صدارتی الیکشن کیلئے پولنگ ختم ،گنتی شروع

اسلام آباد(ویب ڈیسک) ملک کے 13ویں صدر کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ ہاو¿س اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کا وقت ختم ہوگیا، جہاں اراکین نے خفیہ حق رائے شماری کے تحت ووٹ کاسٹ کیے۔صدر مملکت کے لیے تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی، پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن اور 4 اپوزیشن جماعتوں (مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی) کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔صدارتی انتخاب کے لیے وفاقی پارلیمان (قومی اسمبلی و سینیٹ) اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں موجود ایک ہزار 121 اراکین اپنا ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔پولنگ کا آغاز صبح 10 بجے ہوا جو شام 4 بجے تک جاری رہے گا، وزیراعظم عمران خان پولنگ کا وقت ختم ہونے کے آخری گھنٹے میں اسمبلی ہال پہنچے اور اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔دو صدارتی امیدوار اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمان اسمبلی یا سینیٹ کے رکن نہیں اس لیے وہ خود کو ووٹ نہیں ڈال سکے اور صرف عارف علوی رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے خود کو ووٹ ڈالیں گے۔قومی اسمبلی و سینیٹ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور خان کانسی کی سربراہی میں پولنگ کا عمل جاری ہے اور اراکین ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔اسی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی میں پریزائیڈنگ افسر چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں پولنگ کا آغاز ہوا جب کہ بلوچستان اسمبلی میں چیف جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر اور سندھ اسمبلی میں چیف جسٹس احمد علی شیخ کی نگرانی میں ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔بیلٹ پیپر پر پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کا نام پہلے نمبر پر موجود ہے جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی دوسرے اور مولانا فضل الرحمان کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے۔پولنگ کا عمل مکمل ہونے پر تمام پریذائڈنگ افسران ووٹوں کی تفصیلات کا اعلان کریں گے تاہم صدارتی انتخاب کے لیے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا ریٹرنگ آفیسر ہیں جو حتمی نتیجے کا اعلان کریں گے۔ یاد رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ صدارتی امیدوار نہ لانے اور ووٹوں کی تقسیم سے تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کی کامیابی یقینی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 41 کی شق 3 کے تحت قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔صدارتی انتخاب کے لیے طے کردہ فارمولے کے تحت 104 سینیٹرز، قومی اسمبلی کے 342 اراکین اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے 728 ممبران ووٹ ڈالتے ہیں۔تمام صوبوں کی برابر نمائندگی کے لیے پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ اسمبلی میں ووٹوں کا تناسب بلوچستان اسمبلی کے ووٹوں سے نکالا جائے گا، یعنی بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین کو دیگر تین صوبائی اسمبلیوں کے ووٹوں سے تقسیم کرنے کے بعد تناسب نکالا جاتا ہے۔موجودہ اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد کچھ اس طرح ہے، قومی اسمبلی میں ک±ل ارکان 330، سینیٹ میں 102، پنجاب اسمبلی میں 354، سندھ 165، خیبرپختونخوا 111 اور بلوچستان اسمبلی میں 60 اراکین ہیں۔تاہم سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے مجموعی ووٹوں کو 60 سے تقسیم کیا جائے گا جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں 5.9 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا جب کہ سندھ اسمبلی میں 2.75 ممبران کا ایک ووٹ اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 1.85 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو پنجاب اسمبلی کے 188، قومی اسمبلی کے 176 امیدوار ووٹ دیں گے، اسی طرح مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائ اسلام (ف) کے امیدوار مولانا فضل الرحمان کو سب سے زیادہ پنجاب اسمبلی کے 159 اراکین اور پھر قومی اسمبلی کے 96 اراکین کے ووٹ مل سکیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کو سب سے زیادہ سندھ اسمبلی سے ووٹ ملیں گے جہاں پی پی پی کے امیدواروں کی تعداد 97 ہے۔آئین میں درج فارمولے کے تحت پنجاب کے 188 امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد 32.98 بنتی ہے جو کہ عارف علوی کو ملیں گے۔ قومی اسمبلی کے 176 اور بلوچستان کے 42 ووٹ ملا کر عارف علوی کی سبقت دلوانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دینے والے اراکین کی مجموعی تعداد 343 ہے اس لیے فارمولے کے تحت ایڈجسمنٹ کے بعد کل ووٹوں کی تعداد 199 بنتی ہے۔ جب کہ اعتزاز احسن کے پاس صرف 115 ووٹ ہیں۔عارف علوی کو سب سے زیادہ ان کی اپنی جماعت کے 279 اراکین کے ووٹ ملیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایم کیو ایم کے 32 اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے 29 اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کے 279 اراکین کی حمایت دستیاب ہے جب کہ اعتزاز احسن کو صرف اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے 183 اراکین ووٹ کریں گے۔لیکن ا?ئینی فارمولے کے تحت اپنی جماعت کے بعد عارف علوی کی جیت میں باپ کے 29 ووٹ انتہائی اہم ثابت ہوں گے۔ عارف علوی کے حق میں ایم کیو ایم کے 32 اراکین کے ووٹوں کی تعداد فارمولے کے تحت 19.75 بنتی ہے۔اس طرح عارف علوی کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 337 بنتی ہے جب کہ مولانا فضل الرحمان کے ووٹ کی تعداد 199 اور اعتزاز احسن کی 11 ہے۔الیکشن کمیشن نے ووٹر فہرستیں پریزایئڈنگ افسران کے حوالے کردیں جس کے مطابق سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد 1174 ہے تاہم صدارتی انتخاب میں 1121 ارکان پارلیمنٹ ووٹ کاسٹ کر سکیں گے جب کہ 53 نشستیں خالی ہیں۔خالی نشستوں میں سینیٹ کی 2، قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستیں شامل ہیں جب کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 9 نشستوں پر ارکان تاحال حلف نہیں لے سکے۔الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ کی 104 میں سے 2 نشستیں خالی ہیں جس کے بعد 102 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے جب کہ قومی اسمبلی کی 342 میں سے 12 نشستیں تاحال خالی ہے اور 330 ارکان صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے۔پنجاب اسمبلی کی 371 میں سے 13 نشستیں خالی ہیں اور صدارتی ووٹرز کی تعداد 354 ہے، سندھ اسمبلی کی 168 میں سے 3 نشستیں خالی ہیں اور 2 ارکان نے حلف نہیں اٹھایا، اس طرح اسمبلی میں ووٹرز کی تعداد 163 ہے۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں کل ارکان کی تعداد 124 ہے تاہم 12 نشستیں خالی ہیں اس طرح کے پی اسمبلی سے صدر کو 112 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے جب کہ بلوچستان اسمبلی کے 60 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے اور اس اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 65 ہے میں جس میں 3 نے حلف نہیں اٹھایا اور 2 نشستیں خالی ہیں۔

خاتون اول بارے سلمان تاثیر کی بیٹی کے شرمناک ریماکس

لاہور(ویب ڈیسک) خاتون اول بشریٰ بی بی گزشتہ دنوں لاہور میں دارالشفقت گئی اور بچوں کے ساتھ وقت گزارا، انہوں نے وہاں بچوں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ ان کے اس دورے پر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی صاحبزادی سارا تاثیر نے ایسی شرمناک بات کہہ دی ہے کہ پاکستانی غصے سے آگ بگولہ ہو گئے۔ سارہ تاثیر نے اپنے ٹوئٹر اکاو¿نٹ پر دو ٹویٹس کیں۔ پہلی ٹویٹ میں انہوں نے ایک دیوقامت ہیولے کی ویڈیو پوسٹ کی جس نے سرتاپا سفید رنگ کا عبائیہ پہن رکھا ہوتا ہے۔ اس ویڈیو کے ساتھ سارا تاثیر نے لکھا کہ ”اے ب±شی، بچوں سے دور رہو۔“ ساتھ ہی انہوں نے ہیش ٹیگ میں بشریٰ مانیکا لکھ دیا۔اگلی ٹویٹ میں سارا نے اسی ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا کہ ”میرا 9سالہ بیٹا سونی تو ڈر ہی جاتا اگر کوئی اس کے سکول میں اس طرح سفید کفن پہن کراور چہرے پر ماسک چڑھا کر آ جاتااور تصاویر بنوانی شروع کر دیتا۔“ اس ٹویٹ میں سارا نے بشریٰ مانیکا کے شرعی پردے پر شرمناک انداز میں تنقید کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ”ہمیں وقت کے ساتھ چلنا چاہیے۔“ گویا سارا کے خیال میں اب مسلم خواتین کا پردہ کرنا متروک ہو چکا ہے۔ سارا کی ان بیہودہ ٹویٹس پر پاکستانی بپھر گئے اور اسے کھری کھری سنا ڈالیں۔حسن ندیم خان نامی صارف نے لکھا کہ ”سونی کو مختلف ثقافتوں، فیشن اور سٹائلز کو جاننے کی ضرورت ہے اور اس کی ماں کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری خواتین کو ان کے فیشن کی وجہ سے شرمندہ کرنا انتہائی گھٹیا بات ہے۔ برقعہ پہننا ہے یا نہیں، چہرہ ڈھانپنا ہے یا بال ہوا میں اڑانے ہیں، یہ ہر خاتون کی اپنی مرضی ہے۔ ہر خاتون کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا فیشن اختیار کرے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پسند کا احترام کیا جائے۔“صارفین کی شدید تنقید کے بعد بھی سارا کو اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا بلکہ وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے تیسری ٹویٹ میں لکھ ڈالا کہ ”بشریٰ بی بی جس طرح کا لباس پہنتی ہیں اس کا پاکستان کی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں، الٹا وہ پاکستان کی نوجوان لڑکیوں کے لیے خوفناک مثال اور رول ماڈل بن رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے اس لباس سے دنیا کو ایک برا پیغام بھی جا رہا ہے۔“

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سورۃ الکوثر بھول گئے

اسلام آباد: (ویب ڈیسک)مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سورۃ الکوثر بھول گئے۔صدارت (ن) لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں صدارتی الیکشن کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے مولانا فضل الرحمن کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کی حتمی توثیق بھی کی۔پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا اور شہباز شریف نے خود تلاوت کی، تاہم صدارتی الیکشن کا دباؤ کہیے یا گھبراہٹ کہ وہ سورۃ الکوثر بھول گئے۔ شہباز شریف نے سورۃ الکوثر ادھوری چھوڑ دی اور صدق اللہ العظیم کہہ دیا۔

” آپریشن ردالفساد کہاں تک پہنچا “ سپہ سالار کی زیر صدارت کور کمانڈر کانفرنس

راولپنڈی(ویب ڈیسک ) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں آپریشن ردالفساد پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں آپریشن ردالفساد پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے یوم دفاع و شہدا کے موقع پر فیلڈ فارمیشنز کوشہدا کے لواحقین کے پاس پہنچنے کی ہدایت کی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ فیلڈ فارمیشنز شہدا کے اہلخانہ کو زبردست خراج تحسین پیش کریں۔

 

صدر مملکت کا انتخاب: پولنگ کا وقت ختم ہونے میں کچھ دیر باقی

اسلام آباد(ویب ڈیسک ) ملک کے 13ویں صدر کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ ہاو¿س اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں اراکین خفیہ حق رائے شماری کے تحت ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔صدر مملکت کے لیے تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی، پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن اور 4 اپوزیشن جماعتوں (مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی) کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔صدارتی انتخاب کے لیے وفاقی پارلیمان (قومی اسمبلی و سینیٹ) اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں موجود ایک ہزار 121 اراکین اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔دو صدارتی امیدوار اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمان اسمبلی یا سینیٹ کے رکن نہیں اس لیے وہ خود کو ووٹ نہیں ڈال سکے اور صرف عارف علوی رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے خود کو ووٹ ڈالیں گے۔قومی اسمبلی و سینیٹ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور خان کانسی کی سربراہی میں پولنگ کا عمل جاری ہے اور اراکین ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔اسی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی میں پریزائیڈنگ افسر چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں پولنگ کا آغاز ہوا جب کہ بلوچستان اسمبلی میں چیف جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر اور سندھ اسمبلی میں چیف جسٹس احمد علی شیخ کی نگرانی میں ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ۔ فوٹو: جیو نیوز اسکرین گریب بیلٹ پیپر پر پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کا نام پہلے نمبر پر موجود ہے جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی دوسرے اور مولانا فضل الرحمان کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے۔پولنگ کا عمل مکمل ہونے پر تمام پریذائڈنگ افسران ووٹوں کی تفصیلات کا اعلان کریں گے تاہم صدارتی انتخاب کے لیے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا ریٹرنگ آفیسر ہیں جو حتمی نتیجے کا اعلان کریں گے۔ یاد رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ صدارتی امیدوار نہ لانے اور ووٹوں کی تقسیم سے تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کی کامیابی یقینی ہے۔ صدر کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟آئین کے آرٹیکل 41 کی شق 3 کے تحت قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔صدارتی انتخاب کے لیے طے کردہ فارمولے کے تحت 104 سینیٹرز، قومی اسمبلی کے 342 اراکین اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے 728 ممبران ووٹ ڈالتے ہیں۔تمام صوبوں کی برابر نمائندگی کے لیے پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ اسمبلی میں ووٹوں کا تناسب بلوچستان اسمبلی کے ووٹوں سے نکالا جائے گا، یعنی بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین کو دیگر تین صوبائی اسمبلیوں کے ووٹوں سے تقسیم کرنے کے بعد تناسب نکالا جاتا ہے۔موجودہ اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد کچھ اس طرح ہے، قومی اسمبلی میں ک±ل ارکان 330، سینیٹ میں 102، پنجاب اسمبلی میں 354، سندھ 165، خیبرپختونخوا 111 اور بلوچستان اسمبلی میں 60 اراکین ہیں۔تاہم سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے مجموعی ووٹوں کو 60 سے تقسیم کیا جائے گا جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں 5.9 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا جب کہ سندھ اسمبلی میں 2.75 ممبران کا ایک ووٹ اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 1.85 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ون بنے گا صدرِ پاکستان؟صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو پنجاب اسمبلی کے 188، قومی اسمبلی کے 176 امیدوار ووٹ دیں گے، اسی طرح مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کے امیدوار مولانا فضل الرحمان کو سب سے زیادہ پنجاب اسمبلی کے 159 اراکین اور پھر قومی اسمبلی کے 96 اراکین کے ووٹ مل سکیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کو سب سے زیادہ سندھ اسمبلی سے ووٹ ملیں گے جہاں پی پی پی کے امیدواروں کی تعداد 97 ہے۔ا?ئین میں درج فارمولے کے تحت پنجاب کے 188 امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد 32.98 بنتی ہے جو کہ عارف علوی کو ملیں گے۔ قومی اسمبلی کے 176 اور بلوچستان کے 42 ووٹ ملا کر عارف علوی کی سبقت دلوانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دینے والے اراکین کی مجموعی تعداد 343 ہے اس لیے فارمولے کے تحت ایڈجسمنٹ کے بعد کل ووٹوں کی تعداد 199 بنتی ہے۔ جب کہ اعتزاز احسن کے پاس صرف 115 ووٹ ہیں۔عارف علوی کو سب سے زیادہ ان کی اپنی جماعت کے 279 اراکین کے ووٹ ملیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایم کیو ایم کے 32 اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے 29 اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کے 279 اراکین کی حمایت دستیاب ہے جب کہ اعتزاز احسن کو صرف اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے 183 اراکین ووٹ کریں گے۔لیکن ا?ئینی فارمولے کے تحت اپنی جماعت کے بعد عارف علوی کی جیت میں باپ کے 29 ووٹ انتہائی اہم ثابت ہوں گے۔ عارف علوی کے حق میں ایم کیو ایم کے 32 اراکین کے ووٹوں کی تعداد فارمولے کے تحت 19.75 بنتی ہے۔اس طرح عارف علوی کے مجموعی ووٹوں کی عداد 337 بنتی ہے جب کہ مولانا فضل الرحمان کے ووٹ کی تعداد 199 اور اعتزاز احسن کی 11 ہے۔ووٹر فہرستیں جاری الیکشن کمیشن نے ووٹر فہرستیں پریزایئڈنگ افسران کے حوالے کردیں جس کے مطابق سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد 1174 ہے تاہم صدارتی انتخاب میں 1121 ارکان پارلیمنٹ ووٹ کاسٹ کر سکیں گے جب کہ 53 نشستیں خالی ہیں۔صدارتی انتخاب کیلئے کس جماعت کے پاس کتنے ووٹ ہیں؟خالی نشستوں میں سینیٹ کی 2، قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستیں شامل ہیں جب کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 9 نشستوں پر ارکان تاحال حلف نہیں لے سکے۔الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ کی 104 میں سے 2 نشستیں خالی ہیں جس کے بعد 102 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے جب کہ قومی اسمبلی کی 342 میں سے 12 نشستیں تاحال خالی ہے اور 330 ارکان صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے۔پنجاب اسمبلی کی 371 میں سے 13 نشستیں خالی ہیں اور صدارتی ووٹرز کی تعداد 354 ہے، سندھ اسمبلی کی 168 میں سے 3 نشستیں خالی ہیں اور 2 ارکان نے حلف نہیں اٹھایا، اس طرح اسمبلی میں ووٹرز کی تعداد 163 ہے۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں کل ارکان کی تعداد 124 ہے تاہم 12 نشستیں خالی ہیں اس طرح کے پی اسمبلی سے صدر کو 112 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے جب کہ بلوچستان اسمبلی کے 60 ارکان ووٹ ڈال سکیں گے اور اس اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 65 ہے میں جس میں 3 نے حلف نہیں اٹھایا اور 2 نشستیں خالی ہیں۔

 

روسی کوہ پیما کو بچانے والے 4 پاکستانیوں کیلئے ‘آرڈر آف فرینڈ شپ’ اعزاز

اسلام آباد(ویب ڈیسک) روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے رواں برس جولائی میں روسی کوہ پیما ایلگزینڈر گوکوف کو ریسکیو کرنے والے 4 پاکستانیوں کو ‘آرڈر آف فرینڈشپ’ اعزاز سے نوازا ہے۔روس کے سرکاری اخبار رشین گزٹ میں جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق، ‘قاضی محمد، عابد رفیق، محمد انزہم رفیق اور فخر عباس کو روسی کوہ پیما کو بچانے کے لیے کیے گئے آپریشن میں حصہ لینے پر آرڈر آف فرینڈشپ اعزاز سے نوازا گیا ہے۔’واضح رہے کہ روسی کوہ پیما ایلگزینڈر گوکوف کو 31 جولائی کو ریسکیو کیا گیا تھا جو 25 جولائی سے 20 ہزار 650 فٹ کی بلندی پر لاتوک پیک پر پھنسا ہوا تھا۔روسی کوہ پیما کے پاس تین روز سے کھانے پینے کی اشیا بھی ختم ہوگئی تھیں۔ایلگزینڈر گوکوف کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کیے گئے انتہائی مشکل آپریشن کے بعد ریسکیو کیا گیا تھا۔

افغان طالبان کے سپریم لیڈر اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کی موت بارے اہم خبر

واشنگٹن (ویب ڈیسک ) افغان طالبان کے سب سے اہم رہنماءاور حقانی کی موت بارے خبریں زیر گردش ہیں ۔ وہ کافی عرصہ سے بستر علالت پر زیر علاج تھے تاہم انکی جگہ ان کا بیٹا مکمل طور پر حقانی نیٹ ورک کو چلا کر افغان طالبان کی قیادت کر رہا ہے ۔ یہ بات یو ایس ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیاءنے اپنے ایک ٹویٹ میں کہ ہے

ہمارے ڈرامے معاشرتی اقدار کے عکاس نہیں :پیمرا

لاہور( ویب ڈیسک )پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تمام انٹرٹینمنٹ چیلنز کو ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ڈراموں کا مواد ذمہ داری کے ساتھ تیار کریں۔پیمرا کا یہ بیان 3 ستمبر کی رات جاری ہوا جس میں بتایا گیا کہ ’پاکستانی ڈراموں کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہورہا ہے‘۔پیمرا کا ماننا ہے کہ ڈراموں کے موضوعات ’کافی بولڈ‘ ہیں جبکہ یہ پاکستانی سوسائٹی میں اکثریت کی عکاسی بھی نہیں کرتے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ناظرین کا خیال ہے کہ ان ڈراموں میں پاکستانی معاشرے کی حقیقی تصویر نہیں دکھائی جاتی، سماجی اخلاقی پابندیوں اور پیمرا قوانین کو نظرانداز کرکے ڈراموں میں غیر اخلاقی مناظر، ڈائیلاگز، غیر ازدواجی تعلقات، تشدد اور استحصال کو گلیمرائز کیا جاتا ہے‘۔یہ پہلی مرتبہ نہیں جب پیمرا نے انٹرٹینمنٹ کے لیے تیار کیے جانے والے مواد کو غیر اخلاقی قرار دیا ہو۔اس سے قبل 2016 میں پیمرا نے بچوں پر جنسی تشدد کے موضوع پر مبنی ڈرامے ’اڈاری‘ کے خلاف بھی وارننگ جاری کی تھی اور اس کے موضوع کو قابل اعتراض قرار دیا تھا۔اس کے علاوہ بچوں کے کارٹون نشر کرنے والے چینل نکالوڈین پر ایک کارٹون کردار کو غیر اخلاقی لباس میں پیش کرنے پر 5 لاکھ جرمانہ عائد بھی عائد کیا گیا تھا۔
پیمرا کی ہدایات جاری ہونے کے بعد اداکار عثمان خالد بٹ نے پیمرا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جسے ڈرامہ پسند نہیں آرہا وہ اپنا چینل تبدیل کرسکتا ہے۔اداکار نے کہا کہ ’ہر ڈرامے کو خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا، اگر ڈرامہ پسند نہیں آرہا تو چینل تبدیل کردیں‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈراموں کے ان مضبوط موضوعات میں معاشرے کی حقیقت سامنے آتی ہے، جسے دیکھ کر بہت سے لوگ مطمئن ہوسکتے ہیں‘۔عثمان خالد بٹ کے بعد دیگر افراد نے پیمرا کو اس بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا۔سوشل میڈیا پر لوگوں نے پیمرا کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جہاں سب لوگ نیوز جینلز پر جعلی خبریں نشر کرنے پر پیمرا کے ایکشن لینے کے منتظر ہیں، وہیں پیمرا ڈراموں پر پابندی لگانے میں مصروف ہے۔

 

وزیراعظم عمران خان گیم چینجر ؟

نئی دہلی (ٹرینڈی ایڈیٹر رپورٹ) ہمارے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور قابل احترام صحافی کلدیپ نیئر ایک ہفتے میں باری باری دنیا سے چلے گئے۔ ہندوستان ٹائمز کے کالم نگاروکرم مہتانے لکھا ہے ان دوں کی جلتی ارتھی کے درمیان میں پڑوسی ملک پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کا جنم ہے۔ عمران خان نے اٹل جی کے دیہانت کے اگلے روز وزارت عظمی کاحلف اٹھایا، بادی النظر میں ان تینوں واقعات میں کوئی تال میل نہیں تاہم اگر پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں دیکھا جائے تو تینوں کے درمیان تعلق بنتا ہے۔ اٹل جی اور کلدیپ نیئر نے زندگی بھر برصغیر کے بٹوارے کے بیانیہ کیخلاف مزاحمت کی، جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اگردشمنی نہیں تو کم ازکم شکوک کا شکار ہوئے۔ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعدپہلے خطاب میں کہا ماضی کاسخت رویہ مسترد کر دیا۔ بھارتی کالم نگار مزید لکھتا ہے ان تینوں کے ساتھ میرے تعلقات رہے۔اٹل جی سے بلواسطہ تعلقات رہے،وہ جب وزیرخارجہ بنے تو میرے والد خارجہ سیکرٹری تھے۔ کلدیپ نیئر اور عمران کے ساتھ میرے براہ راست تعلقات رہے۔ مہتا اور نیئر خاندانوں میں برسوں سے دوستی ہے، میں 1977ءمیں کلدیپ کاکا کا تحقیقی معاون تھا، جب انہوں نے ایمرجنسی پر کتاب لکھی جبکہ برطانوی یونیورسٹی میں عمران خان کاہم جماعت تھا۔ میرے والد 1977ءمیں اٹل جی کے ہمراہ پاکستان دورے پر گئے جو ان کا اس حیثیت سے پہلاغیرملکی دورہ تھا۔ واپسی پر میرے والد نے بتایا کہ اٹل جی نے پاکستانی عوام اورمزاکرات کاروں پر گہرا اثر چھوڑا، اس مشہور زمانہ دورے کی تفصیلات میرے والدکی سوانح عمری سمیت مختلف کتابوں میں بیان کی گئی ہیں تاہم یاددہانی کیلئے سب سے اہم امریہ ہے کہ اٹل جی نے اس متحد میڈیا کو نہتا کر دیا جونہ صرف بھارتی وزیر خارجہ بلکہ اس شخص کو سننا چاہتے تھے جو اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنا سنگھ کے رکن کی حیثیت سے اکھنڈ بھارت کانعرہ بلندکرتے رہے جبکہ شملہ معاہدے کیخلاف مظاہرہ بھی کیا۔اٹل جی نے ابتدائی کلمات کے دوران ماضی میں پاکستان مخالف جذبات کا اعتراف کرتے ہوئے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات کی پیشکش کی۔ انہوں نے بعدازں ایک مسجد، گردورا اور چرچ کا دورہ کرکے اپنے سیکولرتشخص کا اظہارکیا۔ آغاشاہی کی طرف سے اپنے اعزاز میں دی گئی ضیافت کے دوران خوبصورت اردو میں برجستہ تقریرکرکے میزبان کو گہنا دیا۔ اٹل جی جانتے تھے کہ وہ بھارت میں اپنے نظریاتی اتحادیوں کے سامنے خطرہ مول لے رہے ہیں، تاہم انہوں نے ماضی کے بیانیہ کے ساتھ چپکے رہنے سے انکار کردیا، جس کا ٹھوس نتیجہ نکلا۔ اٹھارہ برسوں بعد کرکٹ کے تعلقات بحال ہوئے، کراچی اور ممبئی میں قونصلیٹ دوبارہ کھل گئے جو 1971ءکی جنگ کے بعد بند ہو گئے تھے جبکہ دریائے چناب پر ہائیڈرو پاور ڈیم بنانے کا معاہدہ ہوا۔ کلدیپ نیئر نے برصغیر کی تقسیم کے وقت المناکیوں کو دیکھا۔ سیالکوٹ میں آباد ان کے خاندان کو بھارت ہجرت پر مجبور کیا گیا، ایسے حالات کا سامناکرنے والے زیادہ تر لوگ ان مشکلات کو نہیں بھولے یا نہیں بھول سکے، معاف نہیںکیا یا معاف نہیں کر سکے جو قابل فہم ہے، تاہم کلدیپ نے اس المیہ کی اہمیت کو کبھی گھٹایا نہ مستقبل بینی کی اپنی سوچ کی راہ میں رکاوٹ بننے دیا۔ وہ تمام عمر اپنے قلم کے ذریعے دونوں ممالک کے عوام کو برداشت اور تہذیب کے مشترکہ ورثے اورجغرافیہ کی ناقابل تنسیخ منطق کی یاددہانی کراتے رہے۔ انہوں نے پاکستانی صحافی آصف نورانی کے ساتھ مل کر دو شہروں کی کہانیاں لکھیں پھر 1992ءکے بعد بڑھتی ہوئی عمرکے باوجود ہرسال 14/15اگست کی رات واہگہ بارڈر پر شمعیں روشن کرتے اور ہندوستان، پاکستان دوستی زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ ان کے انتقال پر پاکستان کی طرف سے جس طرح خراج تحسین پیشں کیاگیا، وہ تصدیق کرتا ہے کہ وہ دونوں طرف کے عوام کے ذہنوں اور دلوں میں سمائے ہوئے تھے۔ اٹل جی کی طرح کلدیپ نے بھی بٹوارے کا روایتی نظریہ قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس کے برعکس دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے امکانات کو دیکھا۔ اب عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ان پرذمہ داریوں کا بوجھ ہے جو انہیں نبھانی ہیں ۔تاہم اگر بطور کرکٹر اور سیاستدان ان کے عوامی بیانات کو دیکھیں تو ان میں کلدیپ نیئر کے نعروں کی گونج دکھائی دے گی۔ عمران چالیس عشروں سے زائد عرصے سے بھارت اور بھارتیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہرعظیم کھلاڑی کی طرح وہ جانتے ہیں کہ پچ پرکی جانے والی مسابقت، یارباشی کے امکانات کوکھا نہیں جاتی، پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں جب ان کی جماعت سب سے زیادہ نشستیں جیت کر ابھری تو اس کے تھوڑی دیر بعد اپنی تقریر میں انہوں نے اپنے یقین کامل کا اظہارکیا۔ انہوں نے کہا بھارت ایک قدم آگے بڑھائے، پاکستان دوقدم بڑھائے گا۔ ہمارے میڈیا میں سے اکثر نے ان الفاظ کو خالی بیان بازی گردانا، تاہم اگر اٹل جی اور کلدیپ نیئر ہوتے تو وہ ان کے الفاظ کونیا بیانیہ ترتیب دینے کی دعوت سمجھتے۔ تاریخ شک، تنازعات اور وسوسوں میں الجھی اقوام کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، تاہم تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ہیں جب قیادت جرات ،کامل یقین اور بصیرت سے ایسے معاملات کو پلک جھپتے ہی تبدیل کر دیتی ہے۔ اسرائیل/فلسطین تنازع اور کئی عشرے جاری رہنے والی سرد جنگ اس کی دوبڑی مثالیں ہیں۔ 1989ءمیں گورباچوف کی طرف سے سوویت یونین اور سردجنگ کے متعلق پرانے نظریات کو ایک طرف رکھنے کے بعد یورپ کے نئے آرڈرکی ڈرامائی تشکیل سامنے رکھیں۔ اٹل جی اورکلدیپ نیئرنے زندگی بھرایسی قیادت کی خوبیاں دکھائیں۔ میں جانتا ہوں عمران خان میں بھی ایسی خوبیاں ہیں، جس کی روشنی میں پاکستان اور بھارت نیا بیانیہ ترتیب دینے کے امکانات پر غور کر سکتے ہیں۔ گردانا تاہم اگر اٹل جی اور کلدیپ نیئر ہوتے تو وہ ان کے الفاظ کو نیابیانیہ ترتیب دینے کی دعوت سمجھتے۔ تاریخ شک، تنازعات اوروسوسوں میں الجھی اقوام کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، تاہم تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ہیں جب قیادت جرات ،کامل یقین اور بصیرت سے ایسے معاملات کو پلک جھپتے ہی تبدیل کردیتی ہے۔

یو اے ای میں قیمتی جائیدادیں بنانیوالے پاکستانی شکنجے میں آ گئے ، بڑی کاروائی شروع

اسلام آباد (ویب ڈیسک ) پاکستانی تفتیش کاروں نے دبئی انتظامیہ کے تعاون سے متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی پراپرٹیز کا پتہ لگایا ہے۔ تین انٹلیجنس رپورٹس کی بنیاد پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایسے پانچ ہزار امیر ترین پاکستانیوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن شروع کردیا ہے جنھوں نے جائیدادیں بنانے کے لیے مبینہ طور پر قومی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر یہ غیر ملکی جائیدادیں پاکستانی شہریوں نے غیرقانونی طور پر سرمایہ منتقل کر کے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے تقریباً 240 ارب روپے لوٹ کر بنائی ہیں۔ ایس بی پی اور ایف آئی اے کی خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر ونگ نے اپنی سائبر انٹلیجنس کے ذریعے دبئی میں پاکستانی شہریوں کی ملکیت 1467 جائیدادوں کا پتہ لگالیا ہے اور ان معلومات کو انکوائریوں کے آغاز کے لیے زونز یا فیلڈ دفاتر تک منتقل کیا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دبئی میں موجود پاکستانیوں کی دو ہزار سات سو پچاس چھپی ہوئی جائیدادیں مختلف ناموں پر ہیں جن کے خلاف تحقیقات چل رہی ہیں۔ اگر ہر پراپرٹی کا تخمینہ چار کروڑ روپے بھی لگایا جائے تو ایف آئی اے کے پاس زیرتفتیش متحدہ عرب امارات میں موجود اثاثوں کی قیمت 110 ارب روپے بنتی ہے۔ایف ا?ئی اے کے اینٹی کرپشن ونگ نے 3 ہزار 549 میں سے 662 جائیدادوں کے مالکوں کے خلاف 54 فوجداری انکوائریز شروع کردی ہیں۔