پنجاب سے دھڑا دھڑ یورپ انسانی سمگلنگ ،کم عمر پاکستانی لڑکے لڑکیوں نے ایسا دھندا اختیار کرلیا کہ سب ششدر رہ گئے

روم، اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) پنجاب سے کم عمر بچوں کی یورپ اسمگلنگ کے معاملے پر یونان میں مقیم پاکستانی سفیر نے وزارت خارجہ کو خط لکھ دیا۔خط میں سفیر عثمان قیصر نے پاکستان سے یونان کے لئے انسانی سمگلنگ میں اضافے کا انکشاف کیا اور بتایا کہ دسمبر2017 میں یونانی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 23 پاکستانی غیرقانونی تارکین وطن ہلاک ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے پاکستانیوں میں سے 20 کی لاشیں پاکستان روانہ کردی گئی ہیں جبکہ 3 کی تلاش جاری ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سفارت خانے سے جاری ہونے والے خط میں دفترخارجہ اور وزارت داخلہ کو انتہائی سنجیدہ مسئلے کا فوری نوٹس لینے کا کہا گیا۔پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ادارے انٹرنیشل آفس آف مائیگریشن (آئی او ایم) بھی وطن واپس جانے کے خواہشمند تارکین وطن کی مدد سے گریزاں ہے۔پاکستانی سفارت خانے کے خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بذریعہ یونان یورپ جانے کے لئے منڈی بہاالدین، گجرانوالہ اور سیالکوٹ سے انسانی سمگلنگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جسے ہنگامی بنیادوں پر روکنے کی ضرورت ہے۔پاکستانی سفیر نے خط میں توجہ دلائی ہے کہ بچوں، کم عمر خواتین، و دیگر افراد کو غیرقانونی طورپر یونان بھجوایا جارہا ہے جس کی روک تھام کے لئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے خاطر اقدامات نہیں اٹھائے جارہےپاکستانی سفیر خالد عثمان قیصر کے مطابق گزشتہ ماہ دسمبر 2017 میں 23 غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیںان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے پاکستانیوں میں سے 20 افراد کی لاشیں پاکستان بھجوائی جاچکی ہیں، جب کہ 3 کی تلاش کے لئے یونانی سیکیورٹی حکام اقدامات اٹھارہے ہیں۔پاکستانی سفارت خانے کے مطابق یونان میں بیروزگاری کی شرح 40 فیصد کی حد تک جاپہنچی ہے اور اس مخدوش معاشی صورتحال میں غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن بھی کسمہ پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صورتحال اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ غیرقانونی کم عمر پاکستانی لڑکے اور لڑکیاں “سیکس ورکز” جیسے گھنانے دھندے میں مصروف ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ غیرقانونی تارکین وطن جو پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں انہیں بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ بین الاقوامی ادارے انٹرنیشل آفس آف مائیگریشن (آئی او ایم) نے بھی ایسے پاکستانیوں کو وطن واپس بھجوانے سے معذرت کرلی ہے جس کے بعد ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں

 

عامربیوی کی توہین پرکینیڈین باکسرپرٹوٹ پڑے

لندن (سپورٹس ڈیسک)حریف باکسرفل لوگریکو کے فریال مخدوم کے بارے میں نازیبا جملے پر عامرخان آگ بگولہ ہوگئے اورانہوں نے باکسر گریکو پر پانی سے بھرا گلاس پھینک دیا۔پریس کانفرنس میں عامرخان اورگریکوکے درمیان انتہائی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، عامرخان اورفل لو گریکو کے درمیان جھگڑے کے باعث تقریب روکنا پڑگئی۔گریکو کئی ہفتے سے سوشل میڈیا پر عامرخان پرطنز کے تیر چلارہے تھے۔عامرخان نے اپنی اہلیہ پر بےوفائی اور باکسر انتھونی جوشوا سے تعلق کا الزام لگایاتھا۔ انتھونی جوشواکی وضاحت کے باوجود عامرخان نے فریال کوطلاق دینے کی ٹھان لی تھی۔عامرخان نے چندماہ بعد غلطی کا اعتراف کرکے فریال سےٹوٹارشتہ پھرسے جوڑلیا تھا۔برٹش پاکستانی باکسر عامرخان کی 21اپریل کوفل لوگریکو سے فائٹ ہوگی۔

پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں توہین عدالت کے قوانین کیا ہیں؟

لاہور(خصوصی رپورٹ) دنیا کے ہر ملک میں توہین عدالت دو قسم کی ہوتی ہے جس میں عدالتی کمرے میں قانونی حکام سے گستاخانہ یا عدم احترام پر مشتمل رویہ اختیار کرنا یا جان بوجھ کر عدالتی حکم پر عمل نہ کرنا شامل ہیں۔ یہ بات ریسرچ کے دوران سامنے آئی ہے۔ توہین عدالت میں کیس کی سماعت کرنے والے جج یا ججوں سے گستاخی، نازیبا رویے سے سماعت میں رکاوٹ ڈالنا اور کوئی مواد شائع یا ٹیلی کاسٹ کرنا یا کوئی مواد ظاہر نہ کر کے منصفانہ ٹرائل کی راہ میں رکاوٹ بننا شامل ہیں۔ عشروں سے دنیا بھر میں جج توہین عدالت کے مرتکب افراد کو جرمانے یا قید کی سزا ئیں دیتے چلے آ رہے ہیں تاہم ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جج کم از کم ایک وارننگ جاری کئے بغیر توہین عدالت کی کارروائی کرے۔پاکستان سمیت کچھ ملکوں کے توہین عدالت کے قوانین کا جائزہ:۔دی نیوز انٹرنیشنل نے 4اگست 2012 کے ایڈیشن میں رپورٹ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت ایکٹ 2012 کو غیر آئینی کالعدم قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ توہین عدالت آرڈیننس 2003 کو 12جولائی 2012 سے بحال کیا جائے گا۔ 12جولائی 2012 کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سیکشن 248(1) کے تحت قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد توہین عدالت ایکٹ 2012 نافذ کیا جس کے تحت وزیراعظم اور تمام دیگر وزرا سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کو توہین عدالت کی عدالتی کارروائیوں سے مستثنی رکھا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے اس ایکٹ کے خلاف 27 ایک جیسی درخواستوں پر فیصلہ جاری کیا۔ بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس تصدق حسین جیلانی شامل تھے۔ عدالت نے 21 صفحات کے مختصر حکم میں اعلان کیا کہ یہ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت قابل سماعت ہیں کیونکہ اس میں عوامی اہمیت کے بنیادی حقوق کا معاملہ شامل ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 204کو آئین کے فورتھ شیڈول کی 55 انٹری کے ساتھ پڑھا جائے تو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو آرٹیکل 204کی کلاز (2) کے تحت توہین عدالت کی دی گئی تعریف کے مطابق جرم کرنے والے کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے۔ مختصر حکم میں کہاگیا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012 کے سیکشن2 (اے) جج کی جو تعریف کرتا ہے اس میں ایسے تمام افسران آ جاتے ہیں جنہیں انصاف کی فراہمی کا منصب دیا جائے جبکہ اس کے برخلاف آرٹیکل 204(1) کے تحت عدالت سے مراد سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ ہے۔ ایکٹ کا سیکشن 3 مکمل طور پر کالعدم ہے کیونکہ یہ آرٹیکلز 4,9,25اور 204)2)سے متصادم ہے۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 204(2)(b)میں دی گئی توہین عدالت کے امور اور آرٹیکل 204(2)(c)کے ذیل میں دیئے گئے بعض اقدامات کو ایکٹ کے سیکشن 3 میں توہین عدالت کی دی گئی تعریف سے نکال دیا گیا ہے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا توہین عدالت ایکٹ 2012 آرٹیکل 204کے کلاز 3کے تحت نافذ کیا گیا جو مقننہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ عدالتوں کے اختیارات کے استعمال کو مربوط بنانے کیلئے قانون سازی کرے اور کوئی شرط نہ لگائے اور دفاع کے لئے بھی کسی قسم کی شرط نہ لگائی جائے عدالت نے کہا کہ ایک جج پر بہتان تراشی کر کے عدالتوں کے اختیار کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس مقصد کے لئے آرٹیکل 204(2)میں لفظعدالت استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیکشن 3میں دی گئی تعریف آرٹیکل 63(1)(g)کے تقاضوں سے متصادم ہے جس کے مطابق اگر کسی شخص کو عدلیہ کی تضحیک کا مجرم قرار دیا اور سزا سنائی جائے تو وہ عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل ہو گا اور سیکشن 3 میں اسے ختم کر دیا گیا اور عدلیہ کو شامل کرنے کے بجائے ایک ججپرر اس کے دفتر کے حوالے سے بہتان تراشی کی گئی۔مختصر حکم میں مزید کہا گیا کہ سیکشن 3 میں (i)سے (xi)تک شامل کی گئی شقوں کو لاگو کیا گیا جس کے تحت استثنی اور دفاع کے موقعے دیئے گئے جبکہ آئین میں ایسی کوئی شقیں نہیں اور سیکشن 3کی ذیلی شق (i)کے تحت آرٹیکل 248(1)کے عوامی عہدے رکھنے والے کو استثنی دیا گیا جو آرٹیکل 25 اور آرٹیکل 204(2)کی خلاف ورزی ہے ، عدالت کسی استثنی کے بغیر کسی بھی شخص کو توہین عدالت پر سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔مختصر حکم میں قرار دیا گیا سیکشن3کی ذیلی شق(i)میں آرٹیکل 248(1)کی شمولیت آئین میں ترمیم کے مترادف ہے اور یہ کام آرٹیکلز 238 اور 239 میں دیئے گئے طریق کار پر عمل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 248(1) کسی عوامی عہدیدار کو فوجداری مقدمات سے استثنی نہیں دیتا پس سیکشن 3 کی ذیلی شق (i)کے تحت بھی کسی عوامی عہدیدار کو استثنی نہیں دیا جا سکتا اور یہ آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہو گی۔ فیصلے میں کہا گیا سیکشن 3کی ذیلی شقوں (i)تا (xi)میں دی گئی شرائط مبہم اور بے سروپا ہیں اور اس کا مطلب توہین عدالت کرنے والے کو فائدہ پہنچانا ہے جو عدالتوں کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتا پس یہ شقیں قانون کے سامنے سب برابر ہیں کے اصول سے متصادم اور کالعدم ہیں عدالت نے مزید فیصلہ دیا کہ سیکشن 4کے سب سیکشن 4کے تحت قبل ازیں دیئے گئے فیصلوں کا اثر ختم کرنے کے لئے فیصلہ دیا گیا اور ان بنیادوں کو ختم نہیں کیا گیا جن پر فیصلے دیئے گئے جو انصاف تک رسائی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے جس کا ذکر آرٹیکل 9میں ہے اور یہ شق بھی آرٹیکل 189سے متصادم ہے اور کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ سیکشن 6(2) وجود نہیں رکھتا کیونکہ سیکشن 3 کو بالکلیہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح فیصلے میں کہا گیا کہ سیکشن 6(3) توہین عدالت کی حوصلہ افزائی اور اسے بڑھاوا دیتا ہے کہ سزا پر عملدرآمد موخر کر کے اپیل، نظرثانی کی راہ اختیار کی گئی ہے جبکہ عدالت کے وقار اور احترام کا تقاضا ہے کہ توہین عدالت کے مرتکب کو فوری سزا دینے کیلئے مناسب اقدام کیا جائے۔ مختصر حکم میں کہا گیا کہ اس ضمن میں کسی بھی تاخیر سے ناصرف عدالتی وقار متاثر ہو گا بلکہ اس سے عدالتوں اور ان کے احکامات کے عدم احترام کا رحجان بڑھے گا۔ اس طرح یہ شق بھی آرٹیکلز 2Aاور 9 کے تحت عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک فراہمی کے اصول سے متصادم ہے اس لئے کالعدم ہے عدالت نے مزید کہا کہ سیکشن 8کے تحت مقدمات کی منتقلی عدالتی اختیارات کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ سیکشن 8 کا سب سیکشن (1)برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ اس میں عدالت پر بہتان تراشی کی بجائے ایک جج پر اس کے دفتر کے حوالے سے بہتان تراشی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ سب سیکشن بھی توہین عدالت کے ملزم کو سزا دینے کی ضرورت سے متصادم ہے جبکہ عدالت کے احترام میں تیزی سے مناسب قدم اٹھایا جانا چاہئے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک سے دوسرے جج یا بنچ کو مقدمے کی منتقلی اس عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے چیف جسٹس کا اختیار ہے جسے مقننہ کنٹرول نہیں کر سکتی۔ اس لئے سیکشن 8 کا سب سیکشن 3 عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ سیکشن 8 کے سب سیکشن 5کے تحت مقننہ چیف جسٹس کی فائل سے ایک کیس دوسرے سینئر جج کو منتقل کرنے کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی یہ عدالتوں کی آزادی کے خلاف ہو گا اور اس حوالہ سے مقننہ کی مداخلت چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے اختیار کو کم کرنے کے مترادف ہو گی، اس طرح یہ شق بھی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سیکشن 10بی آرٹیکل 19میں درج آزادی اظہار کے بنیادی حق کے خلاف ہے جسے روکا جانا چاہئے۔ مزید برآں توہین عدالت اور آرٹیکل 68جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے کنڈکٹ پرپارلیمنٹ میں کوئی بحث نہیں ہو گی۔ مختصرحکم میں کہا گیا آرٹیکل 270اے اے کے مطابق توہین عدالت آرڈیننس 2003 جو 15دسمبر 2003 کو لاگو ہوا اور 12جولائی 2012 کے روز تک نافذ العمل رہا جب توہین عدالت ایکٹ 2012 لاگو کیا گیا۔ سیکشن 13جو توہین عدالت ایکٹ 1976 اور 2003 اور 2004 کے آرڈیننس کو منسوخ کرتا ہے اس تنسیخ کیلئے کوئی وجہ نہیںآرڈر میں مزید کہا گیا اس لئے کوئی اور آئینی راستہ نہ بچنے کے باعث توہین عدالت ایکٹ 2012 غیر آئینی ، کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اٹارنی جنرل فارابرٹا بنام اٹارنی جنرل فار کینیڈا (AIR(1948) PC(194)میں بیان شدہ اصول کے مطابق یہ قرار دیا جاتا ہے کہ توہین عدالت آرڈیننس 2003 کو 12جولائی 2012 سے بحال تصور کیا جائیگا جس روز توہین عدالت ایکٹ 2012 نافذ کیا گیا تھا.بھارت میں توہین عدالت دو طرح کی ہیں سول توہین عدالت میں توہین عدالت ایکٹ 1971 کے سیکشن ٹو بی کے تحت سول توہین عدالت کو کسی فیصلے حکم نامے، ہدایت، آرڈر، رٹ یا کسی اور عدالتی امر کی دانستہ عدم تعمیل یا عدالتی احکام کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔کریمینل توہین عدالت کے تحت توہین عدالت ایکٹ 1971 کے سیکشن ٹو سی سے تحت کریمینل توہین عدالت کوئی ایسی اشاعت(خواہ الفاظ جو لکھے یا بولے گئے۔ بول، یا اشارے یا کسی اور طریقے سے) جو کسی عدالت کو سیکنڈ لائز کرتی ہو یا اس طرف مائل ہو یا عدالتی اتھارٹی کو کم کرتی ہو یا اس کی طرف میلان رکھتی ہو یا پھر کسی عدالتی عمل میں مداخلت کرتی ہو یا ایسا رحجان رکھتی ہو یا کسی بھی طور پر انصاف کی فراہمی کے عمل میں مداخلت کرتی، رکاوٹ ڈالتی یا اس کی طرف مائل ہو کریمنل توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی۔ توہین عدالت ایکٹ 1971 کی سیکشن بی کلاز بی جو 2006 کے ایک فیصلے میں متعارف کرائی گئی اس اقدام کے درست ہونے کا جواز پیش کرنے پر دفاع کا موقع دیتی ہے اگر عدالت کو مطمئن کیا جائے کہ یہ اقدام مفاد عامہ میں تھا۔انگلینڈ اور ویلز:انگلینڈ اور ویلز میں توہین عدالت قانون (توہین عدالت ایکٹ 1981)میں زیادہ سے زیادہ سزا دو سال ہے۔ جج یا مجسٹریٹ کے سامنے بدتمیزی توہین آمیز رویہ جب وہ عدالت میں ہو، ٹرائل کے عمل یا دیگر قانونی امور کو متاثر کرنیکی کوشش کو براہ راست توہین تصور کیا جاتا ہے۔براہ راست توہین با لواسطہ توہین سے نمایاں طور پر مختلف ہے جس میں کوئی شخص کسی کیخلاف توہین کی درخواست دائر کر سکتا ہے اور الزام عائد کر سکتا ہے کہ اس نے عدالت کے قانونی احکام کی دانستہ خلاف ورزی کی۔فوجداری توہین عدالت: برطانوی کراﺅن کورٹ کے پاس اپنی کارروائی پراس وقت توہین عدالت کی سزادینےکااختیارہے جب عدالتی حکم کونہ ماناجائے یا عدالتی کارروائی کی خلاف ورزی کی جائے۔ جب کارروائی کرنا جلد مقصود ہو تو جج(حتی کے ٹرائل جج) توہین عدالت کی سزا دینےکیلئے کارروائی کرسکتاہے۔ جہاں ایسا کرنا ضروری نہ ہویا توہین عدالت بلاواسطہ طور پرکی گئی ہوتو اٹارنی جنرل مداخلت کرسکتاہےاورکراون پراسیکیوشن سروس اپنی جانب سےکورٹ آف جسٹس آف انگلینڈاینڈویلز کے ڈویژنل کورٹ آف دی کوئین بنچ ڈویژن کے سامنے کارروائی کا آغاز کرسکتاہے۔ مجسٹریٹ عدالتیں اعلی عدالتیں نہیں ہیں لیکن انھیں توہین عدالت ایکٹ 1981 کے تحت کارروائی کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ وہ عدالتی بے عزتی کرنےوالے کسی بھی شخص کو حراست میں لے سکتی ہیں یاسماعت کے اختتام تک اپنی کارروائی روک سکتی ہیں۔ توہین عدالت تسلیم کیے جانےیا ثابت ہونے پر جج مجرم کوزیادہ سے زیادہ ایک ماہ قید کی سزا دے سکتاہے، اڑھائی ہزار پاﺅنڈ جرمانہ بھی کرسکتاہےیادونوں کرسکتاہے۔ برطانوی عدالت کی مرضی کے بغیر کمرہِ عدالت میں کوئی بھی آڈیو یکارڈنگ یا تصویرلینےوالا ڈیوائس لانا توہین عدالت کےزمرے میں آتاہے۔ برطانیہ میں جب تک عدالت دستیاب ثبوتوں پر غورنہ کرلے اور یہ فیصلہ نہ کرلے کہ معلومات انصاف، نیشنل سکیورٹی یا انتشار یا جرائم کوروکنےکیلئےضروری ہیں، تب تک (ایکٹ کی شق20 کے تحت) کسی بھی صحافی کا اپنا ذرائع نہ بتانا توہین عدالت میں نہیں آتا۔ برطانیہ میں سنگین توہین عدالت: توہین عدالت ایکٹ 1981 کے تحت یہ فوجداری توہین عدالت ہےکہ کچھ ایسا شائع کردیاجائے جس سے عدالتی کارروائی متاثرہونے کا خدشہ ہوجائے۔ اس کا نفاذ وہاں ہوتا ہے جہاں کارروائی جاری ہو اور اٹارنی جنرل رہنمائی کرے کہ اس کے خیال میں توہین عدالت کب ہوئی ہے، اور یہاں قانونی رہنمائی بھی ہونی چایئے۔ یہ شق اخبارات اور میڈیا کو کوئی بھی ایسا مواد شائع کرنے سے روکتی ہے جو کسی بھی فوجداری مقدمےیا اس سے متعلقہ مقدمات کےختم ہونےاور ججز کی جانب سے فیصلہ آنےسےپہلےاس کے بارےمیں انتہائی حساس ہو۔ برطانیہ میں سول توہین عدالت: سول مقدمات میں دو طرح کی چیزیں ہیں جہاں توہین عدالت ہوسکتی ہے: طلبی کےباوجودعدالت میں پیش نہ ہونا یا عدالتی احکامات کی پیروی نہ کرنا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جاتاہے اور وہ حکم کی پیروی نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکتاہے یا تحریری طورپر مذکورہ شخص کو قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا شازوناذرہی ہوتاہے کیونکہ معافی نامہ یا جرمانے کو ہی مناسب سمجھا جاتاہے۔ امریکا: امریکی قوانین کے مطابق توہین عدالت کے ایکٹ کو براہِ راست یا بالواسطہ اور سول یا فوجداری میں تقسیم کیاگیاہے۔ براہِ راست توہین عدالت کسی جج کی موجودگی میں ہوتی ہے؛ سول توہینِ عدالت دھمکی آمیزاور قابلِ حل ہے کیونکہ اس میں سزا کی مخالفت کی جاتی ہے۔ براہِ راست توہینِ عدالت جج کی موجودگی میں ہوتی ہے اور اس میں جج موقع دے سکتاہے، یا فوری طور پر پابندی عائد کرسکتاہے۔ بلااسطہ توہین عدالت: یہ کمرہ عدالت سے باہر ہوتی ہے اور یہ عدالتی حکم نہ ماننے کی صورت میں ہوتی ہے۔ سول مقدمات میں توہین عدالت کو جرم نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس میں جس پارٹی کو عدالتی حکم سےفائدہ ہوتا ہے وہ عدالتی حکم کونافذ کرانے کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے۔

نہا ل ہا شمی 5سال کے لیے نا اہل 1ماہ قید

اسلام آباد (آئی این پی، مانیٹرنگ ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدلیہ مخالف تقریر پر نہال ہاشمی کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا مرتکب قرار د یکر نہال ہاشمی کو ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں نہال ہاشمی کو 15 روز مزید قید کاٹنا ہوگی، نہال ہاشمی 5 سال کیلئے نا اہل بھی ہوگئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد اسلام آباد پولیس نے نہال ہاشمی کو حراست میں لے کر تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کر دیا۔ جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سنیٹر نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے 24 جنوری کو نہال ہاشمی توہین عدالت کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے نہال ہاشمی کو ایک ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے ان کا معافی نامہ مسترد کردیا۔ عدالت نے نہال ہاشمی پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے 5 سال کے لیے نااہل بھی کردیا۔ فیصلے کے بعد نہال ہاشمی کو پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا ہے جب کہ انہیں اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ توہین عدالت کیس کا فیصلہ 2-1 کے تناسب سے آیا۔ نہال ہاشمی قومی، صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی توہین عدالت کیس کا فیصلہ دو ایک کے تناسب سے سنایا، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مقبول باقر نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جبکہ جسٹس دوست محمد نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ خیال رہے نہال ہاشمی نے گزشتہ سال کراچی میں عدلیہ مخالف تقریر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تم جس سے حساب لے رہے ہو وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے اور ہم اس کے کارکن، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاو¿ گے، حساب لینے والو ہم تمہارا یوم حساب بنا دینگے، ہم تمہارے بچوں اور خاندان کیلئے پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کر سن لیں ہم نے انہیں چھوڑنا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تم پاکستان کے باضمیر اور باکردار رہنماءنواز شریف کا زندہ رہنا مشکل کر رہے ہو، پاکستانی قوم تمہارا زندہ رہنا مشکل کر دے گی۔ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی تقریر پر توہین عدالت کا نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے 24 جنوری 2018 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے طلال چودھری کی عدلیہ مخالف تقاریر کا نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ نے طلال چودھری کی عدلیہ مخالف تقاریر کا نوٹس لیتے ہوئے ان کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ لیگی رہنماءکیخلاف از خود نوٹس کی سماعت 6 فروری کو کرے گی۔ واضح رہے کہ طلال چودھری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ ہیں۔ وہ پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالتی فیصلے کو اپنی متعدد تقاریر میں خوب آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں۔یاد رہے کہ انہوں نے جڑانوالہ میں اپنے حلقے میں نون لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں پی سی او کے بت بنے ہوئے ہیں، میاں نواز شریف ان کو عدالت سے نکالو، یہ انصاف نہیں کریں گے۔

 

بلا ول ہاوس چھا پہ مارا تو راﺅ انوار مل جا ئے گا

کراچی (آئی این پی) وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ اگر بلاول ہاو¿س اسلام آباد پر چھاپہ مارا جائے تو راو¿ انوار مل جائے گا‘سندھ کے حکمران چور اور لٹیرے ہیں، عوام کے اربوں ہڑپ کر چکے ہیں ‘ایک ایک پائی کا حساب لیں گے‘ایان علی کے ذریعے قوم کا پیسہ باہر بھیجا گیا‘کراچی کے لوگ ووٹ کے ذریعے گند صاف کریں گے‘نہال ہاشمی کو ان کے نازیبا کلمات کی سزا ملی‘ جس دن انہوں نے توہین عدالت کی اسی روز نواز شریف نے ایکشن لیا تھا۔ وہ جمعرات کو کراچی ایئر پورٹ پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ وزیر مملکت توانائی عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ نہال ہاشمی کو ان کے نازیبا کلمات کی سزا ملی، جس دن انہوں نے توہین عدالت کی اسی روز نواز شریف نے ایکشن لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ راو¿ انوار معصوم لوگوں کا قاتل ہے۔ بلاول ہاﺅس اسلام آباد پر چھاپہ ماریں راو¿ انوار مل جائے گا۔ عابد شیر علی نے کہا کہ سندھ کے حکمران چور اور لٹیرے ہیں، عوام کے اربوں روپے ہڑپ کر چکے ہیں تاہم ایک ایک پائی کا حساب لیں گے، پیپلز پارٹی کو وقت دیا اب قوم ان کا احتساب کرے۔ انہوں نے کہا کراچی کے لوگ ووٹ کے ذریعے گند صاف کریں گے۔وزیر مملکت توانائی نے کہا کہ میاں صاحب کی وجہ سے کراچی میں امن ہے۔ انہوں نے کہا سندھ کے حکمرانوں کا احتساب کا وقت آگیا ہے، ایان علی کے ذریعے قوم کا پیسہ باہر بھیجا گیا، کراچی میں بسیں چلیں گی پھر لوگوں کو پتا چلے گا ترقی کیا ہے۔

 

کرکٹ کھیلنا جائز یا حرام علامہ خاد م حسین رضوی کے فتوے نے ہنگامہ برپا کر دیا

لاہور (ویب ڈیسک ) تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو پورے پاکستان کو ان کے بارے میں معلوم ہو گیا جس کے بعدسوشل میڈیا پر ان کی بہت ساری ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں اور وہ کافی عرصہ تک خبروں کی زینت بنتے رہے۔لیکن اب سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ان کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے جس میں انہوں نے کرکٹ سمیت تمام کھیلوں کو حرام قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سب کھیل شیطانوں اور کافروں کی ایجاد ہیں اور انہیں کھیلنے والے غافل ہیں، اس لئے تمام مسلمانوں کیلئے ان کھیلوں کو کھیلنا یا دیکھنا حرام ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ان کی مبینہ ویڈیو میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ”کھیل کے بارے میں بتائیں خصوصاً کرکٹ جائز ہے یا ناجائز ہے؟ جتنے کھیل انگریزوں کی طرف سے آتے ہیں، سب کھیلنا حرام ہیں، جس کھیل کو شیطانوں نے ایجاد کیا ہو اور کھیلنے والے غافل ہوں تو وہ مسلمانوں کیلئے حرام ہے۔کرکٹ ایجاد ہی کافر کی ہے اور اسے کھیلنے والے شیطان غافل ہیں، مسلمان کیلئے حرام ہے، کرکٹ ہو یا ہاکی، سب حرام ہے اور جو کھلاڑیوں کو پسند کرتا ہے وہ بے غیرت ہے۔ عمران خان کہتا ہے کہ مجھ پر 30 ہزار لڑکی عاشق ہے، یہ جو کینسر لگانے کیلئے ہسپتال کھول کر بیٹھا ہے، آپ حیران ہو گئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کینسر کا علاج کرتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ وہ کینسر لگاتا ہے۔ خدا کے بندو، اس طرح کے لوگ بنے ہیں، یہ لوگ آئے ہیں تو کینسر آئے ہیں، یہ لگانے والے ہیں۔ ہم اگر نبی کریم کے طریقے پر چل پڑیں تو قسم اس ذات کی کھا کر کہتا ہوں کہ کینسر مسلمانوں میں رہ جائے تو میری ناک کاٹ کر کتوں کے سامنے ڈال دینا، یہ ہمیں کینسر لگانے والے ہیں، ان کی نرسیں خود کینسر ہیں اور جسے ہاتھ لگائیں اسے دل کا کینسر لگ جاتا ہے۔“سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو خادم حسین رضوی کے نام سے وائرل ہو رہی ہے جس میں ان کی تصویر تو موجود نہیں البتہ صرف ویڈیو ہے اور صارفین کا پرزور اصرار ہے یہ آواز خادم حسین رضوی کی ہی ہے جو ڈائریکٹر ریکارڈ نہیں ہوئی بلکہ لاوڈ سپیکر سے ریکارڈ کی گئی ہے۔

 

خواجہ آصف ملک کے لیے سیکورٹی رسک ،نا اہل کرانے سپریم کورٹ جا ئینگے

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے خواجہ آصف کی نااہلی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ کر لیا۔عمران خان نے کہا کہ خواجہ آصف بیرون ملک ایک کمپنی سے تنخواہ لیتے ہیں، اس لئے وہ وزارت خارجہ کیلئے سکیورٹی رسک ہیں، خواجہ آصف کا ڈومیسائل بھی غیرملکی ہے، انہوں نے یہ تمام چیزیں اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں، ان کے غیرملکی بینکوں میں اکاو¿نٹس بھی ہیں۔عمران خان نے مزید کہا کہ نہال ہاشمی کیخلاف کارروائی پر عدالت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، عدلیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے، نون لیگ کے توہین آمیز رویئے سے عدلیہ کا وقار کم نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب اور سندھ پولیس ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہے،خواجہ آصف شریف خاندان کے منی لانڈرنگ گینگ کا حصہ ہیں ،وزیرخارجہ کی کرپشن اورمنی لانڈرنگ کو ہرسطح پراٹھایا جائے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی خودمختار، پیشہ ور اور غیرسیاسی پولیس کا پنجاب اور سندھ پولیس سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔خیبر پختونخوا ایکٹ کے ذریعے صوبے کی پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی کردیا گیا ہے جبکہ پنجاب اور سندھ میں پولیس سیاسی مخالفین کو کچلنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہے۔دریں اثنا عمران خان نے تحریک انصاف کے رہنماعثمان ڈار سے ملاقات میں خواجہ آصف نااہلی کیس سے متعلق پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ عمران خان نے عثمان ڈارکو تمام دستاویزی ثبوت میڈیا کوجاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف شریف خاندان کے منی لانڈرنگ گینگ کا حصہ ہیں اوروزیرخارجہ کی کرپشن اورمنی لانڈرنگ کو ہرسطح پراٹھایا جائے۔ جمعرات کوعمران خان نے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کی خودمختار، پیشہ ور اور غیرسیاسی پولیس کا پنجاب اور سندھ پولیس سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا ایکٹ کے ذریعے صوبے کی پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی کردیا گیا ہے جب کہ پنجاب اور سندھ میں پولیس سیاسی مخالفین کو کچلنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہے۔

 

نہال ہاشمی نے جن کو خوش کرنے کی کوشش کی وہ انسان شناسی میں انتہائی کمزور ہیں

اسلام آباد (نیا اخبار رپورٹ) سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کے فیصلہ کے آغاز میں قرار دیاہے کہ اگر اس عدالت کے ججز دل کے ضعیف یا کمزور ہیں اور اگر انہیں زبانی تضحیک یا کھلے عام دھمکیوں سے خوفزدہ کیا جاسکتا ہے تو پھر مدعاعلیہہ نہال ہاشمی نے یقینا درست کوشش کی ہے تاہم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس (نہال ہاشمی) یا جن کی اس نے تقلید کرنا چاہی یا جن کو خوش کرنے کی کوشش کی وہ انسان شناسی میں انتہائی کمزور ہیں۔ 10صفحات کے فیصلہ میں نہال ہاشمی کی طرف سے ادا کئے گئے الفاظ بھی شامل کئے گئے ہیں۔

پاکستان کھیلے بغیر ہی تیسری پوزیشن کا حقدار

کوئنزٹاﺅن(سپورٹس ڈیسک) نیوزی لینڈ میں جاری انڈر 19 ورلڈ کپ میں تیسری اور چوتھی پوزیشن کے لیے کھیلے جانے والا میچ بارش کی نذر ہو گیا جس کے بعد پاکستان کو ٹورنامنٹ کے قوائد کے مطابق گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے افغانستان کے خلاف میچ کا فاتح قرار دیا گیا۔اس طرح پاکستان انڈر 19 ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔جمعرات کو کوئنز ٹان کے جان ڈیوس اوول میں کھیلنے جانے والا میچ گذشتہ رات کی بارش اور صبح کو مسلسل بوندا باندی کے باعث شروع نہ ہو سکا۔ میچ کے امپائرز نے مقامی وقت کے مطابق صبح 11.15 پچ کا جائزہ لیا لیکن اس موقع پر بارش دوبارہ شروع ہو گئی اور میچ شروع کرنے کے امکانات ختم ہو گئے۔یہ فیصلہ پاکستان کے لیے سودمند ثابت ہوا جو ٹورنامنٹ کے گروپ مقابلے میں افغانستان سے شکست کھا چکا تھا۔ لیکن بعد میں پاکستان نے اپنی کارکردگی میں بہتری کا مظاہرہ کیا اور آئرلینڈ کے خلاف نو وکٹوں سے کامیابی کی مدد سے اپنے نیٹ رن ریٹ کو بہت بہتر کیا۔ادھر افغانستان کی ٹیم آئرلینڈ سے چار رنز سے شکست کھا گئی جس کی وجہ سے انھیں گروپ میں دوسری پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا اور یہ ہار تیسری اور چوتھی پوزیشن کے مقابلے میں ان کو بھاری پڑ گئی۔دونوں ٹیمیں گروپ ڈی میں شامل تھیں اور دونوں ٹیموں نے 3,3 میچز میں سے 2,2 فتوحات حاصل کی تھیں، تاہم بہتر رن ریٹ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم گروپ میں ٹاپ پوزیشن پر موجود تھی اور افغانستان کی ٹیم دوسرے نمبر پر تھی۔ٹورنامنٹ کا آخری میچ ہفتے کو کھیلا جائے گا جب افغانستان کو ہرانے والی آسٹریلوی ٹیم کا فائنل میں انڈیا کے خلاف سامنا ہوگا جنھوں نے پاکستان کو 203 رنز سے ہرا کر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ دونوں ٹیموں کو اس سے قبل تین، تین مرتبہ عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہے، ایونٹ میں دونوں ٹیموں کی حالیہ فارم اور کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کن معرکے میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

 

میر ہزار بجارانی نے 2 شادیاں کیں‘ 44 سال سیاست کی

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) اہلیہ کے ساتھ مردہ حالت میں پائے جانے والے 72 سالہ میر ہزار خان بجارانی کی زندگی کے 44 سال پاکستانی پارلیمنٹ اور سیاست میں گزرے۔میر ہزار خان بجارانی اس وقت میں رکن سندھ اسمبلی اور صوبائی وزیر تھے، جب کہ ان کی اہلیہ فریحہ رزاق میر ماضی میں رکن سندھ اسمبلی رہ چکی ہیں، وہ اس وقت فری لانس صحافی تھیں۔میر ہزار خان بجارانی صوبہ سندھ کے شمالی ضلع کندھ کوٹ ایٹ کشمور کے شہر کرم پور میں قیام پاکستان سے ایک سال قبل یعنی 1946 میں ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔میر ہزارخان بجارانی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالحکومت کراچی کا رخ کیا، جہاں سے انہوں نے نہ صرف گریجویشن کی، بلکہ انہوں نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ہزار خان بجارانی نے نیشنل کالج کراچی سے بی اے کرنے کے بعد سندھ مسلم لا کالج سے ہی ایل ایل بی کی ڈگری لی، جس کے بعد انہوں نے سیاست کی تعلیم حاصل کی۔ہزار خان بجارانی پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے اپنا ماسٹر بھی سیاست میں کیا، ساتھ ہی وہ قانون کی تعلیم پڑھنے والے ملک کے چند سیاستدانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔چار مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور تین مرتبہ رکن سندھ اسمبلی رہنے والے میر ہزار خان بجارانی ایک بار سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔وہ سب سے پہلے 1974 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، جس کے بعد وہ ایک بار پھر 1977 میں بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔1988 میں وہ پہلی و آخری بار سینیٹر منتخب ہوئے، جس کے بعد وہ ہمیشہ عوامی ووٹوں سے ہی اسمبلی میں پہنچے۔وہ 1990 کے بعد مسلسل 2008 تک اپنے حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ انہوں نے 1997، 2002 اور 2008 کے انتخابات بھی بھاری اکثریت سے جیتے۔گزشتہ انتخابات یعنی 2013 میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سیٹ پر صوبائی نشست کے لیے انتخاب لڑا اور ہمیشہ کی طرح جیت گئے۔میر ہزار خان بجارانی نے جہاں سیاست میں تعلیم حاصل کی، وہیں سیاست انہیں خاندانی ورثے میں بھی ملی، کیوں کہ ان کے دادا خدا بخش شیر محمد بجارانی تقسیم ہند سے قبل ممبئی کونسل کے رکن رہے تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کو ممبئی سے جوڑا گیا تھا۔میر ہزار خان بجارانی کے والد کے ایس سردار نور محمد خان بجارانی بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں داخل ہوئے، اور 1946 سے 1947 تک سندھ اسمبلی کے رکن رہے۔اپنے دادا اور والد کی طرح جہاں میر ہزار خان بجارانی سیاست میں آٰئے، وہیں انہوں نے اپنے بچوں کو بھی سیاست میں متعارف کرایا۔میر ہزار خان بجارانی کے بڑے بیٹے میر شبیر علی بجارانی 2013 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔اس وقت منصوبہ بندی و ترقی کی صوبائی وزارت کا قلمدان سنبھالنے والے میر ہزار خان بجارانی اس سے قبل سندھ کے وزیر تعلیم تھے، مگر انہوں نے اس وقت کے سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو کے ساتھ کام کرنے سے معزرت کرلی تھی، جس کے بعد سیکریٹری تعلیم کو تبدیل کیا گیا۔سیکرٹری تعلیم کی تبدیلی کے بعد انہوں نے وزیر تعلیم کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں، تاہم سندھ کے وزیر اعلیٰ تبدیل ہونے کے بعد ان کی وزارت بھی تبدیل کردی گئی۔صوبائی وزیر اور رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے انہوں نے چین، جاپان، برطانیہ، امریکا اور سوویت یونین سمیت متعدد ممالک کے دورے بھی کیے۔میر ہزار خان بجارانی کے 5 بچے ہیں، جن میں سے ایک بیٹا رکن اسمبلی ہے۔ میر ہزار خان بجارانی کرم پور ضلع کشور میں 1946ءمیں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 2 شادیاں کیں ان کے 5 بچے ہیں ان کے صاحبزادے میر شبر بجارانی رکن قومی اسمبلی ہیں۔