا دیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بینش نامی خاتون جوکہ ٹیلی فون آپریٹر ہے جس کی متعدد شکایات ہیں کہ یہ یونیورسٹی میں طالبہ کو ہراساں کرکے بلیک میل کرتی ہے اور یونیورسٹی کے پروفیسروں سمیت باہر طالبہ کی سپلائی دیتی ہے۔ اس کے خلاف متعدد درخواستیں ہونے کے باوجود اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ سجاد ملیانہ مطالعہ پاکستان کے ٹیچرز کے گھر ایک بار ریڈ ہوا تھا جہاں سے اسی ڈیپارٹمنٹ کی 2طالبہ بھی برآمد ہوئی تھیں اور کئی پروفیسرز بھی جس کی وجہ سے اب انہوں نے عیاشیوں کیلئے یونیورسٹی میں نئے فلائٹ میں ایک کمرہ بنا رکھا ہے ایمپلائز کالونی میں یہ ٹیچرز، ملازمین اور افسران طالبہ کو کو نمبروں کی آڑ میں بلیک میل کرکے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں اور ویڈیو بھی بناتے ہیں۔ جب یہ ریڈ ہوا تھا اس وقت کے وی سی کرامت علی تھے جن کے علم میں یہ لایا گیا تھا لیکن کوئی موثر کارروائی نہ کی گئی۔ بلیک میل ہونے والی طالبہ میں کمپیوٹرسائنس ڈیپارٹمنٹ، انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنس کے ڈیپارٹمنٹ میں یہ پروفیسر کے دو گروہ طالبہ کو نمبروں کی آڑ میں بلیک میل کرکے جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ پروفیسر اجمل مہار جس نے یونیورسٹی کے بالکل سامنے والی گلی میں آم کے باغ کے اندر ایک کوٹھی کرائے پر لی ہوئی ہے جہاں وہ طالبہ کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ علی قریشی اور دیگر سٹوڈنٹ کو جگہ فراہم کرتا ہے۔ مرجان کو بھی علی قریشی نے یہیں کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا اور ویڈیو بھی بتائی اور پروفیسر نے بھی مرجان کو یہیں جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے ریسرچ سکالر چودھری حنیف جوکہ ملتان کی معروف شخصیت تھی اس کے ساتھ بھی اجمل مہار کی نہ بنی ان کی عادتوں کی وجہ سے پروفیسر اجمل مہار 16سال سے کم عمر کے لڑکوں جوکہ گونگے ہوتے ہیں کو اپنا ملازم رکھتا تھا اور یونیورسٹی میں اس کا کردار پہلے دن سے مشکوک سمجھا جاتا تھا۔ یونیورسٹی ٹیچر فورم یوٹی ایف کی جانب سے الیکشن بھی لڑتا رہا ہے۔ پروفیسر نے ایم فل کی ملتان کی قدیمی امام بارگاہوں پر تھیسز لکھا تھا جس پر اس نے 7افراد کو مرحوم قرار دے دیا تھا جبکہ وہ زندہ تھے جس پر ملت جعفریہ نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔ یونیورسٹی کے باہر لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر بھی نوٹس نہ لیا بلکہ اس کو کلیئر قرار دے دیا۔ یونیورسٹی میں بطور ریسرچ سکالر آیا پھر ریسرچ آفیسر بنا اور ڈاکٹر نصیر کے دور میں اسے لیکچرار بنا دیا گیا۔ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں سرائیکی سٹوڈنٹ کی تعداد 2016 سے 18 کے سیشن میں صرف 12 اور 2017ءسے 2019ءکے سیشن میں صرف 7ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر اردو ڈیپارٹمنٹ سے لیا گیا ہمیشہ سے جس میں ڈاکٹر انور ، ڈاکٹر روبینہ، قاضی عابد، ممتاز کلیانی شامل ہیں جبکہ پروفیسر اجمل مہار اور نسیم کو بھی بنایا جا سکتا تھا لیکن اس کے کردار کی وجہ سے انہیں ڈائریکٹر نہیں بنایا گیا۔ یونیورسٹی میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینا انتہائی آسان ہے اور اس ڈیپارٹمنٹ میں صرف عیاشی کیلئے ہی داخلہ لیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ مرجان کو پہلی دفعہ کلاس روم میں ہی اسلحہ کے زور پر نشانہ بنایا۔ علی رضا قریشی اور اس کے ساتھیوں نے دروازوں پر پہرے دیئے کیونکہ اتنا بڑا ڈیپارٹمنٹ ہے جوکہ بالکل خالی رہتا ہے اور یونیورسٹی میں جن بھی طلبہ کو عیاشی کرنی ہوتی ہے اس ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ جاتا ہے جبکہ مزید بتایا گیا موقع پر یونیورسٹی میں خبریں کی ٹیم کو فاروق تونسوی جوکہ پروفیسر ہے اور HOD بھی رہ چکے ہیں نے بھی کئی بار وزیٹر لیکچرار نادیہ کو جنسی ہراساں کیا اور انکار پر اس کو 2سالوں میں ایک بھی لیکچر نہ دیا یا مطالعہ پاکستان ڈیپارٹمنٹ میں نادیہ نے یہ معاملہ احسن چانڈیو کو بتایا کہ پروفیسر نے اسے فیل کروا دیا جوکہ آج تک ڈگری کیلئے دھکے کھا رہی ہے۔ اسی طرح امتیاز وڑائچ جو سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا ہے، نے وزیٹر لیکچرار ضبغہ عمران کے ساتھ ہراساں کرکے جنسی تعلقات بنائے اور پھر بعد میں اسے پرماننٹ کروا دیا۔ یہ پروفیسر بھی ہیں اور ریسرچ کی آڑ میں سٹوڈنٹ طالبہ کو بلیک میل کرکے جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں اور لڑکیاں مجبور ہوکر ان کے ہاتھوں کھیلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں جبکہ ذرائع نے مزید بتایا کہ پچھلے اڑھائی سالوں میں 11کروڑ سے زائد سکیورٹی کی مد میں بجٹ دیئے گئے یونیورسٹی کو خاص طور پر باﺅنڈری وال کیلئے جس کو وزٹ کے بعد 11.8 کلومیٹر تھی کو کاغذوں میں 15کلومیٹر بتایا گیا جبکہ مزید بتایا کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کو 2کروڑ روپے کے فنڈز دیئے گئے اور 55لاکھ مالیت کی گاڑی جس کو ڈیپارٹمنٹ کے بجائے ایک اسسٹنٹ پروفیسرر استعمال کر رہا ہے اور فنڈز کے بارے میں آج تک انکوائری نہ کی گئی ہے۔
یونیورسٹی کیس