اسلام آباد (آئی این پی، اے این این) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کرکے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز کا چیک دیا، پیر کو ترجمان سپریم کورٹ کی جا نب سے جا ری کر دہ بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کی جس میں انہوں نے ڈیمز کی تعمیر کے لیے پاک فوج کی جانب سے ایک ارب 59 لاکھ روپے کا چیک دیا۔ترجمان سپریم کورٹ کے مطابق آرمی چیف نے چیف جسٹس پاکستان کو خط بھی تحریر کیا جس میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا۔آرمی چیف کے خط میں کہا گیا ہے کہ اس قومی مقصد کے لیے پاک فوج کے تمام رینکس نے اپنا حصہ ڈالا ہے، پاک فوج کے افسران بشمول سول افسران نے دو دن کی تنخواہ ڈیمز کے لیے دی جب کہ جونیئرکمیشنڈ افسران اور سپاہیوں نے ڈیمز کے لیے ایک ایک دن کی تنخواہ دی ہے۔واضح رہے کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ نے فنڈ قائم کیا ہے جس میں وزیراعظم عمران خان نے قوم سے بھی حصہ ڈالنے کی aاپیل کی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں نا انصافی اور بری حکمرانی سرایت کر گئی ہے اور پاکستان قائد اعظم کے وژن سے ہٹ چکا ہے۔سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ نئے عدالتی سال میں ہمیں اہداف بلند رکھنے ہیں، گذشتہ سال کئی قومی اور انسانی نوعیت کے مقدمات سنے گئے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان قائداعظم کے وژن سے ہٹ چکا ہے، بری حکمرانی اور ناانصافی معاشرے میں سرایت کرگئی ہے،ہمیں قانون کی حکمرانی اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے ۔انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے، ہمیں فراہمی انصاف کیلئے نظام کی خرابیوں کو دور کرنا ہوگا،عدالت نے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے عدالت نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیمز کی تعمیر کیلئے حکومت کی توجہ دلانا اہم ترین فیصلہ تھا،عوام کے پرجوش رد عمل پر شکر گزار ہیں ۔چیف جسٹس نے بتایا کہ گزشتہ عدالتی سال میں 19 ہزار مقدمات نمٹائے گئے، یہ شرح گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ ہے، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی عدالت کے بوجھ میں بے حد اضافہ کرتی ہے، زیر التوا مقدمات نمٹانے میں التوا اور تاخیری حربے بھی رکاوٹ ہیں اور فراہمی انصاف کیلئے زہر قاتل ہیں۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو تنقید کی اجازت ہے لیکن اس قسم کی تنقید کی اجازت نہیں جو ججز کی توہین کے مترادف ہو جب کہ وکلا کی زیر التوا مقدمات پر بیان بازی بھی درست عمل نہیں، آرٹیکل 184/3 کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال کے معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔اٹارنی جنرل انور منصور خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ سال 36 ہزار 501 مقدمات دائر ہوئے جن میں سے 28 ہزار 970 نمٹائے گئے، فراہمی انصاف میں پاکستان 113 میں سے 106 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کو اپنی آزادی ہر قیمت پر برقرار رکھنی چاہیے ، انصاف ہونا چاہیے چاہے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے۔انھوں نے کہا کہ عدالتی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مستقل طور پر پورے عدالتی سسٹم کو مانیٹر کرنا ہو گا۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضی نے کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ فوری نوعیت کے معاملات کی بھی سماعت نہیں ہو پاتی جس سے فریقین مایوس ہوتے ہیں۔