تازہ تر ین

فاروق ستار برسوں ایم کیو ایم کے کنونیز رہے ، سارے جرائم کا انچارج نائن زیرو تھا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شریف خاندان کے لندن میں پارک لین و ایجوئر روڈ فلیٹس فہرست میں شامل نہ ہونے کا معاملہ بڑا پیچیدہ ہے۔ ہمارے لندن سے بیورو چیف وجاہت علی خان کے مطابق تو اب نوازشریف و ان کا خاندان پکڑ میں نہیں آئے گالیکن دوسرے ذرائع کے مطابق لندن فلیٹس پر کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ شہباز شریف بھی لندن گئے تھے وہاں ان کی کسی سینئر حکومتی شخصیت سے ملاقات بھی ہوئی تھی شاید وہ اس سلسلے میں ہو۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ برطانیہ میں عدل و انصاف کا بول بالا ہے لیکن اصل میں صورتحال اس سے مختلف ہے۔ کتنے لوگ منی لانڈرنگ میں پکڑے گئے۔ بانی متحدہ کی منی لانڈرنگ پکڑی گئی۔ لیکن ان کے بارے میں دور دراز تک خبر نہیں ملتی۔ ہر مہینے پاکستان سے سارے چندے، بھتے ان کو لندن میں منی لانڈرنگ کے ذریعے ہی جاتے تھے۔ کسی بینک کے ذریعے نہیں جاتے تھے۔ سرفراز مرچنٹ کی کتنی گواہیاں و پیشیاں ہیں لیکن برطانوی حکومت نے اتنے ثبوتوں، گواہوں، دلائلوں و دستاویزات ہونے کے باوجود بانی متحدہ کے خلاف انگلی بھی نہیں ہلائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہال ہاشمی کی گفتگو سنی تھی، مجھے خود بہت شرم محسوس ہوئی۔ انہوں نے سیدھی سیدھی گالیاں دیں۔ یہ چھوٹے و معمولی لوگ ہوتے ہیں جن پرکسی نہ کسی سیاسی جماعت یا حکومت کا ہاتھ رہتا ہے اور پھر کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔ ایک تھرڈ کلاس وکیل کو اچانک بڑا عہدہ مل جائے تو ظاہر ہے وہ مالک کے لئے جان لڑائے گا۔ بادشاہ حضرات کی وجہ سے جب لوگوں کی گردن پر چھری آتی ہے تو وہ معافیاں مانگنے لگتے ہیں۔ چیف جسٹس کی بڑی قوت برداشت ہے جنہوں نے وکلاءکے منع کرنے کے باوجود نہال ہاشمی کی فوٹیج بار بار سنی۔ ایسے نہال ہاشمی بہت سارے موجود ہیں۔ سینٹ اندر کھاتے ہی اپنے ارکان منتخب کر لیتا ہے۔ کوئی میرٹ نہیں صرف وفاداری دیکھی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کا بیان کہ ”جج جرنیل و سیاستدان بیٹھ کر حل نکالیں“ تقریباً ایسا ہی بیان نوازشریف نے بھی دیا تھا۔ رضا ربانی نے بھی کہا تھا کہ میں بیٹھ کرمعاملہ کروا دیتا ہوں۔ سینٹ کا چیئرمین ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ جج و جرنیل کو بلاکر ہدایات دی جائیں۔ اصل میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ سیاستدان جو کرتے ہیں کرنے دو، تم باز پرس کرنے والے کون ہوتے ہو۔ چند دنوں سے مشہور ہے کہ کوئی این آر او ہو رہا ہے سنا ہے مجھے علم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی و نون لیگ دو جنگجو فریق ہیں۔ گزشتہ دنوں شہباز شریف نے کچھ سینئر صحافیوں کو مدعو کیا، میں بھی موجود تھا۔ وزیراعلیٰ عمران کو نیازی کہتے ہیں۔ ان کی نیازی سے بات شروع ہوکر یہی ختم ہوئی۔ دھرنوںکی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچنے کاذکر بھی کیا۔ انہوں نے اپنی ساری توپوں کا رخ عمران کی طرف کیا ہوا ہے۔ عمران خان کی لوجیکل جدوجہد ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ نواز کو نااہل کرانے کے بعد اب مائنس شہباز شریف سیٹ اپ لایا جائے ان کا سارا دباﺅ اسی پر ہے۔ مجھے زرداری صاحب کے کچھ سینئر لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جب تک پنجاب میں شہباز شریف اور ان کی بیورو کریسی کی ٹیم موجود ہے یہاں سے کوئی مائی کا لعل نہیں جیت سکتا۔ اپوزیشن کا اب سارا دباﺅ شہباز پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے تسلیم کیا تھا کہ ساری ضروری فائلیں ماڈل ٹاﺅن جاتی تھیں۔ ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے ذاتی خدمت کی جس پر ان پر نوازشات رہتی ہیں۔ میں بڑی دیر سے ان کو جانتا ہوں، میرے علم میں نہیں کہ کرکٹ کے حوالے سے ان کو کچھ علم ہے۔تجزیہ کار وجاہت علی خان نے کہا کہ نوازشریف نے پارک لین فلیٹ 20,25 سال پہلے خریدے تھے۔ پہلے شہباز شریف بھی یہاں رہتے تھے لیکن انہوں نے چند برس پہلے ایجوئر روڈ پر علیحدہ فلیٹ لے لیا ہے دونوں کے فٹیٹس برطانوی قانون کے زمرے میں نہیں آ رہے۔ حکومت برطانیہ کو تفتیش کے لئے جو لسٹ دی گئی تھی اس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل سب سے بڑی ایڈووکیٹ تھی کہ منی لانڈر و ڈرگ مافیا لندن کو محفوظ جگہ سمجھ کر اربوں پاﺅنڈ کی سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوئٹزر لینڈ میں بھی پوری دنیا کا بلیک و وائٹ پیسہ بینکوں میں پڑا ہے۔ ان کی حکومت جانتی ہے کہ پیسہ کہاں سے اور کیسے آیا لیکن کارروائی نہیں کرتے کیونکہ ان کے ملک میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ آف شور کمپنی کا معاملہ بھی یہی ہے، جان بوجھ کر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ کیوونکہ ان کے ملک میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دباﺅ پر منی لانڈرنگ و ڈرگ مافیا کے خلاف قانون بن گیا ہے جو 31 جنوری سے لاگو بھی ہو چکا ہے لیکن یہ صرف کاغذوں کی حد تک ہی ہے۔ بانی متحدہ کے دفتر سے 5 لاکھ پاﺅنڈ کیش ملے تھے پھر ان کو مختلف جگہوں پر بھی چھپایا بھی گیا تھا اور پھر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے خلاف قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ضیا شاہد نے کہا فاروق ستار کا ایک پرابلم ہے میں نے خود انہیں کہا تھا کہ آپ کے اکثر ساتھی کہتے ہیں یہ بلا شرکت غیرے کنوینر تھے میں نے کہا تھا کہ آپ کے حوالے سے آپ کے قریبی لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ بطور کنوینر یعنی بہت زیادہ اختیارات آپ نے آئین میں تبدیلی کر کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی بات نہیں۔ میرا چونکہ ایشو نہیں تھا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد یہی مسئلہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بیرسٹر فروغ نسیم جو ان کے واحد سنیٹر بنے ہیں ان کی مرضی کے خلاف منتخب ان کاکہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان سے کنوینر منتخب کیا جاتا ہے اگر رابطہ کمیٹی کی دو تہائی اکثریت یعنی10 میں سے 7 یا 8 لوگ خلاف ہو جائیں تو وہ نہیں رہ سکتا وہ اسے اتار بھی سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ ان کا بیان درست ہے۔ فاروق ستار ایک صاحب کو سنیٹر بنانا چاہتے تھے جو نئے آئے تھے۔ بعد میں یہی دیکھا کہ خالد مقبول صدیقی جو رابطہ کمیٹی کے رکن تھے انہوں نے زیادہ ارکان کو ملا کر فاروق ستار کو فارغ کر دیا۔ اس وقت ایک اور شکل سامنے آئی کہ انہوں نے بھی اپنے پاس بہت سارے لوگوں کو ملا کر اپنے آپ کومنتخب کروا لیا لیکن اس وت میں بیرسٹر فروغ نسیم کی یہ بات مختلف ٹی وی چینلوں پر سنی تھی کہ انہوں نے کہا کہ فاروق ستار نے جو لوگ ملائے ہیں وہ رابطہ کمیٹی کے رکن نہیں ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر افسوس ہے کہ فاروق ستار جو بڑے ذہین آدمی ہیں۔ اتنے برسوس سےے قومی اسمبلی میں لیڈر تھے۔ اور الطاف حسین کی بھی بہت بات مانتے تھے۔ میں ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں۔ میں نے ایک تقریب میں ان سے یہ سوال کئے تھے کہ ڈاکٹر فاروق ستار صاحب آپ سیاہ و سفید کے مالک ہیں کم از کم پاکستان کے اندر ایم کیو ایم آپ کے انڈر ہے۔ایم کیو ایم کی پارلیمانی پارٹی کے بھی سربراہ تھے۔ لیکن یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کیا آپ اس کو تسلیم کریں گے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین جن کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر کے تحت ان کی تقاریر اور ان کے بیانات چھاپنے پر پابندی لگ گئی تھی کیا آپ تسلیم کریں گے کہ اگر وہاں 3 سو شہریوں کو کسی فیکٹری میں جلایا گیا تھا اور اب ساری تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ حکم ملا تھا کہ ان سے کہ اتنا بھتہ دو۔ انہوں نے نہیں دیا تو ان کی فیکٹری جلا دی گئی۔ اتنے سارے لوگ چائنہ کٹنگ سے شروع ہو کر زمینوں پر قبضے تک اور 280 سے زیادہ سرکاری زمینوں پر ایم کیو ایم کے دفاتر بنانے کے، فطرانہ لینے کے، عید کے موقع پر کھالیں جمع کرنے پر اور سب سے زیادہ یہ کہ بھتہ لینے کے دکانداروں سے جو اوپن چٹیں دے دی جاتی تھیں کہ اتنے پیسے جمع کراﺅ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جو رقم ہر ماہ جو ثابت بھی ہو گیا وہاں کہ ہر ماہ قائد تحریک کو لندن بھیجی جاتی تھیں۔ کیا آپ ایک منٹ کے لئے بھی تسلیم کر لیں گے کہ اس کام میں ہمارے محترم ڈاکٹر فاروق ستار کا ہاتھ نہیں تھا۔ کیا یہ قوال جن کا قتل ہوا تھا۔ امجد صابری کا اپنا بیان تھا کہ مجھے پیسے دینے کے لئے کہا گیا اور جب انہوں نے کوشش کی کہ کچھ دینے کی بجائے کہ بیچ بچاﺅ سے کام چل جائے تو پھر آرڈر آیا کہ اس کو قتل کر دو۔ معاف کیجئے گا کیا یہ آرڈر اؑٓسٹریلیا سے آئے تھے یا سوئٹزرلینڈ سے آئے تھے اور یہاں نان زیرو پر کون انچارج تھا۔ یہ انچارج تھے لہٰذا میں فاروق ستار کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میرے بھائی انسان جو کچھ کرتا ہے دنیا میں قدرت کا ایک نظام ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے بعض دفعہ برے کی رسی دراز ہو جاتی ہے کہ کر لے جو کچھ کرتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ یوں جھٹکا دیا جاتا ہے اور وہ منہ کے بل گرتا ہے۔ ہر ایک آدمی جو کوئی اور ظلم کرتا ہے شاید اس کی معافی مل جائے مگر خون کی معافی نہیں ہے۔انہوں نے کہا میرا خیال ہے کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ نوازشریف کے بعد شہباز شریف نے بھی تقریباً یہی بات کی ہے کہ جج جرنیل اور سیاست دان مل بیٹھ کر حکومت کا فیصلہ کریں۔ اس سے پہلے رضا ربانی نے بھی یہی بات کہی تھی۔ تعلق ان کا پیپلزپارٹی سے زیادہ لیکن وہ بولی شہباز، نوازشریف کی بولی بول رہے ہیں کہ میں بیٹھ کر طے کروا دیتا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وردی والے کالے کوٹ والوں کی کوئی حیثیت نہیں اور ان دنوں مشہور ہے کہ کوئی نیا این آر او ہو رہا یا ہونے والا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ہورہا ہے یا نہیں۔سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے کہا ہے جب تک آئین ہے کوئی گنجائش ان تینوں اداروں کے اکٹھا بیٹھنے کی یا اکٹھا بیٹھ کر فیصلہ کرنے کی بالکل موجود نہیں۔ مقننہ اپنے فیصلے کرتی ہے، عدلیہ اپنے فیصلے کرتی ہے۔ اور فوج اپنے کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آئین کے تابع چھتری کے نیچے تینوں ادارے اکٹھے بیٹھیں اور آپس میں ایک نیا آرڈر پیدا کریں۔ضیا شاہد نے کہا شہباز شریف فرما رہے ہیں اس سے پہلے نوازشریف کہہ چکے ہیں، رضا ربانی ماشاءاللہ خود بڑے قانون دان ہیں ان سب کا منشا یہ ہے کہ پاکستان میں ایک چیز این آر او کے نام سے ہو چکی ہے۔ جس میں خاص پیریڈ میں تمام لوگوں کے گناہ، جرائم، الزامات معاف کر دیئے گئے تو اب کیوں نہیں ہو سکتا۔ خالد رانجھا نے کہا کہ مقننہ آئین میں راستہ نکال سکتی ہے باقی کسی ادارے کو اختیار نہیں۔ضیا شاہد نے کہا جو پچھلا این آر او ہوا تھا آپ مشرف کے دور میں وزیر قانون بھی رہے ہیں کیا ججوں نے راستہ نہیں نکالا تھا یا امریکہ کی وساطت سے بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان ابوظہبی کے شاہی محل میں ملاقات ہوئی میرے دوست محمد علی درانی جو اس وقت وزیراطلاعات تھے انہوں نے اسی روز مجھے اطلاع دی تھی وہ اندر ملاقات میں شامل نہیں تھے لیکن باہر والے کمرے میں بیٹھے تھے۔ جناب اس کا مطلب یہ ہے کہ مقننہ بیچ میں کیسے آ گئی۔ پرویز مشرف نے اور بینظیر بھٹو نے آپس میں مذاکرات کئے پھر آپ کی قانون کی وزارت نے جھٹ پٹ ایک این آر او لکھا اس پر صدر نے دستخط کر دیئے تو جناب اس کا مطلب ہے اب بھی ہو سکتا ہے۔ خالد رانجھا نے کہا وہ پانی بالکل پل کے نیچے گزرا تھا اور بذریعہ قانون ہوا تھا۔آج پارلیمنٹ استثناءدے سکتی ہے اور کوئی نہیں دے سکتا۔ضیا شاہد نے کہا کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے خود تسلیم کیا کہ ساری فائلیں ماڈل ٹاﺅن جاتی تھیں۔ انہوں نے خصوصی خدمات انجام دیں تو انہیں اس خوشی میں یہ اعزاز بخشا گیا کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے۔ جس کے پاس اتنا بڑا بجٹ ہوتا ہے وہ ادارہ ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔حالانکہ وہ کرکٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain