تازہ تر ین

ون ٹو ون مقابلہ ہوتا تو اعتزاز مضبوط امیدوار ، اب عارف علوی کی جیت یقینی : ضیا شاہد ، امریکہ کو پیغام دیا گیا ہے کہ صرف اپنا مفاد نہیں پاکستان کا بھی سوچے : خورشید قصوری ، نئی حکومت منی لانڈرنگ پر پالیسی بنائے ، قانون سازی کرے : علی ظفر ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میرا خیال ہے کہ پاکپتن والا واقعہ بہت معمولی سی بات تھی لیکن وزیراعلیٰ ہاﺅس اور وزیراعلیٰ کے ملنے والے لوگوں کی طرف سے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور ہر آنے والے دن میں 3,2 کردار اور سامنے آ جاتے ہیں۔اس قسم کے معاملات میں سیدھا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انسان معذرت کر لے، سوری کر لے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو معاملہ وہاں ختم ہو جاتا ہے لیکن کچھ لوگوں نے جھوٹی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو ہم نے کر دیا وہ صحیح ہے اور اب ہم ہر گز اپنے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سیاست میں اس قسم کا رویہ نقصان پہنچاتا ہے۔ اس واقعہ کو کتنے دن گزر چکے ہیں۔ اب تک یہ معاملہ کب سے ختم ہو چکا ہوتا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ کسی بھی ملک میں پانچ برس کے بعد صدر کا انتخاب ہوتا ہے جس صورت میں یہ انتخاب ہو رہا ہے اس میں اگر تو ون ٹو ون مقابلہ ہوتا تو سمجھا جا سکتا تھا کہ ایک طرف حکومت ہے ایک طرف اپوزیشن ہے۔ لیکن اب تک جو صورت حال نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے دو امیدوار ہیں نظر یہ آتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر ہارنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ون ٹو ون مقابلہ ہو تو پھر تو قدرتی طور پر اس میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اب تو صرف یہی دیکھنا ہے کہ کتنے کم ووٹ ملیں گے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور بڑی دلچسپ صورت حال ہے کہ نہ اعتزاز احسن کے کھڑا کرنے والے ہیں وہ ایک منٹ کے لئے سوچنے کو تیار ہیں کہ ہم اپنا امیدوار واپس لے لیں نہ مولانا فضل الرحمان اس بات پر تیار ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی ان کو یہ کہیں کہ آپ بیٹھ جائیں۔ بہرحال میں یہ سمجتا ہوں کہ آخری وقت تک بھی یہ صورتحال اسی طرح سے رہے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عین 5 منٹ پہلے کوئی ایک فریق بیٹھ جائے لیکن بظاہر نظر نہیں آتا کہ ”ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔“ اس حساب سے یہ دونوں اصحاب ایک دوسرے کو لے ڈوبیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی کو فائدہ ہو گا اور وہ آسانی سے جیت جائیں گے اس لئے کہ ان کے مقابلے میں دونوں حضرات اعتزاز احسن اچھے امیدوار ہیں۔ قانون سے واقف ہیں سیاست سے بھی واقف ہیں۔ سنیٹر بھی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ تحریک استقلال میں ہوتے تھے تو مجھے وہ لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر ملے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ تحریک استقلال سے میرا تعلق ہے جناب ایئر مارشل اصغر خان کی پارٹی سے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پارٹی چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے تو اس وقت سے لے کر اب تک وہ پیپلزپارٹی میں ہیں اور اگرچہ دو ایک مرتبہ انہوں نے وقتی طور پر پارٹی چھوڑی بھی ہے لیکن وہ دوبارہ پارٹی میں آ جاتے ہیں۔ لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر ان کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمان دستبردار نہ ہوئے تو ان کا جتنا بڑا مشکل ہے اور مولانا فضل الرحمان کا جیتنا بھی مشکل ہے لیکن پتہ نہیں کس خوش فہمی کی بنیاد پر آصف زرداری صاحب تو اب تک یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا امیدوار جیت جائے گا۔ پتہ نہیں ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں مولانا فضل الرحمان کے ہوتے بھی ان کا امیدوار جیت جائے گا۔ شاید دونوں امیدوار اس فلسفے کے قائل ہیں کہ ”نہ جتناں ایہہ نہ جتن دینا اے“۔
احسان ناز نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی آرام سے جیت جائیں گے اگر یہ دونوں اکٹھے ہو جائیں تو پھر شکست ان کا مقدر ہے اس لمحے مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری سے ملاقات کر رہے ہیں اور اس وقت یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں متحدہ طور پر پی ٹی آئی کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑنا چاہئے لیکن وہ کسی صورت یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جب کہ آج شہباز شریف نے لاہور میں اپنے ارکان کا اجلاس بلایا اور ان سے حلف لیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دیں گے اس میں کچھ لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان کو اچھا نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہماری پارٹی کا کوئی بندہ کھڑا ہوتا تو ہم اس کو ووٹ دیتے حالانکہ وہ پہلے چاہ رہے تھے کہ متحدہ اپوزیشن کا کوئی امیدوار ہو تو ہم اس کو ووٹ دے سکتے ہیں، عارف علوی 342 ووٹ حاصل کریں گے پیپلزپارٹی کے امیدوار 115 ووٹ حاصل کریں گے جبکہ مولانا تمام اتحادیوں کو ملا کر کل 200 کے قریب ووٹ حاصل کریں گے۔ عارف علوی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ کیا الیکشن شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے بھی کوئی امکان ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور اعتزاز احسن میں سے کوئی ایک شخص وہ دوسرے کے مقابلے میں دستبردار ہو جائےگ گا۔
احسان ناز نے کہا کہ سیاست میں سب چلتا ہے اور یہ ایک منٹ پہلے بھی ہو سکتا ہے لیکن جو سیاسی صورتحال مجھے نظر آ رہی ہے مجھے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مولانا فضل الرحمن کا طرز عمل رہا ہے کہ وہ ہمیشہ برسراقتدار پارٹی سے ڈیل کرتے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ ان کی ڈیل ن لیگ سے پہلے سے چل رہی تھی اس لئے وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی کمٹڈ ہیں وگرنہ وہ عام طور پر جیتنے والی جماعت یا برسراقتدار پارٹی کے ساتھ عام طور پر ہوتے ہیں۔ مولانا کا جس طرح منسٹر انکلیو سے سامان اٹھا کر باہر پھینکا گیا اس پر شعر صادق آتا ہے۔
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
بہتر ہوتا ہے کہ اب وہ الیکشن ہار چکے، بہتر ہوتا کہ وہ سرکاری رہائش گاہ خود ہی چھوڑ دیتے۔ آخر کار انہیں جانا ہی پڑا ہے، اتنا ڈھیٹ پنا دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔
آصف علی زرداری کے امیدوار کے ووٹ کم ہو سکتے ہیں لیکن اعتزاز احسن اچھے پارلیمنٹیرین رہے ہیں ان کے مقام سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ انکے ہارنے سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہو گا کیونکہ وہ اچھے سکالر ، قانوندان ہیں۔ انہوں نے سندھ ساگا پر اچھی کتاب لکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر انکی بہت خوبصورت اور طویل نظم دیکھی، اسے اخبار میں چھاپنے کیا سوچ رہا تھا۔ معلوم نہیں تھا کہ وہ اچھے شاعر بھی ہیں۔ مولانا کا اعتزاز احسن سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک مولوی کو پاکستان کا صدر ہونا چاہئیے جنہیں انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا اور تیقن سے کہتے ہیں کہ میں موذوں امیدوار ہوں۔ انگریزی زبان قانون ، انٹرنیٹ کی زبان ہے نہ کہ بہت اچھی زبان ہے۔ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ انگریزی میں آتا ہے۔ اردو میں رٹ دائر بھی ہو تو آخری فیصلہ انگریزی متن میں ہوگا۔ تمام حکومتوں ، یو این او کے ریزولوشن انگریزی میں آتے ہیں۔ مولانا وہ باریش بچہ ہے جو چاندمانگ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چاند کے انگریزی نعم البدل کا بھی بچے کو پتا ہے یا نہیں۔
دوبئی میں 20750 پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آنے کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ ہمارے دفتر کے قریب ہیں ہال روڈ یا بیڈن روڈ پر کسی بھی دوکاندار سے پوچھ لیں تو پتا چلے گا کہ یہاں بھی دوکان ہے اور بھائی ، چاچے ، مامے قریبی رشتہ دار کا دوبئی میں بھی کاروبار ہے ۔ لاہور کا کوئی بازار ایسا نہیں جہاں کوئی شخص یہ کہتا نہ ملے کہ ہماری ایک دوکان دوبئی میں بھی ہے۔ اس اعتبار سے دوبئی کاروبار میں بے حد دخیل تھا۔ شاہ عالمی یا انارکلی کے تاجروں سے پوچھ لیں تو ایک بھائی یہاں اور ایک دوبئی میں کاروبار کر رہا ہے اور سارا کاروبار غیر قانونی ہے۔ کوئی واضح طور پر نہیں کہتا کہ میں نے غیرقانونی طور پر پیسے باہر بھیجے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کی جانب سے باہر جانے والے پیسے کی تحقیقات کے لیے ہدایت کر دی گئی ہے، سب پتا چل جائے گا۔
پروگرام میں شریک گفتگو مہمان سابق وزیر اطلاعات علی ظفر نے منی لانڈرنگ اور دوبئی میں پاکستانیوں کے اثاثوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا کہ موثر قانون سازی کے بغیر منی لانڈرنگ کی روک تھام ناممکن ہے ۔ جان بوجھ کر یا نااہلی کے باعث اس پر کبھی قانون سازی نہیں ہوئی کہ کس چیز کے لیے پیسہ باہر لیجایا جا سکتا ہے اور کس چیز کے لیے نہیں ، اور کتنا لیجا سکتے ہیں۔ یہ معاملہ الجھن کا شکار ہی رہا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ نئی حکومت کلئیر پالیسی لیکر آئے اور اس پر قانون سازی کرے تاکہ پوزیشن واضح ہو سکے۔ بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ اس میں تین قسم کے اثاثے ہیں۔ ایک وہ جو ڈکلئیر ہو چکے ہیں اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ایمنسٹی سکیم کے تحت لوگوں نے ظاہر کیے ہیں۔وہ ایمنسٹی سکیم کے تحت ہی ریکور ہوں گے۔ جن لوگوں نے نہ خود اثاثے ظاہر کیے نہ ایمنسٹی سکیم میں ظاہر ہوئے۔ انکے اثاثوں تک پہنچنا دبئی اورانگلینڈ میں رسائی حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ کیونکہ ان ممالک کے ساتھ ہمارے معاہدے ہو رہے ہیں ، جسکے تحت ان ممالک نے ہمیں پراپرٹیز کی تفصیلات مہیا کرنی ہیں۔ لیکن اسکے بعد ایف بی آر کو پراپرٹیز تک پہنچنے اور اپنی تحویل میں لینے کے لیے بیرون ملک ایکشن کرنا پڑیں گے۔ اس معاملے میں تاخیر ہو سکتی ہے جسکے لیے پالیسی بنانے اور عالمی معاہدے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن کی جائیدادیں واپس لانے کا لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ نواز شریف کی نیب کے تحت کرپشن کی پراپرٹیز پر بھی پالیسی نہ ہونے کے باعث اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی کہ انہیں کیسے تحویل میں لینا ہے۔ ان مراحل میں پیچیدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ معاملہ آگے بڑھ سکے، صرف باتیں کافی نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد پر انکی پاکستانی وزیرخارجہ اور بجا طور پر وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوگی۔
پروگرام میں سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے امریکی وزیرخارجہ کی پاکستان آمد پر کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان ہے۔ واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ، وزیردفاع اور دیگر زعما نے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کو مائل کیا جائے، اس لحاظ تک بات ٹھیک ہے لیکن انہوں نے پاکستان کو سنگل بھی دئیے ہیں۔ کولیشن سپورٹ فنڈ امداد نہیں تھی لیکن اسمیں سے پیسے کاٹ کر انہوں نے پاکستان کو سگنل دیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ بھارت جا رہے ہیں اس حوالے سے خاص طور پر بھارت کو پیغام دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے وہ ہندوستان کے لیے بہت کچھ کر چکے ہیں۔ نیوکلئیر سپلائر گروپس میں شمولیت، ایڈوانس لیول کا نیوکلیرپروگرام بھارت کے ساتھ کیا۔ ابامریکہ چاہ رہا ہے کہ قوم کاسا کا نیا معاہدہ بھارت کے ساتھ سٹریجک لیول پر ہو جائے۔ پاکستان کےلئے انہوںنے بھارت کو یہ سگنل دیا ہے کہ دیکھوتمہیں گلہ تھا کہ ہم پاکستان عموما تاریخی طور پر پاکستان کے حق میں ہوتے ہیں تو ہم نے تو ان سے بڑی سخت ڈیلنگ کی ہے ۔ لیکن پاکستان نے بھی مناسب کیا کہ ایران کے وزیرخارجہ کی پاکستان آمد پر انکا پرتپاک استقبال وزیراعظم اوروزیرخارجہ کی طرف سے کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان اور علامتی طاقتیںجے سی پی او،نیوکلیر ڈیل کے معاہدے کو سپورٹ کریں ۔امریکہ کو پاکستان کی یہ بات بالکل پسند نہیں آئے گی ۔ لیکن پاکستان کی طرف سے سگنل یہ ہوا ہے کہ اگر آپ افغانستا ن میں پاکستان اور ایران کے بغیر کچھ چاہتے ہیں اس پر روس سے بھیامریکہ کے تعلقات خراب ہیں اور ان پر بھی فرمان عائد کیا ہے ۔امریکہ کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ وسط ایشیائی ممالک جہاں سے شمالی تقسیمی نیٹ ورک گزرتا ہے روس کی مخالفت کے بغیر امریکہ استعمال نہیں کر سکتا۔ لگتا ہے کہ امریکی صدر کو کسی نے علاقے کا نقشہ نہیں دکھایا۔ پاکستا ن تو چاہتا ہے کہامریکہ سے تعلقات اچھے ہوں کون بے وقوف ہے جو نہیں چاہے گا ۔امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ کو پیغام پہنچایا گیا ہے کہ انہیں پاکستان کے مفادات کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا۔ امریکی پالیسی ہے کہ یو ایس کے لیے مکمل سکیورٹی ہو لیکن وہ دوسروں کی سکیورٹی کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ جو مطالبے کر رہے ہیں، پاکستان میں فوجی اور پولیس کے جوانوں سمیت ستر ہزار کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں۔امریکہ کی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔امریکہ اگر چاہتا ہے کہ پاکستان یہ ساری باتیں اگنور کرے تو یہ نہیں ہوگا۔ افغانستان سے اگر وہ باعزت نکلنا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان کی ضرورت ہوگی۔ اگر وہ پاکستان پر دباﺅ ڈال رہے ہیں تو بھونڈا کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ پاکستان کی عوام اگرامریکہ کے خلاف ہو تو پاکستان کی کوئی حکومت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ امریکہ کو سوچنا پڑے گا۔ امریکی وزیرخارجہ کا دورہ نہایت اہم ہے ۔ خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ زوال کا شکار تعلقات میں یہ دورہ نسبتاً کامیاب ہوگا۔دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو۔ نہیں سمجھتا کہ اس دورہ سے سٹریجک تبادلے ہوںجائیں گے۔ رابطے بحال ہو جائیں تو بہت اچھی بات ہے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain