تازہ تر ین

سینٹ الیکشن پیسے کا کھیل ، سب سے زیادہ ریٹ کے پی کے ، فاٹا میں لگنے کا امکان

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جمہوری نظام کے لئے الیکشن کا وقت پر ہونا خوش آئند ہے۔ یہ تھیوری پیش کی جا رہی تھی کہ کوئی ایک صوبہ سندھ، کے پی کی اسمبلی توڑ دی جائے گی تا کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں۔ آخر میں جب بلوچستان میں بغاوت ہوئی۔ وہاں ثناءاللہ زہری کی حکومت ختم ہوئی۔ ایک نئے صاحب سامنے آئے۔ سمجھا جا رہا تھا کہ شاید بلوچستان کی اسمبلی توڑ دی جائے گی تا کہ سینٹ کے الیکشن روک دیئے جائیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا سینٹ کا الیکشن وقت پر ہونا ہر جمہوریت پسند کے لئے خوش آئند ہے۔ سینٹ اَپر ہاﺅس ہے۔ انگلینڈ میں اسے ہاﺅس آف لارڈز کہتے ہیں۔ وہاں ہماری قومی اسمبلی کو ہاﺅس آف کامن کہا جاتا ہے۔ ملک میں پہلے یہ افواہیں چل رہی تھیں کہ کے پی کے یا سندھ اسمبلی کو توڑ دیا جائے گا جس سے سینٹ کے الیکشن رک جائیں گے۔ ساری سیاسی جماعتیں بشمول اسٹیبلشمنٹ کسی طرح راضی ہو گئیں کہ سینٹ کا الیکشن ہونا چاہئے اور کسی صوبے کی اسمبلی نہیں ٹوٹنی چاہئے جناب عبدالودود صاحب اس پر روشنی ڈالئے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جس میں پیسوں سے زیادہ بڑھ کر برادری ازم، آنکھ کی شرم اخلاقی دباﺅ زیادہ بڑا فیکٹر بن جاتا ہے۔ جبکہ کراچی میں سینٹ کے لئے کافی پیشہ چلتا ہے۔ سب سے زیادہ پیسہ، جو ریکارڈ توڑ رہا ہے وہ کے پی کے اور بالخصوص فاٹا کا علاقہ ہے۔ پرویز مشرف کو ناجانے کیا سوجھی انہوں نے یہاں کی 4 سیٹیں برھا کر 8 کر دیں فاٹا کے الیکشن کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ہمارےے درست سنیٹر گلزار صاحب ہوتے تھے۔ وہ بینظیر بھٹو کے لاہور میں ”ہوسٹ“ ہوا کرتے تھے۔ بوڑھے آدمی تھے۔ بی بی صاحبہ لاہور آ کر ان کے گھر میں ٹھہرتی تھیں اور وہاں ”کمفرٹیبل“ محسوس کیا کرتی تھیں یہ واحد مثال ہے کہ گلزار احمد صاحب خود بھی سنیٹر بنے اور ان کے بڑے بیٹے بھی اور چھوٹے بیٹے بھی سنیٹر بنے اور آخر میں ان کے سب سے چھوٹے بیٹے بھی سنیٹر بنے۔ فاٹا کے ارکان کیلئے لگتا ہے نوٹوں کی جھلک سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کرنسی نوٹوں کی خوشبو چھڑکے بغیر کوئی سینٹ آف پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ویسے تو کے پی کے کوئی اتنا اہم صوبہ نہیں ہے اور وہاں عوام غریب اور بدحال ہے فاقہ کش بھی ہیں محدود وسائل ہیں۔ زندگی کے اور مسائل ہیں۔ لیکن جن کے پاس پیسہ ہے لمبا پیسہ ہے۔ جب سے پاکستان بنا شاید وہاں کوئی احتسابی عمل ہوا ہی نہیں، دولت صرف چند گھروں میں ہی داخل ہے۔ بلوچستان میں بھی کے پی کے کی طرح جن کے پاس دولت ہے وہ بہت امیر ہیں اور جو غریب ہے۔ وہ بہت ہی غریب ہے اور وہاں کے امراءپچھلے 40 سال سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں عیاشیانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ خود کو ناراض یا باغی بھی کہلاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان کی آن، بان، شان کی اصل کہانی کیا ہے۔ سینٹ میں بلوچستان کے حوالے سے بے پناہ پیسہ چلتا ہے۔ سندھ سے بڑی خبر آئی ہے کہ خالد مقبول صدیقی صاحب اور فاروق ستار ایک ہو گئے ہیں چلو سینٹ الیکشن کی وجہ سے ہی ہوا۔ ہم اپنے نمائندے سے پوچھتے ہیں کہ کراچی بھی اس حوالے سے بہت بدنام ہے کہ ہر مرتبہ سینٹ الیکشن میں یہاں دو، چار ’اَپ سیٹ“ ضرور ہو جاتے ہیں۔ وہاں بھی پیسے کی بنیاد پر سیٹیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ کیا اس مرتبہ بھی وہاں پیسہ چلے گا یا نہیں؟؟ ایم کیو ایم میں کامران ٹیسوسی کے نام پر پھوٹ پڑی۔ اور خالد مقبول، فاروق ستار سے الگ ہو گئے اب واپس آ گئے ہیں۔ فاروق ستار نے پیسے والے شخص (ٹیسوری) کا ساتھ آخری وقت تک نبھایا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کیا یہ پیسے کی جیت نہیں ہے؟ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ فاروق ستار، کامران ٹیسوسی سے وہ رقم دبئی میں وصول کر چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ انہیں ہر قیمت پر سنیٹر بنانا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے دیگر ارکان جو ان کی شدید مخالفت کر رہے تھے وہ کسی طرح اس پر رضا مند ہو گئے؟ میں نے پروگرام میں آنے سے پہلے سرمدعلی صاحب جو اے پی این ایس کے صدر ہیں کو تجویز پیش کی ہے اور میاں عامر محمود صاحب کو میسج بھی بھیجا ہے۔ جو ٹی وی چینل کی تنظیم کے صدر ہیں۔ میں خود سی پی این ای کا صدر ہوں میں نے اپنی تنظیم کے جنرل سیکرٹری اعجاز الحق صاحب سے بات کی ہے اور ان سب سے کہا ہے کہ جناب ایک طرف تو اخبار کا کاغذ مہنگا ہو گیا ہے اور دوسری طرف جن اشتہاری ایجنسیوں سے پیسے لینے تھے۔ وہ رقم اتنی زیادہ تھی۔ ایک اطلاع کے مطابق وہ 3 ارب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف دو، دو ڈھائی ڈھائی کروڑ کارکنوںکے دینے تھے۔ جو رقم چینلز اور اخبارات نے لینی ہے۔ وہ تو دس گنا بلکہ 20 گنا زیادہ ہے۔ دینے والی رقم سے بہت زیادہ ہے۔میں نے کل چیف جسٹس صاحب سے درخواست کی تھی۔ محترم ایک حکم ان کو بھی جاری فرما دیں۔ پرائیویٹ سیکٹر تو ایک طرف، گورنمنٹ سیکٹر نے جو ہمارے پیسے دینے ہیں۔ وہ پندرہ فیصد جو ایجنسی کمیشن ہوتا ہے۔ وہ متنازعہ ہیں رکھ لیں تا کہ ان کے معاملات جب اشتہاری ایجنسیوں سے ٹھیک ہو جائیں۔ وہ طے کر لیں پیسے دینے ہیں یا نہیں۔ لیکن اخبارات کے 85 فیصد تو ہمیں دلوائیں۔ خاص طور پر سرکاری محکمہ جات سے۔ سندھ کی حکومتی ایجنسیوں کی پبلسٹی بھی ان ہی اشتہارات کے ذریعہ ہوتی ہے۔ ایک ایجنسی کو ایک ارب سے زیادہ ادائیگی ہوئی ہے اس نے ایک پیسہ بھی کسی اخبار کو نہیں دیا۔ میں نے کہا تھا کہ مجید نظامی (مرحوم) نے شہباز شریف صاحب سے کہا کہ ہمارے تو 85 فیصد دینے والی رقم یہاں رکھ دیں اور 15 فیصد جن کا جھگرا ہے کہ بل صحیح ہیں یا غلط۔ اس کو آپ ان کے ساتھ طے کر لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اے پی این ایس، چینلز کی آرگنائزیشن اور سی پی این ای آپس میں مل کر نہیں بیٹھتی۔ ان کا کام پورا نہیں ہو گا۔ عامر محمود، سرمد صاحب سے گزارش ہے کہ چینل اور اخباری صنعت مل کر اس مسئلہ کا حل نکالیں۔ ہمارے دوست ہیں رفیق افغان صاحب، یہ روزنامہ امت کراچی کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ روزانہ اپنے اخبار میں فرنٹ پر ایک چوتھائی سائز کا اعلان چھاپ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سے جو مطالبہ کیا ہے اس میں بہت وزن ہے۔ یعنی اخبار کے واجبات تو انہیں دلوائے جائیں۔ سی پی این ای کی کراچی میں ہونے والی تریب میٹ دی ایڈیٹرز میں ہم نے فاروق ستار صاحب کو بلایا تھا۔ ان کی باتوں کو لوگوں نے بہت سراہا۔ سب نے کہا کہ انہوں نے لندن میں بیٹھنے والے شخص سے علیحدگی کر لی ہے۔ لیکن جب ہم چائے کی میز پر بیٹھے۔ میں نے فاروق ستار صاحب کی خدمت میں درخواست کی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اپنی سیٹیں بچانے کے لئے صرف اعلان کیا ہے لندن آفس سے علیحدگی کا، بانی تحریک سے علیحدگی کا۔ وگرنہ آپ کے لوگوں وسیم اختر و دیگر کے منہ سے واضح نکل جاتا ہے کہ قائد تحریک تو قائد تحریک ہیں۔ علیحدگی کو ثابت کرنا، فاروق ستار اور خالد مقبول کی ذمہ داری ہے۔ آپ لندن آفس کی پھیلائی جانے والی ”لندن“ کو مکمل طور پر چھوڑا چکے ہیں۔ جس میں کہا جا رہا ہے کہ ہم اسرائیل کی مدد سے امریکہ کے بعض عناصر کی مدد سے ”را“ کی مدد سے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اپنا الگ صوبہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کو فری کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے وسیم اختر کی پریس کانفرنس کے وقت بھی ادھر اُدھر فون آ رہے تھے۔ فاروق ستار، مقبول صاحب کوئی خدا کا خوف کریں۔ ایک ہی دفعہ تمام رائے لے لیں۔ بار بار کبھی کہیں سے ہدایات آتی ہیں اور کبھی کہیں سے ہدایات آتی ہیں۔ اپنے پیروں پر بھی کھڑے ہو جاﺅ کیا ساری عمر ماسٹر وائس پر انحصار کرو گے۔ تجزیہ کار عبدالودود قریشی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں تعداد زیادہ ہے لہٰذا جنرل سینٹ پر بھی اور مخصوص سیٹوں پر بھی ان ہی کے ارکان کامیاب ہوں گے۔ مشاہد حسین سید جو پرویز مشرف دور کے سیکرٹری جنرل رہ چکے تھے۔ کچھ ہفتے پہلے تک وہ ق لیگ کے ہی سیکرٹری جنرل تھے۔ اب وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے وزیراعظم نے اب ایم کیو ایم سے بھی مذاکرات کئے ہیں تا کہ قومی اسمبلی کے ووٹ حاصل کئے جا سکیں لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ہی دونوں ممبران کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم نے جنوری کے خبریں میں ہی لکھ دیا تھا کہ سینٹ کے الیکشن بروقت ہوں گے کچھ سرکل کا خیال تھا کہ لوگوں میں تاثر قائم کیا جائے کہ عدالت یا اسٹیبلشمنٹ یہ وقت پر نہیں ہونے دیں گے۔ پرویز مشرف دور میں بھی سینٹ موجود تھی۔ دور چاہے آمر کا ہو یا جمہوریت کا۔ سینٹ کے ارکان مفاہمت ہی سے کامیاب ہوتے ہیں۔ میاں نوازشریف کی سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود سنیٹرز نے پارٹی صدارت کیلئے ان کے حق میں ووٹ دے دیئے۔ یہ مفاہمت پرست لوگ ہوتے ہیں یہ بڑے پیسے خرچ کر کے آتتے ہیں لہٰذا انہوں نے یہ پیسے پورے بھی کرنے ہوتے ہیں اس لئے یہ کسی سے جھگڑا نہیں کرتے۔ چیف رپورٹر خبریں (کے پی کے) شمیم شاہد نے کہا ہے کہ فاٹا میں ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پیسہ چلے گا۔ جماعتوں کے نمائندے موجود تو ہیں۔ اور وہ بھی اربوں پتتی ہیں۔ لیکن پھر بھی یہاں پیسہ چلے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے تینوں ارکان ارب پتی ہیں۔ ان میں سے دو کا تعلق فاٹا سے ہے۔ جے یو آئی فے کے چاروں ارکان ارب پتی ہیں لیکن پیسہ استعمال کئے بغیر وہ بھی جیت نہیں سکتے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے ارکان جو اب آزاد ارکان کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان میں بھی لوگ ارب پتی ہیں۔ پی پی پی کے امیدوار بھی تاجر اور اربوں پتی ہیں۔ اسی طرح آزاد امیدواروں کے بارے بھی کہا جا رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر انویسٹمنٹ کرنے والے ہیں۔ کے پی کے میں کالا دھن سے بنائی ہوئی دولت بہت زیادہ ہے۔ قبائلی علاقوں میں ہمیں کالا دھن بہت زیادہ ہے۔ دوسری جماعتیں بہت کمزور ہیں۔ پنجاب کی نسبت یہاں چھ، سات پارٹییوں کو مینڈیٹ ملا ہوتا ہے جو صوبائی حکومت بناتے ہیں۔ فاٹا میں چار سیٹوں پر الیکشن ہو رہا ہے۔ یہاں پر اپنے نمائندوں کو کامیاب کرانے کے لئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں رشتے داروں اور تعلق کے لوگوں نے بہت بھاگ دوڑ کی تھی۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ چیف رپورٹر خبریں کراچی گل محمد منگی نے کہا ہے کراچی میں اس مرتبہ 35 امیدوار میدان میں ہیں۔ جس میں پی پی پی کے 14 ارکان ہیں۔ لگتا ہے پی پی پی 14 سے کم از کم 12 سنیٹر لے جائے گی۔ علی جان محمد تھوڑا عرصہ پہلے ہی پارٹی میں آیا ہے۔ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم میں اس وقت اہمیت حاصل کر گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے فاروق ستار کے لئے بہت پریشانیاں بنی ہیں۔ جو ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ فاروق ستار کی اہلیہ نے تصدیق کی تھی کہ کامران ٹیسوری کیلئے کوششیں جاری ہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain