سرکاری نوکری دلانے کا جھانسہ دیکر خاتون سے اجتماعی زیادتی ، ” خبریں ہیلپ لائن “میں انکشاف

لاہور(کر ائم رپورٹر)کوٹ لکھپت میں اوباش افراد نے دوشیزہ (م) کو سرکاری نوکری دلانے کا جھانسہ دیکر اسکی عزت لوٹ لی ۔پولیس نے ملزم اکمل جاوید اور اور اسکے ساتھی کے خلاف مقدمہ درج کر لیاہے۔(م) کے مطابق اسے پی سی او کے لوکل نمبر سے کال موصول ہوئی کہ”لوگ ورثا “ میں نوکریاں آئی ہیں وہ آپکو ملازمت دلوادینگے آپ فوری میٹرو پل چونگی امرسدھو آجائیں ۔(م) کے مطابق وہ وہاں پہنچی تو اپلائیڈ فار کار میں اکمل جاوید اور اسکا ساتھیہ سوار تھے جو اسے لوک ورثا کے دفتر لے گئے جہاں اسے نشہ آور چائے پلائی اور پھر اس سے زیادتی کر ڈالی پولیس نے میڈیکل کے بعد ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

ہسپتال بنانے کا منصوبہ کےلئے اچھے وقت کے انتظار میں ہوں :میرا

لاہور(شوبزڈےسک)فلم سٹار میرا نے کہا ہے کہ غر یبوں کیلئے ہسپتال بنانے کا منصوبہ ختم نہیں بلکہ اچھے وقت کے انتظار میں ہوں ‘ تحر یک انصاف کی حامی نہیں مگر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو کام کرنے کا پورا موقعہ ملنا چاہیے ہوسکتا یہ عوام کے مسائل حل کر دیں ‘شوبز میں میرے خلاف باتیں کر نیوالے اپنے وقت کا ضیاع کر رہے ہیں مجھے پرکسی کا کوئی اثر ہونیوالا نہیں ۔ ایک انٹر ویو کے دوران فلم سٹار میرا نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بدترین مسائل کا شکار ہے اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ حکومت کو کام کرنے کا مکمل موقعہ ملنا چاہیے اسکے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ شوبز میں میرے دوست کام اورمخالفین زیادہ ہے مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا کہ کون میرے بارے میں کیاکہتا ہے ۔

معروف اداکار شفیع محمد شاہ کو دنیا چھوڑے 11 برس بیت گئے

کراچی (شوبزڈےسک) ملک کے معروف ورسٹائل اداکار شفیع محمد شاہ کو دنیا چھوڑے گیارہ برس بیت گئے۔ 1949 میں سندھ کے شہر کنڈیارو میں پیدا ہونے والے شفیع محمد شاہ نے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ رعب دار آواز اور جاذب نظر شخصیت کے مالک شفیع محمد شاہ نے ریڈیو سے بطور صدا کار فنی سفر کا آغاز کیا۔ پھر اداکاری کی دنیا میں صلاحیتوں کا ایسا لوہا منوایا جس کا ہر ایک نے اعتراف کیا۔ اڑتا آسمان، تیسرا کنارہ، چاند گرہن، آنچ اور جنگل جیسے بے شمار ڈرامے ان کی شناخت بنے۔ تیس سالہ فنی سفر کے دوران انہوں نے سو سے زائد اردو اور سندھی ڈراموں کے ساتھ کئی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ بیوی ہو تو ایسی، نصیبوں والی، روبی، تلاش، میرا انصاف اور الزام میں ان کی اداکاری کو خوب سراہا گیا۔ دھیمہ لیکن پر اثر لہجہ رکھنے والے شفیع محمد شاہ کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔ 17نومبر 2007کو یہ درخشاں ستارہ دار فانی سے کوچ کر گیا تھا۔

تھیٹر کی بحالی اور جدید تقاضوں کیلئے حکومت کی دلچسپی ضروری :افتخار ٹھاکر

لاہو ر (شوبزڈےسک) پاکستان کے معروف ٹی وی و اسٹیج اداکار افتخار ٹھاکر نے کہا ہے کہ تھیٹر کی بحالی اور اس سے جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کیلئے حکومت کی دلچسپی ضروری ہے‘ نئی حکومت کو اسٹیج کی بحالی پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ اپنے ایک انٹرویو میں اداکار افتخار ٹھاکر نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اسٹیج کی بحالی کیلئے وعدہ کیا ہے س لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت پنجاب فوری طور پر نوٹس لے اور تھیٹر کی بحالی پر خصوصی توجہ دے ۔ انہوں نے کہا کہ تھیٹر کی بحالی اور اس سے جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کیلئے پنجاب حکومت کی دلچسپی ضروری ہے۔

چیف جسٹس محکمہ اینٹی کرپشن کو با اختیار بنانے پر مبارکباد کے مستحق ہیں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان کی بات میری سمجھ میں آئی نہیں کیونکہ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ لیڈر کو اپنی بات پر ڈٹے رہنا چاہئے اور جو بات وہ ایک دفعہ کہہ دے وہی حرف آخر ہونی چاہئے۔ اب انہوں نے جو گنجائش کھول دی ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ نوازشریف بھی پرسوں زبردست یو ٹرن لے رہے ہیں۔ کل انہوں نے کہا کہ میرا کوئی تعلق العزیزیہ سے نہیں، میرا اپنا تعلق بیٹوں کے بیانات سے نہیں ہے۔ آج انہوں نے کہہ دیا کہ میرے بیٹوں نے جو بھی اپنے کارخانے بنانے کے لئے تفصیل بیان کی ہے میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اس طرح تو ہر شخص یہ کہہ کر بچ جائے گا کہ بڑا لیڈر تو یو ٹرن لیتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ضرور کچھ غلطی ہو گی۔ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ میں تو سمجھتا ہو ںکہ عمران خان صاحب اپنی بات کے پکے آدمی ہیں اور جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں عام طور پر وہ اس پر ڈٹے رہتے ہیں ہو سکتا ہے وہ کسی وقت وہ خود ہی وضاحت کر دیں۔ اس حد تک تو صحیح ہے کہ اگر چلتے ہوئے دیوار سامنے آ جائے تو دائیں بائیں جس طرف بھی راستہ ہو اس طرف کا رخ کرنا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ آپ کو اپنی بات سے پھر جانا چاہئے اور اس کی جگہ ایک بالکل متبادل جو تجویز ہو وہ دے دینی چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ کل صبح کے اخبارات میں جب ان کی یہ باتیں چھپیں گی تو پھر وہ اس کی وضاحت بھی کریں گے۔
پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی سربراہی کے حوالے سے ڈیڈ لاک پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان کی بات میں وزن تو ہے وہ اس لئے کہ جتنے الزامات شہباز شریف پر لگ رہے ہیں کوئی عدالت یا تو ان کو سارے الزامات سے بری قرار دیدے۔ فی الحال تو ان پر الزامات عائد ہو رہے ہیں لہٰذا ایسے حالات میں کہ ایک شخص پر ایک درجن سے زیادہ تو معاملات چل رہے ہوں اس میں کرپشن بھی اس میں بدنظمی، بے قاعدگیاں بھی ہوں، اقربا پروری بھی ہو اور اس کے اس کو اٹھا کر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیں تو میرا خیال ہے کہ یہ تو واقعی ایک مذاق کی بات ہو گی۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ خود قومی اسمبلی میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ جو لیڈر آف دی اپوزیشن ہوتا ہے وہی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین ہوتا ہے لیکن اس قسم کے لیڈر آف اپوزیشن بھی نہیں رہے کہ جن پر 12,12 مقدمات چل رہے ہوں دیکھتے ہیں کہ اس کا کیا حل نکلتا ہے۔
نیب پر مقدمات کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ عمران خان کے اس بیان پر کہ نیب قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ نیب میں ترمیم کی بات تو سبھی کر رہے ہیں۔ رضا ربانی صاحب نے بھی کی نوازشریف نے بھی کی، رانا ثناءاللہ صاحب نے بھی کی، نیب میں قوانین میں ترمیم کے متعلق مختلف اور سیاسی جماعتوں نے بھی بات کی تھی مولانا فضل الرحمان نے بھی کہا۔ اب وہ ترمیم کیا ہونی چاہئے اس پر تو بحث ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے ایک جماعت جو ترمیم چاہتی ہو دوسری جماعت اس کے برعکس چاہتی ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیب کے بعض قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے خاص طور پر اس لئے کہ نیب کو پہلے سے زیادہ موثر بنایا جا سکتاہے۔ لیکن صرف عمران خان نے یہی بات کی بلکہ سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے بھی کہا ہے کہ وفاقی احتسابی کمیشن بننا چاہئے جو فوج کا بھی احتساب کرے اور بیوروکریسی کا بھی کرے اور سیاستدانوں کا بھی کرے اور سارے ہی شعبے جو ہیں ان کو یکساں طور پر سب کو اس شکنجے میں سے گزارا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصل فیصلہ جو ہے وہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ کو کرنا چاہئے۔ جب یہ مسئلہ قومی اسمبلی یا سینٹ میں آتا ہے تو وہ کیا فیصلہ کریں گے جہاں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لئے بلاول بھٹو زرداری کا ذکر آیا ہے ان کو ایک پلس پوائنٹ جاتا ہے کہ وہ حکومت میں نہیں رہے لیکن بات یہ ہے کہ ان کو بری الذمہ قرار نہیں دیتا اگر جو یہاں سے منی لانڈرنگ ہوئی ہے اگر منی لانڈرنگ میں ان کے اکاﺅنٹس بھی استعمال ہوئے ہیں اگر ان کے والد صاحب کے ان کی، ان کی پھوپھی صاحبہ فریال تالپور کے اکاﺅنٹس بھی استعمال ہوئے ہیں یا ان کے ملتی جلتی کمپنیاں جو ان کے معاملات کو دیکھتی ہیں ان کے اکاﺅنٹس استعمال کئے گئے ہیں تو پھر بلاول پر بھی کیس ہو سکتا ہے۔
زلفی بخاری کی دوہری شہریت کے کیس کی سماعت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا یہ کیس تھا زلفی بخاری صاحب کا۔ زلفی بخاری صاحب کے پاس شہری شہریت تھی جناب عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ نہ وہ پاکستان میں بزنس کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا یہاں کوئی انٹرسٹ ہے انہوں نے سارا پیسہ باہر کمایا لہٰذا انہوں نے ان کو ایڈوائزر بنا دیا۔ اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لیا اور انہو ںنے وزیراعظم کو بے لگام اختیارات میسر نہیں ہیں لةٰذا ہم اس بات کو دیکھیں گے کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے سارے پیسے باہر کمائے کیا اس کے باوجود دوہری شہریت کا شخص جو ہے وہ اسمبلی کارکن نہیں بن سکتا وہ سینٹ کارکن نہیں بن سکتا وہ پاکستان کی فیڈرل کابینہ میں ایڈوائزر کیسے بن سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر فیصلہ دینا تو سپریم کورٹ کا کام ہے دیکھتے ہیں وہ اگلے ہفتے میں اس پر کیا فیصلہ دیتے ہیں۔
قیصر امین بٹ نے کہا کہ میں وعدہ معاف بن کر سب کچھ بتانے کو تیار ہوں اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ قدرتی انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ وعدہ معافی والا قانون جو ہے یہ کافی عرصہ سے اس پر لے دے ہو رہی ہے دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس پر شدید تنقید ہوتی ہے کہ ایک شخص جو فرض کیجئے کہ قتل کے الزام میں بھی وہ پہلے شریک ہوتا ہے پھر جب کوئی گواہ نہیں ملتا تو ان میں سے ٹوٹ کے کہتا ہے کہ ہاں جی میں نے قتل کیا تھا لیکن چونکہ میں وعدہ معاف گواہ ہوں اس لئے مجھے سزا نہیں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جو سزا ہوئی تھی قتل کی اور اس میں بھی کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔ ظاہر ہے بھٹو صاحب نے بطور وزیراعظم پاکستان کے جا کر نواب محمد احمد جو احمد رضا قصوری کے والد تھے ان کو قتل نہیں کیا تھا اس وقت وعدہ معاف گواہ سامنے آ گیا اس نے کہا جی مجھے حکم دیا تھا بھٹو صاحب نے یہ احمد رضا قصوری کے والدکو اڑا دیا جائے تو اس بنیاد پر قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو بھی وعدہ معاف گواہ ہونے کی وجہ سے پکڑا گیا تھا آپ نے دیکھا کہ پھر آخر میں ان کو پھانسی کی سزا ہو گئی تھی۔ ساری دنیا میں اس پر بڑی بحثیں ہوتی آئی ہیں اور بعض قانون دانوں کا خیال ہے کہ یہ فیئر نہیں ہے۔ قیصر امین بٹ کے وعدہ معاف گواہ دراصل استغاثہ کی کمزوری کے بعد سامنے آتا ہے جب استغاثہ کی طرف سے کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکتا تو پھر کوشش کی جاتی کہ جو دوچار بندے پکڑے گئے ہیں جو ان میں سے نسبتاً ذرا کمزور نظر آتا ہے اس کو تھوڑا سا رگڑا دیا جائے اور اس کو کہا جائے کہ یہی اگر تو وعدہ معاف گواہ بن جائے اور اپنے ہی ساتھییوں کے خلاف گواہی دے تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ قانون کا ایسا نکتہ ہے کہ جس پر ہمیشہ سے بحث ہوتی آئی ہے ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس پر یہ نظر ثانی ہو جائے۔
اینٹی کرپشن کے جو کیس تھے اس میں وزیراعلیٰ کی اجازت بڑی ضروری ہوتی تھی۔ سپریم کورٹ نے آج وزیراعلیٰ کی اجازت کی اہمیت کو معطل کر دیا ہے کہ یہ آئینی ہے اور 6,5 اور 10 رول کو ختم کر دیا اور ان کا کہنا ہے کہ کرپشن کے معاملات میں وزیراعلیٰ کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اب جس کے خلاف کرپشن کا مقدمہ ہو گا اس کے خلاف انکوائری کی جائے گی ضیا شاہد نے کہا کہ میں ایک مدت سے اس قانون سے واقف ہوں کہ آج سے 27,26 سال پہلے جب خبریں نکلا تھا اس وقت بھی اس قسم کے کئی کیسز پیش آئے تھے اور بھی خود چل کر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن پنجاب کے پاس گیا۔ میں نے کہا کہ آپ جب بھی لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں تو کیا الزام ہوتا ہے کہ پٹواری نے رشوت لے لی۔ کلرک 700 روپے لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔آپ کبھی ڈپٹی کمشنر کو کیوں نہیں پکڑتے۔ سیکرٹری یا کسی ڈپٹی سیکرٹری کو کیوں نہیں پکڑتے، انہوں نے مجھے بڑی تفصیل سے سمجھایا تھا اور قانون کا وہ مسودہ میرے سامنے رکھا تھا، انہوں نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ 17 گریڈ یا اس سے اوپر کے کسی سرکاری افسر کو گرفتار کرنے یا اس کے خلاف کیس چلانے کیلئے ضروری ہے کہ صوبے کے وزیراعلیٰ سے اجازت لیں، چیف سیکرٹری یا ہوم سیکرٹری اجازت دیتا ہے تو پھر آپ کیس چلا سکتے ہیں۔ پچھلے 26 برس سے جب سے خبریں اخبار شروع کیا ہے کبھی کسی بڑے آدمی کو پکڑے نہیں دیکھا۔ کلرم، چپڑاسی، پٹواری، ضلع دار وغیرہ پکڑے جاتے ہیں، سیکرٹری ایریگیشن نہیں پکڑا جاتا کیونکہ اس کو شیلٹر حاصل ہے۔ اینٹی کرپشن کا سارے کا سارا محکمہ بے کار ہے۔ سارا عملہ بے کار بیٹھا ہے۔ بے تحاشہ کیسز ان کے پاس آتے ہیں وہ کیسز کی تیاری کر کے وزیراعلیٰ کو ایک چٹھی ڈال دیتے ہیں کہ کیا فلاں افسر کے خلاف اجازت ہے۔ آج تک کبھی جواب نہیں آیا کہ ہاں اجازت ہے۔ حکومت اس کو روک لیتی ہے چونکہ بڑے افسروں کو مکمل طور پر تحفظ دیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف کبھی کسی قسم کی پکڑ دھکڑ نہیں ہوتی۔ حکومت بھی خاطر خواہ اقدامات کر رہی ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے تو کمال کر دیا۔ انہوں نے بہت بڑا فیصلہ دیا ہے جس میں وزیراعلیٰ سے اجازت لینے کا قانون ختم کر دیا ہے۔ اب ہر صوبے کا ڈائریکٹر اینٹی کرپشن براہ راست بڑے افسروں پر کیس دائر کر سکے گا۔ یہ بہت بڑا انقلابی فیصلہ ہے۔ بڑے افسر سب ایک دوسرے کو تحفظ دیتے تھے، کسی کے خلاف مقدمہ چلنے ہی نہںی دیتے تھے۔ اب چیف جسٹس کے ایک ہی فیصلے سے یہ سارا قانون عملاً ختم ہو گیا ہے۔ بڑے افسروں کی ایک دوسرے کو بچانے کی ساری کوششیں مٹی میں مل گئی ہیں۔ اینٹی کرپشن سندھ کی جانب سے جہانگیر ترین اور ارباب غلام رحیم کے خلاف انکوائری شروع کرنے کے حوالے سےے انہوں نے کہا کہ اسی قسم کے مقدمات بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض کے خلاف ہوئے، ان کو کافی رعایتی نرخوں پر ہزاروں کنال زمین آصف زرداری نے دیدی اس وقت بڑا شور مچا تھا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ موجودہ کیس جو ہے یہ پیپلزپارٹی نے ایک جوابی کارروائی کی ہے۔ پی پی نے خود جہانگیر ترین کو جو نہ ہی عدالتی فیصلے کے تحت تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری رہے ہوں۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ ارباب غلام رحیم جب وزیراعلیٰ سندھ ہوتے تھے تو ان کے ساتھ مل کر ان کو اتنی زمین دی گئی تھی اور اتنی سستی دی گئی تھی۔ اگر یہ کیس چل نکلا تو اس کی زد میں اور بھی بڑے کیسز آئیں گے۔ اینٹی کرپشن کی کارروائی میں پہلے صوبائی حکومتیں رکاوٹ ہوتی تھیں لیکن گزشتہ روز کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہ رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ اب 17 گریڈ یا اس سے اوپر کے افسروں کو تحفظ والا سلسلہ ختم ہو گیا، اب وزیراعلیٰ، وزیر، سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرل وغیرہ کے خلاف اینٹی کرپشن براہ راست کارروائی عمل میں لا سکتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ دیا ہے۔ اس کی روشنی میں بہت سارے بڑے افسر زد میں آئیں گے جو پہلے بچتے رہے تھے۔ جب بڑے افسروںکو حاصل استثنیٰ ختم ہو جائے گا اور ان کے خلاف غلط کام کرنے پر کارروائی ہو سکے گی تو ملک کی قسمت بدل جائے گی۔ چیف جسٹس پاکستان کو کرپشن کے خاتمے کیلئے اتنا بڑا فیصلہ دینے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف گزشتہ روز اپنے ایک اور بیان سے مکر گئے، کہتے ہیں کہ العزیزیہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ قومی اسمبلی میں وہ خود بیان کر چکے ہیں کہ یہ کارخانہ کس طرح لگایا گیا تھا، اب وہ کہتے ہیں کہ میری قومی اسمبلی کی تقریر کو عدالت میں نہیں پیش کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے لیکن وہ ایک اعتراف تو ہے۔ اب انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میرے بیٹوں نے جو میرے بارے میں کہا تھا کہ فلاں فلاں کارخانہ میرے والد نے اس طرح لگایا تھا میں اس کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ میں اس کو یو ٹرن کہتا ہوں یہ نہیں لیا جا سکتا۔ نوازشریف نے پوری تقریر کی تھی کہ میں نے دبئی میں یہ مل کیسے لگائی، پھر یہ کیسے فروخت کی گئی، وہ پیسے سعودی عرب کیسے بھیجے گئے پھر وہاں سٹیل مل کیسے لگائی گئی، اب وہ کہتے ہیں میرا کوئی تعلق نہیں، جو کہا تھا وہ قومی اسمبلی میں کہا تھا جس پر کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں میں جو مرضی کہہ سکتا ہوں۔ نوازشریف نے جو بیان دینے تھے دیے لیکن عدالتیں یقینا ان کے یو ٹرن کو پکڑیں گی، سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گی کہ آپ کس طرح اپنے بیانات سے مکر سکتے ہیں۔ صرف قومی اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ باہر بھی میں نے خودکتنی جگہوں پر ان کے بیانات سنے تھے، تقاریر و پریس کانفرنسز میں مسئلے تھے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میرا اس سے کوئیت علق ہی نہیں۔ عدالتوں میں جب یہ بحث چھڑے گی تو یقینا بہت ساری چیزیں سامنے آئیں گی، عدالت اس کا دوسرا پہلول بھی دیکھے گی۔ نوازشریف ملزم ہیں، جج نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دستیاب عدالت کو سپریم کورٹ نے نوازشریف کیس مکمل کرنے کی 12 نومبر تاریخ دی تھی نے کہا گیا تھا کہ 12 تاریخ کو اس کا فیصلہ کر دیں۔ یہ کارروائیاں اتنی طویل ہوتی ہیں کہ ابھی بھی نوازشریفکے کچھ سوالات پر جواب باقی ہیں۔ احتساب عدالت نے مزید ایک کی توسیع کی درخواست کی ہے، میرا نہیں خیال سپریم کورٹ اس سے زیادہ ان کو کوئی موع دے سکتے، ایک مہینے کے بعد بہرحال فیصلہ دیناپڑے گا۔ حمزہ اور سلمان شہباز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ لوگ اسی لئے کہہ رہے ہیں کہ نیب قوانین میں ترمیم ہونی چاہئے کیونکہ اکثر ملزمان ان کا بروقت نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاتا اور جب وہ دندناتے ہوئے پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں تو پھر شور مچایا جاتا ہے کہ ان کا نام تو ای سی ایل میں ہونا چاہئے تھا۔ نیب کو بھی اپنے معاملات کی اصلاح کرنی چاہئے۔ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ سب نے دیکھا کہ طبیعت کی خرابی کا بہانہ لگا کر اسحاق ڈار لندن میں بیٹھے ہیں اور اچھے بھلے تندرست ہیں۔ انہوں نے وہاں شادی بھی نئی کر لی ہے۔ اطلاعات آئی تھیں کہ ڈرائیور اور باورچی ان کی شادی میں گواہ تھے۔ اب انہوں نے ماروی میمن سے شادی کی ہے۔ بیمار تو ایسے نہیں ہوتے وہ کیسے بیمار ہیں۔ 36 کروڑ بہت کم رقم ہے ان کے پاس بہت پیسے ہیں۔ دبئی میں ان کی 11 بلڈنگز ہیں، ان کا دبئی میں نہ ختم ہونے والا کاروبار ہے۔ 36 کروڑ سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان نے گزشتہ روز اپنی گفتگو میں 4 پوائنٹ دیئے تھے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ دونوں کے ساتھ ہمارے معاہدے ہو چکے ہیں، ان ملکوں میں منی لانڈرنگ کے ذریعے جو پیسہ منتقل کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں ہمارا معاہدہ یہ کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف کیس کر سکتے ہیں اور ان ملکوں میں ان کے خلاف کارروائی ہو سکے گی لہٰذا اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اسحاق ڈار، آصف زرداری اور نوازشریف کے ان ملکوں میں کافی پیسے پڑے ہیں۔ اخبار میں پڑھا تھا کہ نوازشریف کے لندن فلیٹس کا جو تذکرہ ہو رہا ہے، اس سے کیس زیادہ پراپرٹی نوازشریف کے بچوں کے حوالے سے سامنے آ چکی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کا بھی کوئی اس میں حصہ ہو، یہ بات تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکتی ہے۔ خبریں چھپ رہی ہیں کہ ایون فیلڈ کے علاوہ بھی نوازشریف کے اور بہت سارے اثاثے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی نفیس، ٹھنڈے مزاج اور اچھی گفتگو کرنے والے آدمی ہیں۔ صدر بننے سے پہلے اکثر عارف علوی اسی پروگرام میں مختلف ایشوز پر جوابات دیا کرتے تھے۔ میں نے ان کے بارے میں کبھی کوئی بری بات نہیں سنی۔ لاہور ایئرپورٹ پر بھی جو انہوں نے پروٹوکول لینے سے انکارکیا اس پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔ سادہ زندگی کی داغ بیل ڈالی ہے کہ اگر صدر نے جانا ہے تو پھر کہاں ضروری ہے کہ ڈیڑھ سو گاڑیوں کا بیڑہ ان کے ساتھ جائے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ جڑانوالہ میں جو خاتون کا سر مونڈ دینے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، اس حوالے سے پولیس نے مقدمہ درج کر لیا، ملزمان گرفتار کر کے متاثرہ خاتون کے بچوں کو بھی بازیاب کرا لیا ہے جو بڑی اچھی بات ہے۔ جن افسروں نے گرفتاری کی ہے وہ قابل مبارکباد ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جونہی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اسی وقت اگر ساری سرکاری مشینری متحرک ہو جائے تو 2 فائدے ہوں گے، ایک توملزم پکڑے جائیں گے، دوسرا یہ تاثر ختم ہو جائے گا کہ یہاں سرکاری مشینری کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔

امیتابھ بچن کافلم بدھائی ہو کی ٹیم کے نام تہنیتی خط جاری

ممبئی(شوبزڈےسک)بالیوڈاداکار امیتابھ بچن نے فلمبدھائی ہو دیکھنے کے بعد فلم کی ٹیم کے نام لکھا گیا تہنیتی خط ٹویٹر پر جاری کر دیا۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایوشمن کھرانہ کی فلم بدھائی ہو18اکتوبر کو نامئش کے لئے پیش کی گئی جسے شائقین نے پسند کیا اور اب امیتابھ بچن نے بھی فلم دیکھنے کے بعد فلم کی ٹیم کے نام اپنے ہاتھ سے تہنیتی خط لکھا ہے جسے ٹویٹر پر شئیر بھی گیا ہے، فلم کی کاسٹ میں نینا گپتا ،ایوشمن کھرانہ، سوریکھا سکھری اور ثانیا ملہوترا شامل ہیں۔ فلم کے ہدایت کار امیت آر شرما ہیں۔ فلم نے اب تک119.30 کروڑ روپے کا بزنس کیا ہے۔

دوستی بارے تاریخ مختلف، شوکت عزیز، معین قریشی بغیر شناختی وزیراعظم بنائے گئے :خالد چودھری ، پالیسی وزٹ کرنے میں ہرج نہیں، حکومت اتنے یوٹرن نہ لے کہ اعتماد ختم ہوجائے :آغا باقر، زلفی بخاری کو اس لئے مشیر بنایا گیا کہ وہ اوورسیز کے معاملات بہتر سمجھتے ہیں:ضمیر آفاقی ،مفادات کی جنگ ہے، تحریک انصاف وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی: میاں افضل، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی خالد چودھری نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے کہا کہ دوستی پر معاملات نہیں چلنے دیں گے۔ مگر پاکستان کی اس حوالے سے تاریخ تو کچھ اور ہی ہے یہاں تو شوکت عزیز اور معین قریشی جن کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں تھے تو وزیراعظم کے عہدے پر بٹھادیا گیا۔ ذلفی بخاری کا کیس نیب میں بھی چل رہا ہے دوہری شہریت بھی ہے۔ ایک شخص دوریاستوں کا وفادار کبھی نہیں ہوسکتا۔ پی اے سی کا چیئرمین لگانا حکومت کا استحقاق ہے وزیراعظم چین کے ساتھ جو معاہدے کرکے آئے ہیں عوام کو نہ بتائیں تاہم ان پر پارلیمنٹ کو تو اعتماد میں لیں۔ سوئٹزرلیند کبھی اپنے بینکوں کے اکاﺅنٹس کی تفصیلات نہیں دے گا اس کی ساری معیشت ان پر چل رہی ہے۔ تحریک انصاف حکومت کو ابھی وقت دینا ہوگا۔ 100دن میں ایک نئی پارٹی کی حکومت کچھ نہیں کرسکتی حکومت کی غلطی ہے کہ اس نے عوام کی توقعات بہت زیادہ بڑھادیں۔ سپریم کورٹ نے کرپٹ افراد کی گرفتاری کیلئلے وزیراعلیٰ کی اجازت ختم کرکے اچھا فیصلہ دیا تاہم اداروں کو بھی مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہیے وکلاءگردی، دھرنا گردی یہ سب غنڈہ گردی کی مختلف شکلیں ہیں ریلوے کے سفر میں غریب کو سہولتیں دینا چاہیئں سول سوسائٹی کا فعال ہونا ضروری ہے۔ کالم نگار ضمیر آفاقی نے کہا کہ عمران خان نے زلفی بخاری کو اس لئے تعینات کیا کہ وہ اوورسیز کے معاملات بہتر جانتے ہیں اگر حکومت کوئی غلط قدم اٹھا لیتی ہے تو اسے یوٹرن یا ری وزٹ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت کو پی اے سی چیئرمین اپوزیشن سے لینا چاہیے اگر تمام کمپنیوں کے سربراہ حکومتی پارٹی سے لینگے تو اختلافات میں اضافہ ہوگا۔ اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ابھی تک حکومت ایک عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی بلکہ مشکلات میں اضافہ ہوا ہے قانون کی حکمرانی کیلئے کسی کرپٹ کو تحفظ نہیں ملنا چاہیے۔ بیوروکریسی کو بھی ڈر ہونا چاہیے کہ اس پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔ وکلاءکا کام توڑ پھوڑ نہیں ہے یہ تو دہشتگردی کی ہی دوسری شکل ہے۔ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے چاہیئں۔ توڑ پھوڑ کے ذریعے نہیں ریلوے غریب کی سواری ہے اس کے کرائے مزید کم ہونے چاہیئں ضرورت پڑے تو حکومت کو سبسڈی بھی دینی چاہیے۔ سینئر صحافی میاں افضل نے کہا کہ پاکستان میں مفادات کی جنگ جاری ہے۔ تحریک انصاف عوام سے کئے اپنے ہی وعدے پورے کرنے میں ناکام ہورہی ہے 100دن ہونے کو ہیں تاہم کوئی ایک بھی کام نظر نہیں آرہا۔ عوام چین کے دورے تو تب کامیاب مانیں جب اسے بھی کوئی ریلیف ملے۔ حکومت کا پی اے سی میں چیئرمین شہبازشریف کو نہ بنانے کا فیصلہ درست ہے۔ کرپٹ بیوروکریٹ اکثر سی ایم کی چھتری تلے چھپ جاتے تھے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس حوالے سے ٹھیک فیصلہ کیا ہے ماضی میں اداروں کو فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو گرفتار کرنے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنا پڑے، شیخ رشید ریلوے کے کرایوں میں اتنی معمولی سی کمی کرکے عوام کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں پروگرام کے میزبان آغا باقر نے کہا کہ حکومت کو اتنے زیادہ یوٹرن بھی نہیں لینے چاہیئں کہ عوام کا اعتماد ہی ختم ہوجائے اس وقت سب سے بڑا سوال جو اٹھ رہا ہے وہ سٹرکچرل ہے قومی مفاد کیلئے یوٹرن بھی لیا جاسکتا ہے پالیسیوں کو اس وزٹ کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب بیوروکریسی کو بھی اپنے معاملات کو ٹھیک طریقے سے چلانا ہوگا۔ ریل غریب طبقے کی سواری ہے اس لئے اس میں مزید سہولیات دینی چاہیئں۔

اداکارہ کاجول اور اجے دیوگن کافی ود کر ن میں شرکت کریں گے

ممبئی (شوبزڈےسک)بالی وڈ جوڑی کاجول اور اجے دیوگن کافی ود کرنمیں شرکت کریں گے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اداکارہ کاجول نے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر وڈیو شیئر کی۔وڈیو میں کرن جوہر،اجے دیو گن اور کاجول کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔اداکارہ نے وڈیو کے ساتھ لکھاہے ا ٓل از ویل لکھا ہے۔واضح رہے فلمسا ز کر ن جو ہر اور کا جول میں اجے دیو گن کی فلم شیوا پر منفی ردعمل دینے کی وجہ سے باہمی اختلاف ہو گیا تھا۔تا ہم اب وہ اختلاف ختم ہو گیا ہے اوردونوں پھر سے دوسال بعد ایک ساتھ نظر آئیں گے۔

صائمہ نور فلم”کالوبادشاہ“میں شمس رانا کے مقابل جلوہ گر ہوں گی

لاہور(شوبزڈےسک )اداکارہ صائمہ نئی پنجابی فلم”کالوبادشاہ“میں شمس رانا کے مقابل ہیروئن کا کردارادا کریں گی،تفصیلات کے مطابق عرصہ درازکے بعد اداکارہ صائمہ نو ر فلمساز وہدائیتکار اقبال بھٹی کی فلم ”کالوبادشاہ“میں اداکارشمس رانا کے مقابل ٹائٹل رول ادا کریں گی،فلم میں میوزک مبارک الطاف ،شاعرمشتاق علوی جبکہ گلوکارہ نصیبولال،عذرا جہاں اپنی آوازکا جادوجگائیں گی،فلم کی کاسٹ میں شفقت چیمہ،مہراختر،شیرخان،انیلہ آغا ودیگرکوکاسٹ کرلیا گیا ہے،لوکیشن فائنل ہوتے ہی فلم کی عکسبندی ماہ رواں میں شروع کردی جائیگی۔

حکومت وہی کچھ کر رہی ہے جو سابق حکمرانوں نے کیا: شاہد صدیقی ، جو یو ٹرن لے لے وہ لیڈر کہلانے کا حق دار نہیں،لیڈرڈٹا رہتا ہے:حاجی پرویز ، دشواری آئے تو راستے بدل لئے جاتے ہیں، صداقت عباسی کی چینل ۵ کے پروگرام ” نیوز ایٹ 7“ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تحزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”نیوز ایٹ 7“ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ 1993ءسے لے کر اب تک جو بھی حکومت آئی اس نے یہی کہا کہ ملکی معیشت تباہ ہے، باہر سے قرضے لینے پڑیں گے، عوام کو بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ موجودہ حکومت نے جو ابھی تک قدم اٹھائے ہیں وہ وہی ہیں جو سابقہ حکومتیں کرتی رہیں۔ سپلیمنٹری بجٹ میں حکومت نے عوام کے اوپر 26 سو ارب روپے کا ٹیکہ لگایا ہے۔ بجٹ میں وہی ہوا جو پچھلی حکومتیں کرتی رہیں، میرے خیال میں یہ تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ حکومت ٹیکس وصولی اور سرمایہ کاری پر توجہ نہیں دے رہی۔ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ معیشت کی شرح نمو کو سست رکھیں اور بجٹ خسارے کو کم کریں۔ پھر طے یہ ہو جاتا ہے کہ بجلی، پٹرول، گیس وغیرہ کے نرخ بڑھائیں گے، ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کریں گے، تعلیم و صحت کا بجٹ کم کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے چند مہینوں میں پاکستان میں مہنگائی دگنی ہو جائے گی جو پچھلے سال تھی۔ حکومت کابینہ، قومی اسمبلی اور سینٹ بالکل تیار نظر نہیں ااتے۔ اگر حکومت چاہے تو 6 مہینے میں 15 سو ارب روپے وصول ہو سکتے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے پاکستان میں چوری کے پیسے سے جائیدادیں بنائیں۔ تفصیلات حکومت کے پاس ہیں۔ مسلم لیگ نون کے رہنما حاجی پرویز نے کہا کہ جو لیڈر یو ٹرن لے لے پھر وہ لیڈر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے بیان پر ڈٹا رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سینٹ میں ہنگامہ آرائی کے وقت چیئرمین نے معاملہ کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کی لیکن فواد چودھری بالکل نہیں مانے پھر انہوں نے یہ ریمارکس دیئے کہ آپ اجلاس کے دوران نہیں آئیں گے۔ حکومت کو برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی و سینٹ میں گیدڑ بھبھکی مار مار کر نیب، ایف آئی اے کے اداروں کو ڈرانے کی کوشش کرتی ہے کہ ان کے وزراءکے خلاف کیس چل رہے ان کو بند کر دیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما صداقت عباسی نے کہا کہ آگے چلنے والا راستے بدلتا رہتا ہے، اس کی منزل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے راستوں کی کوئی بات نہیں۔ اگر حالات نہ بدلیں تو پھر یو ٹرن نہیں ہوتا لیکن منزل پر جاتے وقت راستے میں کوئی دشواری آ جائے تو راستہ بدلنے میں کوئی خرج نہیں۔ اس لئے بڑے لوگ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں جو ملکی بہتری اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے عوامی تنقید کی بھی پرواہ نہیں کرتے ان کو لیڈر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فواد چودھری صرف کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مشاہد اللہ صاحب نے ہر قابل اعتراض بات کی۔