یاسر شاہ ٹیسٹ کرکٹ کی ایک اننگز میں 8 وکٹیں لینے والے تیسرے پاکستانی بولر بن گئے

دبئی(ویب ڈیسک) یاسر شاہ ٹیسٹ کرکٹ کی ایک اننگز میں زیادہ وکٹیں لینے والے تیسرے پاکستانی بولر بن گئے۔نیوزی لینڈ کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں یاسر شاہ نے شاندار بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 41 رنز کے عوض 8 وکٹیں حاصل کیں۔یاسر شاہ نے کیویز کے خلاف جہاں اپنے کیرئیر کی شاندار بولنگ کی وہیں وہ ایک اننگز میں کم ترین رنز دے کر زیادہ وکٹیں لینے والے تیسرے پاکستانی بولر بن گئے۔لیگ اسپنر یاسر شاہ مجموعی طور پر 31 ٹیسٹ میچز میں 181 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں، ان کی بہترین کارکردگی میں 2 ٹیسٹ میچز میں 10،10 وکٹیں، 15 مرتبہ 5،5 وکٹیں اور 9 مرتبہ 4،4 وکٹیں لینا شامل ہے۔اس سے قبل قادر خان نے 1987 میں انگلینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں 56 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کیں اور وہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ہیں۔سرفراز نواز بھی آسٹریلیا کے خلاف 1979 میں میلبرن اسٹیڈیم میں 86 رنز کے عوض 9 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔سابق کپتان عمران خان بھی ٹیسٹ کرکٹ کی ایک اننگز میں 8 وکٹیں حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں اور انہوں نے دو مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا۔عمران خان نے 1982 میں سری لنکا کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں 58 رنز اور 1982 میں ہی بھارت کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 60 رنز کے عوض 8 وکٹیں حاصل کیں۔سکندر بخت نے 1979 میں بھارت کے خلاف 79 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کیں۔

ترکی کا”منڈا“بھی ”لہوری کُڑی“کا دیوانہ نکلا

لاہور(ویب ڈیسک) نومبر دسمبر اور جنوری دراصل روایتی لحاظ سے پاکستان میں شادیوں کا سیزن ہوتاہے اور ہر طرف بینڈ باجا اور شہنائیاں بجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں تاہم حالیہ سال کچھ زیادہ ہی سپیشل رہا کیونکہ سرحد پار بھارت میں بالی ووڈ میں بھی شادیاں چل رہی ہیں اور پاکستان میں بھی جوڑے نکاح کے بندھن میں بندھ رہے ہیں۔کچھ روز سے میڈیا میں امریکہ سے آئی نوجوان لڑکیوں کی پاکستانی لڑکوں کے ساتھ شادی کے چرچے عام ہو رہے ہیں تاہم اب ترکی سے آئے نوجوان لڑکے نے بھی پاکستانی لڑکی کے ساتھ منگنی کر لی ہے جس کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے۔اس خوبرو نوجوان کا نام فرحت کارنتک ہے جو کہ پیشے کے لحاظ سے ڈی جے ہے اور پاکستان میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کیلئے آیا تھا۔ ان کے فیس بک پیج کو دیکھا جائے تویہ کوئٹہ بھی گئے ہیں جہاں انہوں نے اپنے فن کا جادو بھی چلایا۔اس نیچے دی گئی ویڈیو میں کانتک اسلام آباد میں کنسرٹ کر رہے ہیںاور اپنے فن کا مظاہرہ دکھا رہے ہیںسوشل میڈیا پر یہ تصاویر تیزی کے ساتھ وائرل ہو رہی ہیں جس میں نوجوان نے اپنے گلے میں گیندے کے پھولوں کا ہار پہن رکھا ہے جبکہ سفید رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ کالے رنگ کی ویسٹ کوٹ زیب تن کی ہے جبکہ لڑکی لال رنگ کے جوڑے میں سجی بیٹھی ہے۔فیس بک پر صارفین کی جانب سے کہا جارہاہے کہ وہ اس لڑکی کو جانتے ہیں اور اس کا تعلق لاہور ہے جبکہ وہ ایک معروف ماڈل ہیں جن کا نام صدف چوہدری لیا جارہاہے۔کارنتک نے فیس بک پر اپنا مختصر تعارف بھی کروا رکھاہے جس کے مطابق وہ ڈی جے کے پیشے سے وابستہ ہیں جبکہ اس کا تعلق ترکی کے شہر منیسا سے ہے۔

خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد تحریک لبیک کا قائم مقام امیر کسے بنادیا گیا؟ اعلان ہوگیا

لاہور (ویب ڈیسک)جمعہ کے روز تحریک لبیک کے خلاف ہونے والے کریک ڈاﺅن کے بعد ڈاکٹر شفیق امینی کو تحریک لبیک کا قائم مقام امیر مقرر کردیا گیا ہے۔جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کے خلاف کریک ڈاﺅن کا آغاز علامہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے ساتھ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملک بھر میں تحریک کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ حکومت کی جانب سے علامہ خادم حسین رضوی کو 30 روز کیلئے اڈیالہ جیل میں نظر بند کیا جاچکا ہے جبکہ دیگر مرکزی قیادت بھی گرفتار یا اپنے گھروں میں نظر بند ہے۔علامہ خادم رضوی کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر شفیق امینی کو تحریک لبیک کا قائم مقام سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شفیق امینی پی ایچ ڈی سکالر اور علامہ خادم رضوی کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں۔ قائم مقام امیر بننے سے پہلے وہ تحریک کی جانب سے صوبہ پنجاب کی قیادت کر رہے تھے۔

کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد: ’اب یاتریوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہو گی‘

لاہور (ویب ڈیسک)انڈیا کے نائب صدر ونکیا نائیڈو اور انڈین پنجاب کے وزیراعلی امریندر سنگھ نے پیر کو کرتارپور راہدرای کا سنگِ بنیاد رکھ دیا ہے۔ڈیرہ بابا نانک میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعلی کیٹپن امریندر سنگھ نے کہا کہ اب یاتریوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اب براہِ راست زیارت ہو سکے گی۔انڈیا کے نائب صدر ونکیانائ?ڈو نے کہا کہ انڈیا پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، تاہم کسی بھی قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔کرتارپور کوریڈور کے حوالے سے پاکستان میں راہداری کا سنگ بنیاد بدھ کو رکھا جائے گا۔ اس تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان شرکت کریں گے اور انڈیا کی جانب سے وزرا ہرسیمرت کور اور ہردپپ سنگھ پوری اس پروگرام میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔پاکستان کی سرحد سے 100 میٹر کے فاصلے پر انڈین ریاست پنجاب کے ضلع گروداس پور میں ڈیرا بابا نانک ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے جلد ہی پاکستان کے کرتارپور صاحب گرودوارے جانے والے زائرین کے لیے کوریڈور، یعنی راہداری بنائی جائے گی۔پیر کو ہونے والی ایک تقریب میں اس راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں انڈیا کے نائب صدر وینکیا نائیڈو اور پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ شرکت کر رہے ہیں۔اس کے لیے ڈیرا بابا نانک میں تقریبا دو درجن افراد تیاریوں میں مشغول نظر آتے ہیں جبکہ علاقے میں بڑے پیمانے پر سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔پیر کو منعقد کی جانے والی اس تقریب کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے دو روز بعد یعنی 28 نومبر کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی سرحد کے دوسرے پار سے اسی کوریڈور کی بنیاد رکھیں گے۔کرتارپور صاحب پاکستان کے حصے میں ہے جبکہ انڈین سرحد سے اس کا فاصلہ محض ساڑھے چار کلو میٹر ہے۔اب تک کچھ عقیدت مند دوربین سے کرتارپور صاحب کا دیدار کرتے رہے ہیں۔ یہ کام اب تک انڈیا کی سرحدی فورس بی ایس ایف کی نگرانی میں ہوتا رہا ہے۔سکھ عقیدت مند کہتے ہیں کہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک سنہ 1522 میں کرتارپور گئے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال وہیں گزارے۔یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس جگہ گرو نانک کا انتقال ہوا اسی جگہ ایک گرودوارہ تعمیر کیا گیا تھا۔اب جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان کرتارپور صاحب کے لیے کوریڈور بنانے پر اتفاق ہوا ہے، مقامی لوگوں میں اس کے متعلق کچھ تشویش پائی جاتی ہے۔اس کی وجہ بظاہر علاقے میں اچانک سکیورٹی فورسز اور دوسرے آنے والے لوگوں کی بھیڑ میں اضافہ ہے۔دور سے ہی عقیدت مند گرودوارے کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔بی ایس ایف کے ایک افسر نے بتایا: ‘ابھی تک جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ ادھوری ہیں۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ کس قسم کا کوریڈور بنے گا اور اس کا راستہ کس جانب سے ہوگا۔’علاقے کے ایک کسان ہربھجن سنگھ نے کہا: ‘رب کی مہر سے ہم آج یہ دن دیکھ رہے ہیں کہ سرحد پر چہل پہل بڑھی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ کوریڈور سے ہمیں فائدہ پہنچے گا۔ لیکن پتہ نہیں کہ اوپر والے نے ہمارے نصیب میں کیا لکھا ہے۔’تاہم بہت سے لوگ اس معاملے پر پرجوش نظر آ رہے ہیں۔
اس کی وجہ وہ رپورٹیں ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ زائرین کی آمد و رفت سے اس علاقے کی جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔گرودوارے کے باہر بیرا کھلونے بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘یہاں کبھی 1500 سے زیادہ لوگ نہیں آئے۔ لیکن جب سے کوریڈور بننے کی بات ہوئی ہے لوگوں کی آمد میں یکایک اضافہ ہو گیا ہے۔‘’یہ تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا کہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں لیکن اب تک جو ہو رہا ہے اسی کا مزا لیا جائے۔’قریبی گاو¿ں کے جوگیندر سنگھ کا بھی یہی خیال ہے۔ اس علاقے میں ان کی زمینیں ہیں۔انھوں نے کہا: ‘یہ سب دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن ہماری تشویش یہ ہے کہ کہیں ہمیں یہاں سے ہٹا نہ دیا جائے۔ کیونکہ آنے والے وقت میں یہاں سیاحوں کی بھیڑ بڑھے گی۔ امید ہے کہ گرو نانک ہمارا خیال رکھیں گے۔’سرحد پر تعینات ایک بی ایس ایف افسر کو سرحد پر پہلی مرتبہ تعینات کیا گیا ہے۔ ان کے خدشات مختلف ہیں۔وہ کہتے ہیں: ‘اس علاقے میں سرگرمیوں میں اضافے سے ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی۔ ہمیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی۔’پاکستان میں سکھوں کے دوسرے مذہبی مقامات جیسے ڈیرہ صاحب، لاہور، پنجہ صاحب اور ننکانہ صاحب کے برعکس کرتارپور صاحب انڈو پاک سرحد کے قریب واقع ہے۔تقسیم ہند میں یہ گرودوارہ پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔لاہور سے نکل کر گرودوارے کی جانب بڑھنے پر سبز کھیت آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ بچے کھیتوں میں کھیلتے ٹیوب ویل سے پانی پیتے نظر آتے ہیں۔ انھی کھیتوں کے درمیان ایک سفید رنگ کی شاندار عمارت نظر آتی ہے۔
گرودوارے میں ایک کنواں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ گرونانک کے زمانے سے ہے اور عقیدت مند اس کا خاصا احترام کرتے ہیں۔کنویں کے پاس ایک بم کے ٹکڑے کو شیشے میں سجا کر رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنہ 1971 کی جنگ میں یہ بم یہاں گرا تھا۔یہاں کے خدمت گاروں میں سکھ اور مسلم دونوں شامل ہیں۔دریائے راوی میں سیلاب کی وجہ سے گرودوارے کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ 1920 سے 1929 کے درمیان مہاراجہ پٹیالہ نے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ اس وقت اس پر ایک لاکھ 35 ہزار روپے کا خرچہ آیا تھا۔سنہ 1995 میں حکومت پاکستان نے اس کے بعض حصوں کو دوبارہ بنوایا تھا۔
انڈیا اور پاکستان نے کرتارپور صاحب کے بارے میں سنہ 1998 میں پہلی بار بات کی تھی۔ اب 20 سال بعد اس سمت اہم قدم اٹھایا جا رہا ہے۔

50 لاکھ گھروں کے منصوبے کے لیے عمران خان کے مشیر انیل مسرت کون ہیں؟

اسلام آباد (ویب ڈیسک)صنعتی شہر مانچسٹر کے ورکنگ کلاس علاقے لانگ سائٹ میں پیدا ہونے والے 49 سالہ انیل مسرت کا شمار برطانیہ کے امیر ترین ایشیائی باشندوں میں ہوتا ہے۔انیل کا بچپن ورکنگ کلاس تارکین وطن کے بچوں کی طرح ہی تھا ہر سال والدہ کے آبائی شہر چنیوٹ اور والد کے آبائی شہر گوجرہ کا چکر لگانا اور یہاں آزاد اور پر امن ماحول میں گلیوں بازاروں میں گھومنا پھرنا ا±ن کے لیے روٹین تھا۔ سکول میں انیل کا دل نہیں لگتا تھا اسی لیے سکول سے ڈراپ آو¿ٹ ہو گئے اوپر سے افتاد یہ پڑی کہ والد کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انہیں لڑکپن میں ہی غم روزگار میں مبتلا ہونا پڑا۔تایا لانگ سائٹ کے علاقے میں ہی پراپرٹی کا کاروبار کرتے تھے انہی سے بزنس کے پہلے گ±ر سیکھے اور ابتدا میں گھر کرائے پر چڑھانے شروع کیے۔ ان کے پرانے محلے دار کہتے ہیں کہ انیل کی کاروباری سوجھ بوجھ میں ایک بوڑھے رئیل اسٹیٹ بزنس مین کا اہم کردار ہے جس نے انیل کو اس کاروبار کی اونچ نیچ سکھائی۔ تربیت کا کمال تھا یا انیل کی ذاتی محنت، لڑکپن کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مانچسٹر سے شروع ہونے والا کاروبار اب پورے یورپ میں پھیل چکا ہے۔ مگر اتنی کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود انیل اب بھی 18 گھنٹے کام کرتے ہیں اور ان کا عزم ہے کہ وہ ایک دن برطانیہ کا سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ گروپ بنائیں۔سالہا سال کی محنت کے بعد جب انیل مسرت خوشحال ہوئے تو 2004 میں انہوں نے میاں نواز شریف، عمران خان اور دوسرے پاکستانیوں سے میل جول شروع کیا۔ تقریباً اسی زمانے میں انہوں نے بھارت کے فلمی ستاروں امیتابھ بچن، شاہ رخ ، سلمان خان اور انیل کپور اور سنیل سیٹھی کے ساتھ دوستی کی بنیاد ڈالی۔ کرکٹ اور فلم ان کے بچپن کے شوق ہیں عمران خان ان کا کرکٹر ہیرو ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ 30 سال گزرنے کے باوجود اب بھی عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے مداح ہیں۔بالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے دیکھتے وہ اس کے بڑے ناموں سے مانوس ہوئے اور جب وہ دولت و مرتبہ کے ایک خاص مقام پر پہنچے تو اسی طلسماتی دنیا کے کرداروں سے کندھے ملانے میں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ وہ بالی ووڈ کے ستاروں کے گھر ہی کا ایک فرد ہے۔انیل مسرت کی کامیابیوں کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں وہ برطانوی سیاست کے اہم ترین کرداروں کے بھی راز دار ہیں۔ وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور ان کی اہلیہ شری بلیئر نے سرمایہ کاری کرنی ہو تو وہ انیل سے مشورہ کرتے ہیں اور تو اور ڈیوڈ کیمرون سے بھی ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔ یہ سب سے بڑے نام تو سویلین دنیا کے ہیں جن سے ان کی سماجی اور سیاسی مصروفیات کی وجہ سے راہ و رسم بڑھانا مشکل نہیں ہوتا لیکن انیل مسرت کی فتوحات تو فوج کے شعبے تک بھی ہیں۔ برطانوی افواج کے کمانڈر مسٹر نِک ہوں یا پاکستانی افواج کے کمانڈر جنرل باجوہ ان کا سب سے ملنا ج±لنا اور سماجی راہ و رسم ہے ان کے دائر? تعلقات میں تازہ اضافہ عدلیہ کے شعبے میں ہوا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے بھی برطانیہ میں پہلا عشائیہ انیل مسرت ہی کے ساتھ کیا۔ بظاہر کم گو مگر فوکسڈ انیل مسرت کے دائر? اثر کا اندازہ ان کے ملنے والوں کی فہرست سے بخوبی ہو سکتا ہے۔انیل مسرت کی طبیعت میں عاجزی ہے وہ بڑے بڑے دعوے نہیں کرتے۔ اپنی دولت کی شیخیاں نہیں بگھارتے۔ ان کے ذاتی دوست چند ہیں مگر ان کے ساتھ آو¿ٹنگ کرتے ہیں اپنے بھائی نبیل چودھری اپنی بہنوں بہنوئیوں، داماد، بیوی اور والدہ سمیت سب کو ساتھ ملا کر چلتے ہیں۔ برطانیہ میں رہنے کے باوجود اپنے خاندان کو مشترکہ خاندانی نظام کی طرح چلاتے ہیں بھائی نبیل چودھری کا رہن سہن امیروں والا ہے اس کی گرل فرینڈز کے قصے زبان زدِ عام رہتے ہیں انیل خاندان لندن کے مشہور اور مہنگے ترین لیڈی انا بیل کلب کا سرگرم رکن ہے ان کے اکثر فنکشنز وہیں ہوتے ہیں۔انیل مسرت کے ناقدین اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انیل کو شریف خاندان نے سرمایہ کاری کے لیے پیسے دیے تھے۔ انیل نے اس میں کیا خرابی کی کہ شریف خاندان اور انیل مسرت میں دوریاں پیدا ہوگئیں؟انیل مسرت کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے اس کا شریف خاندان سے ملنا جلنا ضرور تھا مگر کبھی اکٹھے کاروبار نہیں کیا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ دھرنے کے دوران انیل مسرت عمران خان کی سٹیج پر نظر آئے تو شریف برادران ناراض ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ انیل کو برطانوی وزیر اعظم سے مل کر یہ درخواست کرنا پڑی کہ انہیں خدشہ ہے کہ دور? پاکستان کے دوران شریف خاندان انہیں کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار نہ کر لے۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے یہ یقینی بنایا کہ انیل مسرت کو پاکستان میں کوئی گرفتار نہ کر سکے۔ انیل دل و جان سے عمران خان کی کامیابی چاہتے ہیں اسی لیے وہ اپنے تجربات کا نچوڑ 50 لاکھ گھر بنانے کے منصوبے کی رہنمائی کر کے ملک پر نچھاور کرنا چاہتے ہیں۔انیل کہ تعلقات برطانیہ میں موجود سیاسی رہنماو¿ں کے ساتھ بھی ہیں جن میں سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر اور وزیرِ داخلہ ساجد جاوید بھی شامل ہیں۔انیل مسرت ویسے تو مشینی انسان ہیں ہر وقت پراپرٹی کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں لیکن انسانی طور پر اپنے خاندان سے جڑے رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ شاہ محمود قریشی کے خاندان سے ہیں انیل اپنے اکلوتے بیٹے رافع کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور انہیں خوب سیر کرواتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔عمران خان سے وابستگی، ا±ن کی الیکشن مہم میں خرچہ کرنے اور پھر ہاو¿سنگ پراجیکٹ کی مشاورت کی وجہ سے انیل مسرت پاکستانی سیاست میں متنازغ کردار بن کر سامنے آئے ہیں چونکہ لوگ ان سے زیادہ واقف بھی نہیں اسیلیے پراسراریت کا ایک ہالہ بھی ان کے گرد قائم ہو گیا ہے۔انیل مسرت چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعظم کے ڈیم فنڈ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا انیل مسرت بھی معین قریشی، شوکت عزیز یا کئی دوسرے تارکین وطن کی طرح کسی عہدے، ٹھیکے یا مال بنانے والے کسی پراجیکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں یا پھر وہ واقعی اپنے بین الاقوامی کامیاب تجربوں کے نچوڑ سے پاکستانی ہاو¿سنگ میں انقلاب لانا چاہتے ہیں؟توقع یہی کرنی چاہیے کہ انیل مسرت صرف اپنے تجربے اور شعور کو یہاں منتقل کریں کاروبار یا مالی مفاد کاسودا نہ کریں۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کے 100 دن اور یو ٹرن

اسلام آباد (ویب ڈیسک)پاکستان میں گذشتہ حکومت کے دوران اٹھنے والی سونامی کی لہر یعنی تحریک انصاف کو اب حکومت میں آئے تین ماہ مکمل ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں کئی ایسے اعلانات اور بیانات سامنے آئے جو کہ نہ صرف متنازع رہے بلکہ ان پر حکومت کو موقف تبدیل بھی کرنا پڑا۔بلکہ حکومت کی جانب سے پالیسیوں پر مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے جب تنقید بڑھی تو وزیراعظم عمران خان کو یہاں تک کہنا پڑا کہ حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا۔تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن پورے ہونے پر ہم نظر ڈالیں گے ایسے ہی بیانات اور اعلانات پر جس کے نتیجے میں حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو دفاعی پوزیشن لینا پڑی۔پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے عوام سے وعدے کرنا اور ملک کے بارے میں ایک تابناک تصویر پیش کرنا ہمیشہ سے ایک آسان نسخہ رہا ہے جس میں معاشی خود انحصاری شاید ہمیشہ سرفہرست رہتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار میں آنے سے پہلے ماضی کی حکومتوں کے عالمی مالیاتی اداروں بلخصوص آئی ایم ایف کے پاس جانے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور جوش خطابت میں یہ تک کہہ ڈالا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر وہ خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے۔پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کی سربراہ کریسٹین لیگارڈ نے قرضے کے لیے درخواست دی۔لیکن شاید حکومت میں آنے سے ترجیحات بدل جاتی ہیں چاہے اس کو مجبوری کہا جائے یا کچھ اور۔۔۔ ایسا ہی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ہوا اور آہستہ آہستہ ملک کی پتلی معاشی صورتحال کے بارے میں میڈیا کو بتایا جانے لگا۔تاہم اس دوران بھی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوالات کو ٹالا گیا اور توجہ وزیراعظم ہاو¿س میں کھڑی گاڑیوں اور وہاں بھینسوں کی نیلامی پر مرکوز رکھی۔لیکن چند کروڑ میں گاڑیوں اور چند لاکھ میں نیلام ہونے والی بھینس ملک کے اوپر منڈلاتے معاشی بحران کو ٹال نہیں سکیں تو حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کر ہی دیا گیا۔اس پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو جہاں حزب اختلاف کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہیں سوشل میڈیا پر ان کے آئی ایم ایف مخالف کلپس کو شائع کر کر ان کو وعدہ خلافی کا احساس دلایا گیا۔شاید اسی وجہ سے وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کا بوجھ آتے ہی ہمیں ملا اور اگر فوری طور پر قرضہ نہ لیتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑنا تھا۔اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان کی جانب سے سی پیک منصوبے کے بارے میں ملے جلے اشارے ملے اور جہاں ماضی کی حکومت اور فوج اس کو گیم چینجر کا نام دے رہی تھی وہیں تحریک انصاف کی جانب سے اس منصوبے کے بارے میں کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔تاہم تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد سی پیک کے بارے میں پالیسی کچھ واضح ہوئی جس میں حکومتی وزرا کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے جس میں عندیہ دیا گیا کہ حکومت سی پیک معاہدے کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کا ازسرنو جائزہ لے گی۔یہاں یہ تاثر پیدا شروع ہوا کہ حکومت اس منصوبے کو اپنی شرائط کے مطابق چین سے دوبارہ معاملات طے کرنا چاہتی ہے۔تاہم اس معاملے نے متنازع رخ اس وقت اختیار کیا جب ستمبر کے اوائل میں ابھی چینی وزیر پاکستان کے دورے پر ہی تھے کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے کامرس، ٹیکسٹائل، انڈسٹری اینڈ سرمایہ کاری رزاق داو¿د نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ پچھلی حکومت نے سی پیک پر چین سے بات چیت میں بری کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے اپنا ہوم ورک یا کام ٹھیک طرح سے نہیں کیا اور بات چیت ٹھیک طرح سے نہیں کی۔۔۔ تو انھوں نے بہت کچھ دے دیا۔’اس انٹرویو پر ملک میں خوب ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا پڑا اور اس کے بعد نہ صرف مذکورہ وزیر کو وضاحت دینا پڑی بلکہ دفتر خارجہ کی جانب سے بیانات جاری ہوئے تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔شاید اسی وجہ سے اس انٹرویو کے منظر عام پر آنے کے اگلے ہی دن پاکستان میں چینی سفیر کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں ملاقات ہوئی اور اس کے چند دن بعد آرمی چیف چین کے دورہ پر بھی گئے اور بعد میں وزیراعظم عمران خان نومبر میں چین کے پانچ روزہ دورے پر بھی گئے لیکن اس دورے سے حاصل ہونے والے نتائج سے یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سی پیک معاہدے پر موجودہ حکومت اور چین کے درمیان کہیں نہ کہیں سرد مہری کا عنصر غالب رہا۔سینیئر تجزیہ کار عارف نظامی نے کہا کہ رزاق داو¿د نے سی پیک کے بارے میں جو بیان دیا اس کا ان کے خیال میں اچھا خاصا نقصان ہوا ہے اگرچہ چین نے اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہا لیکن موجودہ حالات میں اگر کوئی زیادہ مدد کر سکتا تھا وہ چین ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے دوسری غلطی یہ کی رزاق داو¿ کو دور? چین میں ساتھ لے کر چلے گئے جس کا بھی نقصان ہوا۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا اور وہاں سے واپسی پر اعلان کیا گیا کہ سعودی عرب اب سی پیک کا تیسرا شراکت دار ہو گا۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ‘سی پیک میں اب ہمارا تیسرا سٹریٹیجک یا اقتصادی پاٹنر جو ہو گا وہ سعودی عرب ہو گا۔‘حکومت کی جانب سے اچانک کیے گئے اعلان پر نہ صرف پارلیمان میں اسے آڑے ہاتھوں لیا گیا بلکہ سوالات اٹھائے جانے لگے کہ آیا چین کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا گیا کہ نہیں۔۔۔ تاہم حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی چین کی جانب سے پذیرائی کا کوئی عندیہ دیا گیا۔ایوان بالا میں جب سعودی شراکت داری پر شور بلند سے بلند ہوتا گیا اور اسی ماحول میں سعودی عرب کا ایک وفد پاکستان بھی پہنچا اور اس نے گودار کا دورہ بھی کیا لیکن اس دورے سے فوری کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ حکومت کی جانب سے نیا موقف سامنے آیا جس میں تکنیکی معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے تو پوزیشن کو بدلا گیا کہ سعودی عرب سی پیک فریم ورک کا حصہ نہیں ہو گا اور وضاحت دی کہ سعودی عرب مخصوص منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور پاکستان اور چین سے اس ضمن میں علیحدہ سے معاہدے کرے گا۔حکومت نے اس سے قبل عاطف میاں کی تقرری کی مخالفت کرنے والوں کو انتھاپسند قرار دیا تھا۔وزیراعظم عمران خان پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کا عزم متعدد بار دہرا چکے ہیں جس میں ان کے مطابق تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق اور مواقعوں کو یقینی بنایا جائے گا۔لیکن نعرے کو حقیقت میں تبدیل کرنا ایک ایسے پاکستان میں مشکل فیصلہ ہو جاتا ہے جب گذشتہ کئی دہائیوں سے عدم برداشت اور مذہبی شدت پسندی کا ماحول پنپ رہا ہو۔ایسا ہی ہوا جب ملک کی ابتر معاشی حالت کو سدھارنے کے لیے دنیا سے بہترین ماہرین کو جمع کرنے کے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماہر معاشیات عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا۔ابھی ان کی تقرری ہوئی ہی تھی ملک میں چند مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ عاطف میاں کا تعلق اقلیتی احمدی برادری سے تھا۔حکومت کی جانب سے اس تنقید کو سختی سے مسترد کیا گیا تو اس کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی کیونکہ مذہبی شدت پسندی کے سامنے کس نے ٹھوس موقف اپنایا تھا۔ اس معاملے میں وفاقی وزیر اطلاعات کی فیصلے کے حق میں دھواں دار تقریر بھی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘کیا پاکستان میں اقلیتوں کے کسی کردار کے اوپر پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ کیا پاکستان میں جو اقلیتیں ہیں انھیں اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔‘لیکن اس تقریر کے شائع ہونے والی خبروں کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت سے ہٹانے کا اعلان کر دیا۔اس فیصلے پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے شدت پسند عناصر کے سامنے ہار مان لی لیکن حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو بھی سیاسی الفظ میں’ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانا‘ اور عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنے کا سہارا لیا اور یہ ایشو میڈیا پر چند دن رہنے کے بعد آہستہ آہستہ غائب ہو گیا۔گذشتہ سال نومبر میں فیض آباد پر دھرنے کے بعد جماعت کی قیادت خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری سمیت درجنوں افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔مذہبی عدم برداشت کا ایک اور معاملہ اس وقت سامنے آیا جب حکومت نے پہلے تو سختی سے ایک موقف اپنایا اور پھر موقف سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا جس پر خوب تنقید کی گئی اور یہ معاملہ تاحال کسی نہ کسی صورت میں میڈیا پر موجود ہے اور حکومت کی’ مصالحتی پالیسی‘ پر بات کی جاتی ہے۔توہینِ رسالت کے الزام میں سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے بریت کے فیصلے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس دوران نہ صرف چند مقامات پر توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے بلکہ ان مظاہروں کی قیادت کرنے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کی جانب سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور فوجی قیادت کے خلاف’ توہین اور حقارت آمیز‘ الفاظ کا استعمال کیے گئے۔بات زیادہ بڑھی تو وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی پر آ کر قوم سے خطاب میں احتجاج کرنے والی کو سخت الفظ میں تنبیہ کی اور کہا کہ’ریاست سے نہ ٹکرائیں۔ اپنی سیاست اور ووٹ بینک کے چکر میں ملک کے خلاف کام نہ کریں۔ ریاست کو مجبور نہ کریں کہ وہ ایکشن لینے پر مجبور ہو جائے۔’معاہدے کے بعد جب لوگ منتشر ہوگئے اور تمام شاہراہیں کھول دی گئیں تو اس کے بعد حکومت کی طرف سے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیاوزیراعظم کے اعلان کی خوب پذیرائی ہوئی لیکن احتجاج کا سلسلہ جاری رہا ہے اور اسی دوران وزیراعظم عمران خان چین کے دورے پر چلے گئے اور پیچھے ملک میں حکومت کے پاو¿ں سرکنے لگے اور آہستہ آہستہ مفاہمتی رویہ اپنایا جانے لگا۔تین دن کے احتجاج کے بعد رات گئے مظاہرین اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا گیا جس میں آسیہ بی بی کے مقدمے میں نظر ثانی کی اپیل پر حکومت اعتراض نہیں کرے گی جیسی شرط شامل تھی لیکن یہ شرائط بھی شامل تھیں جس میں کہا گیا کہ مظاہروں کے دوران جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ا±ن افراد کو فوری رہا کیا جائے گا۔معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلاجواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔اس معاہدے کے بعد ملک میں حالات ممعول پر تو آ گئے لیکن حکومت کو اپنا دفاع کرنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑی اور دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کی نشاندہی کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ رہا ہے کہ مظاہرین کی قیادت کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت جماعت کی دیگر قیادت نے جہاں صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس کے نظام میں اصلاحات اور اس میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے کارنامے کی خوب تشہیر کی وہیں خاص کر صوبہ پنجاب کے محکم? پولیس میں سیاسی مداخلت کے الزامات لگائے جاتے رہے۔لیکن تحریک انصاف کے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کے کچھ دنوں بعد ہی پنجاب کے جنوبی ضلع پاکپتن کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر رضوان گوندل کے تبادلے پر تنازع پیدا ہوا اور بات بڑھتے بڑھتے سپریم کورٹ تک جا پہنچی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کی بیٹی سے پولیس اہلکاروں کی مبینہ بدتمیزی اور پولیس حکام کے تبادلوں میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی اور بعد میں وزیر اعلٰیٰ عثمان بزدار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور غیر مشروط معافی مانگی اور عدالت کو یہ بھی کہنا پڑا کہ سوال تو یہ ہے کہ کیا وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس بات پر نااہل ہو سکتے ہیں؟اسی دوران حکومت نے آئی جی پنجاب طاہر خان کو تقرری کے کچھ عرصے بعد ہی تبدیل کر کے امجد جاوید سلیمی کو پنجاب پولیس کا نیا آئی جی تعینات کیا تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئی جی پنجاب پولیس کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا لیکن ضمنی انتخابات کے بعد امجد جاوید سلیمی کو ہی آئی جی مقرر کیا گیا۔پنجاب پولیس میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں اور ناصر درانی کے استعفے پر تحریک انصاف کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن حکومت نے امجد جاوید سلیمی کو زیادہ بہتر چوائس قرار دے کر اپنے فیصلے کا دفاع کیا۔ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے تبادلے کے زبانی احکامات کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور اس معاملے نے سپریم کورٹ کی توجہ حاصل کی اور چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے احکامات کو منسوخ کر دیا اور ساتھ میں ان کی جانب سے یہ ریماکس بھی دیے گئے کہ:’یہ ہے وہ نیا پاکستان جس کے دعوے موجودہ حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے کر رہی تھی‘یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر اعظم سواتی کا کام نہ کرنے اور ان کا فون نہ سننے کی وجہ سے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو تبدیل کردیا تھا۔اب بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار میں آنے سے پہلے اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مبینہ شاہ خرچیوں کا تذکرہ اکثر کرتے اور اس کو ملک کی ابتر معاشی صورتحال سے جڑتے۔حکومت میں آنے کے بعد انھوں نے کفایت شعاری کے تحت جہاں وزیراعظم ہاو¿س میں نہ رہنے کو ترجیح دی بلکہ بنی گالہ سے اپنے دفتر آنے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال شروع کیا تو ایک طوفان برپا ہو گیا کہ یہ کیسی کفایت شعاری ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں بڑی آبادی کو معیاری ٹرانسپورٹ سہولیات دستیاب نہیں ہیلی کاپٹر کے استعمال پر ان کی خاصی دلچسپی پیدا ہوئی اور حزب اختلاف نے اسے غیر ضروری خرچہ قرار دیا تو وزیرِاطلاعات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں اس میں وضاحت کی تو بات مزید بگڑ گئی بلکہ لوگوں کے لیے تفریح کا باعث بن گئی کیونکہ مذکورہ وزیر کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے اس سفر پر ’خرچ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر ہے۔‘وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی غیر ملکی دورہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ہو سکتا تھا تاہم انھوں نے اعلان کیا کہ وہ چھ ماہ تک غیر ملکی دورے نہیں کریں گے اور ان کی توجہ ملکی مسائل کو سمجھنے پر ہے۔تاہم ان کا یہ اعلان بھی دیگر اعلانات کی طرح یو ٹرن کا شکار ہوا اور اب تک وہ نصف درجن کے قریب غیر ملکی دوروں پر جا چکے ہیں۔اس کے ساتھ ایک اعلان جو بعد زیادہ متنازع بنا وہ غیر ملکی دوروں کے لیے نجی پرواز کا انتخاب تھا نہ سرکاری جہاز جس پر خرچ زیادہ آتا ہے۔عمران خان نے وزارتِ اعظمی کا منصب سنبھالنے کے چند ہفتوں بعد پہلے سرکاری دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا جس پر زیادہ تنقید تو نہیں ہوئی لیکن ان کو سعودی عرب لیے جانے والی سرکاری جہاز کی خوب تشہیر ہوئی اور عمران خان پر پھر یوٹرن لینے کا الزام لگا۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عام انتخابات سے پہلے بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد چاروں صوبوں کے گورنر ہاو¿سز اور وزیراعظم ہاو¿س کو عوام کے لیے کھول دیں گے اور ان پرتعش عمارتوں کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔اقتدار میں آنے کے بعد اس عزم کو دہرایا گیا تاہم ابھی تک ان عمارتوں کے باغ باغیچوں کو ہی یا مختصر حصوں کو عوام کے لیے کھولا گیا ہے اور مزید پیش رفت نہیں ہو سکی۔حکومت کی اس نیم کوشش پر بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور اس پر دباو¿ ہے کہ وہ وعدے پر پوری طرح سے عمل درآمد کرے۔ماہرین کیا کہتے ہیں؟ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہیں کہ وہ 22 برس تک پاکستان اور اس کے مسائل کے بارے میں سوچتے رہے تو انھوں نے کچھ تو سوچا ہو گا لیکن اس حوالے سے پالیسیاں سامنے نہیں آئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ابھی تک صرف کرپشن پر ہی بات کی جا رہی ہے لیکن اس بنیاد پر آگے کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عمران خان نے ابھی تک اپنی پالیسی کو زیادہ واضح نہیں کیا۔ اگرچہ ماضی کی حکومتوں پر تنقید کرنا ان کا حق ہے لیکن اس سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ 2018 سے پہلے ملک میں نو عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ان انتخابات سے پہلے کیے گئے وعدوں میں سے زیادہ تر کبھی پورے نہیں ہوتے اور اب بھی ایسی ہی کیفیت ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی واضح سمت نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں وزیراعظم ان احساسات کا اظہار کیا ہے کہ ان کے پاس آگے بڑھنے کا کیا لائحہ عمل ہے۔

”پاکستان چین دوستی ھمالیہ سے بلند “شہید اہلکاروں کے اہلخانہ کی مالی مدد کیلئے چینیوں کی فنڈ مہم

چین (ویب ڈیسک ) پاک چین دوستی کے چرچے پوری دنیا میں مشہور ہیں، جس کا ثبوت حال ہی میں ا±س وقت دیکھنے کو ملا جب کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرنے والے 2 پاکستانی پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ کی مالی مدد کرنے کے لیے چینی شہریوں نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت عطیات جمع کرنے کے لیے مہم کا آغاز کردیا۔کراچی: چینی قونصل خانے پر دہشتگرد حملہ ناکام، 2 پولیس اہلکار شہید، 3 دہشتگرد ہلاک چدوسری جانب کارروائی میں 2 پولیس اہلکار اے ایس آئی اشرف داو¿د اور پولیس کانسٹیبل عامر خان شہید جبکہ ایک سیکیورٹی گارڈ جمن خان زخمی بھی ہوا تھا۔حملے کے وقت قونصل خانے میں 21 چینی شہری موجود تھے، جو بالکل محفوظ رہے۔اس واقعے کے بعد چینی شہریوں نے سندھ پولیس کے شہید اہلکاروں کے لیے فنڈ ریزنگ مہم کا آغاز کیا۔

بھارتی پنجاب کے وزیر نے کرتار پور کوریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب میں سیاہ ٹیپ کی مدد سے حیرت انگیز کام کر ڈالا ، شرکا ءبھی ششدر رہ گئے

نئی دہلی (ویب ڈیسک )بھارتی پنجاب کے شہر گرداس پور میں کرتارپور کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب تنازع کا شکار ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب میں کرتار پور کوریڈور کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے دوران پنجاب کے وزیر سکھ جندر سنگھ رندھاوا نے تختی پر اپنے ہی وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ اور دیگر وزرا کے ناموں پر سیاہ ٹیپ لگا دیا۔سکھ جندر سنگھ نے کہا کہ پرکاش سنگھ اور بادل اور سکھبیر سنگھ بادل کے نام سنگ بنیاد پر لکھنے پر احتجاجاً انہوں نے یہ کام کیا۔انہوں نے کہا کہ ان دنوں کے نام کیوں لکھے گئے؟ یہ ایگزیکٹو کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ کوئی بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اکالی تقریب ہے۔واضح رہے کہ گرداس پور میں پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد پر ڈیرہ بابا نانک کرتارپور صاحب کوریڈور کی تعمیر کا سنگھ بنیاد بھارت کے نائب صدر وینکیھ نیدو نے کرنا تھا۔اس حوالے سے ا?ج تقریب منعقد کی گئی، جس میں یونین ٹرانسپورٹ وزیر نیتن گدکاری، کھانے کے یونین وزیر ہرسمرت کور بادل اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ نے شرکت کرنی تھی۔خیال رہے کہ کرتارپور بھارتی پنجاب کے علاقے گرداس پور میں ڈیرہ بابا نانک سے تقریباً 4 کلومیٹر دور ہے، جسے 1522 میں سکھ گرو نے قائم کیا تھا اور یہاں پہلا گردوارہ کرتارپور صاحب قائم کیا گیا تھا جبکہ کہا جاتا ہے کہ یہاں بابا گرونانک کا انتقال ہوا تھا۔یاد رہے کہ رواں سال اگست میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سکھ یاتریوں کے لیے اس سرحد کو ویزا فری کرنے کے منصوبے کی بحالی کی تجویز دی تھی جو 1988 سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث تعطل کا شکار تھا۔بعد ازاں 22 نومبر کو بھارتی حکومت نے پاکستان کی جانب سے کرتارپور کی سرحد کھولنے کی پیشکش کو قبول کرلیا تھا جبکہ بھارتی کابینہ نے سرحد کھولنے سے متعلق منظوری بھی دے تھی۔اس دوران وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان نے پہلے ہی بھارتی حکومت بتا دیا تھا کہ وہ گرو نانک صاحب کے 550ویں یومِ پیدائش کے موقع پر کرتارپور سرحد کھولنے کا فیصلہ کرچکا۔انہوں نے بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان 28 نومبر کو کرتارپور راہداری کا افتتاح کریں گے جو بھارتی ضلع گرداسپور کے ڈیرا بابا نانک کو پاکستان میں گردوارا کرتارپور صاحب سے منسلک کرے گا اور بھارتی سکھوں کو یہاں تک پہنچنے کے لیے ویزا فری رسائی ہوگی۔

کیویز 90رنز پر ڈھیر

دبئی( ویب ڈیسک ) پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دبئی ٹیسٹ کے تیسرے روز یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ کے سامنے کیویز بیٹںگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم 90 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔
دبئی ٹیسٹ کے تیسرے روز یاسر شاہ نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے کسی کیوی بلے باز کو کریز پر زیادہ دیر کھڑے ہونے نہ دیا اور 41 رنز کے عوض 8 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔کین ولیمسن کی قیادت میں کیویز ٹیم اپنی پہلی اننگز میں صرف 90 رنز بناسکی جس میں 6 بلے باز بغیر کوئی رنز بنائے آو¿ٹ ہوئے۔قومی ٹیم کو نیوزی لینڈ پر 328 رنز کی برتری بھی حاصل ہوگئی، سرفراز الیون نے اپنی پہلی اننگز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 418 رنز بنا کر اننگز ڈکلیئر کردی تھی۔اس سے قبل دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں دونوں ٹیمیں ایک گھنٹہ تاخیر سے میدان میں اتریں تو کیویز نے 24 کے مجموعی اسکور سے اننگز کا آغاز کیا، جیت راول 17 اور ٹام لیتھم 5 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔دونوں بلے بازوں نے محتاط انداز اپناتے ہوئے اسکور کو آگے بڑھایا لیکن یاسر شاہ کی عمدہ بولنگ کے سامنے کوئی بیٹسمین زیادہ دیر تک کریز پر نہ رک پایا۔ گزشتہ روز پاکستان نے کھیل کے دوسرے روز اپنی پہلی اننگز 418 رنز 5 کھلاڑی آو¿ٹ پر ڈکلئیر کردی تھی جس کے بعد کیویز اوپننگ بلے باز جیت راول اور ٹام لیتھم نے محتاط انداز سے کھیلتے ہوئے 24 رنز بنائے۔

دھونی کہاں سے ملا:مشرف کا سوال واہگہ بارڈر سے ملے : گنگولی کا دلچسپ جواب

لاہور (ویب ڈیسک ) سابق بھارتی کپتان سارو گنگولی نے انکشاف کیا ہے کہ سابق پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک مرتبہ ان سے سوال کیا تھا کہ انہوں نے مہندرا سنگھ دھونی کو کہاں سے تلاش کیا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ دھونی انہیں واہگہ بارڈر سے ملے تھے۔ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سارو گنگولی نے 2006 میں بھارتی ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف سے دھونی سے متعلق ہونے والی دلچسپ گفتگو کا احوال سنایا۔گنگولی کے مطابق، ‘مجھے آج بھی یاد ہے جب پرویز مشرف نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو دھونی کہاں سے ملا؟’جس پر میں نے ہلکے پھلکے انداز میں انہیں بتایا، ‘وہ (دھونی) واہگہ بارڈر کے قریب چہل قدمی کر رہا تھا اور ہم نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔’واضح رہے کہ واہگہ بارڈر، پاکستان اور بھارت کو لاہور اور امرتسر کے مقام سے ملانے والی سرحد کو کہا جاتا ہے۔اگرچہ دھونی اِن دنوں فارم میں نہیں ہیں، تاہم گنگولی اب بھی انہیں ایک ‘چیمپیئن’ تصور کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ انہیں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے پرفارم کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ بھارت کو 2007 کے اولین ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں عالمی چمپیئن بنانے والے وکٹ کیپر اور سابق کپتان مہندرا سنگھ دھونی کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کی ہوم سیریز اور آسٹریلیا کے دورے کے لیے 16 رکنی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔