مولانا سمیع الحق کی شہادت، ان سے اکیلے میں ملاقات کیلئے آنیوالوں نے اپنا نام کیا بتایا اور وہ دراصل کون تھے؟ تہلکہ خیز خبرآگئی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو گزشتہ دنوں نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ان کے گھر میں شہید کردیاگیا تھا اور ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مولانا سے ملاقات کیلئے دو نامعلوم افراد آئے تھے جنہوں نے اکیلے میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن اب ان سے ملاقات کرنیوالوں کے نام بھی سامنے آگئے۔ روزنامہ خبریں کے مطابق مولانا سمیع الحق کے لواحقین سے قبل ہسپتال پہنچنے والے جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل نے بتایاکہ مولانا کے جسم پر زخم زیادہ گہرے نہیں تھے ، ہوسکتا ہے چھری کند ہو اور ابتدائی خبروں میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ قاتل کوئی معمولی ان پڑھ شخص نہیں تھا۔ 20,19 سالہ نوجوان جس کا نام بعض لوگوں نے گل خان بتایا اپنے نسبتاً بڑی عمر کے ساتھی کے ساتھ مولانا کے گھر پہنچا اور علیحدگی میں ملنے کی خواہش ظاہر کی۔گل خان ” را“ یا کسی اور ایجنسی کا تربیت یافتہ لگتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ خون کی نازک نسیں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں اس نے مولانا پر وار کرنے کے ساتھ چھری سے ان نازک نسوں کو کاٹا جس کی وجہ سے خون کے فوارے ابلنے لگے، جسم میں نازک نسیں جو خون لے کر جاتی ہیں، اس کا علم عام شخص کو نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس اسپتال سے گھر منتقل

راولپنڈی(ویب ڈیسک ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (آر آئی سی) کے ڈاکٹرز کی طرف سے انجیو پلاسٹی کے بعد آرام کا مشورہ دیا گیا ہے، جس کے باعث آج سپریم کورٹ کے بنچ ون میں زیر سماعت اہم مقدمات کو ڈی لسٹ کر دیا گیا۔بینچ نمبر ایک میں عدالت عظمیٰ نے آج جعلی بینک اکاو¿نٹس، زلفی بخاری نااہلیت کیس اور پائلٹس اور کیبن کرو کی ڈگریوں سمیت اہم کیسز کی سماعت کرنی تھی۔واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو سینے میں تکلیف کے باعث گزشتہ روز راولپنڈی کے مقامی اسپتال لایا گیا تھا، جہاں ان کی انجیو پلاسٹی کی گئی اور دو اسٹنٹ ڈالے گئے ۔ چیف جسٹس کو رات بھر اسپتال میں رکھا گیا اور پیر کی صبح ان کا چیک اپ کیا گیا جس کے بعد ماہر امراض دل جنرل اظہر کیانی نے انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی۔روانگی کے وقت میڈیا کو اسپتال کے گیٹ پر دیکھ کر چیف جسٹس اپنی گاڑی سے باہر آئے، صحافیوں سے مصافحہ کیا اور غیر رسمی بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کی صحت ٹھیک ہے اور وہ کل سے عدالت جائیں گے۔

بے دین طبقہ سوشل میڈیا پر مولانا سمیع الحق کی شہادت کو متنازعہ بنا رہا ہے

اسلام آباد (سیاسی رپورٹر) نامور عالم دین اور دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے خوفناک قتل کے بارے میں جس میں وہ شہید ہو گئے۔ بعض دیگر تفصیلات معلوم ہوئی ہیں۔ تاہم گزشتہ 48گھنٹے میں دین سے دور اور نام نہاد لبرل طبقہ نے ان کے بستر اور کمرے کی 13 تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کیں جن میں ان کا خون سے لت پت بستر بھی دکھایا گیا ہے اور قریب رکھی میز پر نشہ کی دو خالی بوتلیں اور تین گلاس بھی رکھے ہیں جن کے بارے مولانا کے لاکھوں شیدائیوں کا پختہ خیال ہے کہ یہ قاتلوں نے تصویریں بنوائی اور جاری کی ہیں جن سے نامور اور بلند پایہ عالم دین کی کردار کشی مقصود ہے۔ حالانکہ دو حملہ آور اور قاتل ان کے گھر پر آئے اور اگر واقعی کمرے میں نشہ آور مشروب کی بوتلیں پائی گئی ہیں تو یہ ہر گز اس بات کا ثبوت نہیں کہ دونوں حملہ آوروں کے علاوہ بھی کوئی شریک تھا۔ لیکن اپنے مفروضے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے تیسرا گلاس بھی وہاں رکھ دیا ہے جبکہ مشروب کی کچھ مقدار ایک گلاس میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ 13 تصاویر تمام کی تمام جعلی ہوں البتہ انکوائری ٹیم کے ارکان اور بعض پولیس اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ بستر مولانا سمیع الحق کے گھر ہی کا ہے تاہم اگر دونوں قاتل نشہ آور مشروب استعمال کرتے رہے تو انہوں نے مولانا پر حملہ کیوں کیا۔ ابتدائی خبروں میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ دونوں حملہ آوروں سے مولانا نے کوئی ضروری بات کرنے کو کہا گیا تھا اس لئے اپنے ڈرائیور اور پی اے کو کچھ چیزیں لینے بازار بھیج دیا تاہم انکوائری ٹیم یقینا ڈرائیور اور پی اے سے مزید تفصیلات حاصل کر لے گی۔ جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل جنہوں نے کہا ہے کہ اسی روز ان کو بھی مارنے کی کوشش کی گئی تھی نے خبریں کو بتایا تھا کہ وہ قتل کی خبر سن کر ہسپتال پہنچے جہاں مولانا کا زخموں سے چور جسم پڑا تھا۔ انہوں نے خود اہلکاروں کی مدد سے ان پر چادر ڈالی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں بے دین اور نام نہاد لبرل طبقہ جو ہے سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا کرتا رہا کہ حملہ آور مولانا کے جسم کے کچھ حصہ بھی کاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ عبداللہ گل نے کہا کہ جب میں ان کے جسد خاکی کے پاس پہنچا تو ان کے صاحبزادے ابھی نہیں آئے تھے کیونکہ انہیں دور سے پہنچنا تھا تاہم پوسٹمارٹم سے منع ان کے صاحبزادے نے کیا اور پولیس اہلکاروں کی درخواست لکھ کر دی کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے والد کا پوسٹمارٹم کیا جائے عبداللہ گل نے کہا کہ جسم کا کوئی حصہ کاٹنے کی خبر جھوٹی اور بے بنیاد ہے مولانا کے جسم کا بالائی حصہ خون سے تر بتر تھا کیونکہ جس چھری سے ان پر وار کئے گئے ان ضربات میں کوئی بھی زیادہ نظر نہیں آتا تھا جو ہو سکتاہے چھری کند ہو اور ابتدائی خبروں میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ قاتل کوئی معمولی ان پڑھ شخص نہیں تھا۔ 20,19 سالہ نوجوان جس کا نام بعض لوگوں نے گل خان بتایا اپنے نسبتاً بڑی عمر کے ساتھی کے ساتھ مولانا کے گھر پہنچا اور علیحدگی میں ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ گل خان ”را“ یا کسی اور ایجنسی کا تربیت یافتہ لگتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ خون کی نازک نسیں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں اس نے مولانا پر وار کرنے کے ساتھ چھری سے ان نازک نسوں کو کاٹا جس کی وجہ سے خون کے فوارے ابلنے لگے۔ جسم میں نازک نسیں جو خون لے کر جاتی ہیں اس کا علم عام شخص کو نہیں ہو سکتا۔ اگر مشروب کی بوتلوں والی فوٹیج کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دونوں بدبخت وہاں نشہ آور مشروب پیتے رہے اور بعد ازاں بڑے اطمینان سے گھر چھوڑ گئے۔ کیونکہ اس وقت پی اے اور ڈرائیور کا نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ مولانا نے کھانے پینے کے لئے ایسی چیزیں لانے کو کہا جس میں وقت لگتا ہے شاید انہوں نے کھانا بنوانے کے لئے کہا ہو۔ بہرحال اس بات کی تصدیق ڈرائیور اور پی اے سے پوچھ گچھ میں ہو سکتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مولانا سمیع الحق افغان طالبان سے مجوزہ مذاکرات میں افغان حکومت کی موجودگی کو پسند نہ کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف امریکہ ہو، ایک طرف طالبان اور تیسری طرف پاکستانی ٹیم کے ارکان لہٰذا ان کے قتل میں سب سے پہلا شک بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ پر ہوتا ہے کیونکہ پاکستانی حکومت نے سیاسی، سفارتی اور فوجی سطح پر اگر کابل حکومت سے مستقل رابطہ رکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور ان کے آقاﺅں کو پاکستان کی مذاکرات میں موجودگی پسند نہ تھی بلکہ سرے سے مذاکرات ہی کو ناپسند کرتے تھے کیونکہ موجودہ شکل میں ان کے کابل حکومت سے بہت گہرے تعلقات بن گئے تھے اور موجودہ صورتحال میں انہیں زیادہ سوٹ کرتی تھی۔ اگر طالبان سے امریکہ کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو علاقے میں امن پیدا ہو جاتا جو بھارتی پالیسی سازوں کو ہضم نہ ہوتا۔ لہٰذا مولانا سمیع الحق جو افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے حکومتوں کے علاوہ ذاتی سطح پر اہمیت رکھتے تھے کا بہیمانہ قتل دراصل افغان طالبان سے مذاکرات کے عمل کو کاٹنا ہے۔ دوسری طرف دین سے بے بہرہ اور نام نہاد لبرل طبقہ مسلسل اس قسم کی تصویریں اور خبریں پوری دنیا میں پھیلا رہا ہے جیسے یہ قتل کسی ذاتی ناراضگی کا نتیجہ ہو۔ اگر حملہ آوروں کے اتنے ہی اختلافات تھے تو مولانا جو انہیں پہچانتے تھے نے ان کو گھر میں خوش آمدید کیسے کہا اور ان کی خاطر مدارت اور کھانے وغیرہ کے لئے ملازم ڈرائیور اور پی اے کو باہر کیوں بھیجا۔ اگر واقعی قاتل کا نام گل خان تھا اور 20,19 برس کا نوجوان تھا تو اس کی مولانا سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی۔ تاہم انکوائری کرنے والے مہربلب ہیں اور وہ کسی سوال کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں۔ بہر حال خبریں کی گزشتہ روز چھپنے والی نیوز میں قاتل کا گھر کے ہی کچن سے چھری لا کر مولانا پر پے درپے وار کرنا اور پھر پیشہ ور قاتل کی طرح جو انسانی جسم کی نازک نسوں کو اوپر سے پہچانتا ہو کہ کہاں کہاں کٹ لگانے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ قاتل مکمل طور پر تربیت یافتہ تھا اور اگر واقعی موقع واردات پر مشروب کی بوتلیں چھوڑی ہیںتو ایک گلاس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مشروب پیا بھی گیا ہے۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے شروع میں کسی بحث کا آغاز کیا اوار بعد میں اچانک مولانا پر ٹوٹ پڑے۔ عبداللہ گل کے بقول اگرچہ پوسٹمارٹم نہیں ہوا لیکن جسد خاکی کا معائنہ کرنے والے ابتدائی ڈاکٹر کے مطابق پہلا وار عقب سے کیا گیا اور گردن کی پشت کو نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں سینے اور پیٹ پر جا بجا چھریاں چلائی گئیں اور پھر چن چن کر نازک نسوں کو کاٹا گیا اللہ معاف کرے یہ ایسا عمل تھا کہ جس سے شہید مولانا کو شدید تکلیف پہنچی ہو گی اور ان کا بہت زیادہ خون بہا ہو گا۔ جو وائرل ہونے والی تصویر دو دن پہلے سوشل میڈیا پر آئی تھی جبکہ بیڈ کے قریب پڑی ہوئی ٹوکری میں خون کی موجودگی صورت حال کو زیادہ تشویشناک بنا دیتی ہے خبریں نے اکثر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جو پوسٹمارٹم کرتے رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کاش پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل کر لیا جاتا تو رپورٹ سے یہ معلوم ہو سکتا تھا کہ کیا انہیں کوئی زہریلی چیز پلائی گئی ہے پھر قاتلوں کا ان کے بستر کے علاوہ مشروبات کی بوتلوں، گلاسوں خون سے بھری ہوئی ٹوکری کو جعلی یا اصل تصویروں کو وائرل کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس قتل کو کسی ذاتی عداوت کا نتیجہ قرار دلوانا چاہتے تھے۔ حالانکہ اگر واقعی ان کا کوئی اختلاف تھا تو مولانا کبھی انہیں تنہائی میں ملنے کی اجازت نہ دیتے اور ان کی خاطر مدارت کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لانے کا نہ کہتے۔ ظاہر ہے کہ غیر ملکی سازش کے تحت اس بات کو بھی سوشل میڈیا پر عام کیا جا رہا ہے کہ معمولی لڑائی تھی جس میں ذاتی نفرت اور انتقام شامل ہے جبکہ 80 سالہ مولانا سمیع الحق سے کسی کو کیا اختلاف ہو سکتا تھا یا ان پر کوئی دوسرا سنگین الزام لگانے والوں کو خدا کا خوف ہونا چاہئے اور ملی یکجہتی کے لئے کام کرنے والے اس عالم دین کو بدنام کرنا بھی عالم اسلام دشمنی کی تحریک کا حصہ لگتا ہے۔ 80 سالہ سکالر اور افغان امور کے ماہراور طالبان کے استاد کے بارے میں دیگر تمام قسم کی قیاس آرائیاں اصل قاتلوں کو بچانے کے لئے کوشش لگتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انکوائری کرنے والے رہائشی کالونی کے چوکیداروں کو خاص طور پر شامل تفتیش کر رہے ہیں۔ ایک افواہ یہ ہے کہ جب حملہ آوروں نے مولانا کو شدید زخمی کر کے گھر چھوڑ دیا تو مولانا سمیع الحق ابھی زندہ تھے اور انہوں نے ٹیلی فون کر کے ایمبولینس کے لئے کہا اور ان کی وفات بھی ایمبولینس کے اندر ہوئی تاہم ان سوالات کا جواب پولیس ہی دے سکتی ہے کہ کیا واقعہ پیش آیا۔

چودھری کا پولیس کیساتھ ملکر ٹیچر پر تشدد ، خواتین کو گالیاں ، متاثرہ خاندان” خبریں ہیلپ لائن “پہنچ گیا

پیرمحل (چوہدری محمد سرور انجم سے ) بااثر چوہدری کا پولیس سے مل کر دس سال پرانا وقوعہ بنا کر سکول ٹیچر کو گرفتار کر کے مدعی اور پولیس کا مشترکہ وحشانہ تشدد،، تین بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج ،، پولیس رشوت کے ہاتھوں اندھی دروازے توڑ تے ہوئے گھر داخل ہو گئی چادر چار دیواری کا تقدس پامال ،،عورتوں کو گندی غلیظ گالیاں اور سکول ٹیچر کے ساتھ خاندا ن کے سامنے بے حرمتی ،، پولیس گردی کا شکا ر خاندان انصاف کیلئے ،،خبریں آ فس ،، پہنچ گیا ،تفصیلات کے مطابق پیرمحل کے نواحی گاﺅں چک نمبر 692/34گ ب کے رہائشی راشد مسعود،خالد مسعود ،آ صف مسعود کے والد مسعود نے دس سال قبل ایک عدد بھینس اپنے ہی گاﺅں کے بااثر چوہدری اورنگزیب خان سے اد ھیارا(حصہ) پر لی جو جوان ہونے پر مسعود نے ادھیارہ سمیت بااثر چوہدری اورنگزیب کو واپس کر دی جس کے بعد بھینس مذکور کی بابت کوئی لین دین بقایا نہ رہا تھا جبکہ مسعود گزشتہ 8ماہ قبل وفات پا گیا جس کے بعد بااثر چوہدری اورنگزیب نے زمین کے تنازعہ پرتھانہ صدر پیرمحل پولیس سے بھاری رشوت کے عوض مبینہ طور پر مرحوم مسعود کے تینوں بیٹوں راشد مسعود،خالد مسعود ،آ صف مسعود کے خلاف دس سال قبل خود ساختہ بھینس حصہ (ادھیارہ ) پر دینے کا جھوٹا بے بنیاد وقوعہ بنا کر 15لاکھ روپے بھینس ادھیارہ کی بابت مورخہ 30-10-2018بجرم 406ت پ مقدمہ درج کروا دیا اور ایس ایچ او نے کاروائی کیلئے سب انسپکٹر ریحان کو ملزمان کی گرفتاری کا فوری ٹاکس دے کر پولیس نفری کے ہمراہ روانہ کر دیا پولیس ملازمین گزشتہ رات 8/9بجے کے قریب گھر کے دروازے توڑ کر اندر گھس گئی اور گھر میں موجود عورتوں کو ننگی گالیاں نکالتے ہوئے شدید زدوکوب کیا اور گھر میں موجود مسعود کے بیٹے سکول ٹیچر راشد مسعود کو پکڑ کر کے اہلخانہ کے سامنے مدعی کا پسٹل تنان کر پولیس کے ہمراہ وحشیانہ تشدد کرنے لگے اورمدعی مقدمہ بااثر چوہدری کے سامنے خوشنودی حاصل کرنے اور رشوت ہضم کرنے کیلئے بے حرمتی کا مظاہرہ بھی کیا مقدمہ کے مدعی اونگزیب نے ماسٹر راشد کے بیٹے سے موبائل چھین لیا جبکہ ریحان SIنے پرس سے 50ہزار روپے کی نقدی اور ایک عدد موبائل چھین لیا اور سکول ٹیچر راشد مسعود کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا ظلم کا شکار ہونے والا سکو ل ٹیچر گورنمنٹ مڈل سکول رفیقی شورکوٹ کینٹ میں تعینات ہے پولیس گردی کا شکار ہونے والا متاثرہ خاندان انصاف کے حصول کیلئے ،،خبریں آ فس ،،پہنچ گیا جہاں مظلوم خاندا ن نے ظلم کی داستان سناتے ہوئے ،،خبریں ،، کی وساطت سے جب ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ صادق علی ڈوگر کو دس سال پرانے جھوٹے وقوعہ کی FIRکا علم ہوا تو ڈی پی اونے سخت نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او پیرمحل کو انکوائری کر کے مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا اور جھوٹے مقدمہ میں ملوث تینوں بھائی ملزمان کے وقوعہ میں ملوث سب انسپکٹر ریحان سمیت ملازمین کی رپورٹ طلب کر لی متاثرہ خاندان نے ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ ، آ ر پی او فیصل آ باد ،آ ئی جی پنجاب اور چیف جسٹس سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے پولیس کا خواتین کی بے حرمتی کرنے اور رقم اور موبائل چھیننے اور چادر چاردیواری تقدس پامال کرنے کے جرم میں ملزمان ریحان سب انسپکٹر سمیت ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی فریاد کی ہے ۔