لاہور (نیااخبار رپورٹ) ملک بھر میں سیاسی پارہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ ناصرف وفاق بلکہ سینٹ‘ پنجاب اور سندھ میں ان ہاﺅس تبدیلی اور عدم اعتماد کا شور پڑ گیا۔ مرکز‘ پنجاب میں ن لیگ‘ سینٹ میں پی پی جبکہ سندھ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے تحریک انصاف میدان میں کود پڑی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لئے ن لیگ نے پی پی اور آزاد اراکین سے رابطوں کا سلسلہ تیز کردیا جبکہ تحریک انصاف کے ناراض اراکین سے بھی رابطے کرنے لگے ہیں۔ نمبر گیم کا چونکہ زیادہ فرق نہیں ہے لہٰذا بہت حد تک ممکن ہے کہ پنجاب میں صرف 21 اراکین کی حمایت حاصل ہوجانے سے وزیراعلیٰ کا قلمدان تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں حکومت اتحاد کی 190‘ مسلم لیگ ن 167‘ پی پی 7 جبکہ آزاد 4 ہیں۔ اس طرح سندھ میں مراد علی شاہ کے خلاف عدم اعتماد کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ سندھ میں فارورڈ بلاک بنانے میں گورنر عمران اسماعیل پیش پیش ہیں۔ 26 اراکین رابطے میں ہیں۔ کل 89 کی حمایت کی پی پی دعویدار ہے جبکہ وفاق میں وزیراعظم کی نشست چھیننے کے لئے بھی آزاد اراکین سے رابطے ہونے لگے ہیں۔ آصف زرداری اور خورشید شاہ وفاق کا تختہ آئینی انداز میں الٹنے کے لئے میدان میں آگئے اور آزاد اراکین سے رابطے کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور بلوچستان کے اراکین کو مرکزی اہمیت دی جائے گی۔ جلد ہی زرداری اور فضل الرحمن میں بھی اس سلسلے میں ملاقات کا امکان ہے۔ آئندہ چند دنوں میں پی پی‘ ن لیگ‘ جے یو آئی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کا اجلاس ہونے والا ہے جبکہ ایوان بالا میں بھی ہلچل مچنے والی ہے۔ پی پی کو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے کہ چیئرمین سینٹ میں پی ٹی آئی کی حمایت کرکے بڑی غلطی کی ہے لہٰذا اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے چیئرمین سینٹ سنجرانی کی تبدیلی کا بھی امکان ہے۔ اس سلسلے میں ترجمان پی پی سنیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ وہ ماضی کی غلطی کا دھبہ جلد دھو دیں گے۔ مناسب وقت ملنے پر چیئرمین سینٹ کو بھی بدلنے کی کوشش کی جائے گی۔
