تازہ تر ین

شیخ رشید کا دعویٰ ایل این جی دنیا کا مہنگا ترین معاہدہ ، وزیراعظم کو فریق بنایا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے پاس اصل اختیارات ہیں، بالکل اس طرح جیسے پارلیمنٹ کے منتخب ارکان کے پاس اصل طاقت ہوتی ہے وہ جسے چن لیتے ہیں وہ چیف ایگزیکٹو بن جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کے وکلاءحضرات کا کہنا یہ ہے کہ آئین اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کنوینر فیصلہ کرے۔ کنوینر صرف اجلاس بلاتا ہے اور کارروائی بڑھاتا ہے لہٰذا کنوینر کو تمام اختیارات نہیں دیے جا سکتے۔ لہٰذا رابطہ کمیٹی نے اپنے ارکان کے کاغذات علیحدہ جمع کروائے اور کہا کہ فاروق ستار کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ رابطہ کمیٹی کا یہ اعلان کہ انہوں نے فاروق ستار سے اختیارات واپس لے لئے ہیں اب ساری لڑائی سامنے آ گئی ہے۔ اس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے گا کیونکہ میٹنگ سے تمام نتائج سامنے آ جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیارات نہیں ہیں کہ فیصلہ کرے کہ کنوینر اپنے نمائندے مقرر کرے یا رابطہ کمیٹی۔ سندھ اسمبلی کے ارکان، الیکٹرول کالج ہے۔ وہ جس کو چاہیں گے اسے ووٹ دے دیں گے مجھے لگتا ہے کہ اس جھگڑے کا فیصلہ بھی عدالت میں ہو گا۔ ہارنے والا تو ضرور عدالت سے رجوع کرے گا۔ سینٹ کے الیکشن کا طریقہ کار یہی ہے کہ پارٹیاں اپنی عددی تعداد کی بنیاد پر ارکان کو سلیکٹ کرتی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں جو بھی ایم کیو ایم کارکن ہارے گا وہ عدالت میں جائے گا کہ جس فورم نے مجھے ٹکٹ دیا اس کو یہ حق حاصل ہی نہیں تھا۔ سابق وزیراعظم، ہزارہ میں جلسے کے دوران علاقے کے لئے فنڈ کا اعلان کر ڈالا عدالت نے انہیں بلا لیا کہ جناب اس فنڈ کے اختیارات صرف کابینہ کے مجوزہ ارکان ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے آئین کے الفاظ یہ ہوتے ہیں ”وزیراعظم اور اس کی کابینہ“ کابینہ کی موجودگی میں وزیراعظم جو فیصلہ کرتا ہے اسے درست تسلیم کیا جاتا ہے جلسوں میں اعلان کردہ فنڈز کو کابینہ سے ہی منظور کروانا پڑتاہے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے کنوینر کو اختیارات دیئے ہیں اگر کمیٹی نیچے سے نکل جائے تو کنوینر کے پاس کیا اختیار بچتا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی اس بات کی علامتت ہے کہ ایم کیو ایم ٹکٹڑوں میں تقسیم ہو چکی ایک ایم کیو ایم لندن ہے جس کا سربراہ الطاف حسین ہے جس کے متعلق لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ دے رکھا ہے کہ اس کی تقریر اس کا نام، اس کا بیان جاری نہیں کیا جا سکتا، ویسے لوگوں نے اس فیصلے پر سکھ کا سانس کیا۔ کیونکہ 5,4گھنٹے کی تقریر سے لوگ بہت پریشان ہوئے تھے، اور جو چینل اس کی تقریر نہیں دکھا سکتا اس پر کچاری میں بلوا ہو جانا تھا اور اس چینل میں توڑ پھوڑ اور بُرا حال برپا کردیتے تھے میڈیا مالکان کو کچھ اطمینان ہوا۔ لیکن جب الطیف حسین نے اسرائیل کو ”را“ کو بلایا تو یہ بغاوت کےزمرے میں آ گئی۔ آرٹیکل 6 کے تحت اس کی سزا موت ہے۔ الطاف حسین کی موجودگی میں بھی فاروق ستار کنوینر ہوا کرتے تھے۔ اب ایک ایم کیو ایم لندن میں دوسری ایم کیو ایم فاروق ستار اور ایک ایم کیو ایم باغی یعنی پاک سرزمین پارٹی جس کے سربراہ مصطفی کمال اب چوتھی ایم کیو ایم سامنے آ گئی ہے۔ فاروق ستار اور مصطفی کمال کی مشترکہ کانفرنس سے ایسا لگتا تھا کہ اب ایم کیو ایم کے دھڑے آپس میں مل جائیں گے لیکن اگلے ہی دن اس کانفرنس کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ ایم کیو ایم کا ایک بڑا حصہ ناراض ہو کر گھر میں بیٹھ گیا۔ اب اگر موجودہ جھگڑا جو فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کا سامنے آیا ہے اگر یہ حل نہ ہوا تو ایم کیو ایک چوتھی بھی بن جائے گی۔ اسحاق ڈار کو کورٹ نے نااہل قرار دیا۔ اور ان کے خلاف نیب میں ریفرنس کھلے ہوئے ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹیں بھی ان کے متعلق آ چکی ہیں۔ مقدمہ کورٹ میں ہے مسلم لیگ (ن) نے انہیں نامزد کر دیا ہے۔ سینٹ کی سیٹ کے لئے یقینا انہیں ووٹ بھی مل جائیں گے اگر وہ سنیٹر بن جاتے ہیں تو ان کے خلاف کیسز ہوں گے جو شخص پارلیمنٹ کے لئے نااہل ہو وہ سینٹ کے لئے اہل نہیں ہو سکتا۔ اس قسم کی دو تین اور بھی کیسز موجود ہیں دیکھنے میں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ شیخ رشید پرجوش انسان ہیں۔ حدیبیہ کیس بھی انہوں نے شروع کیا اور کہا کہ اب شہباز شریف کا پتا صاف۔ لیکن عدالت نے شہباز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ایل این جی کے معاہدے کے وقت بھی شیخ رشید کی جانب سے یہ الزامات سامنے آئے تھے کہ ہم نے قطر سے مہنگی ترین ایل این جی خریدی ہے جبکہ سستی گیس مل سکتی تھی۔ ایل این جی کیس اس لئے اہم ہے کہ شاہد خاقان عباسی جو کہ وزیراعظم پاکستان ہیں۔ ان کے خلاف یہ پہلا کیس ہے جو عدالت میں آ رہا ہے۔ اب اس کیس میں اگر انہیں سزا ہو جاتی ہے یا نااہلی ہو جاتی ہے تو وزارت عظمیٰ تو گئی۔ شیخ رشید پرامید لیکن ابھی تک انہیں معاہدے کی کاپی نہیں مل رہی۔ مسلم لیگ (ن) کے بہت سارے لیڈروں کے خلاف کیس سامنے آئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف کے خلاف کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ جس طرح مسلم لیگ (ن) کے لیڈر شپ جلسوں میں اعلانات کر رہے ہیں کہ ووٹ ان کے حق میں فیصلہ کرے گا۔ اس کا مطلب ہے انہیں عدالت میں جانے کیلئے کچھ نہیں مل سکا۔ زینب قتل کیس میں صفائی کے وکیل نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں وہ بہت سنجیدہ ہیں نمبر ایک یہ کہ یہ وہ آدمی ہی نہیں جس نے قتل کیا۔ دوسرا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے والے کو امریکہ سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کی اہلیت ہی درست نہیں۔ لہٰذا اس سارے معاملے میں اصل ملزم ابھی تک چھپا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو بلایا تتھا۔ اور پوچھا تھا کہ عمران علی کے اکاﺅنٹ کے بارے تفاصیل دیں۔ کیونکہ اسٹیٹ بینک نے اس کا اکاﺅنٹس کی تردید کر دی ہے۔ شاہد مسعود نے معافی مانگنے کی بجائے اس پراسٹینڈ لینے کا عندیہ دیا۔ ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ پنجاب حکومت کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گا میری موجودگی میں چیف جسٹس نے شاہد مسعود سےے سوالات کے لئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ انہیں پنجاب حکومتت کی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے وہ زور دیتے رہے کہ تحقیقات کی جائیں کیونکہ یہ اصل ملزمان تک پہنچنے بچائی جا رہی ہے۔ بااثر لوگ ملزموں کے پیچھے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنادی ہے۔ اس کی طرف سے نوٹس موجود ہو چکے ہیں اس کا سربراہ ایف آئی اے کے ڈی جی کو بنایا گیا ہے اور ایڈیشنل ڈی جی کو اور ایک ایم آئی او ایک آئی ایس آئی کا رکن شامل ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود بتا رہے تھے ایک دو دنوں میں اس کی سماعت شروع ہونے والی ہے حکومت پنجاب نے اچھا فیصلہ کیا کہ اس کیس کی سماعت جیل میں ہو گی۔ روزانہ خدشہ تھا ک لوگ اس پر حملہ کر کے اسے ہلا کر نہ کر دیں۔ جب ہم جیل میں تھے۔ بھٹو دور میں تو اس وقت بھی سپیشل سماعت جیل میں ہی ہوا کرتی تھی۔ ہم اس میں پیش ہوا کرتے تھے۔ ماہر قانون، ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ پارٹی کنوینر مقرر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پارٹی متحد رہے۔ لیکن اب ایم کیو ایم میں انتشار آ چکا ہے۔ اب تین دھڑے واضح نظر آ رہے ہیں ایک ایم کیو ایم لندن ہے دوسری ایم کیو ایم فاروق ستار اور تیسری ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی۔ اب یہ طے کرنا ہوتا کہ لیڈر شپ کون سنبھالے گا۔ کنوینر رابطہ کمیٹی کے مشورے کے بغیر فیصلے نہیں کر سکتا۔ اب ملک میں روایت چل پڑی ہے کہ ہم اپنے سیاسی معاملات عدالتوں میں لے کر جا رہے ہیں۔ میرا مشورہ ہو گا کہ عدالت اس میں ہاتھ نہ ڈالے اور پارٹیوں کو خود مسائل حل کرنے دے۔ پہلے ہی عدالت مشکل میں پھنسی ہوئی ہے کہ اور اسے اپنے فیصلوں کے بارے وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں جو آج ک نہیں ہوا تھا فاروق ستار نے جو نمائندے منتخب کئے ہیں وہ اپنے کاغذات جمع کروائیں گے اور رابطہ کمیٹی کے نمائندے اپنے کاغذات داخل کرے گی۔ جس کے منظور ہو جائیں گے وہ الیکشن میں حصہ لے سکے گا۔ اسمبلی فیصلہ کرے گی کہ وہ کس کو ترجیح دیتے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain