تازہ تر ین

نیا میثاق جمہوریت تیار کرنا ہو گا ، سینٹ اجلاس میں ارکان کی تجویز

اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ میں اپوزیشن رہنماﺅں نے ایک بار پھر عام انتخابات 2018ءمیں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ پارلیمانی کمیشن بنائیں گے لیکن ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ وہ اپنے 100روزہ ایجنڈے میں پارلیمانی کمیشن کو بھی جگہ دیں، نیا میثاق جمہوریت تخلیق کرنا ہوگا، اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کرنے کےلئے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں ، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کےلئے اٹھارہویں ترمیم پر من وعن عمل کیا جائے ، یہ الیکشن مشرف اور ضیاءالحق کے ریفرنڈم کو مات دے گیا ہے ، الیکشن کمیشن فوری طور پر مستعفیٰ ہوجائے ، یہ حکومت دھاندلی شدہ ہے ، سرے سے نیا الیکشن ہونا چاہیے، نادرا کا سسٹم جان بوجھ کر بند کیا گیا ، دھاندلی ایک سال پہلے شروع کی گئی ، تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ عوام کی حکمرانی ہے اور پارلیمان سپریم ہے ،جمہوری سسٹم پر شب خون مارا گیا ہے ، صفائی سے لوگوں کو ہرایا گیا ہے،،4500پریذائیڈنگ افسروں کے پاس فون ہی نہیں تھا، اگر آئین کے ساتھ کھیل کھیلا گیا تو وفاق پر سنگین گہرے بادل منڈلائیں گے ، آئین کہتا ہے کہ سویلین بالادستی ہوگی ، ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے گا، ان خیالات اظہار سینیٹر میاں رضا ربانی ، میر حاصل خان بزنجو ، جاوید عباسی ، شیری رحمان ، عثمان خان کاکڑ ، رحمان ملک ، غوث بخش نیازی اور طاہر بزنجو سمیت دیگر ارکان نے تحریک التوا پر بحث کے دوران اظہار خیال کر تے ہوئے کیا ۔پیر کو سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چئیرمین سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر جاوید عباسی نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق تحریک التواءپر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی ایک ہی ہدایت تھی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ، بین الاقوامی مبصرین بھی یہی بات کر رہے ہیں ،2013میں سب یہ کہہ رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنایا جائے ، پاکستان میں بڑا دھرنا بھی ہوا ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ تمام جماعتوں نے مل کر بنایا تھا جس کے بعد ہمارا خیال تھا کہ آنے والے انتخابات پر شاید انگلیاں نہ اٹھیں ، الیکشن کمیشن کو مالی اختیارات بھی دیے گئے تھے ، 25جولائی کو کیا ہوا ،4بجے کے بعد الیکشن بالکل فری تھا ، آئین الیکشن کمیشن کو صاف شفاف الیکشن کرانے کا کہتا ہے ، آر ٹی ایس کا سارا سسٹم نادرا کے آفس میں رکھا ہوا تھا۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ سسٹم مکمل طور پر محفوظ ہے ہم نے اس کو چیک کیا ہے ۔ جاوید عباسی نے کہا کہ صرف متعلقہ پریزائیڈنگ افسران کو ہی آر ٹی ایس استعمال کرنا تھا ، اس سسٹم کو پہلے چیک کرنا چاہیے تھا ،117ایسی نشستیں ہیں جہاں پریذائیڈنگ افسروں کے 12سے15فیصد فارم 45پر دستخط تھے ، اگر دستخط ہوتے تو کوئی سوال نہ کر سکتا، 49ایسے حلقے ہیں جن میں جیتنے کا مارجن اتنا ہے اگر مسترد ووٹ اتنے نہ ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا،یہ آر ٹی ایس سسٹم کس سے لیا گیا ، آج پتہ چلا ہے کہ کوئی اور لوگ ہیں جن سے یہ سسٹم لیا گیا ، سب سے زیادہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی ذمہ داری تھی ، عمران خان نے جیتنے کے بعد پہلی تقریر میں کہا کہ سیاسی جماعتیں جو ڈیمانڈ کریں گی پورا کروں گا ، سیاسی جماعتوں نے کہا کہ ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے ، الیکشن پر تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف کھڑی ہیں ، نادرا کا سسٹم جان بوجھ کر بند کیا گیا ، ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے اور پتہ کیا جائے کہ مینڈیٹ کیوں چرایا گیا ۔ میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید کوئی ایسا الیکشن ہو کہ کوئی سیاسی جماعت اس پر انگلی نہ اٹھائے ، دھاندلی ایک سال پہلے شروع کی گئی جس کےلئے ہمارے میڈیا اور لوگوں کو استعمال کیا گیا، سیاسی جماعتوں کو بدنام کیا گیا، یہ ایک طریقہ کار تھا ، الیکشن کمیشن خود دھاندلی کا پہلا حصہ بنا ، بلوچستان میں نگران حکومت بنانے کی چوائس الیکشن کمیشن کو دی گئی ، چار ناموں میں سب سے معتبرنام جہانگیز قاضی کا تھا ۔ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ اب تو یہ مسئلہ آگیا ہے کہ بیانیہ کس کا ہوگا ، اگر پیپلزپارٹی سیاست کرنا چاہتی ہے تو اس کو خلائی مخلوق کے بیانیے پر جانا ہے ، اسی طرح کوئی اور دوسری جماعت سیاست کرنا چاہتی ہے تو اس بیانیے کے اندر رہ کر کرے گی ۔انہوں نے کہا کہ ہم مارشل لاءسے بدتر حالت میں آگئے ہیں اس طرح ملک اور قومیں نہیں چلتیں ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے تین دن تک ہمارے پولنگ ایجنٹس تک نہیں دیے گئے ۔ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ آر ٹی ایس کس نے بند کیا تھا ، کس کی جرات ہے کہ نادرا کو آر ٹی ایس بند کرنے کا کہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس دفعہ جتنے پیسے بٹورے گئے ہمیں اس کو چیک کرنا ہوگا ، ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے اور دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں ۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ میں اس جعلی الیکشن کی مذمت کرتا ہوں، کوئٹہ میں جمہوری حکومت توڑی گئی ، ہماری پارٹی کہتی رہی کہ اداروں کی مداخلت ہے لیکن کوئی تسلیم نہیں کرتا تھا ،اگر میثاق جمہوریت پر من وعن عمل ہوتا تو شاید یہ دن نہ دیکھتے ، الیکشن سے پہلے ہم نے 10سٹیشنوں کی نشاندہی کی تھی کہ یہاں پر دھاندلی ہوگی ، ہرنائی میں 6بجے پولنگ ختم ہوئی لیکن2 بجے تک ہمارے خلاف کارروائی کی گئی اور ہمیں ہروایا گیا ، اس ملک کو دھاندلی کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا ، ہم نے دھاندلی کی وجہ سے وزیراعظم کو کھویا اور وزیراعظم پھانسی پر چڑھا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث نیازی نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا گیا ہے، کئی پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا گیا ہے اس کا فوری تدارک ہونا چاہیے ، وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ پارلیمانی کمیشن بنائیں گے لیکن ابھی تک نہیں بنایا گیا ، وہ اپنے 100روزہ ایجنڈے میں پارلیمانی کمیشن کو بھی جگہ دیں ۔ اسد جونیجو نے کہا کہ اگر ہیکنگ ہوئی ہے تو اس کا پتہ چلایا جائے ، لاگ آڈٹ کرایا جائے کہ ٹمپرنگ ہوئی ہے کہ نہیں ۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ جمہوریت کا مطلب قانون کی حکمرانی ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دن صرف چیف الیکشن کمشنر نہیں سو رہے تھے نگران وزراءبھی خراٹے لے رہے تھے ، یہ جبری شادی تھی جہاں مولوی صاحب سے بزور شمشیر نکاح پڑھایا گیا وہ بھی گواہوں کے بغیر ۔انہوں نے کہا کہ ساری جماعتوں نے انتخابی کو مسترد کیا ہماری جماعت کو جمہوریت سے وابستگی کی سزا دی گئی ہے ، ہمارے امیدواروں کی ریلیوں پر حملہ کیا گیا اور بدترین قسم کی دھاندلی کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں آکر دوراندیشی کا مظاہرہ کیا ہے نیا میثاق جمہوریت تخلیق کرنا ہوگا ، اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کرنے کےلئے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں ، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کےلئے اٹھارہویں ترمیم پر من وعن عمل کیا جائے ۔ سینیٹر بہرا مند تنگی نے کہا کہ2018کا الیکشن عمران خان کو وزیراعظم بنانے کےلئے تھا، ہمیں این اے 23 میں 260پولنگ اسٹیشنوں کا نتیجہ نہیں دیا گیا ، کل ایک وفاقی وزیر بھی کہہ رہا تھا کہ یہ چوری کا الیکشن ہے ، عمران خان اس بات کا بھی جواب دیں کہ اب اگر ان کا وزیر جعلی الیکشن کہتا ہے تو عمران خان کس چیز کا دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے ، تاریخ میں اس سے بڑ اجعلی مینڈیٹ کسی کو نہیں ملا ۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ الائنسس بنائے گئے ،سیاسی اتحاد بنائے گئے ، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ختم کیا گیا ، میڈیا پر غیر اعلامیہ سنسر شپ نافذ کی گئی ، حلقہ بندیاں غیر قانونی طور پر بنائی گئیں ، نیب کو استعمال کیا گیا ، آر ٹی ایس خراب کیا گیا ، بعض پولنگ اسٹیشنوں پر کیمرے توڑ دیے گئے ۔انہوں نے کہا کہ پشتون لیڈر شپ کو پارلیمنٹ سے دور رکھا گیا ہے ، یہ الیکشن مشرف اور ضیاءالحق کے ریفرنڈم کو مات دے گیا ہے ،ا صل مقابلہ جمہوری قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تھا، الیکشن کمیشن فوری طور پر مستعفی ہوجائے ، یہ حکومت دھاندلی شدہ ہے ، سرے سے نیا الیکشن ہونا چاہیے ، اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اٹھارہویں ترمیم پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ کون آکر نظام کر درست کرے گا ، جب کرسی خالی ہوگی ، جگہ دی جائے گی تو قابضین آئیں گے ، ہم اپنی بات پر قائم ہیں ، 20جولائی کو میں نے کہا تھا کہ سارا کھیل آر ٹی ایس سے کھیلا جائے گا ،سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ سب کی آواز ہے کہ پارلیمانی کمیشن ہونا چاہیے جبکہ انگوٹھوں کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے ،4500پریذائیڈنگ افسروں کے پاس فون ہی نہیں تھا، جو سسٹم بند کرایا گیا وہ کس نے کرایا یہ قوم جاننا چاہتی ہے ۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ الیکشن صاف شفاف ہوں ، جمہوری سسٹم پر شب خون مارا گیا ہے ، صفائی سے لوگوں کو ہرایا گیا ہے ، اس معاملے پر سینیٹ کی ہول کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے ، اس کا ٹیکنیکل سیاسی اور آئینی آڈٹ بھی ہونا چاہیے ۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے سوائے ایک انتخاب کے جتنے انتخابات ہوئے ان پر انگلیاں اٹھی ہیں نئے انتخابات پر بھی یہ سوال اٹھے گا، تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ عوام کی حکمرانی ہے اور پارلیمان سپریم ہے ، تاریخ گواہ ہے کہ ہر 10سال بعد جمہوری عمل کوختم کیا جاتا رہا ۔آئین کو معطل کردیا جاتا تھا اس کے بعد دیکھا کہ یہ ممکن نہیں تھا تو پھر آئین میں ترمیم لائی گئی ، 58ٹو بی کا معرض وجود سامنے آیا ، میں پارلیمان کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے 58ٹو بی کو ختم کیا ۔ پارلیمان نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے اقدامات کو تحفظ نہیں دیا ، پھر سوچا گیا کہ نیا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے کہ کٹھ پتلیاں موجود ہوں اور ڈوریں کہیں اور سے کھینچی جائیں ، یہ ایوان وفاق کی علامت ہے ، اگر جمہوریت نہ رہی اور جمہوری عمل کو دوبارہ ڈی ریل کیا گیا ، اگر آئین کے ساتھ کھیل کھیلا گیا تو وفاق پر سنگین گہرے بادل منڈلائیں گے ، پاکستان کی اشرافیہ کو باقی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر طے کرنا ہے کہ گورننس کے طریقہ کار کیا ہوں گے ، آئین کہتا ہے کہ سویلین بالادستی ہوگی ، ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے گا، اگر ملک کو مستحکم کرنا ہے تو لازم ہے کہ ہم آئین کی پاسداری کریں ۔انہوں نے کہا کہ اب ایک نیا ڈرامہ شروع کیا گیا ہے ، ابھی سے اگلے الیکشن کی دھاندلی کا سامان شروع کیا جا رہا ہے میں اس بات کا مخالف نہیں ہوں کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دیا جائے لیکن جو طریقہ کار اپنایا جارہا ہے وہ شفاف نہیں ہے ، اگر آر ٹی ایس فیل ہوگیا تو کیا گارنٹی ہے ای ووٹنگ ہیک نہیں ہوگی ، ان پاکستانیوں کا کیا ہوگا جو مڈل ایسٹ میں ہیں اور ان کا اکاﺅنٹ نہیں ہے ۔ سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ ہمیں اپنی خود مختاری کا احترام ہونا چاہیے ، جو سانحہ ہوا الیکشن کمیشن ابھی تک ماننے کو تیار نہیں ، تمام دنیا کو پتہ ہے کہ کیا ہوا ، بہانے قوم کے مفاد میں نہیں ہیں ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے ۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain