اسلام آباد (سیاسی رپورٹر) نامور عالم دین اور دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے خوفناک قتل کے بارے میں جس میں وہ شہید ہو گئے۔ بعض دیگر تفصیلات معلوم ہوئی ہیں۔ تاہم گزشتہ 48گھنٹے میں دین سے دور اور نام نہاد لبرل طبقہ نے ان کے بستر اور کمرے کی 13 تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کیں جن میں ان کا خون سے لت پت بستر بھی دکھایا گیا ہے اور قریب رکھی میز پر نشہ کی دو خالی بوتلیں اور تین گلاس بھی رکھے ہیں جن کے بارے مولانا کے لاکھوں شیدائیوں کا پختہ خیال ہے کہ یہ قاتلوں نے تصویریں بنوائی اور جاری کی ہیں جن سے نامور اور بلند پایہ عالم دین کی کردار کشی مقصود ہے۔ حالانکہ دو حملہ آور اور قاتل ان کے گھر پر آئے اور اگر واقعی کمرے میں نشہ آور مشروب کی بوتلیں پائی گئی ہیں تو یہ ہر گز اس بات کا ثبوت نہیں کہ دونوں حملہ آوروں کے علاوہ بھی کوئی شریک تھا۔ لیکن اپنے مفروضے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے تیسرا گلاس بھی وہاں رکھ دیا ہے جبکہ مشروب کی کچھ مقدار ایک گلاس میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ 13 تصاویر تمام کی تمام جعلی ہوں البتہ انکوائری ٹیم کے ارکان اور بعض پولیس اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ بستر مولانا سمیع الحق کے گھر ہی کا ہے تاہم اگر دونوں قاتل نشہ آور مشروب استعمال کرتے رہے تو انہوں نے مولانا پر حملہ کیوں کیا۔ ابتدائی خبروں میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ دونوں حملہ آوروں سے مولانا نے کوئی ضروری بات کرنے کو کہا گیا تھا اس لئے اپنے ڈرائیور اور پی اے کو کچھ چیزیں لینے بازار بھیج دیا تاہم انکوائری ٹیم یقینا ڈرائیور اور پی اے سے مزید تفصیلات حاصل کر لے گی۔ جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل جنہوں نے کہا ہے کہ اسی روز ان کو بھی مارنے کی کوشش کی گئی تھی نے خبریں کو بتایا تھا کہ وہ قتل کی خبر سن کر ہسپتال پہنچے جہاں مولانا کا زخموں سے چور جسم پڑا تھا۔ انہوں نے خود اہلکاروں کی مدد سے ان پر چادر ڈالی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں بے دین اور نام نہاد لبرل طبقہ جو ہے سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا کرتا رہا کہ حملہ آور مولانا کے جسم کے کچھ حصہ بھی کاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ عبداللہ گل نے کہا کہ جب میں ان کے جسد خاکی کے پاس پہنچا تو ان کے صاحبزادے ابھی نہیں آئے تھے کیونکہ انہیں دور سے پہنچنا تھا تاہم پوسٹمارٹم سے منع ان کے صاحبزادے نے کیا اور پولیس اہلکاروں کی درخواست لکھ کر دی کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے والد کا پوسٹمارٹم کیا جائے عبداللہ گل نے کہا کہ جسم کا کوئی حصہ کاٹنے کی خبر جھوٹی اور بے بنیاد ہے مولانا کے جسم کا بالائی حصہ خون سے تر بتر تھا کیونکہ جس چھری سے ان پر وار کئے گئے ان ضربات میں کوئی بھی زیادہ نظر نہیں آتا تھا جو ہو سکتاہے چھری کند ہو اور ابتدائی خبروں میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ قاتل کوئی معمولی ان پڑھ شخص نہیں تھا۔ 20,19 سالہ نوجوان جس کا نام بعض لوگوں نے گل خان بتایا اپنے نسبتاً بڑی عمر کے ساتھی کے ساتھ مولانا کے گھر پہنچا اور علیحدگی میں ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ گل خان ”را“ یا کسی اور ایجنسی کا تربیت یافتہ لگتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ خون کی نازک نسیں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں اس نے مولانا پر وار کرنے کے ساتھ چھری سے ان نازک نسوں کو کاٹا جس کی وجہ سے خون کے فوارے ابلنے لگے۔ جسم میں نازک نسیں جو خون لے کر جاتی ہیں اس کا علم عام شخص کو نہیں ہو سکتا۔ اگر مشروب کی بوتلوں والی فوٹیج کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دونوں بدبخت وہاں نشہ آور مشروب پیتے رہے اور بعد ازاں بڑے اطمینان سے گھر چھوڑ گئے۔ کیونکہ اس وقت پی اے اور ڈرائیور کا نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ مولانا نے کھانے پینے کے لئے ایسی چیزیں لانے کو کہا جس میں وقت لگتا ہے شاید انہوں نے کھانا بنوانے کے لئے کہا ہو۔ بہرحال اس بات کی تصدیق ڈرائیور اور پی اے سے پوچھ گچھ میں ہو سکتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مولانا سمیع الحق افغان طالبان سے مجوزہ مذاکرات میں افغان حکومت کی موجودگی کو پسند نہ کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف امریکہ ہو، ایک طرف طالبان اور تیسری طرف پاکستانی ٹیم کے ارکان لہٰذا ان کے قتل میں سب سے پہلا شک بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ پر ہوتا ہے کیونکہ پاکستانی حکومت نے سیاسی، سفارتی اور فوجی سطح پر اگر کابل حکومت سے مستقل رابطہ رکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور ان کے آقاﺅں کو پاکستان کی مذاکرات میں موجودگی پسند نہ تھی بلکہ سرے سے مذاکرات ہی کو ناپسند کرتے تھے کیونکہ موجودہ شکل میں ان کے کابل حکومت سے بہت گہرے تعلقات بن گئے تھے اور موجودہ صورتحال میں انہیں زیادہ سوٹ کرتی تھی۔ اگر طالبان سے امریکہ کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو علاقے میں امن پیدا ہو جاتا جو بھارتی پالیسی سازوں کو ہضم نہ ہوتا۔ لہٰذا مولانا سمیع الحق جو افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے حکومتوں کے علاوہ ذاتی سطح پر اہمیت رکھتے تھے کا بہیمانہ قتل دراصل افغان طالبان سے مذاکرات کے عمل کو کاٹنا ہے۔ دوسری طرف دین سے بے بہرہ اور نام نہاد لبرل طبقہ مسلسل اس قسم کی تصویریں اور خبریں پوری دنیا میں پھیلا رہا ہے جیسے یہ قتل کسی ذاتی ناراضگی کا نتیجہ ہو۔ اگر حملہ آوروں کے اتنے ہی اختلافات تھے تو مولانا جو انہیں پہچانتے تھے نے ان کو گھر میں خوش آمدید کیسے کہا اور ان کی خاطر مدارت اور کھانے وغیرہ کے لئے ملازم ڈرائیور اور پی اے کو باہر کیوں بھیجا۔ اگر واقعی قاتل کا نام گل خان تھا اور 20,19 برس کا نوجوان تھا تو اس کی مولانا سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی۔ تاہم انکوائری کرنے والے مہربلب ہیں اور وہ کسی سوال کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں۔ بہر حال خبریں کی گزشتہ روز چھپنے والی نیوز میں قاتل کا گھر کے ہی کچن سے چھری لا کر مولانا پر پے درپے وار کرنا اور پھر پیشہ ور قاتل کی طرح جو انسانی جسم کی نازک نسوں کو اوپر سے پہچانتا ہو کہ کہاں کہاں کٹ لگانے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ قاتل مکمل طور پر تربیت یافتہ تھا اور اگر واقعی موقع واردات پر مشروب کی بوتلیں چھوڑی ہیںتو ایک گلاس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مشروب پیا بھی گیا ہے۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے شروع میں کسی بحث کا آغاز کیا اوار بعد میں اچانک مولانا پر ٹوٹ پڑے۔ عبداللہ گل کے بقول اگرچہ پوسٹمارٹم نہیں ہوا لیکن جسد خاکی کا معائنہ کرنے والے ابتدائی ڈاکٹر کے مطابق پہلا وار عقب سے کیا گیا اور گردن کی پشت کو نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں سینے اور پیٹ پر جا بجا چھریاں چلائی گئیں اور پھر چن چن کر نازک نسوں کو کاٹا گیا اللہ معاف کرے یہ ایسا عمل تھا کہ جس سے شہید مولانا کو شدید تکلیف پہنچی ہو گی اور ان کا بہت زیادہ خون بہا ہو گا۔ جو وائرل ہونے والی تصویر دو دن پہلے سوشل میڈیا پر آئی تھی جبکہ بیڈ کے قریب پڑی ہوئی ٹوکری میں خون کی موجودگی صورت حال کو زیادہ تشویشناک بنا دیتی ہے خبریں نے اکثر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جو پوسٹمارٹم کرتے رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کاش پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل کر لیا جاتا تو رپورٹ سے یہ معلوم ہو سکتا تھا کہ کیا انہیں کوئی زہریلی چیز پلائی گئی ہے پھر قاتلوں کا ان کے بستر کے علاوہ مشروبات کی بوتلوں، گلاسوں خون سے بھری ہوئی ٹوکری کو جعلی یا اصل تصویروں کو وائرل کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس قتل کو کسی ذاتی عداوت کا نتیجہ قرار دلوانا چاہتے تھے۔ حالانکہ اگر واقعی ان کا کوئی اختلاف تھا تو مولانا کبھی انہیں تنہائی میں ملنے کی اجازت نہ دیتے اور ان کی خاطر مدارت کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لانے کا نہ کہتے۔ ظاہر ہے کہ غیر ملکی سازش کے تحت اس بات کو بھی سوشل میڈیا پر عام کیا جا رہا ہے کہ معمولی لڑائی تھی جس میں ذاتی نفرت اور انتقام شامل ہے جبکہ 80 سالہ مولانا سمیع الحق سے کسی کو کیا اختلاف ہو سکتا تھا یا ان پر کوئی دوسرا سنگین الزام لگانے والوں کو خدا کا خوف ہونا چاہئے اور ملی یکجہتی کے لئے کام کرنے والے اس عالم دین کو بدنام کرنا بھی عالم اسلام دشمنی کی تحریک کا حصہ لگتا ہے۔ 80 سالہ سکالر اور افغان امور کے ماہراور طالبان کے استاد کے بارے میں دیگر تمام قسم کی قیاس آرائیاں اصل قاتلوں کو بچانے کے لئے کوشش لگتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انکوائری کرنے والے رہائشی کالونی کے چوکیداروں کو خاص طور پر شامل تفتیش کر رہے ہیں۔ ایک افواہ یہ ہے کہ جب حملہ آوروں نے مولانا کو شدید زخمی کر کے گھر چھوڑ دیا تو مولانا سمیع الحق ابھی زندہ تھے اور انہوں نے ٹیلی فون کر کے ایمبولینس کے لئے کہا اور ان کی وفات بھی ایمبولینس کے اندر ہوئی تاہم ان سوالات کا جواب پولیس ہی دے سکتی ہے کہ کیا واقعہ پیش آیا۔