لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نواز شریف و مریم نواز کی گفتگو میں کئی جملوں سے محسوس ہوتا تھا کہ عدلیہ پر تنقید ہو رہی ہے اور پھر ان کی تقاریر پر پابندی کا جو فیصلہ آیا تھا وہ لگتا تھا کہ بانی متحدہ والے فیصلے کے تناظر میں ہے لیکن گزشتہ روز پتہ چلا کہ شاید وکلاءفیصلے کے انگریزی حروف ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس یہ کہتے ہوئے نمٹا دیا کہ اس کا مطلب پابندی لگانا نہیں تھا۔ 8,6 مہینے سے کچھ وزراءبڑھ چڑھ کر گفتگو کر رہے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کا کب نوٹس لیتی ہے۔ لگتا نہیں کہ نوازشریف اور ان کے ساتھی اپنے مسلسل طرز عمل سے گریز کر سکیں۔ ان کے کیسز فیصلے کی طرف بڑھ رہے ہیں، کوئی پتہ نہیں کیا فیصلہ ہو لیکن اگر سزا ہوئی تو نوازشریف اس کی تیاری کچھ اس انداز سے کر چکے ہیں کہ ملک بھر میں فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریک شروع کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سیاسی جماعت کا اپنا اپنا عوام ہے، ہر کوئی اس کو اپنے معنی میں لیتا ہے، یہ بڑب غریب و مظلوم سا لفظ ہے۔ جب تک عدالتیں تنقیدی جملوں، طنزیہ گفتگو پر خود نوٹس نہیں لیتیں اس وقت تک یہی جانا چاہئے کہ جمہوریت ہے ہر شخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔ واجد ضیا کے ساتھ جتنی بھی گفتگو ہے اس میں کہیں بھی نواز شریف نے جائیداد کو تسلیم نہیں کیا، اس لئے مریم نواز نے کہا کہ کیس ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف کی جائیداد ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن اتوار و پیر کو جو دستاویز دکھائی گئی ہیں وہ ثابت کرتی ہیں کہ لندن میں نوازشریف کے بچوں کی نہ صرف جائیداد موجود ہے بلکہ اس کی مالیت 300 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ نواز کے گرد قانون کا شکنجہ کافی سخت جا رہا ہے،لگتا ہے کہ 15,10 دنوں میں ان کے خلاف فیصلہ آنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طیبہ تشدد کیس میں سابق جج اور ان کی اہلیہ کو ایک ایک سال سزا کے فیصلے سے ذاتی طور پر بڑی خوشی ہوئی۔ ملک میں غربت ایسی لعنت ہے کہ جس میں مبتلا لوگ ہمت ہی نہیں رکھتے کہ وہ کسی امیر یا ایسے شخص سے جس کا تعلق پولیس یا عدلیہ سے ہو، انصاف لیں لیکن اس کیس میں اخبارات کی اطلاعات کے مطابق ورثاءکی جانب سے معافی دے دی گئی تھی لیکن عدالت نے کہا کہ بچی کے جسم پر تپتی سلاخیں رکھ کر اس کا گوشت جلانے جیسے جرم کو معاف نہیں کر سکتے۔ طیبہ کیس میں سپریم کورٹ و تمام ہائیکورٹس کے فیصلوں سے بڑا فیصلہ سمجھتا ہوں۔ یہ میاں بیوی بچی کے جسم کو دہکتی سلاخوں سے داغتے رہے۔ یہ انسانی عمل نہیں۔ لگتا نہیں یہ جج تھے یہ تو جانور تھے، کسی معصوم پر ایسے بدترین تشدد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ عدل و انصاف سے سے عاری معاشرے زندہ نہیں رہ سکتے۔ خوشی ہے کہ پاکستان میں آج اس فیصلے نے یہ بات تازہ کر دی کہ آج بھی عدالتیں موجود ہیں جو غریب والدین کے معافی دینے کے باوجود بچی پر بدترین تشدد کو معاف نہیں کرتیں۔ سابق جج اور ان کی اہلیہ کو جو ایک ایک سال کی سزا ہوئی، یہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ ایک رپورٹ پڑھی جو صرف ضلع قصورسے متعلق تھی کہ کتنے لاکھ بچے و بچیاں لاہور و دیگر بڑے شہروں سے 50 ہزار یا لاکھ روپے دے کر لے آتے ہیں اور پھر برسوں رکھتے ہیں، کبھی دل کیا تو ورثاءکوئی پیسہ دے دیا نہیں تو سمجھا یہ جاتا ہے کہ عمر بھر کیلئے خرید لیا گیا ہے۔ ایسی بچیاں و بچے جن گھروں میں پلتے ہیں، کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر گھروں میں ان کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ وہ بے چاری نہ اپنے والدین کو بتا سکتی ہے اور نہ قانون ان کی مدد کرتاہے۔ طیبہ کیس فیصلے نے ایک راستہ دکھایا ہے کہ اگر غریب والدین سے معافی نامہ لکھوا بھی لیں تو قانون حرکت میں آئےگا۔ نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ خاص طور پر اس فیصلے نے غریبوں کے بچوں کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ سعد رفیق کی پیرا گون سٹی میں جائیداد ثابت ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج کے حکمران طبقات کے جو لوگ ہیں ان میں سے بہت ساروں کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ جو آج کے ملزم ہیں جب ان کا باپ مرا تھا تو وہ کس حالت میں تھے، ان کے گھر کا رقبہ کیا تھا؟ والد کا کاروبار کیا تھا؟ جب اس کی دکان فروخت ہوئی تو ٹوٹل رقم 22 ہزار حاصل ہوئی تھی لیکن آج اندازہ کریں تو لگتا ہے کہ 30,30 ارب دونوں کے حصے میں آئے۔ لوٹ مار کا نظام ملک میں رائج ہو چکا ہے۔ فیصلہ بہتر نہیں کیا ہو گا لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح بات چل نکلی ہے، بہت سارے لوگوںکو سبق ملے گا کہ ایسی بات نہیں آپ بھوکوں مرتے ہوں، لوگوں کے چندوں پر سکول جاتے ہوں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے پاس اربوں روپے ہوں۔ ایک ایک ڈیل سے پتہ چلے کہ فلاں کے حصے 30 ارب، فلاں کے حصے ڈیڑھ سو ارب آئے۔ قانون میں ہے کہ ثبوت فراہم کرنا استغاثہ کا کام ہے۔ غبن، چوری، ڈاکہ، قتل سمیت کوئی بھی مقدمہ ہو جب پوچھا جانا ہے کہ مجرم ہو یا نہیں تو پوری دنیا میں جواب ”نہیں“ ہوتا ہے پھر استغاثہ کا کام ہے وہ شواہد، گواہیاں و دستاویزات جمع کرے اور ثابت کرے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ استغاثہ ثبوت لاتا ہے اور دوسری طرف اگر وکیل تگڑا ہے تو وہ اسے جھٹلا دیتا ہے اس طرح ملزم بچ نکلتا ہے، یہ ایک جھوٹ اور غبن کرکے چھپانے کا سسٹم ہے جس کی بنیاد پر پورا معاشرہ فاتح ہے، یہ کسی ایک حکومت کی بات نہیں کر رہا۔ اگر اس معاشرے کو زندہ رہنا ہےتو پھر کچھ کرنا پڑے گا کیونکہ صرف وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن کے پاس عادل حکمران ہوتے ہیں۔ جن کے حکمران کرپٹ، بے ایمان، بدمعاشی و غبن کرتے ہیں وہ قومیں کبھی پنپ نہیں سکتیں، تاریخ کا یہ فیصلہ ہے اس کو پھر نقشہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ پوچھتا رہتا ہوں تو نیب کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت تک کسی کو نہیں پکڑتے جب تک کسی کے خلاف کم سے کم 50 فیصد ثبوت نہ ہوں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ اس پکڑ دھکڑ کے نظام کو رائج رہنا چاہئے۔ہر دوسرے شخص سے سنتا ہوں کہ پانامہ ہے تو پھر کیا ہوا، حیرت کی بات ہے کہ اس کی وجہ سے 2 ملکوں کے وزرائے اعظم نے استعفیٰ دے دیا۔ یہاں پر آدمی رعب دکھاتا ہے، ججوں کو دھمکیاں دیتا ہے، بعض جیالے اٹھ کر ججوں کے گھروں پر گولیاں بھی چلاتےہیں۔ اگر ہم نے اسے سرزمین بے آئین بنانا ہے تو پھرمرضی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہو گا۔ انارکی کی کیفیت ہو گی اور پھر طاقتور جیت جائے گا، کمزور مارا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے جو الفاظ میں نے سنے وہ اتنے خوفناک ہیں کہ یہ باتیں ڈھکی چھپی تھیں، لوگ اندر کھاتے جانتےتھے لیکن کسی نے آج تک کہنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نے پولیس کی ایسی تیسی پھیر دی۔ ثابت کیا کہ پولیس سب سے بڑی خود کرمینل ہے۔ پولیس میں خواتین افسرو اہلکاروں کے بڑے مسائل ہیں۔ پولیس خواتین میری بیٹیوں و بہنوں کی طرح ہیں۔ بڑی عزت کرتا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ وہ اس عذاب سے نکلیں۔ سوڈیڑھ سو افسروںکی فہرستیں دے سکتا ہوں کہ کس پولیس افسر کی کتنی کتنی شادیاں، دوستیاں اور کتنے کتنے گھروںمیں کتنی خواتین داشتاﺅںکے طور پر رکھی ہوئی ہیں۔ پولیس کے بارے جج نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ ہر قسم کا جرم پولیس افسران کراتے ہیں۔ پولیس فورس کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ملک میں وہ وقت آنے والا ہے کہ بیوروکریٹس و ظالم پولیس والوں کی گردنوں میں کپڑا ڈال کر لوگ سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ ہر صوبے کے آئی جی و دیگر افسران کو اپنی پولیس پر کڑی تنقید کرنی چاہیے۔ صرف پولیس افسران کی شادیوں بارے پتہ کر لیں خوفناک صورتحال نظر آئے گی۔ بڑے بڑے کے چہروں سے نقاب اتر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بنے چند مہینے گزرے تھے کہ پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان پانی کی کمی کے باعث ختم ہو جائے گا۔ آج جس طرح ڈیموں میں پانی کم ہو رہا ہے۔ دریاﺅں میں پانی نہ چلنے کی وجہ سے انڈر گراﺅنڈ واٹر نیچے سے نیچے چلا جا رہا ہے۔ لاہور میں پینے کا صاف پانی ساڑھے 600 فٹ نیچے ملتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے عقب میں آخری ٹیوب ویل لگا، جہاں 1350 فٹ نیچے جا کر میٹھا پانی نکلا۔ ایسے ملک کا کیا مستقبل ہے۔ ہم پینے کے پانی کے ہاتھوں محتاج ہو جائیں گے۔ انڈر گراﺅنڈ واٹر میں سب سے مہلک زہر سنکھیا کی معمولی مقدار شامل ہو تی جا رہی ہے۔ لوگ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ اتنی خوفناک صورتحال ہے کہ اگر اس مسئلے کا حل تلاش نہ کیا گیا تو پینے کے پانی کے ہاتھوں کینسر، ہیپاٹائٹس، کڈنی وغیرہ کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے سیاستدانوں، بیوروکریٹس کو ا پنے گھر بھرنے اور ملک سے باہر پیسہ جمع کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے چیف جسٹس حضرات ذرا بیوروکریٹس پر تحقیق تو کرائیں کہ کتنوں کے بچے باہر پڑھتے ہیں، ان کی تنخواہ اور باہر بھیجی جانے والی رقم سے اندازہ لگا لیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن مہینہ، 2مہینہ آگے پیچھے ہو سکتے ہیں، غیرمحدود وقت کےلئے ٹالنا مشکل ہو گا۔ ملک میں الیکشن ہو کر رہیں گے۔ دعا ہے کہ عوام بہتر لیڈرشپ منتخب کر سکیں۔ جنوبی پنجاب میں الگ صوبے کے حوالے سے موومنٹ چل پڑی ہے۔ شہباز شریف نے اچھا فیصلہ کیا تھا کہ ملتان میں سیکرٹریٹ بنا کر وہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری و ایڈیشنل آئی جی بٹھائیں گے۔ جگہ بھی مخصوص ہو گئی اور اس کی تعمیر بھی شروع ہونے والی تھی پھر پتہ نہیں ان کو کس عقلمند نے مشورہ دیا کہ یہ کام نہ کریں۔ اب شہباز شریف صاحب آپ جتنا مرضی شور مچالیں، کوشش کر لیں ٹرین آپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ کاش آپ اس علاقے کے لوگوں کو صوبہ نہیں دے سکتے تو کم سے کم سیکرٹریٹ ہی دے دیتے۔ میری خواہش ہے کہ اورنج ٹرین ہارون آباد، بہاولپور میں بھی ہو۔ نیشنل فنانس کمیشن جس طرح صوبوں کو آبادی کی بنیاد پر فنڈز دیتا ہے پنجاب میں بھی ہر ضلع کو اس کی آبادی کی بنیاد پر فنڈز دیں تاکہ اسے اسکے حقوق مل سکیں۔ قانون دان خالد رانجھا نے کہا کہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو جو ڈھیل دی جا رہی ہے، یہ گلے کا رسہ بن جائے گا۔ نواز شریف بضد ہیں کہ عدلیہ کی تضحیک کرنی ہے، لگتا نہیں کہ اس میں تبدیلی آئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا فیصلہ الفاظ کی ادائیگی میں بہت اہم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس لہجے میں عدالت تنبیہہ کر رہی تھی، ڈانٹ پلا رہی تھی۔ عدلیہ مخالف تصاویر پر پابندی کے پہلے فیصلے کو رپورٹر حضرات ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے۔
