لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ سیون میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ ہر لمحہ دعا ہے اور ہر ملاقات میں یہ بات ہو رہی ہے کہ عافیہ صدیقی آرہی ہیں، چلو انہیں لینے جائیں۔ اسی امید پر 5ہزار 7سو دن گزارچکی ہوں۔ وزیراعظم عمران خان سے پوچھنا چاہئے کہ خط کے جواب میںانکا دل کیا چاہتا ہے۔اس خطے میں ہماری تاریخ کا وجود ایک بیٹی کے وقت کے حاکم کو خط سے ہے۔جس پر اس حاکم نے لبیک کہا اور دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ بدل دیا۔ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں صرف ڈپلومیسی کا سوال ہے۔ اس خط سے عمران خان ایک تاریخی کٹہرے میں کھڑے ہوگئے کہ کیا وہ اس تاریخ کو دہرا سکتے ہیں اورایک محمد بن قاسم ثانی بن کر سامنے آئیں گے ۔میں سمجھتی ہوں کہ عمران خان اپنے وعدے کا پاس رکھنے والے آدمی ہیں۔ جب ایک آمر کی حکومت تھی اور کوئی بھی اس طرح کا کیس لیتے ہوئے ڈرتا تھا۔ عمران خان نے اس وقت یہ معاملہ اٹھایا، میری ہمت بندھائی اور مجھے سامنے لاکر ہر جلسے میں اپنے ساتھ کھڑا کیا۔ یہ کیس انکے دل کے بہت قریب ہے وہ سمجھتے اور جانتے ہیں ۔ یہ معاملہ وہ شروع سے دیکھ رہے ہیں اور عافیہ کی معصومیت کو محسوس کرتے ہیں۔ وزیرخارجہ سے ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کی باتیں زیادہ ہوئیں، سیاسی نہیں ہوئیں۔ انہوں نے خط پہنچایا یا نہیں، یہ میرے علم میں نہیں۔ وزیر خارجہ نے مجھے مختلف آپشنز بتائے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے ہم یہ کچھ کر سکتے ہیں۔اس پر انکی قانونی ٹیم معاملہ دیکھے گی اور ممکنہ راستہ پر مجھے آگاہ کرے گی۔25یا 26کو میری اسلام آباد واپسی ہے اور مجھے امید ہے کہ اس دفعہ مجھے کچھ تحریری ملے گا اور معاملہ شئیر کیا جائے گا۔ ابھی تک مجھے کوئی دستاویزات نہیں دی گئیں کہ جس سے کاروائی کا اندازہ ہوسکے۔ڈاکٹر عافیہ سے آخری بار 3سال پہلے بات ہوئی ، اس سے قبل باقاعدگی سے بات ہوا کرتی تھی۔ میڈیا میں کیس اٹھانے یا پریس کانفرنس میں عافیہ کے حوالے سے کچھ دکھانے اے ایک رات قبل مجھے عافیہ کا فون آجاتا تھا ، میری ضرور بات ہوتی تھی۔ مجھے اندازہ یہ ہوا کہ مجھ سے ایک سوال ضرور کیا جائے گا کہ آپکی بہن سے بات کب ہوئی ۔ اگر 6مہینے سے نہیں ہوئی تو میں کہوں گی کہ نہیں ہوئی اور ایک دن پہلے فون آنے پر یہی کہوں گی کہ ابھی کل ہی بات ہوئی ہے ۔ تو مجھے کہا جائے گا کہ تم اتنا کیوں رو رہی ہو۔عافیہ سے جب بات ہوتی تو لگتا کہ امتحان عافیہ پر نہیں مجھ پر ہے۔ عافیہ مجھے زندان سے تسلی دے رہی ہوتی تھی، کہتی تھی کہ اللہ اچھا کرے گا، وہ مجھے نبی کریم کی باتیں انکی محبت مجھے بتاتی تھی۔ یہ بھی بتاتی تھی کہ وہ کس طرح اسکو تسلی دیتے ہیں۔ وہ کہتی تھی کہ آپ دعا کریں میں ضرور رہاہوں گی۔ میں رو پڑتی تھی اور وہ مجھے ہمت دیتی تھی۔ میں اس سے حال پوچھتی تھی اور وہ کہتی تھی، مت پوچھیں مجھ سے ، کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ اس کے اس جملے سے اندازہ ہو جاتا تھا۔ مئی 2018ءمیں قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے عافیہ سے ملاقات کی ، انکی جمع کرائی گئی رپورٹ مجھے سپریم کورٹ سے ملی۔ ہماری اپنی قونصل جنرل کی اس رپورٹ میں جن اندوہناک مظالم کا ذکر کیا گیا ہے اگر کوئی بھی شخص وہ پڑھتا اور اگر کسی نے پڑھی ہے تو کوئی پڑھنے کے بعد بھی کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ یہ رپورٹ ہمارے دفتر خارجہ اور سپریم کورٹ میں پڑی ہے۔ اسمیں سب سے زیادہ افسوسناک یہ کہ عافیہ سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا تو کوئی قصور ہی نہیں ہے ، مسئلہ تو تمہارے مذہب کا ہے۔ تم عیسائی ہو جاﺅ ہم کل ہی تمہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ نے بتایہ کہ وہاں سے فون کال سخت پہروں میں گارڈز کی موجودگی میں ہوتی ہے اور قونصلر کا دورہ پرائیویٹ ہوتا ہے۔اسمیں ریکارڈنگز بھی ہوتی ہیں۔ عافیہ اگرانکی ایک بھی شکایت کرے گی تو وہ کہہ دیں گے کہ اب تم سے بات نہیں کرواتے۔ اب عافیہ سے بات نہ کروانے کی وہ جو وجوہات بتاتے ہیں وہ میری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ میں صرف یہ کہتی ہوں کہ میں اسے اپنے کانوں سے سن لوں یا ویڈیو کال پر دیکھ لوں ۔قونصل جنرل نے کہا کہ عافیہ نے کہا ہے کہ میری ماں تو مر گئی ہے ، یہ لوگ فون پر میری پتا نہیں کس سے بات کرواتے ہیں۔ عافیہ کو غلط اطلاع دی گئی ہے کہ اسکی ماں مر گئی ہے۔اس سے بات کروائیں تو ہم اسے بتائیں کہ ماں زندہ ہے، ویڈیو کال کروادیں کہ وہ ماں کو دیکھ لے۔ جیل مینول میں ویڈیو کال کی اجازت ہے۔ جنیوا کنونشن کے مطابق بہت ساری رعایتیں عافیہ کو ملنی چاہئیں اور وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ قونصل جنرل سے خود بات کریں گے۔ امریکن پراسیکیوشن کی وکیل نے عافیہ سے ملاقات کے بعد اپنے بیان میں بتایا تھا کہ عافیہ ایک چھوٹے اینٹوں کے بنے سیل میں قید ہے جسکی تنیوں اطراف میں صرف دیواریں ہیں اور کوئی روشن دان نہیں ہے۔ آگے ایک دروازہ ہے ،زمین پر بھی ایک سٹیل کی ٹوائلٹ سیٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے روشن دان میں سے انہیں کھانا دیا جاتاہے۔ دن کے 24گھنٹوں میں سے 23 گھنٹے وہ اس سیل میں قید رہتی ہے اور ایک گھنٹہ اسے ٹانگیں سیدھی کرنے یا فون وغیرہ کے لیے نکالتے ہیں۔ اگر وہ فون کی لائن کاٹ دیں اور وہ پورا ایک گھنٹہ ملاتی رہے، یہ کیسی اذیت ہے۔ عافیہ کے دو بچے ہمارے پاس بازیاب ہوئے ، ایک 5سال اور ایک 6سال کے بعداور تیسرا بچہ ابھی تک لاپتہ ہے۔ اسکے بارے میں بہت ساری افواہیں ہیں۔ عافیہ ہمیشہ بچوں کو پوچھتی تھی اور رو دیتی تھی۔ بچوں کی آواز سن کر وہ ٹوٹ جاتی تھی۔ ہم اسے بچوں کے بارے میں سب بتاتے تھے مگر جب بچوں کا کئیریر منتخب کرنے کا وقت آیا تو عافیہ سے بات ہی نہیں ہوتی تھی۔ عافیہ کہتی تھی کہ انکا بڑا بیٹا احمد جس فیلڈ میں دلچسپی لیتا ہے اسے وہی کرنے دیا جائے زبردستی ڈاکٹر مت بنایا جائے۔ میں نے اسے پری انجینئرنگ میں داخل کروایا مگر اس نے اسے چھوڑ کر میڈیکل میں داخلہ لیاہے۔عافیہ کی پاکستانی عوام سے امید بہت زیادہ نہیں تھی۔ قونصل جنرل کی رپورٹ میں بھی عافیہ نے کہا ہے کہ اسے اپنے اللہ اور پاکستان کے عوام پر یقین ہے۔ ہماری عوام پر بڑی ذمہ داری ہے ۔ عوام نے ہمیشہ عافیہ کے لیے لبیک کہا ہے ، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہیں اور ہمیشہ اسے اپنی بیٹی تسلیم کیا ہے۔ جس طرح عافیہ کا اپنے بچوں کی آواز سن کر دل بھر آتا تھا اسی طرح ہماری والدہ کا دل عافیہ کی آواز سے بھر آتا تھا۔ کوئی شخص مر جائے تو صبر آجاتا ہے ، زندگی چلتی رہتی ہے۔ مگر اس قسم کی کیفیت میں روز جیتے ، روز مرتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ عافیہ کو رہائی مل جائے۔ وہ آجائے اپنے بچوں کو دیکھ لے ، اسکی ممتا ٹھنڈی ہوجائے اور میری ماں کی بھی۔والدہ بہت علیل اور کمزور ہوگئی ہیں ۔والدہ ہم سب کو عافیہ کہہ کر پکارتی ہیں ۔ میری بیٹی کا نام عائشہ ہے وہ اسے عافیہ کہتی ہیں ، عافیہ کی بیٹی مریم کوکہتی ہیں عافیہ پانی دیدو۔ ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی کا 2003ءمیں پتا چلا ،میں امریکا میں تھی کہ والدہ کا فون آیا کہ ایسا ہوا ہے۔ انہوں نے حکومتی اداروں کو فون کیا اور کہاگیا کہ خاموش رہیں ، کسی نے اغوا کیا ہے ، تاوان ہوگا۔ کچھ عرصہ یوں گزرا اور فوکس نیوز ، این بی سی پر خبر آگئی کہ عافیہ کو حوالے کیا گیا ہے اور پھر اسکی تردید ہوئی۔ یہ طویل داستان ہے۔ عافیہ کی امریکی شہریت کے حوالے سے بات بالکل درست نہیں وہ پاکستانی شہری ہیں۔ عافیہ کے خط کا پہلا جملہ یہ ہے کہ میری یہاں پر قید غیر قانونی اور غلط ہے ۔ اسکی بنیادیہ ہے کہ عافیہ پاکستانی شہری تھی، اگر انہوں نے مقدمہ چلایا بھی تو جرم امریکا میں تو نہیں ہوا تھا ۔ عافیہ امریکا میں تو نہیں تھی۔ عافیہ نے ان لوگوں سے اپنے وزن سے بھاری گن بھی چھین لی، فنگر پرنٹ بھی لگا لیے اور اوپن فائر بھی کردیا ، کسی کو گولی نہیں لگی، یہ سب کچھ بھی ہوا توعالمی قانون کے حساب سے مقدمہ چلانا تھا تو افغانستان یا پاکستان میں۔ ایک پاکستانی شہری پاکستان کو اطلاع دئیے بغیر امریکا کیسے گئی۔ یہ حوالگی کا معاملہ ہے اور عالمی قوانین میں غیر قانونی ہے ۔ کوئی بھی شخص ایسے جاتا ہے تو اس پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔عافیہ کا رہا نہ ہوناافسوسناک اور حکومت پاکستان کی کمزوری ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس وقت ہم انتہائی برے معاشی بحران میں ہیں۔ قومیں عوام سے بنتی ہیں، جب تک اپنے شہریوں کی قدر نہیں کریں گے اور انکے لیے جرات مندانہ قدم نہیں اٹھائیں گے، آپکے ملک میں کون سرمایہ کاری کرنا چاہے گا؟ہماری فیملی کا مذہبی اور ماڈرن تعلیمی پس منظر ہے۔ ہم ایک تعلیمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، سیاسی نہیں ہیں۔ اپنی محنت سے پڑھے لکھے ہیں، میرے والد بھی ڈاکٹر تھے اپنی تعلیمی قابلیت سے ہی اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ عافیہ کا خواب بھی پاکستان میں تعلیمی انقلاب کا تھا۔ وہ کہتی تھی کہ پاکستان کے سارے مسائل کا حل اسکے تعلیمی کو درست کرنے سے ہے۔ عافیہ نے امریکا آنیوالے بوسنیا کے ریفیوجیز کے لیے کافی کام کیا ، کشمیر کی عوام کے لیے بھی کام کیا ۔ جب بھی کبھی وہ کسی مظلوم کی آواز سنتیں وہ اسکے لیے ضرور کھڑی ہوتی تھیں۔چاہے وہ انہیں جانتا بھی نہ ہو۔ میں اس سے کہتی بھی تھی کہ اس سب کا تمہیں کیا فائدہ ہے۔ وہ کہتی تھی کہ یہ پیٹیشنز ، یہ سارے نمبر ہوتے ہیں ، ایک میرا بھی ہوگا۔ ان مظلوموں میں سے ایک بھی معصوم تھا اور اس ایک کی دادرسی ہوجاتی ہے تو میرا نمبر کتنا اچھا ہوگا۔ عافیہ 2002ءمیں پاکستان آئی ، اپنے کچھ کاغذات کے لیے وہ دوبارہ گئی ۔اسکے بعد میرے علم کے مطابق دوبارہ امریکا نہیں گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ٹرائل میں فیملی کو شامل نہیں کیا گیاتاہم عافیہ کے سابق شوہر کے بارے علم نہیں۔ ہم وکلاءسے بات کرتے تھے تو وہ کہتے تھے ہم آپ سے معلومات شئیر نہیں کر سکتے۔ آپ ہمارے کلائنٹ نہیں ہیں۔ عافیہ کہتی تھی کہ آپ میرے وکلاءنہیں ہیں کیونکہ میں اپنے پسند کے وکیل کرنا چاہتی ہوں۔ عافیہ پر چلنے والا کیس مس ٹرائل تھا۔ مدعی کو اسکی مرضی کے وکیل تک نہیں دئیے گئے۔ میں نے حکومت پاکستان کو کیس عالمی عدالت میں لیجانے سمیت سب کچھ کہا ہے اور کہتی رہتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ تحریری طورپر کہا ، میری الماریاں یاداشتوں سے بھری پڑی ہیں۔ حکومت کی جانب سے وعدے اور ملاقاتیں ہوئیںمگر عملدرآمد ہوتا تو عافیہ بہت پہلے رہا ہو کر پاکستان آچکی ہوتی کیونکہ اس پر مقدمہ ہی نہیں چلتا۔ حکومت پاکستان کی کوتاہی بڑی وجہ ہے لیکن میں پر امید ہوں۔ عافیہ نے مجھے اسلام کا نیا رنگ اسکے اصل کے مطابق دکھایا۔میری عافیہ سے گفتگو میں وہ مجھے نعتیں سناتی تھی جو اس نے نبی کریم کو لکھیں ۔ جنکے بعد اسے زیارت رسول کریم بھی ہوئی ۔ وہ حمد سناتی تھی ، ہم عام باتیں ہی کرتے تھے کیونکہ سب ریکارڈ ہوتا تھا۔ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ تھا کبھی امی پوچھتی تھیں کہ بیٹا تم نے کچھ کھایا ہے ۔ نماز کے حوالے سے وہ کہتی تھی کہ یہاں مشکل ہوتی ہے ، غلاظت ڈال دی جاتی ہے۔ کھانے میں زہریلی اشیا، ادویات کے طور پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ قونصل جنرل کو یہ سب چیزیں اس نے کھل کر بتائی ہیں کیونکہ وہ ریکارڈ نہیں ہوتا۔ قونصل جنرل کی رپورٹ میں اسکی اصل باتیں ہیں۔ اسمیں لکھا گیا ہے کہ روزہ کی حالت میں بھی اسکے لیے مسئلہ کیا جاتاہے، زمین پر نماز پڑھنے جاتی ہے تو گندگی پھینک دی جاتی ہے۔وہ رپورٹ دیکھنی چاہئے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے مہم تیز کی ہے ، عمران خان کی حکومت سے بہت توقعات ہیں ۔ جن سے توقعات زیادہ ہوتی ہیں ان سے شکوہ بھی ہوتا ہے۔ عمران خان برا نہ منائیں ، یہ توقعات انہی کی امیدوں سے ہیں۔ امید ہے ایک دو ہفتے میں اچھی خبر سنیں گے۔ اللہ پر یقین ہے کہ عافیہ کو لیکر آنا ہے ، دیکھنا ہے کہ وہ عظیم انسان کون ہوگا جسے اللہ رہائی کاذریعہ بنانے کے لیے چنتا ہے۔ بطور پاکستانی شہری یہ میرا فرض نہیں ہے کہ حکومت کو بتاﺅں کہ عافیہ کی رہائی کے لیے کیا اور کیسے کرنا ہے۔ دینی ،اخلاقی اور قومی فرض بنتا ہے کہ عافیہ کو رہائی دلوائی جائے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ قوم کی بیٹی ہے تو ایک بیٹی کا قوم پر کیا حق بنتا ہے۔ عافیہ کو لانے کے لیے امید کرتی ہوں کہ ایسا طریقہ کار طے کیا جائے گا کہ عافیہ عزت و عافیت سے آئے گی اور پاکستان کا وقار بلند ہوگا۔ میں نہیں جانتی کہ شکیل آفریدی کون ہے، اسکے بدلے رہائی کی بات کرنا میری پوزیشن نہیں ہے۔ یہ بھی آپشن ہے کہ عافیہ اپنی باقی سزا پاکستان آکر پوری کریں۔ بہت سارے اسکو دو، اسکو لو، ریمنڈ ڈیوس کو دیا اور اسکے بدلے کیا کچھ لیا ، کس کو دیا۔ برگیڈئیر باغ تال کو دیا، چار طالبان کو رہا کرایا، اتنے طالبان کو رہا کرایا۔ ان لوگوں کو رہاکرایاجو نہ قاتل ہیں اور نہ دہشتگرد۔ عام معافی دی گئی ہے۔ امریکی صدر اوباما نے ایسے لوگوں کو عام معافی دی ہے، جنہیں وہ خود دہشتگرد کہتے ہیں۔ بھارت نے ڈیل کی اور اپنی خاتون سفارتکار کو لیا۔ حکومتوں کیساتھ ایسی ڈیل چلتی ہے۔ اللہ نے چاہا تو پاکستان بھی کرے گا۔ نئی حکومت ہے ، نیاچاند سورج، نیا پاکستان ہے۔ روز جیتی ہوں روز مرتی ہوں ، اچھی امید ہی کروں گی۔عافیہ صدیقی کی اپنے تیسرے بچے کے حوالے سے گفتگو کے سوال پر ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ شروع میں جب عافیہ کا بیان آیا تھا اورانہوں نے پاکستانی سینیٹرز کو بھی بتا یا تھا کہ جب اسکو اغوا کیا جارہا تھاتو بچہ خون کے تالاب میں تھا، اسکے ہاتھ سے چھینا گیا اور نیچے گر گیا تھا۔ اس نے بے ہوش ہونے سے پہلے اسے خون کے تالاب میں دیکھا۔ انکے دونوں بچے ڈاکٹر بننا چاہ رہے ہیں انکی بیٹی کو گولڈ میڈل ملا ہے اور وہ پری میڈیکل میں گئی ہے۔ انکا بیٹا شاید مجھ سے متاثر ہو کر ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن رہاہے۔ عافیہ کے بارے خبریں آنے پر بچوں نے پہلی مرتبہ پوچھا کہ بتائیں کیا ہو رہاہے۔احمد نے کہا کہ میں بہت چاہتا ہوں کہ میں ملوں لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ انہیں اس حال میں زنجیروں میں دیکھ کر برداشت کرسکوں گا؟میں جب بند تھا تو میں کہتا تھا کہ ہر ظلم مجھ پر کر لو ، کاٹ دو لیکن اپنی ماں کی گود میں تو بیٹھنے دو۔میں ماں کو یاد کرتا تھا، ظلم کو یاد نہیں کرتا تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ بچوں کو انکی ماں سے الگ کرنے سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ عافیہ کے لیے سب کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر اس کردار کا مقصد عافیہ کی رہائی تھا تو وہ مقصد حاصل نہیں ہوا ۔ اگر مقصد کوئی اور تھا جو حاصل کر کے مختلف ہومن رائیٹس تنظیموں کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی ہے تووہ سامنے ہے،وقت بتاتاہے۔ میرا اطمینان عافیہ کا پاکستان میں ہونا اور اپنی ماں سے گلے ملنا ہے۔ عافیہ کے طالبان اور القاعدہ سے بالکل کوئی تعلقات نہیں ، اگر انکے پاس ایک بھی ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے دہشتگردی کا چارج لگاتے اور ساراڈرامہ کر کے اپنی جگ ہنسائی نہیں کرتے۔ عافیہ کے اب تک رہا نہ ہونے کے ذمہ داروں یا حکومت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ عافیہ آجائے اور اس حکومت کے ذریعے ہو تو حکومت کا شکریہ ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات سے بچوں پر سائیکالوجیکل ایفیکٹ ہوتا ہے۔ عافیہ کے بچے میرے بچے ہیں اور نارمل ہورہے ہیں۔ عافیہ کا کمرہ انکی بیٹی مریم استعمال کرتی ہے۔ عافیہ سب سے چھوٹی اور لاڈلی ہونے کیساتھ غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل تھی۔ عافیہ کو بچوںاور بزرگوں سے بے حد لگاﺅ تھا۔ وہ تعلیمی نظام سے ناخوش تھی کہ رٹا لگانا پڑتا ہے۔ ایسا تعلیمی نظام چاہتی تھی جس سے بچے لطف اندوز ہوں۔ عافیہ ابو کی بیٹی تھی ، وہ انتقال کر گئے ورنہ شاید وہ برداشت نہ کر پاتے۔ عافیہ کیساتھ میری بہت قربت تھی۔ عافیہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت اونچے خواب دیکھتی تھی۔ امریکا جانے سے پہلے ہی وہ واپس آکرپاکستانی بچوں کی تعلیم کے شعبے میں کام کرنا چاہتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے امریکا میں نہ گرین کارڈ لیا اور نہ شہریت لی۔ عافیہ کے یہ الفاظ مجھے رلاتے ہیں کہ جب اس نے حال پوچھنے پر کہا تھا کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ عافیہ نے مجھے ایک نظم سنائی تھی جسمیں مسلمانوں کو پکارا تھا اور کہا تھا کہ یہاں مومنائیں مرتی ہیں، یہاں عزتیں لٹتی ہیں، تم مست ہو اپنی بہاروں میں ، یہاں مسیحا بھی قاتل ہے، ہم ظلم سہتے ہیں اور آخر میں یہ کہا کہ پوچھے گا جب اللہ تم سے ، تم سوچ لو کیا کہناہے۔ میں یہ سوچ کر راتوں کو اٹھ جاتی ہوں۔ عافیہ کے دو بچے مجھے امی ہی کہتے ہیں۔ عافیہ کے بچے مجھے ملنا معجزہ ہے۔ عافیہ سے فون پر آخری گفتگو پر ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ عافیہ کی آواز نحیف محسوس ہوئی مگر آواز اسی کی تھی۔
