تازہ تر ین

مولانا سمیع الحق کی شہادت میں بیرونی سازش کی بو آرہی ہے

تجزیہ: امتنان شاہد

گزشتہ روز مولانا سمیع الحق کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ اگر اس کا وقت (Timing) دیکھی جائے تو بیرونی سازش کی بو آ رہی ہے۔ یہ ایک فرقے کو دوسرے فرقے سے لڑانے کی سازش لگتی ہے کیونکہ مولانا سیع الحق ایک پرانے اور جید عالم دین اور سیاستدان رہے ہیں ۔جن کا تعلق دارالعلوم حقانیہ کی نظریاتی سوچ سے تھا اور جن کے LINKسرحد کے دونوں طرف موجود طالبان کے ساتھ بڑے پرانے سمجھے جاتے رہے ہیں ۔یہاں تک کے طالبان کے بانی ملا محمد عمر ان کی دیگر قیادت مولانا کو اپنا روح رواں نہ صرف مانتی تھی بلکہ مانتی ہے ۔ایسے وقت میں جب پاکستان پہلے ہی سے ایک اہم دینی مسئلے میں گھرا تھا‘ ایک عالم دین کا درد ناک قتل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ صرف پاکستان دشمن سازش ہے جس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے ۔مولانا سمیع الحق کا کردار تاریخ میں اس بات پر بھی یاد رکھا جائے گا کہ طالبان کے اوپر ان کا اثر و رسوخ کس حد تک تھا کہ جب گزشتہ دور حکومت میں طالبان نے ثالثی کیلئے کسی کو مقرر کیا تو ان میں مولانا سمیع الحق کا سرفہرست تھا تین روز قبل پاکستان میں پکڑے گئے ۔طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کی رہائی ہوئی ‘اس رہائی میں بھی مولانا سمیع الحق کی سفارش کو اہم تصور کیا گیا اور ان کے کہنے ہی پر ان کی رہائی عمل میں آئی ۔ان کی ہلاکت کی واقعہ میں یہ بات کہنا جائز ہوگا کہ یہ کام صرف اور صرف پاکستان کا دشمن ہی کروا سکتا ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے۔ اگر کل رات تک کی پوزیشن دیکھی جائے تو ایک طرف ایک طبقہ سڑکوں پر تھا اور دوسری طرف پاکستان کے ایک اہم عالم دین کو شہید کیا گیا۔ یہ بھی غور طلب بات ہے کہ پہلے خبر آئی کہ ان کو فائرنگ سے شہید کیا گیا بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے سکیورٹی پر معمور افراد جب گھر سے کھانا کھانے گئے تو ان کی غیرموجود میں گھر میں گھس کر چند افراد نے ان کو چاقوں کے وار سے شہید کیا۔ اس بات کی تفتیش اور تحقیق ہونا ابھی باقی ہے کہ کیا یہ کسی گھر کے بھیدی کا کام ہے یا کسی اور کا البتہ یہ طے ہے کہ یہ قتل کوئی عام قتل نہیں تھا ۔ ایک طرف وہ طبقہ جو پاکستان بھر میں آسیہ بی بی رہائی کیس میں گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان میں سڑکوں پر بیٹھا ہے اور دوسری طرف پاکستان ایک طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کو چھوڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہی طالبان کے روح رواں یا ان کے استادکوقتل کر دیا جاتا ہے اور سرحد کے اس پار پچھلے ایک ماہ میں افغانستان میں کم و بیش آٹھ سے نو بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں اور امریکہ ملا عبدالغنی برادر کی رہائی پر ناخوش بھی نظر آتا ہے۔ ان کڑیوں کو اگر آپس میں ملایا جائے تو یہ صرف اور صرف پاکستان میں بے چینی مزید بڑھانے کی کوشش ہے۔ مولانا سمیع الحق کی شخصیت ہمیشہ سے پاکستان کے نظام حکومت ¾ ریاست ¾ پارلیمنٹ پر یقین رکھنے والی معتدل شخصیت مانی جاتی تھی اور ہر حکومت کے ساتھ ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرلیتی تھی۔ جیسا انہوں نے نوازشریف ¾ بینظیر یہاں تک کے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ بھی کیا جبکہ وہ اس وقت ایم ایم اے کے بڑے لیڈروں میں سے تھے۔ انہوں نے مشرف حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا جس کا مقصد جنرل مشرف کو دو عہدے چھوڑنے پر راضی کرنا تھا۔ مولانا سمیع الحق عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے باقاعدہ اتحادی بھی رہے اور انہوں نے فرنٹ فٹ پر آ کر تحریک انصاف جیسی لبرل جماعت کی گزشتہ پانچ سال خیبرپختونخوا میں سپورٹ کی ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی سیاست میں ایک فلیکسی بیلٹی موجود تھی۔ اور وہ ایک لچک دار شخصیت کے حامل تھے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain