کفایت شعاری، بدعنوانی کا خاتمہ اور میرٹ کی بالادستی ترجیحات ہیں، وزیراعظم

اسلام آباد (ویب ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کفایت شعاری، بدعنوانی کا خاتمہ اور میرٹ کی بالادستی ترجیحات میں شامل ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم گورنس کو تبدیل کرنے کے لیے پ±رعزم ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، صوبائی کابینہ اور بیوروکریسی سے ہونے والی ملاقات تعمیری رہی۔ان کا کہنا تھا کہ سب پر واضح کر دیا ہے کہ کفایت شعاری، بدعنوانی کا خاتمہ اور میرٹ کی بالادستی ترجیحات ہیں اور 100 دن کے پروگرام کے اہداف کے حصول کو ترجیح دی جائے۔وزیراعظم نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے سابق آئی جی پولیس ناصر درانی سے بھی ملاقات ہوئی، انہوں نے کے پی کے پولیس میں اصلاحات کی تھیں۔عمران خان نے بتایا کہ ناصر درانی پنجاب پولیس میں اصلاحات کی ٹاسک فورس کی سربراہی کر رہے ہیں، انہیں کہا ہے کہ پنجاب پولیس کو غیر سیاسی بنانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

 

میں آپ کے ساتھ چائے اور بسکٹ کھالوں گا،چیف جسٹس نے وکلا کو دعوت کے پیسے ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کی ہدایت کردی

کراچی (ویب ڈیسک)چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے سپریم کورٹ بار کے نائب صدر فرید دایو اور وکلانے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور کھانے کی دعوت دے دی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ چائے اوربسکٹ کھالوں گا،میری دعوت کے بجائے کھانے کے پیسے ڈیم فنڈ میں دے دیں۔نائب صدرسپریم کورٹ بارنے چیف جسٹس کو بتایا کہ سندھ کے لاءکالجزکے پرنسپل کی تقرری سیاسی بنیادپرکی گئی ہے،ثاقب نثار نے کہا کہ اس معاملے کوآئندہ سماعت پردیکھ لیں گے،چیف جسٹس پاکستان اورسپریم کورٹ بارکے وکلا میں ملاقات کے دوران بجلی چلی گئی۔نائب صدر نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اندرون سندھ18سے 20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے،شکارپوراوردیگر علاقوں میں واپڈاافسران ٹرانسفارمرتبدیلی کیلئے رشوت لیتے ہیں،چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئندہ دورے پراس معاملے کابھی جائزہ لیاجائےگا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا صوبے میں تجاوزات اور قبضہ مافیا کے خلاف مہم کا اعلان

لاہور(ویب ڈیسک) وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں تجاوزات اور قبضہ مافیا کے خلاف بھرپور مہم چلانے کا اعلان کیا۔عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ مہم کا آغاز با اثر اور طاقت ور لوگوں سے کیا جائے گا اور مہم کے دوران کسی بھی اثر و رسوخ کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ تجاوزات اور قبضہ مافیہ کے خلاف آپریشن بلاامتیاز ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں کرپشن کے خاتمے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور عوام کی ایک ایک پائی کی حفاظت کروں گا۔

’لوہا اٹھانے کے لیے، ہاتھ بھی لوہے کے بنانا پڑتے ہیں‘

لاہور (ویب ڈیسک)دبئی میں ہونے والی ایشیئن بینچ پریس انٹرنیشنل پاورلفٹنگ چیمپیئن شپ 2018 میں پہلی بار پاکستان کی چار بہنیں ایک ساتھ شریک ہوں گی۔لاہور کے علاقے ساندہ کی رہائشی چار بہنیں اس بار دبئی میں ہونے والے ایشیئن پاور لفٹنگ مقابلے میں شرکت کر رہی ہیں۔ چاروں بہنیں گذشتہ چار سال سے قومی اور بین الاقوامی پاورلفٹنگ اور ویٹ لفٹنگ مقابلوں میں باقاعدہ حصہ لے رہی ہیں اور متعدد کھیلوں میں گولڈ میڈل اور دیگر تمغے بھی جیت چکی ہیں۔سب سے بڑی بہن سائبل سہیل ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس سپورٹس سائنسز کے آخری سمیسٹر میں ہیں اور 47 کلوگرام کیٹگری کی سینئیر ویٹ لفٹر ہیں۔ سائبل اس سے پہلے سنگاپور میں ویٹ لفٹنگ میں طلائی تمغہ جیت چکی ہیں۔دوسری بہن ٹونکل سہیل 72 کے جی کیٹگری میں انڈر 23 جونئیر ہیں اور بھارت سمیت، مسقط، عمان اور سنگاپور میں کبڈی، ویٹ لفٹنگ اور پاور لفٹنگ میں سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے جیت چکی ہیں۔مریم 63 کے جی کیٹگری میں سینیئر اور ویرونیکا 47 کے جی کیٹگری میں انڈر 17 جونیئر ہیں۔ چھوٹی دونوں بہنیں ابھی تک کسی بین الاقوامی مقابلے میں شریک نہیں ہوئیں لیکن اس بار ایک ساتھ ایک بڑے مقابلے میں شرکت پر بہت پرجوش ہیں۔سائبل بتاتی ہیں کہ کھیلوں سے لگن اور محبت انھیں اپنے والد سے ملی۔ ان کے والد کرکٹر تھے اور کرکٹ میں ہی اپنا مستقبل بنانا چاہتے تھے لیکن غربت اور مالی پسماندگی نے ان سے ان کا شوق چھین لیا۔ وہ کرکٹ جاری نہ رکھ سکے اور کھیلوں سے محبت اور جنون کو اپنے بچوں میں منتقل کر دیا۔
ویٹ لفٹنگساندہ کی رہائیشی چاروں بہنیں سپورٹس میں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتی ہیںیہی وجہ ہے کہ چاروں بہنوں نے وقفے وقفے سے پاور لفٹنگ، ویٹ لفٹنگ اور دیگر کھیلوں میں شمولیت اختیار کی اور اب تک قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے زورِ بازو سے مد مقابل کو پچھاڑ کر کئی تمغے جیت چکی ہیں۔سائبل سہیل بتاتی ہیں ہیں کہ ان سے چھوٹی بہن ٹونکل نے کھیلوں کا آغاز چک بال سے کیا۔ جبکہ ویرونیکا نویں جماعت کی طالبہ بھی ہیں اور دو سال سے قومی سطح پر چک بال، 100 میٹر، 400 میٹر ریس اور لانگ جمپ کی چیمپئین ہیں، اور ان سب میں طلائی تمغے بھی جیت چکی ہیں۔’میں بچپن سے ہی کچھ منفرد کرنا چاہتی تھی، اسی لیے میں نے دوسری لڑکیوں کی طرح کرکٹ، ہاکی یا بیڈمنٹن کھیلنے کی بجائے لوہے سے کھیلنا شروع کیا اور اب میں دوسری لڑکیوں سے منفرد ہوں۔‘ٹونکل انڈیا میں ہونے والے کبڈی کے ٹورنامنٹ میں تیسری پوزیشن حاصل کر چکی ہیں، وہ اب تک مسقط، عمان اور سنگاپور میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں بھی جیت کر آئی ہیں۔چاروں بہنوں نے وقفے وقفے سے پاور لفٹنگ، ویٹ لفٹنگ اور دیگر کھیلوں میں شمولیت اختیار کی اور اب تک قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے زورِ بازو سے مد مقابل کو پچھاڑ کر کئی تمغے جیت چکی ہیںچاروں بہنوں کا کہنا تھا کہ انھیں مضبوط بننے کے لیے دن میں آٹھ گھنٹے مسلسل ٹریننگ لینا ہوتی ہے، جن میں تین گھنٹے صبح اور پانچ گھنٹے شام کے شامل ہیں۔ ان کی خوراک بھی ایک دوسرے سے مختلف اور مخصوص ہے۔ خوراک میں انھیں دودھ، گوشت، سری پائے، مچھلی، دال سبزی لینی ہوتی ہے، جس کے ساتھ سپلیمینٹس کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہر مہینے سپلیمینٹس سمیت اپنی اس مخصوص خوراک کا 50 ہزار روپے خرچ آتا ہے، یعنی ایک ماہ میں چاروں بہنوں پر دو لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔ جس کے ساتھ ان کے مخصوص جوتے، بیلٹس اور سپورٹس کٹ کے الگ پیسے ہوتے ہیں جو کافی مہنگی بھی ہوتی ہیں۔ٹونکل اور سائبل کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹونکل کو پاکستان ریلوے کی طرف سے ہر مہینے 15 ہزار وظیفہ ملتا ہے، جبکہ سائبل واپڈا کی طرف سے نویں سکیل میں پلئیر مقرر ہیں اور 17 ہزار ماہانہ کما رہی ہیں اور یہ رقم ان کی خوراک پر آنے والی لاگت سے انتہائی کم ہے۔’ہماری حکومت کی مکمل توجہ کرکٹ اور ہاکی پر ہی مرکوز ہے، جس کی وجہ سے دوسرے کھیل شدید متاثر ہیں، حکومت کو چاہیے کہ کرکٹ کے ساتھ دوسرے کھیلوں کے لیے بھی دل میں جگہ پیدا کرے۔‘
چاروں بہنیں اس بار دبئی میں ہونے والی اس بینچ پریس چیمپئن شپ کے بارے میں بہت پر عزم ہیں، مگر ان کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ویٹ لفٹنگ فیڈریشن ان کے جوتوں کی کٹس کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ اس حوالے سے سائبل سمیت باقی بہنوں کی نظریں حکومت اور سپورٹس بورڈ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں جہاں سے اب تک کچھ مثبت جواب دکھائی نہیں دے رہا۔’ہماری مالی مدد کریں،ہم پریشان ہیں کیونکہ مقابلے میں دن تھوڑے رہ گئے ہیں اور سپورٹس بورڈ کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں کی گئی۔ پیسے کیسے اکٹھے ہوں گے ،یہ پریشانی سر پر سوار ہے، ہم اپنی ٹریننگ پر بھی فوکس نہیں کر پا رہے۔ پچھلی بار والد نے گھر کی رجسٹری رکھوا کر مقابلے میں شریک ہونے کے لیے پیسے لیے تھے۔ ہم لوگوں کے پاس جا رہے ہیں۔ اپنے سرٹیفیکٹس اور میڈلز دکھا رہے ہیں تاکہ ہماری مالی معاونت ہو تاکہ ہم اس مقابلے میں شامل ہو سکیں۔‘ان کے والد بھی کرکٹر بننا چاہتے تھے لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ ان خواب ان کی بیٹیاں پورے کریں گی’ہم حکومت سے امید کرتے ہیں کہ کرکٹ کی طرح ہم پر بھی پیسہ لگائے اور ہم دوسرے ملکوں میں جا کر اپنے پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔‘ٹوئنکل بین الاقوامی ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں شامل ہونے والی پہلی خاتون ویٹ لفٹر ہیں اور انھیں دی سٹرانگیسٹ وومن کا اعزاز بھی مل چکا ہے۔
دوسری جانب سائبل، ٹوئنکل، مریم اور ویرونیکا پرامید ہیں کہ شاید ان کی آواز بھی اقتدار کے ایوانوں میں جنبش کا باعث بن سکے اور انھیں بھی کرکٹ، ہاکی کی طرح بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کے لیے فنڈز مل سکیں۔