لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ امریکہ کے مڈٹرم الیکشن کے نتائج کچھ اس طرح سے آ رہے ہیں کہ اب تک جو نتائج میں ٹرمپ کی پارٹی کو196 روٹ اور ان کی مخالف ڈیمو کریٹس کو جن کی مہم سابق امریکی صدر اوباما نے مہم چلائی تھی اس کو ملے ہیں 213 ووٹ۔ کافی فرق ہے اور ٹرمپ کی پارٹی جو ہے 17 ووٹ ان کے کم ہیں۔ ایوان نمائندگان ہوتا ہے جس کو کانگریس کہتے ہیں یہ وہی شکل ہے جو ہمارے ہاں قومی اسمبلی کی ہوتی ہے۔ سینٹ میں 51 ووٹ ملے ہیں ٹرمپ کی پارٹی کو یعنی ری پبلکن کو اور 49 ووٹ ملے ہیں یعنی اوباما کی پارٹی کو اس میں ٹرمپ کی اگرچہ جیت ہے مگر فرق بہت کم ہے اس کے بعد گورنرز کی بات ہے۔ ٹرمپ کے گورنر 25 جبکہ ڈیموکریٹس کے 21 ریاستوں میں بنے ہیں یہاں بھی 64 کا فرق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اوباما اگر اپنی پارٹی پر پوری توجہ دیں تو اس بات کے امکانات ہو سکتے ہیں کہ امریکی صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک آ سکتی ہے کیونکہ کانگریس میں ٹرمپ کے ووٹ کم ہو گئے۔ سینٹ میں 2 زیادہ ہیں اور ریاستوں میں گورنرز میں 64 فرق ہے۔ فرق اتنا کم ہے کہ اس کو میک اپ کہا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال امریکہ کی صورت حال پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ اگر ٹرمپ ککی حکومت ہے اس کے لئے کوئی خطرہ نہ بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ اب طاقتور نہیں رہیں گے جتنے طاقتور پہلے تھے جب جیت کر آئے تھے جس طرح وہ نظر آ رہا تھا کہ مسلمانوںکا تو امریکہ میں رہنا ہی بند کر دیں گے اب وہ پوزیشن نہیں رہی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے حوالے جہاں تک پوزیشن ہے تو وزیرخزانہ اسد عمر کی پریس کانفرنس جو کل کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ 6 ارب ڈالر ہمیں سعودی عرب نے دیئے تھے اور 6 ارب ڈالر جو ہیں وہ چائنا دے رہا ہے اور ٹوٹل ہمیں 14 کی ضرورت تھی۔ 12 دن میں ہو گئے۔ یہ صورت حال ابھی کافی کنٹرورشل ہے کہ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ سعودی عرب نے دو ارب ڈالر جو پاکستانی سٹیٹ بینک میں رکھوائے تھے لیکن 4 ارب ڈالر کا مختلف پیکیج، سرمایہ کاری کے مواقع کا وعدہ کیا تھا انہوں نے نقد پیسے نہیں دیئے تھے اس طرح سے چین نے اگر امید دلائی ہے کہ پاکستان میں جو معیشت ہے اس کی صورتحال کو سنبھالنے میں مدد دے گا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کیش امداد کا گرانٹ کا کسی قسم کے قرصے کا کوئی اعلان نہیں ہوا لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی صاحب یا سلمان شاہ صاحب کو تو ان سے پوچھانا چاہیں گے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت کی کیا صورتحال ہے اور دراصل جو دو دن سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ٹیم سے اور آج بھی جو اسلام آباد میں ہے ان سے ہم کتنے پیسے چاہتے ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے باوجود پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑے گا۔ آپ کے خیال میں پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ کتنے پیسے لے تو اس کا کام چل سکتا ہے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو پروگرام ہے وہ تو میرا خیال ہے پاکستان اور چین کے مفاد میں بھی ہے مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لئے ایف بی آر کو ٹھیک کرنا ہے اور بیلنس شیٹ بھی ٹھیک کرنی ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ امریکہ میں پاکستان کی قیدی عافیہ صدیقی نے عمران خان کو ایک خط لکھا ہے کہ جس میں انہوں نے عمران خان سے کہا ہے کہ عمران مجھے بچا لو۔ آج کے اخبارات میں اس کی خبر بھی شائع ہوئی ہے اب ہوسٹن میں ایک جیل میں گزشتہ دنوں ایک بات پھیلی تھی کہ ان پر جیل میں تشدد کیا گیا ہے۔ پھرپاکستانی قونصل جنرل خاتون ہے ان سے ملنے گئی تھیں چنانچہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت کہا جا رہا ہے، امریکی کانگریس کے کچھ ارکان نے بھی یہ تجویز دی ہے کہ نیویارک میں کسی طریقے سے آسیہ کو پاکستان سے وہاں منگوا لیا جائے اور اگر اس کے جواب میں عافیہ کو واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔ لیکن اس میں دو دقتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ آسیہ اس وقت رہا ہو چکی ہے اور نظرثانی کی اپیل تک پینڈنگ ہے لہٰذا اس وقت تو پاکستان سے باہر نہیں جا سکتی اور دوسری بات یہ ہے کہ جو ہماری خاتون عافیہ ہیں وہ ان کو 5 مختلف مقدمات میں 82 سال قید کی سزا ہو چکی ہے کوئی طریقہ ایسا نہیں ہے سوائے ایک طریقے کے کہ جس طرح پاکستان میں بھی صدر مملکت کسی کی سزا معاف کر سکتے ہیں امریکہ میںبھی امریکی صدر جو ہے وہ عافیہ کی سزا کو معاف کر کے پاکستان بھجوا سکتا ہے چنانچہ ایک تو بات یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی سنجیدگی سے دونوں طرف سے کوشش کی جائے تو یہ ہو سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ اس وقت نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان میں آسیہ کے نظریاتی کیس کا فیصلہ نہ آ جائے۔ اس کا کیس اس وقت پینڈنگ ہے آسیہ اس وقت ملک سے باہر نہیں جا سکتی۔ ای سی ایل میں ان کا نام ڈال دیا گیا ہے اور دوسری طرف عافیہ جو ہے اس کو جب تک وہاں کے صدر امریکہ معاف نہ کرے اس وقت تک واپس نہیں آ سکتی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان دو خبروں کے علاوہ ایک بڑی چیز جو ہے پاکستان میں اسش پر بڑی تشویش پائی جاتی ہے کہ چند روز سے بینکو ںکے بارے میں یہ طوفان مچا ہوا ہے کہ بینکوں سے لوگوں کے اکاﺅنٹس ہیک ہو رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہیکنگ کس طرح ہوتی ہے۔
رپورٹر خبریں لاہور نادر چودھری نے کہا ہے کہ اے ٹی ایم کارڈ کی ہیکنگ کے مختلف طریقے ہیں۔ اے ٹی ایم مشین میں جہاں کارڈ ڈالا جاتا ہے وہاں گرین لائٹ جل رہی ہوتی ہے، اس کے اوپر ایک سکینر لگا دیا جاتا ہے جس سے استعمال ہونے والے اے ٹی ایم کارڈز کا تمام ڈیٹا اور پن کوڈ بھی ہیکر کی چپ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اے ٹی ایم مشین جہاں لگی ہوتی ہے وہاں بینک کے مختلف پیکجز کے حوالے سے شعور کیلئے ایک چھوٹی سی باسکٹ لگی ہوتی ہے جس میں واﺅچر وغیرہ رکھے ہوتے ہیں، ہیکر اس کے ساتھ چھوٹا سا کیمرہ فٹ کر دیتے ہیں جو نظر نہیں آتا۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں سے ہم پن کوٹ ٹائپ کرتے ہیں وہاں ایک کارڈ لگا ہوتا ہے، جو کوڈ ہم ٹائپ کرتے ہیں وہ اس کارڈ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ ہیکنگ کے مختلف طریقے ہیں جو بہت قدیم ہیں یہ کوئی آج سے شروع نہیں ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہیکر ایک سکینر کے ذریعے استعمال ہونے والے اے ٹی ایم کا ڈیٹا اور کوڈ حاصل کرتے ہیں۔ اے ٹی ایم میں صارف کا تمام ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے جو سکین ہونے سے واضح ہو جاتا ہے۔ انہو ںنے کہا کہ انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر کے درمیان میں صارفین کو ان کے اکاﺅنٹ سے رقوم کی منتقلی کے بارے میں پتہ چلا جبکہ یہ تمام ڈیٹا ڈارک ویب پر اپ لوڈ ہو چکا ہے۔ خبریں کو جو خفیہ ادارں کی رپورٹس وصول ہوئی ہیں، اس کے مطابق ڈارک ویب پر اب تک 9 ہزار ڈیبٹ کارڈ کا ڈیٹا اپ لوڈ ہو چکا ہے جس میں زیادہ تعداد پاکستانی بینکوں کی ہے۔ رپورٹ میں تمام تفصیلات موجود ہیں کہ کون سے بینک کے کتنے کارڈ کتنے کتنے میں فروخت کے لئے ڈارک ویب پر اپ لوڈ کئے گئے ہیں۔ ہمارے 24 میں سے 21 بینکوں کا ریکارڈ منظرعام پر آ چکاہے، 11 ہزار اے ٹی ایم کارڈز کی تفصیلات چوری ہو چکی ہیں۔
تجزیہ کار محسن ظہیر نے کہا ہے کہ امریکہ کی معاون وزیرخارجہ اسلام آباد کے دورے پر ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کے سامنے عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا ہے۔ عافیہ صدیقی کو امریکہ کی عدالت سے 80 سال سے زائد قائد کی سزا ہوئی ہے جو وہ بھگت رہی ہیں۔ عدالتی احکامات کے مطابق تو عافیہ کی رہائی ممکن نہیں البتہ امریکی صدر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی کی سزا معاف کر سکتا ہے۔ اس کی مثالیں بھی موجود ہیں اکثر اوقات ریٹائرمنٹ کے وقت امریکی صدر کچھ لوگوں کی سزائیں معاف بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب عافیہ کا کیس چل رہا تھا تو باتیں ہو رہی تھی ںکہ وہ انہیں سزا پاکستانی جیل میں کاٹے۔ اس پر قانونی ماہرین نے واضح کیا تھا کہ امریکہ کی عدالت سے کسی سزا یافتہ مجرم کو دوسرے ملک کی جیل میں منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے چند ماہ قبل جیل میں عافیہ صدیقی سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عافیہ صدیقی بیمار نہیں بالکل خیریت سے ہیں۔ اب عافیہ صدیقی کا موجودہ حکومت پاکستان کے نام خط سامنے آیا ہے، جس پر اسلام آباد میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی آئندہ ہفتے عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے ملاقات کریں گے اور پیش رفت سے متعلق آگاہ کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس نوازشریف کو رہا کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ انہوں نے نوازشریف کے وکلاءکو بھی تلقین کی ہے کہ آئندہ پیشی 12 نومبر کو مجھے قائل کرنے کی تیاری کر لیں کہ کس وجہ سے ہائیکورٹ نے نوازشریف کو رہا کر دیا۔ افواہیں ہیں کہ شاہد نوازشریف کو دوبارہ جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ احتساب عدالت میں پیشی کے بعد نوازشریف جنرل (ر) ناصر جنجوعہ سے ملنے گئے، دونوں کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں۔ ان خبروں سے لگتا ہے کہ شاید نوازشریف ناصر جنجوعہ سے مشورہ کریں کہ اگر ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے تو وہ باہر جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بھی ایک طرح کا این آر او ہی ہو گا۔ جس طرح نوازشریف کے دونوں صاحبزادے واپس نہیں آ رہے، شہباز شریف کے بھی دونوں بیٹے باہر جا چکے اسی طرح نوازشریف بھی چلے جائیں، ساری صورتحال 4,2 دنوں میں کلیئر ہو جائے گی۔ ابھی تک تو عمران خان کی حکومت کہہ رہی ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہو گا، جواب میں شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ کون این آر او مانگ رہا ہے؟ اب اگر نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا تو یہ این آر او ہی ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے گندم کی قیمت گزشتہ برس والی 1300 روپے ہی مقرر کی ہے حالانکہ اس دوران تیل، بجلی، زرعی آلات، کھاد وغیرہ بہت مہنگی ہوئی ہیں۔ زرعی ادویات تو ملتی ہی نہیں کیونکہ وہ ہے چین سے امپورٹ کرتے تھے، چینی حکومت نے فضائی آلودگی کے باعث تمام کارخانے بند کر دیئے۔ کہا جاتا ہے کہ گندم کی قیمت زیادہ ہونی چاہئے تھی۔ اب کسانوں کی طرف سے کوئی بہت بڑا احتجاج سامنے آ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت و اپوزیشن کے درمیان کوئی زیادہ مارجن نہیں ہے، اسی لئے ایوان میں روزانہ دنگا فساد ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے سنجیدہ معاملات پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پانی کے مسئلے پر سنجیدگی سے جواب دینے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کے والدین تک پہنچ جائیں۔ اصل مسئلہ پیچھے چلا جاتا ہے۔ گالم گلوچ آگے آ جاتی ہے۔ اگر تمام فاضل ارکان اسمبلی ایوان کے ماحول کو ٹھنڈا رکھیں، نرم زبان استعمال کریں تو اس سے قومی اسمبلی کی کارکردگی میں اضافہ ہو گا۔
پاکستان کسان اتحاد کے رہنما خالد کھوکھر نے کہا ہے کہ کسان کتنی مصیبت میں ہے، بیان نہیں کر سکتا۔ یوریا، کھاد، ڈیزل ہر چیز کی قیمت بڑھ چکی ہے لیکن حکومت نے گندم کا ریٹ پرانے والا ہی رکھا ہے۔ کاشتکار پریشان ہیں کہ معاوضہ پورا نہیں مل رہا۔ پاکستان کی واحد گندم ہے جس کی ایکسپورٹ پرائز ہے۔ انڈیا میں 31 کراس کی ایکسپورٹ پرائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید تھی کہ اس دفعہ گندم کا ریٹ کم از کم 1500 روپے رکھا جائے گا لیکن حکومت نے وہی ریٹ مقرر کیا ہے جو پچھلے 5,4 سال سے چل رہا ہے، جس کی وجہ سے کسانوں میں پریشانی کی لہر ہے۔ کسان اتحاد کا اجلاس بلا رہے ہیں اس کے بعد اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی خریداری کیلئے حکومتی ریٹ کو قبول نہیں کر رہے، ہماری لاگت بہت بڑھ چکی ہے، ہم تو ڈیم آگاہی مہم شروع کر رہے تھے، جس کا آغاز جھنگ سے رواں ماہ کی 18 تاریخ کو کر رہے ہیں۔