لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہچند روز قبل پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے دو افراد کیخلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے جس میں انہوں نے الطاف حسین کا نام لکھوایا ہے۔ الطاف حسین ایک مدت سے لندن میں رہتے ہیں لندن میں انہوں نے سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور وہاں انہیں کافی مراعات حاصل ہیں۔ مصطفی کمال کا موقف یہ تھا کہ یہ الطاف حسین ہی یہ سازشیں کروا رہے ہیں اور دو قتل انہوں نے ہی کروائے ہیں۔ علی رضا عابدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اچھے خیالات اور متوازن ذہن کے مالک تھے۔ جن کے بارے کوئی مخالفانہ بات سامنے نہیں آئی۔ اب اچانک ان کا قتل ہوتا ہے لگتا یہی ہے کہ ایم کیو ایم لندن کا اس کے بارے میں گہرا ہاتھ ہے اور کراچی میں دوبارہ ٹارگٹ کلنگ شروع ہو گئی ہے۔ یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے پیچھے کوئی باقاعدہ فورس نہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان والے جانتے ہیں الطاف حسین کی سیاسی قوت کتنی ہے اور لندن میں بیٹھ کر بھی وہ یہاں اپنے کارندوں کے ذریعے اس قسم کے واقعات کروا سکتا ہے لہٰذا پاکستان کی حکومت کو چاہئے کہ مصطفی کمال کی ایف آئی آر پر خصوصی توجہ دے کیونکہ لگتا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے بھی ایم کیو ایم لندن کا ہاتھ ہے۔ ایم کیو ایم کے اب تین دھڑے بن چکے ہیں۔ ایم کیو ایم لندن انتہا پسند گروپ ہے الطاف حسین بڑا کھل کر اپنے آپ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کے ساتھ اپنے آپ کو بریکٹ کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر مصطفی کمال ہے جو دھڑا ان سے علیحدہ ہو گیا اور بڑا کھل کر ان کی مخالفت کرتا ہے تیسرا دھڑا اپنے آپ کو ایم کیو ایم پاکستان کہتا ہے اور یہ کہتا ہےکہ ہمارا کوئی تعلق ایم کیو ایم لندن سے نہیں ہے لیکن اثرورسوخ کے اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ کافی زیادہ زیر بار ہے وہ کھل کر مصطفی کمال کی طرح ایم کیو ایم لندن برانچ کے خلاف اور الطاف کے خلاف بات نہیں کرتا ہے۔
علی رضا عابدی ایک پڑھے لکھے آدمی تھے دانشور تھے، متوازن ذہن کے مالک تھے ایسے لوگ قطعی طور پر الطاف حسین کے دھڑے کے ناپسندیدہ نہیں ہو سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی متوازن ذہن کا آدمی کراچی کی لیڈر شپ میں نہ رہے رہی سہی کسر جو ہے وہ مصطفی کمال کے ان الزامات نے پوری کر دی ہے جس میں وہ ایف آئی آر میں الطاف حسین کا نام درج کروا دیا ہے۔ الطاف حسین برطانیہ میں ہیں اور برطانیہ کی حکومت نے مکمل طور پر تحفظ دے رکھا ہے اور برطانوی حکومت کو پتہ ہے کہ ان کے انڈیا کی ایمبیسی سے کیا تعلقات ہیں۔ اور انڈین ایمبیسی کس طرح مالی امداد کرتی رہی ہے منی لانڈرنگ کے کیس میں انڈین ایمبیسی بھی ملوث ہے لیکن برطانوی حکومت انڈین ایمبیسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی اس قسم کے جب بھی کوئی معاملات ہوتے ہیں تو وہ صرف نظر اور پہلوتہی کرتی ہے اس معاملے میںوہ زیادہ پرسو نہیں کرتی لہٰذا یہ جاننے کے باوجود ایک دوسرے ملک میں ایک تیسرے ملک کی مدد سے الطاف حسین کو مالی امداد دی جا رہی ہے اور یہ ساری باتیں پریس میں آ بھی چکی ہیں اور برطانوی حکومت اس سلسلہ میں کوئی ایکشن لینے کو تیار نہیں الطاف کے بارے میں جن کے بارے میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مسلسل منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسے آتے رہے اور انڈین ایمبیسی کے ذریعے ان کو مالی امداد دی جاتی رہی۔ پوچھنا چاہئے کہ وہ کون سا کام تھا جو الطاف حسین صاحب لندن میں بیٹھ کر انڈیا کے لئے انجام دے رہے تھے اور یو ٹیوب میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اقرار رکتے ہیں کہ انہیں انڈیا لے جا کر ٹریننگ دی گئی اور واپس آ کر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو بڑی سختی کے ساتھ برطانیہ کو بتلا دینا چاہئے کہ آپ تیسرے ملک میں جس طرح کھلم کھلا الطاف حسین پاکستانی مخالف مدد نہیں کر سکتے۔ لیکن انڈین ایمبیسی کو اپنی شرارتوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود برطانوی حکومت نے کھلم کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ یہی بات ظاہر کرتی ہے وہ انڈیا کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔
کوٹ لکھپت جیل میں قیدی نمبر 4470 کو سپرنٹنڈنٹ اپنی کرسی بھی دے دیتا ہے اس پر بٹھا کر دستخط کرواتا ہے گھر سے ہریسے بھی آ رہے ہیں۔ بارے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ جہاں تک تو بہتر کلاس کا تعلق ہے بہتر کلاس میں یہ ساری سہولتیں شامل ہوتی ہیں لہٰذا قانونی طور پر نوازشریف اپنے گھر سے کھانا منگوا سکتے ہیں گھر کے برتن استعمال کر سکتے ہیں ان پر پابندی نہیں کہ وہ قیدیوں کا سا لباس پہنیں وہ اپنے کپڑوں میں رہ سکتے ہیں اس کے علاوہ ان پر ملاقاتوں پر بھی پابندی نہیں ہے لیکن یہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی سپیشل پروٹوکول ان کو دیا گیا ہے یہ پھر جیل کے سپرنٹنڈنٹ صاحب کا نقطہ نظر ہے کہ وہ سابق وزیراعظم سے خوفزدہ ہوئے اور وہ جس طرح سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انہیں اپنی کرسی پر بٹھایا اور انہیں بار بار سر کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ ایک ایسا شخص جس کو قانون کی نظر میں سزا دی جا چکی ہے کہ وہ قیدی بامشقت ہیں تو سپرنٹنڈنٹ کو چاہئے تھا کہ اپنی ذاتی پی آر نہ کرتے۔ جو سہولتیں ان کو قانون کے مطابق حاصل ہیں وہ ضرور دی جاتیں بلکہ ضروری ہیں۔ لیکن قانون سے آگے بڑھ کر جو ذاتی لولو پوپو کر رہے ہیں اور جو سپرنٹنڈنٹ صاحب اپنی پی آر بنا رہے ہیں کہ کل کو جب وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جب وہ دوبارہ وزیراعظم بن جائیں گے اور پھر یہ ان کے منظور نظر ہوں گے اور مقرب خاص ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کو کسی بڑے عہدے پر فائز کر دیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور انسپکٹر جنرل پرسنز وہ ذمہ دار انسان ہیں اور ان کو چاہئے کہ وہ اس پر کڑی نظر رکھیں۔
