اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پارٹی صدر بننا کس طرح آئین سے متصادم ہے؟نواز شریف کیس یں فریق ہیں، اگر وہ یا ان کے وکیل پیش نہ ہوئے تو یکطرفہ کارروائی کریں گے، آئین میں صرف امین کا لفظ ہے، صادق تو حضور اکرم کا لقب ہے، محض اخلاقی اور بدنیتی کی بنیاد پر کوئی قانون کالعدم نہیں قرار دیا جا سکتا، درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہو گا کہ قانون آئین سے متصادم ہے، ضرورت پڑنے پر پارلیمانی کارروائی کا طلب کریں گے، درخواست گزار شیخ رشید کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا بڑا کردار ہوتا ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر پارٹی سربراہ رکن اسمبلی کو نااہل کر سکتا ہے، نواز شریف کی نظرثانی کی درخواست بھی عدالت مسترد کر چکی ہے، عدالت نے قرار دیا تھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں ہے۔منگل کو سپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017ءکے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی، نواز شریف کے پیش نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے یکطرفہ کارروائی کا حکم دے دیا، نواز شریف کے وکیل اعظم تارڑ نے کہا کہ نواز شریف کا کہنا ہے کہ قانون پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ پارٹی اپنا دفاع خود کرے، نواز شریف اپنا دفاع نہیں کرنا چاہتے، نواز شریف اپنا دفاع کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میں پیش ہوں گا۔ وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ قومی اسمبلی میں تحریری جواب جمع کرانا ہے وقت چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کوئی وقت نہیں دیں گے، دلائل شروع کریں، اس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں نے سینیٹ الیکشن کےلئے کاغذات نامزدگی فائل کرنے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھیں کہ آپ کے کاغذات فائل ہو گئے ہیں، نواز شریف کی طرف سے وکیل کون ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ راجہ ظفر الحق تشریف لائیں، آپ وعدہ کر کے گئے تھے کہ نواز شریف کی نمائندگی ہو گی، اگر وہ یا ان کے وکیل نہیں آئے تو یکطرفہ کارروائی چلائیں گے، نواز شریف کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، عدالت نے نوٹس دیا اور موصول بھی ہوا ہے، کیس دو تین دن چلے گا نواز شریف کسی بھی وقت شامل ہو سکتے ہیں، اس پر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ میں نواز شریف کی نہیں بلکہ اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کر رہا ہوں، عدالت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو کیس میں فریق بنانے سے متعلق استدعا مسترد کر دی، درخواست گزار شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا تھا۔عدالت نے قرار دیا تھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ صادق کا لفظ آپ کہاں سے لے آئے؟آئین میں صرف امین کا لفظ ہے، صادق تو حضوراکرم کا لقب ہے، محض اخلاقی اور بدنیتی کی بنیاد پر کوئی قانون کالعدم نہیں ہو سکتا، درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہو گا کہ قانون آئین سے متصادم ہے، ضرورت پڑنے پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کریں گے، دیکھنا ہو گا کہ کن بنیادوں پر قانون کالعدم ہو سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا کوئی قانون سازی آئینی قدغن پر بالاتر ہو سکتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کی نظرثانی درخواست عدالت مسترد کر چکی ہے، یکم اکتوبر کو صدر مملکت نے قانون کی منظوری دی، پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ساتھ (ن)لیگ کے آئین میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف خود دفاع نہیں کرنا چاہتے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ بتائیں کہ پارٹی صدر بننا آئین سے متصادم کس طرح ہے؟ فروغ نسیم نے بتایا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر پارٹی سربراہ رکن اسمبلی کو نااہل کر سکتا ہے، پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔