لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا نااہلی مدت کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے مختلف ٹاک شوز میں کچھ قانون دانوں کو کہتے سنا کہ عدالت عظمیٰ کو تاحیات نااہل کرنے کا اختیار ہی نہیں۔ حیرت ہو رہی تھی کہ اعتراض تو سپریم کورٹ کو ہوا کرتا ہے۔ اس پر بھی بحث ہو رہی تھی کہ فرض کریں تاحیات نااہل کر بھی دیا تو پارلیمنٹ میں اکثریت ہے۔ جب نوازشریف کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا تو اس وقت بھی قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔ ابھی بھی رانا ثناءاشارہ دے رہے ہیں کہ ”جب ہماری باری آئے گی“ یہ سمجھ نہیں آتا کہ ابھی بھی تو انہی کی باری چل رہی ہے۔ نون لیگ کے رہنما نواز شریف کے خلاف فیصلوں کے مخالف ہیں، کچھ قانون دان کہتے ہیں کہ عدالت کو ایسے فیصلے کا حق ہی حاصل نہیں تھا۔ اس کا مطلب کہ مستقبل میں عدالتوں میں ایسے کیسز آنے والے ہیں۔ نون لیگ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں، موجودہ پارلیمنٹ کے تحت کوئی آئینی ترمیم نہیں کر سکتی کیونکہ اس وقت ہاﺅس تقسیم ہے، 2 سال پہلے کی طرح نون لیگ کی اکثریت نہیں۔ مذہبی مفاہمت کے جذبے کے تحت رضا ربانی ان کے ساتھ ملیں گے، ماضی کی طرح شاید پی پی آج ان کے ساتھ اتفاق نہ کرے۔ لگتا ہے کہ فیصلے کو واپس کرانے والی کوشش کامیاب نہیںہو گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں جبتک اس پر کوئی نیا فیصلہ نہیں آتا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ غالب رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تجزیہ کار کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ عدالت عظمیٰ کو ہر معاملے میں ازخود نوٹس لینے کا موقع خود سرکاری اداروں، صوبائی و وفاقی حکومت نے دیا۔ ایک زمانے میں نوازشریف مشہور تھے اگر بارشوں سے شمالی لاہور کی سرکیں ڈوب جاتی تھیں تو خود وہاں جاتے تھے۔ یاد رہے ایک بار انہوں نے مجھے بھی میرے دفتر میں فون کر کے کہا کہ فلاں علاقے کا چکر لگانے جانا ہے آپ بھی ساتھ چلیں۔ ایک زمانہ تھا جب وہ لوگوں کے دکھوں کو جاننے کیلئے خود ان کے پاس جاتے تھے۔ شہباز شریف بھی ایک زمانے میںبہت متحرک ہوتے تھے، لمبے بوٹ پہن کر بارشوں کے پانی سے ڈوبے علاقوں میں جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے نواز، مریم کو پورا حق حاصل ہے جس طرح کی مرضی جیت کے دعوے کریں۔ تھوڑے دنوں میں گھوڑے، گھوڑیاں نکلیںگے دیکھتے ہیں کون آگے نکلتا ہے۔ یہ اختیار کسی کو نہیں کہ وہ کہے کہ قیامت تک بس وہی کامیاب ہوتے رہیں گے، اگر نواز لیگ کے ذہن میں یہ ہے تو میں تصحیح چاہوں گا۔ دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں ہو سکتا ہے نوازشریف کو ہمدردی کا اتنا ووٹ ملے کہ وہ زورو شور سے کامیاب ہو جائے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح 6 مہینے، سال میں اس جماعت کی مٹی پلید ہوئی، ہر آنے والا کیس ایک ہی بات ثابت کرتا ہے کہ اس جماعت کے مالی معاملات شفاف نہیں۔ لوگوں کو ابھی تک اس بات کا یقین نہیں آیا، وہ کہتے ہیں کہ نوازشریف نے بدعنوانی کی ہو گی لیکن کام بہت کروائے ہیں۔ ملک کی 62 فیصد آبادی کا صوبہ پنجاب ہے۔ جنوبی پنجاب میں موومنٹ چلنے کے بعد اب اگر نون لیگ پنجاب میں پہلے کی طرح کلین سوئپ کرگئی تو پھر کسی کو اچھا لگے یا نہیں، ان کی حکومت کو ماننا پڑے گا۔ قانون دان علی احمد کرد نے کہا کہ ملک میں ڈیڑھ سال سے ہوتا آ رہا ہے کہ اپنی مرضی کے حالات و واقعات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں نوازشریف کی جانب سے فیصلہ تسلیم نہ کرنے کی اہمیت ہے۔ پہلے وزارت عظمیٰ سے پھر پارٹی صدارت سے نااہل کیا اور اب الیکشن لڑنے سے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ نوازشریف باہر نکلتے ہیں تو لاکھوں کا مجمع آ جاتا ہے، عوام کی عدالت کا فیصلہ زیادہ مو¿ثر ہے۔ بھٹو کی پھانسی کو آج جوڈیشل مرڈر کہا جاتا ہے، اگر اس وقت سپریم کورٹ غلطی کر سکتی تھی تو آج بھی کرسکتی ہے۔ ایسی عدالتوںکو بند ہونا چاہئے جو جرم کو ثابت کرنے کے مروجہ قوانین کو چھوڑ کرفیصلہ کرتی ہیں۔ ایسے فیصلوں کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ پانامہ میں 500 نام ہیں لیکن صرف ایک شخص کو چُن کر کیس بنایا گیا۔ میاں صاحب کو جو سزا ہوئی کسی مروجہ قانون کے کسی سیکشن میں نہیں آتی۔ الزامات کی بنیاد پر سزائیں ہو رہی ہیں۔ پارلیمنٹ سپریم ہے اس سے آئین کو تشکیل دیا ہے۔ قانون دان خالد رانجھا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نااہلی مدت کیس پر آئین کے مطابق اور درست فیصلہ دیا۔ آئین میں ہے کہ پارلیمان کوئی غیر اسلامی قانون نہیں بنا سکتی، 62,63 اہم اسلامک قوانین ہیں اس پر ترمیم کی بھی گئی تو غیر آئینی ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمان کے پاس اختیار ہے، اگر وہ چاہیں توکسی ترمیم کو ماضی کی تاریخوں سے بھی لاگو کرسکتے ہیں لیکن عدالت منظور نہیں کرے گی۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ حکومت نااہلی مدت کیس پر فیصلے کو نہیں مانے گی۔ نون لیگ کو واضح دکھائی دے رہا تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہے، صفائی پیش کی نہ شواہد دے سکے۔ نوازشریف نے اپنا سیاسی بیک اپ بنانا ہے، الیکشن لڑنا ہے وہ کیسے کہہ دیں کہ ان کو فیصلہ قبول ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے، فیصلہ آ گیا ہے۔ نااہلی کے بعد انہوں نے ترمیم کرکے پارٹی صدر بنایا جسکی سپریم کورٹ نے اجازت نہیں دی تو انہیں اس فیصلے کوماننا پڑا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے۔ جو ہونا تھا ہو گیا اب نوازشریف کو آگے بڑھنا چاہئے، اپنی ذات سے زیادہ جماعت کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترمیم کر کے نوازشریف کو واپس لانا نون لیگ کی خواہش ہو سکتی ہے۔ نون لیگ کے پاس دو سنہری مواقع آئے تھے جب 62,63 پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا تھا، نوازشریف نے پی پی کی تجویز کے باوجود ایسا نہیں ہونے دیا آج وہی ان کے سامنے آ گیا ہے۔ مستقبل قریب میں نوازشریف واپس لانے کی کوئی ترمیم دکھائی نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کے خلاف نون لیگ کی احتجاجی تحریک چلتیدکھائی نہیں دیتی، اگر تحریک چلی تو دیگر لوگوں کو ساتھ ملائیں گے کیونکہ ہم نے آئین و آزاد عدلیہ کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ عدلیہ پر جو دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس میں رکاوٹ ڈالتے رہیں گے۔ 29 اپریل کولاہور جلسہ میں عمران خان اہم پیغام دیں گے۔ ان میں ایک پیغام یہ بھی ہے کہ تاریخ میںپہلی مرتبہ ایک طاقتور و خوفناک طبقے کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔ تحریک انصاف قانون کی حکمرانی و آئین کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ ایڈووکیٹ جی اے خان طارق نے کہا کہ مجاز اتھارٹی کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا توہین عدالت ہے۔ یہ باقاعدہ ایک پٹیشن پر فیصلہ ہے، نون لیگ خود سپریم کورٹ کے پاس وضاحت کے لئے گئی تھی کہ نااہلی مدت کتنی ہوتی ہے۔ 62 ون ایف کی تشریح پہلے سے موجود تھی اب واضح طور پر فیصلے کی صورت میں آ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس عظمت سعید کے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ”ہم نے قانون و پارلیمان پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی، سپریم کورٹ کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کوئی قانون آئین کے منافی تو نہیں۔ ہم نے ابھی بھی کسی پر یہ دروازے بند نہیں کیا کہ وہ ایسی ترمیم کرے جس میں ون ایف کی مدت کا تعین کر سکتے ہیں۔“ پارلیمنٹ میں اس کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے آگے ہر ذمہ دار شہری کو سرتسلیم خم کرنا ہے۔