گھٹنے کی انجری،عمادوسیم علاج کےلئے برطانیہ روانہ

لاہور(نیوزایجنسیاں) گھٹنے کی انجری سے نجات کے لیے عماد وسیم انگلینڈ روانہ ہوگئے ہیں۔عماد وسیم نے سوشل میڈیا پر تصویر شیئر کی جس کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ فٹنس مسائل سے چھٹکارا پانے کیلیے لندن روانہ ہو رہا ہوں، آل راﺅنڈر گھٹنے کی انجری سے نجات کے لیے ماہرین کی نگرانی میں کام کریں گے۔ پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن میں کیچ پکڑتے ہوئے سر زمین پرٹکرانے کے بعد وہ ایکشن میں نظر نہیں آسکے،اس دوران گھٹنے کی پرانی تکلیف بھی سامنے آگئی، کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی انہوں نے گھر بیٹھ کر دیکھی۔واضح رہے کہ گزشتہ سال یواے ای میں ٹی 10لیگ کے دوران بھی عماد وسیم گھٹنے کے مسائل میں اضافہ کربیٹھے تھے، آل راﺅنڈر اسکاٹ لینڈ کے خلاف 2 ٹی ٹوئنٹی میچز سے قبل مکمل طور پر فٹ ہوکر قومی ٹیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں

 

سرگودھا سے ق لیگ کے اہم رہنما عامر سلطان چیمہ پی ٹی آئی میں شامل

سرگودھا (نمائندہ خبریں) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مسلم لیگ ق کی ایک اور بڑی وکٹ گرادی ہے اور سرگودھا سے اہم شخصیت نے کپتان کے قافلے میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔عمران خان نے سرگودھا کا دورہ کیا جہاں وہ ق لیگ کے رہنما چوہدری عامر سلطان چیمہ کے گھر ان سے ملاقات کیلئے پہنچے ، ملاقات کے دوران عامرسلطان چیمہ نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ، اس موقع پر عمران خان نے شہر کے مختلف مقامات پر رکن سازی مہم کا افتتاح کیا ۔اس موقع پر جہانگیر خان ترین ،شاہ محمود قریشی ، تحریک انصاف کے مقامی رہنما انصر اقبال ہرل اور چوہدری اسامہ غیاث میلہ بھی موجود تھے ،اس سے قبل سرگودھا آمد کے موقع پر کارکنوں نے بڑی تعداد میںعمران خا ن کا استقبال کیا ۔چیئرمین تحریک انصاف نے سرگودھا میں رکن سازی مہم کے دوران کارکنوں سے مختصر خطاب بھی کیا جبکہ یونیورسٹی روڈ، سٹی روڈ پر پی ٹی آئی کے کیمپوں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعدادشریک تھی۔

پنجاب میں پیپلزپارٹی کو امیدواروں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا

اسلام آباد(وقائع نگار)پیپلز پارٹی نے پنجاب کے ہر نشست پر امیدواروں کی تلاش شروع کر دی ہے جس میں انھیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ضلع کی سطح پر صدور اور سیکرٹری جنرل کو کہا گیا ہے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے پہلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لینے والوں سے رابطہ کریں اور انھیں انتخاب میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کریں مگر اس حوالے سے ارکان کی اکثریت نے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ان کی اب مالی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنی دولت کو ضائع کر سکیں کیونکہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کے نام پر آصف زرداری کی موجودگی میں ووٹ پڑنا اب ممکن نہیں رہا لہٰذا شکست کے لئے بھاری رقوم خرچ کرنا اور پارٹی ٹکٹ میں فنڈز دینا ان کی بساط میں نہیں ہے پیپلز پارٹی نے اپنے ضلعی صدور کو ہر حال میں ہر سیٹ پر امیدواروں کے نام بھیجنے کا کہا ہے جس پر بے نام اور غیر سیاسی لوگوں سے بھی رابطہ کیا جارہا ہے کہ وہ انتخاب میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لیں۔

چوہدری نثار پارٹی چھوڑ دینگے،نہیں چھوڑیں گے، شرطیں لگ گئیں

لاہور( این این آئی) مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان کی پارٹی قیادت سے ناراضگی کے بعد پارٹی چھوڑنے یا نہچھوڑنے کے حوالے سے شرطیں لگ گئیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے 29اپریل کو مینار پاکستان جلسے کے موقع پر بڑی وکٹ گرانے کے حوالے سے باتیں سامنے آنے کے بعد اسے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب اشارہ قرار دیا جارہا ہے ۔اسی تناظر میں 29اپریل کو چوہدری نثار کے پارٹی چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کے حوالے سے شرطیں لگ گئی ہیں۔

 

مطالبات تسلیم کرو ورنہ ن لیگ چھوڑ دوں گا:سکندر بوسن کی قیادت کودھمکی

ملتان (سپیشل رپورٹر) وفاقی وزیر حاجی سکندر حیات بوسن نے وفاقی وزیر توانائی سردار اویس خان لغاری کو حتمی الٹی میٹم دے دیا ہے کہ اگر انہوں نے اگلے 48گھنٹے میں میپکو ملتان کے لائن سپرنٹنڈنٹ نوید وینس کے خلاف چارج شیٹ ختم نہ کرائی اور ایس ای میپکو عمر لودھی کو فوری ٹرانسفر نہ کیا تو وہ مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے بھائی اور تمام یونین چیئرمینوں سمیت جنوبی پنجاب متحدہ محاذ میں شمولیت کا اعلان کردیں گے کہ اگر ایک وفاقی وزیر کی اس کی حکومت میں ذاتی معاملات پر بھی غور نہیں کیا جاتا تو وہ حلقے کے عوام کو کیا منہ دکھائیں گے۔ نوید وینس کے ساتھ میرے حلقے کے ہزاروں ووٹ ہیں جنہیں میں کسی طور پر بھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ووٹروں کو جواب دینے سے بہتر ہے کہ میں پارٹی ہی کو جواب دے دوں۔ اس پر اویس لغاری نے چیف ایگزیکٹو میپکو کو دوٹوک پیغام دیا کہ کسی بھی صورت میں سکندر حیات بوسن کو منایا جائے۔ ذرائع کے مطابق حاجی سکندر حیات بوسن پہلے ہی جنوبی پنجاب متحدہ محاذ میں شمولیت کے لئے گرین سگنل دے چکے ہیں اور انہوں نے ا راکین اسمبلی کی دوسری لاٹ میں اس محاذ کا حصہ بننا ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس بات کا علم حکمران جماعت کو بھی ہے اس لئے حکومت بھی التوائی حربے استعمال کررہی ہے۔
سکندر بوسن

تہمینہ دولتانہ3روز سے کلثوم نواز کی صحت پر معلومات حاصل نہ کر سکیں

لاہور(تجزیہ نگار) ن لیگ کی رہنما بیگم تہمینہ دولتانہ لندن میں نواز شریف خاندان کے ساتھ تین روز سے رابطہ نہیں کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل کوشش میں ہیں مگر ان کی حسن یا حسین نواز میں سے کسی کے ساتھ بات نہیں ہو پا رہی۔ انہوں نے گزشتہ روز ”ضیا شاہد کے ساتھ“ پروگرام میں وعدہ کیا تھا کہ وہ بیگم کلثوم ککی بیماری کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کرکے آگاہ کریں گی مگر وہ اس میں ناکام رہی ہیں۔ وہ مشرف دور میں نواز شریف کی گرفتاری کے دوران بیگم کلثوم نواز کے بہت قریب رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد میں بھی وہ ان سے رابطے میں تھیں تاہم اب لندن میںکسی ذمہ دار شخصیت سے رابطہ نہیں ہو پا رہا جو انہیں بیگم صاحبہ کی صحت کے بارے میں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرسکے۔

زلزلہ زدگان کو امداد نہ ملی تو چیف جسٹس اپنے کرایے پر مدد کو بالا کوٹ پہنچ گئے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ چیف جسٹس کو رپورٹ ملی تھی کہ مانسہرہ میں زلزلہ زدگان کے لئے ملنے والے فنڈز کو مناسب طریقے سے خرچ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ وہاں گئے۔ مانسہرہ میں زلزلہ زدگان کے فنڈز کا مسئلہ ہو یا دیگر مسائل جن پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا ہے ان پر صوبائی یا وفاقی حکومت کو تب شکایت ہونی چاہئے جب ان کا کام بہتر ہو۔ سرکاری مشینری کم و بیش تباہ ہوچکیہے۔ کارکردگی کا معیار بہت خراب ہے۔ ماہرین مالیات سے سنا ہے کہ جہاں کہیں جو فنڈز ملتے ہیں، سال بعد 80 فیصد استعمال نہیںہوا ہوتا۔ ایک کہتے ہیں وسائل نہیں اگر ہیں بھی تو ان کو استعمال کرنے والی مشینری دستیاب نہیں۔ چیف جسٹس بنیادی حقوق کے تحت نوٹس لے رہے ہیں، جہاں کہیں عوامی مسئلہ ہو خود وہاں پہنچتے ہیں۔ یہ ان کی نیک نیتی ہے کہ انہوں نے کہا جب تک تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کر دی جاتیں میں تنخواہ نہیں لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پڑھا تھا کہ احسن اقبال کا بھی اقامہ ہے شاید وہ سعودی عرب سے تنخواہ بھی لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس طعنے مارتے ہیں۔ حکومت کے لوگ تلے ہوئے ہیںکہ توہین عدالت کے جرم میں ان کو پکڑا جائے پھر کہیںگے کہ عدالتیں سیاستدانوں پر زیادتی کر رہی ہیں۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تو پھر ضرور اس طرف توجہ دلائیں۔ وزیر داخلہ نے زیادہ سخت الفاظ نہیں کہے لیکن توہین آمیز الفاظ ہیں۔ یہ کہنا کہ روز طعنے مارتے ہیں یہ کوئی ساس بہو کی لڑائی نہیں۔ چیف جسٹس کو بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کے ضمن میں آئین نے خصوصی اختیارات دیئے ہیں جس کے تحت وہ کسی بھی جگہ کسی بھی سرکاری ادارے کو چیک کرتے ہیں۔ اس سے غصے میں آنے کی کوئی بات نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ شاہد خاقان عباسی کو نون لیگ نے وزیراعظم منتخب کرایا، وہ آج بھی کہتے ہیں کہ میرا لیڈر نواز شریف ہے جبکہ سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ اسمبلیوں کی کارکردگی صفر ہے۔ اگر اسمبلی زیرو ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں، کوئی اختیار نہیں رہا تو ذمہ دار خود وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کے الیکٹرک کو ضرورت کے مطابق گیس ملے گی یہ کہنے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔ وہ اسلام آباد یا لندن میں بیٹھ کر بھی کہہ سکتے تھے کہ کے الیکٹرک کو فوری گیس فراہم کی جائے، واجبات کا مسئلہ بعد میں دیکھ لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ندیم افضل چن پہلے ہی پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر چکے تھے۔ عامر سلطان چیمہ معروف سیاسی شخصیت، ان کے والد بہت مدت تک قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ عامر چیمہ پرویز الٰہی کے دور میں وزیر آبپاشی ہوتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسحاق ڈار کی کچھ فوٹیج مختلف ٹی وی چینلز پر دیکھی جس میں وہ صحت مند طریقے سے چل رہے تھے، وزیراعظم، حسن و حسین نواز کے ساتھ اچھے موڈ میں گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں۔ بظاہر لگتا نہیں کہ بیمار ہیں۔ میرے سمیت دیگر سینئر صحافیوں کا مشورہ ہے کہ اسحاق ڈار کو واپس آنا چاہئے اور اپنا کیس لڑنا چاہئے کیونکہ اگر سپریم کورٹ نے ریڈ وارنٹ جاری کر دیئے اور انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے لانا پڑا تو یہ اچھی بات نہیں۔ ہمیشہ موقف رہا کہ عدالت کے بلانے پر پیش ہونا چاہئے نہ کہ ان کی نیت پر حملے کئے جائیں، یہ کہا جائے کہ یہ پارٹی بن گئے ان کی ڈوری کوئی اور ہلا رہا ہے۔ عدالت نے نوازشریف کا نام ای سی ایل میںڈالنے کا حکم دیا، احسن اقبال نے نیا فلسفہ اختیار کر لیا اور اپنے لیڈر کا نام نہیں ڈالا۔ حکومتی پارٹی اور نواز شریف کا جو مزاج ہے، مجھے نہیں لگتا کہ گھی سیدھی انگلی سے نکلے گا۔ ان سارے لوگوں نے عدالتوں کو تنگ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ لگتا نہیں کہ سیدھے طریقے سے عدالتوں کے سامنے پیش ہو جائیں گے۔ نون لیگ کی پہلی کوشش ہے کہ ان کے خلاف ٹرائل شروع نہ ہو اگر اسحاق ڈار واپس آ گئے تو ٹرائل شروع ہو جائے گا۔ ڈار نے وضاحت پیش کی ہے کہ ڈاکٹر نے ہوائی جہاز کے سفر سے منع کیا ہے جبکہ فوٹیج میں بالکل بیمار نہیں لگتے۔ اس طرح نوازشریف نے کہہ دیا کہ بیگم کلثوم نواز کافی بہتر ہیں۔ دُعا ہے کہ وہ صحت یاب ہوں لیکن اگر واقعی بیمار ہیں تو احتساب عدالت کو فوری خاص طور پر مریم نواز کی مستردکی گئی استثنیٰ کی درخواست کو قبول کر کے اطلاع کرنی چاہئے کہ وہ عیادت کےلئے جا سکتی ہیں۔ جسٹس محمد بشیر صاحب مہربانی فرمائیں مریم نواز نے کوئی قتل نہیں کیا، مالی بے قاعدگی کے کیسز میں کوئی زیادہ سزا بھی نہیں البتہ بھاری جرمانے ہوتے ہیں۔بیٹی مریم کو والدہ کی عیادت کے لئے باہر جانے کی اجازت دے دیں۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چیمہ خاندان کا سرگودھا کی سیاست پر گہرا اثر ہے، یہ بڑی وکٹ گری ہے۔ عامر چیمہ کے والد 7 مرتبہ منتخب ہوئے جبکہ عامر چیمہ خود 5,6 دفعہ منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ 68 کے قریب ممبران نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے جو بہت بڑی تبدیلی ہے۔ سرگودھا میں لوگوں کابڑی تعداد میں باہر نکلنا قابل دید تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 29 اپریل کو تاریخی جلسہ ہو گا جس کے اثرات میں مزید کئی وکٹیں گریں گی۔ تجزیہ کار لندن وجاہتعلی خان نے کہا کہ جب وزیراعظم و نواز شریف لندن میں تھے تو اسحاق ڈار گاڑی پر آئے اور اپنے پاﺅں پر چلتے سیڑھیاں چڑھیں۔ ڈھائی گھنٹے بیٹھے رہے، میڈیا سے بات نہیں کی۔ ڈار لندن میں اپنے بیٹے کے گھر میں رہتے ہیں، گھومتے پھرتے اور شاپنگ کرتے ہیں۔ ہوائی جہاز کے سفر کا بہانہ ہے کیونکہ ان کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے اس لئے پاکستان نہیں جا رہے، بس اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ بھجوا رہے ہیں۔ جب لندن آئے تھے تو شروع میں ہسپتال کے بیڈ پر لیٹنے کی ایک تصویر ایشو کرائی تھی جو تمام ٹی وی چینلز پر چلتی رہی۔ کسی صحافی نے ان کو ہسپتال میں زیر علاج نہیں دیکھا۔ لندن میں کوئی صحافی نہیں کہہ سکتا کہ وہ بیمار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیگم کلثوم نواز کے بارے ضیا شاہد نے بالکل ٹھیک کالم لکھا، نواز شریف نے روانی میں کہہ دیا ہو گا کہ بیگم کلثوم نواز پہلے سے کافی بہتر ہیں۔ آئے روز بیگم کلثوم کی حالت واقعی خراب ہو رہی ہے۔ کینسر کا مرض آتا جاتا رہتا ہے۔ شریف خاندان نے عراق سے مٹی بھی منگوائی ہے، کہتے ہیں کہ وہ لگائی جائے تو کوئی بھی مرض ٹھیک ہو جاتا ہے، بیگم کلثوم نواز کے لئے وہ مٹی منگوائی گئی ہے۔

 

(ن) لیگ کی بڑی وکٹ گرنے والی ہے،خواجہ آصف کے نااہل ہونے کے بعد عمران خان کے پیشگی بیان نے نئے سوالات کھڑے کر دئیے

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو تاحیات نااہل کرنے کے بعد ملک بھر میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ آخر عمران خان کو پہلے سے ہی یہ کیسے علم ہو گیا تھا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کی بڑی وکٹ گرنے والی ہے۔واضح رہے کہ دورہ لاہور کے دوران چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اس بات کی پیشگوئی کی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کی بڑی وکٹ گرنے والی ہے اور اس کے فوراً بعدوہ اسلام آباد کیلئے روانہ ہو گئے تھے۔ ان کے اس بیان پرورے ملک میں پہلے ہی دن سے بحث و مباحثہ جاری تھا کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے خواجہ آصف کو تاحیات نااہل قرار دیدیا گیا جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ عمران خان کو وقت سے پہلے ہی یہ کیسے معلوم ہوگیا تھا کہ ن لیگ کی بڑی وکٹ گرنے والی ہے۔واضح رہے کہ خواجہ آصف کا شمار مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماو¿ں میں ہوتا تھا وہ 1993سے مسلسل 5مرتبہ لگاتار کامیاب ہوتے آئے تھے۔

اورنج لائن چائنہ کی جانب سے پاکستان کیلئے ایک تحفہ ہے۔۔ چائنیزوزیر اعظم۔ بھارت پاکستانی چینلز کے ذریعے پراپگینڈا بند کرے

ایک نجی چینل کی جانب سے ایک حالیہ رپورٹ میں ایک حیرت انگیز انکشاف کیا گیا کہ حکومت چائنہ اورنج لائن ٹرین کی پاکستان میں تعمیر کے خلاف تھی اور اس بنا پر وہ شہباز شریف اور نواز شریف سے سخت نالاں ہیں اور سی پیک کی معاہداتی یا داشت میں جو منصوبے شامل تھے ان میں اورنج لائن منصوبہ سرے سے تھا ہی نہیں اور اسکو وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور نواز شریف کی جانب سے زبر دستی اس منصوبے میں شامل کروایا گیا اور اب چائنہ حکومت اس بات کا برملا اظہار کر رہی ہے اور برہم ہے۔۔۔
درحقیقت بات کچھ یو ں ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ترقی کے دشمنوں کیلئے یہ بات ابھی بھی ہضم کرنا دشوار ہے کہ پاکستان میں اتنا بڑا ترقیاتی منصوبہ کیسے وجود میں آ گیا۔۔انہی لوگوں نے پاکستان میں مقیم اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر پہلے بھی اس منصوبے کی راہ میں کانٹے پھیلائے اور اس منصوبے کو 22 ماہ کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا اور جب خدا نے سچ کا ساتھ دیا اور اورنج لائن منصوبے پر دوبارہ کام کا آغاز ہوا تو یہ بات پھر پاکستان دشمن تنظیموں کیلئے ناگوار ثابت ہوئی اور ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔
جب دو حکومتیں کوئی معاہدہ پر دستخط کرتی ہیں تو وہ اس کو مکمل طور پر تسلیم کرتی ہیں اور اس کے قواعد و ضوابط سے واقفیت بھی رکھتی ہیں اس لئے اس طرح کے اوچھے اور منفی ہتھکنڈوں کا مقصد محض پاکستان کی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
15دسمبر 2015 کو چائنیزوزیر اعظم لی کی کیانگ نے چائنہ کے شہر زنگ زو میں منعقدہ ایک تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے مخاطب ہوتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین چائنہ حکومت کی جانب سے پاکستان کی عوام کیلئے ایک تحفہ ہے۔۔اور اس منصوبہ پر تیزی سے ہونے والے بہترین کام کو بھی سراہا۔
لہٰذا اس طرح کے الزامات کا سچائی سے تو کوئی تعلق نہیں اگرچہ ان تنظیموں اور ان کے شراکت داروں سے ضرور ہے جو ایک سازش کے زریعے پاکستان کی ترقی کی راہ میں منظم حکمت عملی کے تحت عمل پیرا ہیں۔

میڈ ان جرمنی

مرزا روحیل بیگ ….اظہار خیال
جرمنی دنیا کا امیر ترین ملک اور طاقتور معیشت ہے۔ یورپ کے قلب میں واقع جرمنی کو یورپ کی اقتصادی شہ رگ کہنا غلط نہ ہو گا۔ 82 ملین کی آبادی کے ساتھ جرمنی یورپی یونین کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک بھی ہے۔ جرمنی اس وقت دنیا کی چوتھی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جرمن قوم نے جس برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کیں وہ حیرت انگیز ہے۔ آج دنیا کی تجارتی و اقتصادی انڈسڑی پر جرمنی کا راج ہے۔ جس شے پر ”میڈ ان جرمنی “ لکھا ہو لوگ اسے آنکھیں بند کر کے خریدتے ہیں۔ رائفلز ہوں، آبدوزیں یا پھر لیپرڈ نامی ٹینک، دنیا بھر میں ” میڈ ان جرمنی “ہتھیاروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ امن پسند جرمن معاشرے کے لیے یہ کامیابی کسی حد تک تکلیف دہ بھی ہے۔ ویسے یہ کامیابی اتنی بڑی بھی نہیں کہ کیونکہ جرمنی کی اصل برآمدات (ٹاپ ٹین فہرست میں نمبر نو اور دس) بحری جہاز اور ٹینک نہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی اشیائے خوراک یا پھر ربڑ اور پلاسٹک سے بنی مصنوعات ہیں۔ جرمن برآمدی مصنوعات میں ساتویں نمبر پر ”دھاتیں“ ہیں۔ جیسا کہ ایلومونیم دھات۔ 2015 ءمیں جرمنی نے قریب پچاس ارب یورو کی دھاتیں برآمد کیں۔ جرمنی میں کاروں کے ساتھ ساتھ اور کئی قسم کی گاڑیاں بھی تیار کی جاتی ہیں۔ وہ گاڑیاں جو کوڑا اٹھانے کے کام آتی ہیں لیکن اسی صف میں ٹرکوں، بسوں اور ان تمام گاڑیوں کا بھی شمار ہوتا ہے، جو کاریں نہیں ہیں لیکن جن کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ 2015 ءمیں جرمنی کی بارہ سو ارب یورو کی مجموعی برآمدات میں سے ان مخصوص قسم کی گاڑیوں کا حصہ ستاون ارب یورو رہا۔ جرمنی کی دوا ساز صنعت کی ساکھ پوری دنیا میں بہت اچھی ہے۔ آج بھی اس صنعت کے لیے وہ بہت سی ایجادات سود مند ثابت ہو رہی ہیں، جو قریب ایک سو سال پہلے ہوئی تھیں۔ اگرچہ بہت سی ادویات کے پیٹنٹ حقوق کی مدت ختم ہو چکی ہے تاہم جرمن ادارے انہیں بدستور بھاری مقدار میں تیار کر رہے ہیں۔ ان ادویات کی مد میں جرمنی کو سالانہ قریب ستر ارب یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔
بجلی کام کی چیز بھی ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔ کم وولٹیج کے ساتھ رابطے میں آنا پریشانی کا باعث بنتا ہے، لیکن زیادہ وولٹیج والی تاروں سے چھو جانا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ برقی مصنوعات بنانا مہارت کا کام ہے، اور اس حوالے سے جرمن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہے۔ سن 2015 ءمیں برقی مصنوعات تیار کرنے والے جرمن اداروں کا مجموعی برآمدات میں حصہ چھ فیصد رہا۔ قریب ایک سو ارب یورو کے ساتھ ڈیٹا پروسیسنگ آلات اور آپٹک مصنوعات کے برآمدی شعبے کا مجموعی برآمدات میں حصہ آٹھ فیصد سے زیادہ رہا۔ بہت سے جرمن ادارے گزشتہ کئی نسلوں کے اس تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی اعلی معیار کی حامل تکنیکی اور سائنسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں۔ جرمنی کے بڑے کیمیائی ادارے ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ وہ مختلف طرح سے استعمال ہونے والی گیسیں اور مائعات بھی تیار کرتے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ ایک سو ارب یورو سے زیادہ کے کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ بائر اور بی اے ایس ایف جیسے اداروں کا جرمن برآمدات میں حصہ قریب دس فیصد بنتا ہے اور جرمنی کی برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں اس شعبے کا نمبر تیسرا ہے۔ جرمنی انجینئروں کی سرزمیں، یہ بات ویسے تو کہنے کو کہ دی جاتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ جرمنی کی برآمدات میں مشینیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 2015 ءمیں جرمنی نے مجموعی طور پر 169 ارب یورو کی مشینیں برآمد کیں۔ اس شعبے کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر ہوتا ہے۔ عالمی معیشت بحران کا شکار ہو تو جرمن مشینوں کی مانگ بھی کم ہو جاتی ہے۔ جرمنی کا کوئی اور شعبہ برآمدات سے اتنا نہیں کماتا جتنا کہ اس ملک کا موٹر گاڑیاں تیار کرنے والا شعبہ۔ جرمن محکمہ شماریات کے مطابق فوکس ویگن، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو اور پورشے جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پرزہ جات سے جرمنی کو 226 ارب یورو کی سالانہ آمدنی ہوئی۔
پاکستان کو جرمنی کی ساتھ اپنے تجارتی و اقتصادی روابط کو مضبوط بنانا چاہیے۔ جرمنی کا سیاسی و اقتصادی نظام ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں جرمن ٹیکنالوجی اور تجربہ سے استفادہ کرنا چاہیے، جرمنی کو توانائی کے شعبے میں خاص مہارت حاصل ہے۔ جرمنی میں 20 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی سولر سے پیدا کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو جرمنی کے ساتھ مختلف معاشی شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہیے تاکہ پاکستانی معیشت زیادہ سے زیادہ ترقی کرے ۔ تجارت اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہیے۔ یورپ سمیت جرمنی میں مقیم پاکستانی محب وطن ہیں جو ہر دم پاکستان کی ترقی کے لیے سوچتے ہیں۔ پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارت کے دوطرفہ مواقع مزید بڑھائے جا سکتے ہیں، جس کے لیے دونوں حکومتوں اور نجی شعبوں کو مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی۔
(کالم نگاربین الاقوامی امورپرلکھتے ہیں)
٭….٭….٭