تازہ تر ین

روٹی اور نان کی قیمتیں بڑھانے کا نوٹس لینگے : وزیر خواراک پنجاب ، عمران خان نے کرپشن فری ریاست کی ابتدا کر دی ، پہلے اسکی کوئی مثال نہ تھی : ضیا شاہد ، نواز شریف کا سرل المیڈا کو انٹرویو ملکی سلامتی کیخلاف غداری کے مرتکب ہوئے : اظہر صدیق ، محمود اچکزئی کو افغانستان کیساتھ ڈیورنڈلائن کو ایک لکیر کہنے کا کوئی حق نہیں : بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سلمان شہباز کو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے پر طلب کیا گیا ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ جو ثبوت پیش کئے جائیں گے لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ نہ صرف سلمان شہباز بلکہ حمزہ شہباز شریف کے کاروبار کے سلسلے میں مختلف سہولتوں کے بارے میں بھی اور تجارت کے شعبوں میں ان کی مناپلی میں مثال کے طور پر آدھے شہر کو پتہ ہے کہ مرغی کی صنعت، انڈہ، گوشت، اس کی مارکیٹ پر حمزہ شہباز شریف کا کنٹرول تھا۔ اس طرح سلمان شہباز صاحب کے بارے پانی کی کمپنیوں یا اس قسم کے اور کاروبار تھے۔ اب الزامات علط بھی ہو سکتے ہیںصحیح بھی ہو سکتے ہیں ثبوت سامنے آنے پر ثابت ہو گیا کہ واقعی یہ الزامات درست نہیں کہ ان کی آمدن جو معلومات ہیں ان سے بڑھ کر پھر یقینا قصور وار بھی ٹھہرائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا پچھلے دنوں ہی سارے لوگوں نے دیکھا کہ ایک بلڈنگ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہاں ایک چھوٹا سا حادثہ ہوا ہے اور اس دوران پتہ چلا کہ یہ بلڈنگ جو ہے جناب شہبازشریف صاحب کے داماد کی ہے اور اس بلڈنگ میں 50 ہزار روپے یا لاکھ روپے ماہوار جو دفتر کرائے پر چرھ سکتا تھا اس کا 20,20 لاکھ، 40,40 لاکھ کرایہ دے کر کمرے حاصل کئے گئے۔ یہ بھی ایک طریقہ ہوتا ہے ایسے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے آپ اس کی بلڈنگ کرائے پر لے لیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے میں اچھا ہوا ہے کہ ان کو معافی بھی مل گئی۔ اصل میں بہت سارے لوگ جو اس وقت سیاست میں آئے ہیں اور حکومتوں میں بھی ہیں اور بعض اچھے عہدوں پر بھی پہنچ گئے ہیں ان کے ذہن میں حکمرانی کے سٹائل وہی پرانے ہیں کہ ہیلی کاپٹر لے کر ادھر جانا ہے ادھر جانا ہے اس رشتے دار سے ملنے جانا ہے۔ اور ساتھ بیگم کو بھی لے کر جانا ہے اس قسم کی چیزیں اب لوگ برداشت نہیں کرتے۔ عمران خان صاحب نے خود حکمرانی کے معیار میں، انداز میں وہ اتنے زیادہ جوابدہی ڈال دی ہے کہ اب ان کے اپنے قریبی لوگوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے یہ ان کا وزیراعلیٰ ہے یہ ان کا عزیز تھا یہ کس طرح سے کام کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا کریڈٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے فول پروف سیاست اور کرپشن فری سیاست کی جو ابتداءکی ہے اب اس سے معیار اتنا بلند ہو گیا ہے کہ آج سے پہلے کبھی آپ نے دیکھا تھا کہ سپریم کورٹ اس قسم کے معاملات میں وزرائے اعظموں کو، وزرائے اعلیٰ کو اور یہ کہہ کر بھی ہو کہ آپ کے کسی عزیز رشتہ دار کو خوش کرنے کے لئے کس طرح سے فلاں افسر کا تبادلہ کیا گیا ہے تو یہ بڑی خوشی ہوتی ہے۔ غداری کیس میں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کی عدالت پیشی کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ صحافی کا نام ای سی ایل میں رکھنا یا نکال دینا اہم بات نہیں ہے لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ سرل المیڈا کا انٹرویو ملتان میں کیا گیا تھا جلال الدین رومی کے گھر پر اور اس انٹرویو کے بعد کتنے افسانے بنے ۔ سینئر قانون دان اظہر صدیق نے کہا ہے کہ نوازشریف نے جس دور میں متنازعہ بیان نہیں دیا۔ نوازشریف نے بغاوت کی انہوں نے جو انٹرویو دیا ہے وہ آرٹیکل 19 کے تحت ملکی سکیورٹی کے حوالے سے یہ بات نہیں کی جا سکتی۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ سرل المیڈا سے یہ انٹرویو کیسے رینج ہوا۔ اسلام آباد سے نکل کر ملتان میں جان بوجھ کر، اس انٹرویو سے پاکستان کی سبکی ہوئی۔ حالانکہ ساری دنیا میں واضح ہو چکا ہے کہ ان حملوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے نوازشریف نے اس وقت جو بیان دیا وہ نظر آ رہا ہے اگر دیکھا جائے وہ تین بار وزیراعظم رہے ہیں آپ نے حلف توڑا ہے۔ اس طرح شاہد خاقان عباسی جب سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بیٹھتے ہیں جو گفتگو ہوتی ہے وہ سیکرٹ رکھنی ہوتی ہے اور وہ جا کر نااہل وزیراعظم کے پاس جاتے ہیں اور ساری گفتگو کھول دیتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے یہاں بھی بغاوت کی ہے۔ حکومت کام نہ کرے تو ہائی کورٹ آیا جاتا ہے ، انہوں نے حلف توڑا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ہائی کورٹ آیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کے سامنے دو ایشو ہیں، سب سے پہلا ایشو بغاوت کے خلاف کاروائی اور دوسرا یہ کہ ایسا تمام بیان اخبار میں نہیں چھپ سکتا تھا، اگر اخبار میں چھپا ہے تو پریس کونسل آف پاکستان، پیمرا اور دیگر اداروں نے اس کے خلاف کیا ایکشن لیاگیا۔ سارے ادارے خاموش ہیںاور تکلیف دہ بات ہے کہ اس وقت سیکرٹری کابینہ سے رپورٹ مانگی گئی اور انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ عدالت نے پوچھا کہ وفاقی حکومت کا اس پر کیا موقف ہے، اٹارنی جنرل کو بلایا گیا تو وہ نہیں پیش ہوئے۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ کمرہ عدالت میں نواز شریف کے لگائے گئے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل کے لوگ ، پراسیکیوٹرز ساری کی ساری عدالت میں مذاق بنا ہوا تھا، عدالت کے شیشے اور کرسیاں توڑ دی گئیں۔ تکلیف اس بات کی ہے کہ آپ لیڈر ہیں تو کیا عدالت کوئی سیاسی اکھاڑا ہے کہ جو مرضی کا فیصلہ ہو وہ ماننا ہے اور جو مرضی کا نہ ہو وہ نہیں ماننا۔میرے پاس اب کوئی راہ نہیں اس لئے ہائی کورٹ کے سامنے آیا ہوں کہ بغاوت کے مقدمے پر ہائی کورٹ خود ایکشن ہے۔ عدالت نے رپورٹ مانگ لی ہے جو بائیس تاریخ کو آجائیگی۔ یہ موقف بھی غلط ہے کہ ہم صحافت کے خلاف ہیں۔ سرل المیڈا صحافی ہیں تو صحافی رہیں، آلہ کار نہ بنیں۔
اس معاملے پر میں اپنی کوئی رائے نہیں دینا چاہتا کیونکہ معاملہ ابھی تک عدالت میں ہے۔ میں عدالتوں کے بارے میں بڑا محتاط رہتا ہوں۔ کورٹ میں جب کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو پھر نہ کوئی دروازے، کرسیاں اور شیشے توڑنے چاہئیں اور نہ ہی یہ کینا چاہئے کہ کون فریق سچا ہے اور کون جھوٹا۔ عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ معاملہ عدالت کے تین ججوں کے سامنے فل بینچ میں ہے۔ سمجھتا ہوں کہ فیصلے کے نتیجے پر انحصار کیا جائے۔ بہت عرصہ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں میں ماس کمیونیکیشن سبنگ کا پیریڈ پڑھاتا تھا۔ اس میں طالب علموں کو یہ پڑھایا جاتا تھا کہ جب کوئی معاملہ عدالت میں چلا جائے تو پھر آپ نہ کسی کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ مجرم ہے۔صرف ملزم کہا جا سکتا ہے کہ اس پر الزام لگایا گیا ہے، فلاں وکیل پر ایشو ہے کہ انہوں نے ان کی حمایت کی اور فلاں نے استغاثہ پیش کیا۔ پھر انتظار کرنا چاہئے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ میں پانچ سال پنجاب یونیورسٹی میں صبح سویرے یہ پیریڈ لے کر اپنے اخبار کے دفتر جاتا تھا، کوئی معاوضہ نہیں لیتا تھا۔ صرف شوق تھا کہ یونیورسٹی سے پڑھنے، پڑھانے، سیکھنے سکھانے کا تعلق قائم رہنا چاہئے۔مجھے معلوم ہے کہ آج بھی کتنے اخبارات میں اغلات ہوتی ہیںکہ ایک ملزم عدالت میں پہنچتا نہیں ہے اور اس کے بارے میں کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ مجرم ہے۔ ملزم یا مجرم کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔
پروگرام میں اینکر کی جانب سے روٹی اور نان کی قیمت میں 10سے 15 روپے اضافے کی خبرپر ضیا شاہد نے کہا کہ گیس کی قیمت میں کافی اضافہ ہوا ہے، مگرہ وہ اضافہ گیس زیادہ استعمال کرنے کے ساتھ منسلک ہوگا۔ اسے سلیب ریٹ کہتے ہیں جو بجلی کے سلسلے میں بھی ہوتا ہے۔ جس کے گھر پرایک بلب جل رہا ہو اس کے لیے بجلی کا ریٹ اور ہوتا ہے اور جس کے گھر پر 6 اے سی چلتے ہیں اس کا ریٹ اور ہوتا ہے۔ جوں جوں کھپت بڑھتی جاتی ہے ریٹ بڑھتا جاتا ہے۔ میری دانست میں وزیر خوراک کمیٹی لیڈ کریں اور تنورمالکان اور گیس کمپنی والوں کو بلایا جائے۔ تنور مالکان نے ازخود ریٹ بڑھائے حالانکہ فیصلہ کمیٹی کو کرنا چاہئے کہ قیمتوں میں کتنے اضافے کا اختیار دیا جائے۔
پروگرام میں وزیراعلیٰ پنجاب کے ایڈوائزر خرم خان لغاری نے ٹیلی فونک گفتگو کی۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ کیاگیس کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے ، یہ فیصلہ تو حکومتی کمیٹی کو کرنا چاہئے۔
خرم لغاری نے کہا کہ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ 16اکتوبر سے 20 اکتوبر کے دوران سیشن میں یہ معاملہ حل کیا جائے گا۔ تاہم مہنگائی بڑھے گی کیونکہ ن لیگ نے ملک کی معیشت کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ میں پہلی دفعہ الیکشن کے بعد منتخب ہوا ہوں اور پچیس سال کی عمر میں ایڈوائزر بنا ہوں۔ہمیں اپنے ہوٹلز ، کھانے پینے کی جگہیں پہلے ٹھیک کرنا ہیں، بڑے بڑے ہوٹلز میں ملازمین کا ہیپاٹائٹس اور ایڈز کا ٹیسٹ کرائے بغیر انہیں رکھ لیا جاتا ہے ۔ ہم کھاد والا دودھ پی رہے ہیں، اس حوالے سے ہم نے ڈسٹرکٹ مظفر گڑھ میں میٹنگ کی ہے اور چند ہی اس حوالے سے ریٹ کی جائے گی۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ روٹی اور نان کے ریٹ بڑھائے گئے ہیں۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے آگاہ کیا ، ہم اس معاملے پر میٹنگ بلائیں گے کہ ریٹ کیوں بڑھائے گئے۔ تندوروں سے بھی ہمیں ملاوٹ والا آٹا کھلایا جاتا ہے ۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ وزیراعلیٰ کے ایڈوائزر پانچ اخباروں میں روٹی کی قیمتوں میں اضافے کی خبر چھپنے کے باوجود لاعلم ہیں۔ پروگرام میں صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ خان سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے روٹی کی قیمتیں بڑھنے پر کمیٹی بناکر اجلاس بلانے کی درخواست کی۔ اس موقع پر سمیع اللہ خان کا کہنا تھا کہ قیمتوں کا تعین انڈسٹریل ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے۔ آپ نے ٹھیک نشاندہی کی ہے اور میں فون بند ہونے کے بعد اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیر خوراک نے یقین دلایا ہے اخباروں کی جانب سے شور پر یہ معاملہ حل کی جانب بڑھے گا اور کمیٹی جائزہ لے گی کہ جو قیمتیں بڑھی ہیں کیا وہ ٹھیک ہیں یا گیس کی قیمتوں کے تناسب سے زائد ہیں۔
ساہیوال کے ایک شخص کی جانب سے گیارہویں خلیفہ کا دعویٰ کرنے کی خبر پر ضیا شاہد نے کہا کہ اس قسم کے شخص کا اچانک دعویٰ، کون ہیں بھائی آپ کو کوئی جانتا نہیں ہے کیسے آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ یہ جہالت اور ضعیف العتقادی ہے ، حضور پاک کا جو حکم ہوتا ہے وہ ان کی زندگی میں انہوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ اب قرآن پاک اور حدیث رسول مقبول کی شکل میں ان کا حکم محفوظ ہے۔ آج کسی شخص کا یہ کہنا کہ رات مجھے رسول پاک نے کہا تھا کہ تو آج سے یہ بن گیا ہے ، یہ بالکل فضول بات ہے، اسکو بڑی سختی کے ساتھ، مجھے خوشی ہوئی کی انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے، ان کی طبیعت درست ہونے چاہئے۔ ویسے تو دو، چار، دس جوتوں سے انکی مرمت کی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ حضور پاک نے ان کو کیا حکم دیا تھا ۔ چار خلیفہ کے بعد پانچواں خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو کہا جاتا تھا۔ ان پانچ کے بعددرمیان کا سارا سلسلہ ختم کر کے انہوں نے خود کو گیارہواں خلیفہ کہہ دیا، درمیان میں تیرہ سو سال میں کیا کوئی خلیفہ نہیں آیا، بس ایک یہی ذات شریف رہ گئی تھی۔ دو چار جوتے پڑے تو انکی ساری خلافت نکل جائے گی۔
وزیراعظم کے این آر او نہیں ہوگا کے بیان کے حوالے سے ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ این آر او پہلی اور آخری قسم کی، این آر او کرنے والے پرویز مشرف نے بھی تسلیم کیا کہ یہ میری غلطی تھی۔ این آر او یہ تھاکہ فلاں مہینے اور سال سے لیکر فلاں سال اور مہینے تک جتنے بھی ملزم ہیں، جنہوں نے خواہ کوئی چوری کی ، خواہ اچکے تھے، جیب کاٹی، ناجائز قبضہ کیا، مالی بدعنوانی کی، رشوت لی، ان سب کے کیس معاف۔اس سے بڑی اور کوئی سکہ شاہی نہیں ہو سکتی۔ اس میں انہوں نے ملزمان کی لسٹ بھی نہیں لی بس یہ ہوا کہ فلاں مہینے اور سال سے فلاں تک تمام الزامات ختم۔ اس سے زیادہ بے ہودگی نہیں ہوسکتی کہ بہت سارے لوگ جو جیلوں میں بیٹھے تھے اچانک رہا ہو گئے۔ عمران خان نے بالکل صحیح کہا ہے کہ چاہے جتنا شور مچائیں، آج بغاوت کے کیس میں عدالتوں کے شیشے ٹوٹے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اور توڑ لیں جتنے توڑنے ہیں، جتنا مرضی شور مچالیں، جلسے جلوس کر لیں، لیکن اب این آر او نہیں ہوگا۔ عمران خان نے اچھی بات کی ہے۔ این آر او ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے فری فار آل۔ حالانکہ دیکھنا چاہئے کہ کس کا کیا قصور ہے اور کیا فرد جرم عائد ہے۔ این آر او اصل میں بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے بہت سارے لوگوں آیا تھا کہ پچھلے دو سال یا تین سال میں جتنے بھی لوگوں کے خلاف ایف آئی آر ہوئی تھی سب کورہا کر دو۔ اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
اچھی بات ہے کہ عثمان بزدار وزیراعلیٰ رہیں گے۔ میری تو وزیرخارجہ شاہ محمود سے بہت اچھی دوستی ہے اور وہ بطور وزیرخارجہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ عمران خان نے ٹیم کو جس جس جگہ سیٹ کیا ہے ، اس فیصلے پر قائم رہنا اچھی بات ہے۔ عمران خان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن میں بھی اپنے فیصلے پر قائم رہتے تھے۔
میں نے خبر پڑھی تھی پاک افغان بارڈر سے خاردار تار ہٹائی جائے اور بہت حیران ہوا تھااچکزئی صاحب عجیب و غریب بیان دیتے ہیں۔ خاردار تار ہم نے کسی کے گھر کے سامنے تو نہیں لگائی ۔ دو ملکوں کی سرحد کے بیچ جہاں سے مسلسل مداخلت ہوتی تھی کہ وہاں کے لوگ آتے تھے اور پاکستان میں دہشت گردی کر کے رات و رات اپنے ملک میں بھاگ جاتے تھے ۔ اس کو روکنے کے لیے خاردار تار لگائی گئی تھی۔ اگر اس خاردار تارکی مخالفت کرنا ہے تو مخالفت کرنے والا دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے۔ پندرہ، بیس سال سے بحث چل رہی تھی کہ پاک افغان بارڈر پر خاردار تار لگائی جائے۔
جب وزیرستان میں ایک ایسا گاﺅں بھی ہے جس پر پاکستانی فوج نے حملہ کیا ، پتا چلا کہ گاﺅں ایک ہے او راس کا آدھا حصہ پاکستان اور آدھا افغانستان میں ہے۔ چنانچہ حملے کے وقت ادھر سے لوگ دس قدم چل کر افغان حصے میں چلے گئے ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں نہیں ہیں، آپ ہمیں نہیں پکڑ سکتے۔ اس قسم کا مذاق بند ہونا چاہئے، ملکوں کے درمیان کبھی ایسے بارڈر بھی ہوتے ہیںکہ واہگہ بارڈر پر آپ جائیں تو پتہ چلے کہ کانہ کا ایک گاﺅں ہے اور آدھا حصہ ہندوستا ن اور آدھا پاکستان میں ہے، دو گھروں کے دروازے انڈیا میں کھلتے ہیں اور ان کے کمرے پاکستان میں ہیں۔
پروگرام میں برگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے بھی پروگرام میں ٹیلی فونک گفتگو کی اور محمود اچکزئی کے اس بیان پر کہا کہ انہیں اس قسم کی بات کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا، ڈیورنڈ لائن انٹرنیشنل بارڈر ہے اس کو لائن کہنا تذلیل ہے۔ افغانستان کا سینٹرل ایشین ری پبلک کے ساتھ بارڈر یورنڈ لائن ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ اچکزئی تو پہلے بھی اس قسم کی باتیں کرتے رہے ہیں کہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر کو نہیں مانتا، وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں طرف ایک ہی ملک ہے۔ اس پر اظہار خیال فرمائیے۔
محمود شاہ نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں کے ذہن میں ان کے بارے میں بہت کچھ تھا، میں نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ یہ انٹرنیشنل بارڈر ہے ، محمود اچکزئی کی کیا حیثت ہے اگر ہے تو اقوام متحدہ ، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سمیت جس ادارہ میں جانا چاہیں چلے جائیں۔ افغانستا ن بھی بطور ملک ہی اس معاملے پر بات کر سکتا ہے مگر انکے پاس کوئی قانونی وجہ نہیں اس لیے وہ کسی ادارے کے پاس نہیں گئے اور نہ جا سکتے ہیں۔ ایک واحد شخص کا اپنی تاریخ بنا کر اس پر بات کرتے رہنا مناسب نہیں ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain