اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی ) چےف اےڈےٹر خبرےں گروپ آف نےوز پےپر و سی پی این ای کے سابق صدر ضیا شاہدنے کہا ہے کہ جب بھی کسی حکومت نے پریس کے حوالے سے قانون بنانے کی کوشش کی اس کا ایک ہی مقصد رہا کہ کسی طرح پریس کو دبا کر رکھا جائے۔ سی پی ین ای کسی بھی ریگولیٹری اتھارٹی کو یہ اختیار دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اس پر پابندیاں عاید کرے، جرمانے کرے اور اخبارات پر پابندی لگائے۔ ہم نے مارشل لا کے دور میں بھی آزادی صحافت کا علم بلند رکھا اور اپنی آزادی یقینی بنائی ہے جمعرات کو مقامی ہوٹل مےں منعقد ہ سی پی این ای کی اسٹےنڈنگ کمےٹی اجلاس کے دوران ضےاءشاہد نے کہا کہ پرےس کونسل آف پاکستان سب کے سامنے ہے وہاں کبھی بھی کسی مسئلے کو سنجےدگی سے نہیں لیا جاتا مےں پریس کونسل کا عہدےدار رہا وہاں باقاعدہ چن کر اےسے بزرگوں کو عہدےدار بناےا جاتا ہے جن کو شکاےت آجائے تو کہہ دےا جاتا ہے کہ لکھ کر بھےج دےں لہذا اس کو سےسئر نہ لیں اگر پرےس کونسل کا سربراہ یہ کہہ رہا ہے تو آگے آپ خو د اندازہ لگا سکتے ہےں انہوںنے صدر سی پی این ای کی تائےد کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کسی حکومت نے کوشش کی کسی بھی رےگولےٹری اتھارٹی بنانے کی کہ پرےس کا کس طرح مکو ٹھپہ جائے ہم نئی حکومت کے خلا ف نہیں اور مےں نے ذاتی طور پر تحرےک انصاف کی حکومت کو سپورٹ کیا اس موقع پر انہوںنے وفاقی وزےر فواد چوہدری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ سابق دور حکومت مےں سی پی این ای کے اسلام آباد مےں صدر دفتر کےلئے پلاٹ الاٹ کرنے کی منظوری دی گئی ن لےگ کی حکومت کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ سابق وزےراعظم پلاٹ کی فائل خود اپنے ہاتھوں سے دےنا چاہتے تھے لیکن ان کی مصروفےات کی وجہ سے ملاقات نہ ہو سکی لہذا اس معاملے کو حل کیا جائے تاکہ اسلام آباد مےں سی پی این ای کا صدر دفتر قائم ہو سکے۔انہوںنے اسٹےنڈنگ کمیٹی کو بتاےا کہ سی پی این ای نے واجبات کی ادائےگی کےلئے سپریم کورٹ مےں کیس لڑا جس کی وجہ سے اخبارات کو بقاےا جات کی مد مےں 40کروڑ کی ادائےگےاں ہوئی ہیں خود مےرے ادارے کے چھ کروڑ روپے کے چیک بونس ہو ئے ہیں اور اب بھی چالےس ارب کی ادائےگےاں ہونا باقی ہیں ہم نے سپریم کورٹ مےں کہا کہ اخبارات کو براہ راست ادائےگےاں کی جائےں اور اےڈ ورٹائزنگ اےجنسوں کو ان کا کمیشن الگ سے دےا جائے اےجےنساں حکومت سے پےسے لے لےتی ہیں لیکن اخبارات کو ادائےگےاں نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ سندھ مےں چھ اےجنےسوں کے لوگ گرفتار ہو چکے ہےں ہماری تنظےموں کے آپس کے اختلافا ت کی وجہ سے چےف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی بقاےا جات کے کیس کو بند کر دےا ہے لہذا ہمیں نظر ثانی کی درخواست دےنی چاہئے کہ ہماری چالیس ارب روپے کی ادائےگیاں کرائی جائےں کیونکہ جب ہمیں وہ ادائےگےاں ہوں گی تو ہم تنخواہوں کی ادائےگےوں کو مزےد بہتر کر سکتے ہےں انہوںنے وزےر اطلاعات فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزےراعظم عمران خان سے ٹےلی چےنلز کے مالکان اور اےنکرز کی ملاقاتےں ہوئی ہیں لہذا سی پی این ای کے عہدےداروں کی وزےراعظم عمران خان سے ملاقات کرائی جائے اور کہا کہ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر نا بہت ضروری ہو گےا ہے تاکہ مشترکہ پلیٹ فارم سے بات کی جا سکے اس مےں تمام لکھنے والے شامل ہونے چاہئے ان مےں صحافی ، اےڈےٹرز ، اےنکرز ، کالم نگار، سوشمل میڈےا حتی کہ ہر شعبہ شامل ہوا چاہئے اس ضمن مےں مےڈےا کنوونشن کا انعقاد بہت ضروری ہے کیونکہ اس وقت ہم بکھرے ہوئے ہیں سب کو اکٹھا کیا جانا بہت ضروری ہے اس کےلئے تجاوےز دی جانی چاہئے جس پر اجلاس مےں ضےاءشاہد کی سربراہی مےں کمیٹی بنائی گئی جومیڈےا کنوونشن بارے تجاوےز دیں گی ۔سی پی این ای کے سیکرٹری ڈاکٹر جبار خٹک نے وزیر اطلاعات کو سی پی این ای کی جانب سے 14 نکاتی گزارشات پیش کیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا سے متعلق قوانین کو آئینی تقاضوں اور عوامی امنگوں کے عین مطابق بہتر کرنا وقت کا تقاضہ ہے، تاہم میڈیا کے حوالے سے کسی بھی قانون سازی اور سے قبل سی پی این ای اور دیگر متعلقہ فریقوں سے مشاورت انتہائی ضروری اور ناگزیر ہے۔ سی پی این ای خیبر پختون خوا کے صدر طاہر فاروق کا کہنا تھا کہ علاقائی اخبارات کے لیے وفاق کے اشتہارات میں 25 فیصد کوٹہ مختص ہے، لیکن انہیں یہ کوٹہ نہیں ملتا۔ انہوں نے وزیر اطلاعات سے کہا کہ علاقائی اخبارات کے کوٹہ پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ عامر محمود نے سائبر کرائمز کا معاملہ اٹھاتے ہوئے وزیر اطلاعات کو بتایا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے میگزینوں اور اخبارات کے مضامین وغیرہ چوری کیے جا رہے ہیں۔ ایک میگزین مہینہ بھر محنت کے بعد جو مضامین تیار کرتا ہے، انہیں چوری کر لیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت اس پر کارروائی کرے اور ایف آئی اے کے ذریعے اس چوری کا سد باب کیا جائے۔ اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے بھی شرکت کی۔ بلوچستان کے علاقائی اخبارات کو اشتہارات، خطرات اور دھمکیوں کی شکایات پر ان کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان میں کام کرنے والے میڈیا کو درپیش مسائل کے حل کی یقینی دہانی کرواتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 15 ستمبر کے بعد کسی بھی دن سی پی این ای کے نمائندوں کی وزیر اعلیٰ بلوچستان، وزیر اطلاعات بلوچستان سے ملاقات کا اہتمام کر کے بلوچستان کے مسائل کا بہترین حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے سی پی این ای کو یقین دہانی کروائی کہ اگر بلوچستان میں اخبارات کی آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے تو وہ اس پر اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ چاہیے یہ پابندی ریاستی اداروں کی جانب سے ہے یا غیر ریاستی عناصر کی جانب سے۔ تاہم ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط کی پابندی ہر شہری پر فرض ہے۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ بعض اوقات رابطوں کا فقدان بھی مسائل پیدا کرتا ہے، اس لیے ہمیں صورت حال کو سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ انہیں بتایا گیا کہ بلوچستان میں صحافت کو سب سے بڑا خطرہ معاشی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے میڈیا لاپرواہی کا شکار ہے۔ اس پر سینیٹر کاکڑ کا کہنا تھا کہ سی پی این ای صوبے کے اصل اخبارات کی فہرست تیار کرے تاکہ سرکاری اشتہارات چوری کرنے والوں کو پکڑا جا سکے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اخبارات کے اندر کے لوگوں کی ملی بھگت کے بغیر سرکاری افسران بھی چوری نہیں کر سکتے، اس لیے میڈیا کی نمائندہ تنظیمیں چوروں کو پکڑنے میں حکومت کی مدد کریں۔ اجلاس کے دووران سی پی این ای کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے ملک میں میڈیا کنونشن منعقد کروانے کا فیصلہ کیا جس میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اور کنونشن کے ذریعے ایک ایسی تنظیم کے قیام کے لیے کوشش کی جائے گی جو میڈیا کے تینوں شعبوں کی نمائندگی کر سکے۔ اس حوالے سے اجلاس میں سابق صدر سی پی این ای ضیا شاہد کی سربراہی میں کنونشن کے انعقاد کے لیے کمیٹی بھی قائم کی گئی۔اجلاس مےں وفاقی وزےر اطلاعات کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ سی پی این ای کی انٹرنےشنل رےلیشن کمیٹی نے غےر ملکی مبدونےن صحافےوں کو اپنے اخراجات پر بلایا لیکن حکومت کی جانب سے انہیں وےزے جاری نہیں کےے گئے جس پر وفاقی وزےر اطلاعات نے کہا کہ غےر ملکی صحافےوں کےلئے وےزہ پالیسی مےں نرمی کی جائے گی۔
