کروڑوں کی خرد برد ۔۔۔ کرپشن کے 5میگا سکینڈل کی انکوئری مکمل

لاہور (مرزا اعجاز بیگ سے) چیئرمین شیخ زید ہسپتال ڈاکٹر فرید احمد خان کے خلاف کرپشن کیسز میں ایف آئی میں انکوائری مکمل‘ ڈاکٹر فرید نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایف آئی اے کو بھی انکوائری انکوائری کھیلنے پر مجبور کردیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر فرید خان چیئرمین شیخ زید ہسپتال کے خلاف 5 بڑے کرپشن سکینڈل کی انکوائری چل رہی ہے‘ جس میں جعلی این جی او‘ پرائیویٹ پاسپورٹ پر ٹریول اور بی ایم ڈی سی سے جعلی سرٹیفکیٹ‘ ہسپتال کے سیکنڈ فلور کی تعمیر میں کھیلوں اور نوکری کے دوران میوہسپتال کی مشینری Dermoto me اور کیمرے چوری کرنا شامل ہے جبکہ ڈاکٹر فرید نے شیخ زید ہسپتال کے ملازمین کی پنشن کے 78 کروڑ کی رقم دوسرے بینک لاہور نیلا گنبد برانچ میں غیرقانونی طور پر ٹرانسفر کی اور مارک اپ کی بھاری رقم خود ہڑپ کی۔ایف آئی اے نے تمام ثبوت اکٹھے کرلئے ہیں۔ ڈاکٹر فرید نے بورڈ آف گورنر کی منظوری کے بغیر یہ رقم ٹرانسفر کی اور 6.2 فیصد مارک اپ اپنے نام کئے ‘ انٹریز خود وصول کیں جبکہ اپنی کرپشن چھپانے کے لئے بورڈ آف گورنر سے رقم ٹرانسفر ہونے کی منظوری چھ ماہ بعد لی۔ دوسری جانب ڈاکٹر فرید نے پاسپورٹ ایکٹ کی خلاف ورزی اور حقائق چھپاتے ہوئے سرکاری ملازم ہونے کے باوجود غیرقانونی طور پر پرائیویٹ پاسپورٹ بنوایا اور Concealment of facts کیا۔ اس المیہ کے علاوہ غیرقانونی پاسپورٹ پر مجاز اتھارٹی سے NOC اور Ex-pakistan کے لئے غیرملکی دورے کئے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق موصوف نیویارک‘ بنکاک‘ دبئی‘ ترکی‘ استنبول‘ ریاض‘ سعودی عرب‘ دوحہ‘ قطر‘ ہانگ کانگ‘ لندن کے کئی سو دورے کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر فرید چیئرمین شیخ زید ہسپتال نے ملازمت حاصل کرنے کے لئے PMDC کا جعلی Experience certificate استعمال کیا بلکہ FRCS پلاسٹک سرجری کی ڈگری نہ رکھنے کے باوجود اپنے تمام سٹڈی Documents میں Fellow of Plastice Surgery ظاہر کیا۔ پاکستان اینڈ ڈینٹل کونسل اس کے تجربے کے سرٹیفکیٹ کو جعلی قرار دے چکی ہے۔ شیخ زید ہسپتال بلڈنگ کا سیکنڈ فلور وفاقی حکومت کی گرانٹ سے محکمہ PSK-PWD نے تعمیر کیا جو کہ PC-1 کے مطابق تین مختلف ڈیپارٹمنٹس Dermatology- Rheumatology- and Psychiatry بنائے جاتے تھے لیکن ڈاکٹر فرید نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے صرف ایک پلاسٹک سرجری ڈیپارٹمنٹ تعمیر کروایا اور باقی فنڈ اپنے پرآسائش دفاتر کی مد میں خوردبرد کئے۔ ڈاکٹر فرید نے میوہسپتال میں اپنی نوکری کے دوران مشینری Dermotome اور کیمرے چوری میں بھی پائے گئے جس کی وجہ سے ایم ایس میو ہسپتال کی جانب سے مقدمہ بھی درج ہوا اور ڈاکٹر فرید پر ریکوری بھی ڈالی گئی لیکن موصوف اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے بچ نکلے۔

سلطان راہی کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

لاہور(ویب ڈیسک )پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف اداکار سلطان راہی کی آج 22 ویں برسی منائی جارہی ہے۔پاکستان فلم انڈسٹری کے مقبول ترین اداکار سلطان راہی کا نام ایک زمانے میں پنجابی فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ سالا صاحب، چن جٹ، شیر خاں، شعلے، جرنیل سنگھ، شیراں دے پتر، میڈم رانی، چن وریام سمیت 700 سے زائد فلموں میں لازوال کردار ادا کرنے اور 150 سے زائد اعلیٰ فلمی ایوارڈز حاصل کرنے والے سلطان محمد المعروف سلطان راہی 1938 میں بھارت کے شہر سہارن پور میں پیدا ہوئےتاہم قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان میں سکونت اختیار کرلی۔سلطان راہی نے اپنے فنی سفر کا ا?غاز فلم ’باغی‘ سے کیا۔ 70 کی دہائی میں ’بشیرا‘ اور ’مولا جٹ‘ جیسی فلموں کی کامیابی نے سلطان راہی کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب سلطان راہی پاکستان فلم انڈسٹری کے واحد ہیرو تھے اور یہ دور کئی سال تک جاری رہا۔ ہدایت کار یونس ملک کی فلم ”مولا جٹ“ میں ان کے کردار ”مولے“ کو برصغیر میں زبردست شہرت ملی۔فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والے سپر اسٹار سلطان راہی 9 جنوری 1996 کی رات راولپنڈی سے لاہور آ رہے تھے کہ گوجرانوالہ کے قریب نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ سلطان راہی کے قتل کے وقت بھی ان کی 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں۔ سلطان راہی کا قتل پنجابی فلم انڈسٹری کے لیے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور ان کی کمی آج تک پوری نہیں ہو سکی۔

 

نیوزی لینڈ دوسرے ون ڈے میں بھی فاتح

نیوزی لینڈ نے پاکستان کو پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے دوسرے میچ میں آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں دو صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔نیلسن میں کھیلے جانے والے میچ میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 246 رنز بنائے تاہم بارش کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی اننگز 25 اوورز تک محدود کر دی گئی ہے اور اسے فتح کے لیے 151 رنز کا ہدف ملا جو اس نے باآسانی دو وکٹوں کے نقصان پر 24ویں اوور میں حاصل کر لیا۔

 

کپتان نے بشریٰ بی بی سے شادی کیوں کی ۔۔۔ وجہ جان کر آپ بھی دنگ رہ جا ئیں گے

لاہور (خصوصی رپورٹ) عمران خان کی روحانی پیرنی بشریٰ بی بی المعروف ”پنکی“ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو بتایا تھا کہ ان کے روحانی علم کے مطابق اگر ان دونوں کی شادی ہوجائے تو نہ صرف کپتان اپنے سیاسی حریفوں کو پچھاڑ دیں گے بلکہ آئندہ الیکشن جیت کر وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ دوسری جانب یہ راستہ ہموار کرنے کیلئے ”پنکی پیرنی“ نے اپنے پہلے شوہر کو کہا تھا کہ انہیں روحانی طور پر مرشد کی جانب سے حکم ہوا ہے کہ وہ ان سے الگ ہوجائیں۔اسی تناظر میں بشریٰ بی بی نے اپنے پہلے شوہر سے خلع لی۔ چیئرمین عمران خان کی خفیہ تیسری شادی کی خبر معروف صحافی عمر چیمہ نے بریک کی ہے ۔ حیرت انگیز طور پر عمران خان نے تاحال اس خبر کی تردید نہیں کی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما بھی اس خبر کی تردید کرنے سے گریزاں ہیں۔ اسلام آباد میں موجود پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ معاملہ چونکہ انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے لہٰذا اس کی تفصیلات خاندان کے صرف چند لوگوں اور پارٹی کے بعض رہنماﺅں کے علاوہ جن میں جہانگیرترین ، اسد عمر اور عون چودھری شامل ہیں، کسی کے پاس نہیں ۔ جبکہ نکاح کے بعد دلہن لاہور سے دوبارہ پاکپتن منتقل ہوچکی ہے اور یہ کہ اس شادی کو آئندہ انتخابات کے بعد تک خفیہ رکھنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ عہدیدار کے بقول اگرچہ بشریٰ بی بی کو چیئرمین پی ٹی آئی سے شادی کی خبر اب بریک ہوئی ہے، لیکن اس سلسلے میں پارٹی کے اسلام آباد سیکرٹریٹ میں کئی ماہ سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ چونکہ اس سمیت پارٹی کے دیگر عہدیداروں سے بھی اعلیٰ قیادت بارے میں کوئی بات کرنے سے گریزاں ہے لہٰذا اصل حقائق چند روز بعد ہی سامنے آئیں گے۔ عہدیدار کے مطابق ریحام خان سے عمران خان کی شادی کی خبر بریک ہونے کے بعد بھی بالکل ایسی ہی صورتحال تھی۔ پارٹی کے بیشتر رہنما اور عہدیداران اس سے لاعلم اور لوگ ان کو فون کرکے ان سے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ بالآخر چیئرمین پی ٹی آئی کو اس شادی کا اعتراف کرنا پڑا تھا اور لگتا ہے اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ بشریٰ بی بی اور عمران خان کے درمیان شادی ہوئی ہے یا انہیں؟ اس کی باضابطہ تصدیق آنے والے وقت میں ہوجائیگی۔ تاہم اب تک کی صورتحال سے خبر کے درست ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔ پی ٹی آئی پاکپتن کے ایک سینئر عہدیدار ، جو خود بھی اپنے پارٹی رہنماﺅں کے ذریعے اس خبر کی تصدیق کے لیے کوشاں ہیں کا کہنا تھا کہ جب 2016ءمیں برطانیہ میں مقیم بشریٰ بی بی کی بہن مریم کے ساتھ عمران خان کی شادی کی خبر چلی تھی تو عمران خان نے ٹویٹ کے ذریعے اس خبر کی تردید کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ لیکن اس بار چوبیس گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود خاموش ہیں اور پارٹی کارکنان سمیت دیگر لوگ ان کے ٹویٹ کے منتظر ہیں۔ چند کھوکھلی تردیدیں پارٹی کے بعض رہنماﺅں کی طرف سے آئی ہیں، تاہم بیشتر رہنما تردید کرنے سے گریزاں ہیں۔ عہدیدار کے مطابق دوسری جانب چکوال میں تیسری شادی سے متعلق صحافیوں کے سوالات کا جواب دئیے بغیر عمران خان اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ” دال میں کچھ کالا ہے“۔ عہدیدار نے تصدیق کی کہ قریباً پچھلے سوا دو برس سے عمران خان کا پاکپتن آنا معمول تھا۔ کیونکہ یہ آمد عموماً رات کے اندھیرے میں خاموشی سے ہوا کرتی تھی، جبکہ پارٹی چیئرمین کے ہمراہ صرف ذاتی محافظ ہوا کرتے تھے، لہٰذا اسے بھی اکثر صبح ساتھیوں کی زبانی معلوما ہوتاتھا کہ خان صاحب پاکپتن آئے تھے۔ عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ”خان صاحب، جب بھی پاکپتن آتے تو بابا فرید گنج شکرؒ کی درگاہ پر لازمی حاضری دیا کرتے تھے کیونکہ بشریٰ بی بی نے انہیں تاکید کر رکھی تھی کہ وہ دشمنوں کے بداثرات سے بچنے کیلئے پاکپتن آئیں تو بابا کے مزار پر ضرور جائیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان کو بشریٰ بی بی کے ”پیرکامل“ ہونے کا اس قدر یقین ہے کہ وہ جب بھی کسی مصیبت میں پھنسے تو فوری پاکپتن کا رخ کیا۔کپتان نے اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلی میں عقیق احمر جڑی چاندی کی انگوٹھی بھی بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی ہدایت پر پہن رکھی ہے۔ اس انگوٹھی پر کچھ وظائف بھی کندہ ہیں‘ جو نحواست دور کرنے کیلئے بشریٰ بی بی نے تجویز کئے تھے جبکہ پنکی پیرنی کا دعویٰ تھا کہ اس انگوٹھی کی موجودگی میں عمران خان پر ہر قسم کا جادو ٹونا بے اثر رہے گا۔ کپتان نے یہ انگوٹھی اس وقت پہنی تھی جب پیرنی نے انہیں بتایا تھا کہ ان پر جادو ٹونا کیا گیا ہے۔ خاص طور پر بنی گالہ میںواقع عمران خان کے گھر کے کچن اور فارم میں آسیبی سایوں اور جادوئی اثرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس جادو کے توڑ کیلئے بشریٰ بی بی نے کپتان کی رہائش گاہ پر قیام بھی کیا تھا۔ وہ روز عمران خان پر دم بھی کرتی تھیں۔ عمران خان نے اپنی پیرنی سے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی شادی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہتی لہٰذا وہ اس مسئلے کا روحانی حل بھی تجویز کریں‘ جس پر بشریٰ بی بی نے انہیں غریب اور بے سہارا لڑکیوں کی شادیاں کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس ہدایت کے پیش نظر عمران خان نے دو برس قبل پشارو میں 45جوڑوں کی شادیاں کرائی تھیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کی باغی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے جب عمران خان کے خلاف نازیبا ایس ایم ایس بھیجنے سمیت دیگر انکشافات کئے تھے تو اس مشکل سے جان چھڑانے کیلئے بھی کپتان نے بشریٰ بی بی کے در پر حاضری دی تھی۔ گزشتہ برس اگست میں جب قومی اسمبلی کااہم اجلاس چل رہا تھا تو عمران خان اس اجلاس کو چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں پاکپتن روانہ ہو گئے تھے۔ عمران خان کے پہنچنے پر بشریٰ بی بی نے انہیں چند وظائف بتائے‘ چند گھنٹے بعد وہ بابا فرید گنج شکرؒ کی درگاہ پر حاضری دے کر واپس اسلام آباد روانہ ہو گئے تھے۔ عمران خان اپنی پیرنی بشریٰ بی بی کے اصل معتقد اس وقت ہوئے جب انہوں نے 2015ءمیں لودھراں کی نشست این اے 154کے ضمنی الیکشن میں جہانگیرترین کی کامیابی کی پیش گوئی کی تھی۔ اس سے چند ماہ قبل ہی عون چودھری نے عمران خان کو بشریٰ بی بی سے پہلی بار متعارف کرایا تھا۔ ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کی کامیابی سے متعلق بشریٰ بی بی کی پیش گوئی تو درست ثابت ہوگئی لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہی تھیں کہ اس کامیابی کے دو برس بعد نہ صرف ترین کو اس سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ وہ انتخابی سیاست کیلئے بھی نااہل ہو جائیں گے۔ 40سالہ بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کی شادی اسلام آباد میں کسٹم کے ایک اعلیٰ افسر خاور فرید مانیکا کے ساتھ ہوئی تھی جو ایک سابق وفاقی وزیر اور بااثر سیاستدان غلام فرید مانیکا کے بیٹے ہیں۔ بشریٰ بی بی کا اپنا تعلق وٹو فیملی سے ہے جو مانیکا قبیلے کی ذیلی شاخ ہے۔ بشریٰ بی بی اپنے شوہر خاور فرید مانیکا سے خلع لے چکی ہیں۔ پہلے شوہر سے ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے ابراہیم کی عمر 20برس کے لگ بھگ ہے جبکہ تین بیٹیوں میں سے ایک معروف سیاستدان میاں عطا مانیکا کی بہو ہے۔ یاد رہے کہ دو برس پہلے عمران خان کی بشریٰ بی بی کی بہن قرار دی جانے والی مریم نامی خاتون سے شادی کی خبر بھی چلی تھی جو برطانیہ میں مقیم ہیں تاہم خود بشریٰ بی بی نے اس شادی کی تردید کر دی تھی۔ کپتان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان ہمیشہ روحانی استادوں کے معتقد رہے ہیں۔ وہ فیض حاصل کرنے معروف روحانی شخصیت پروفیسر رقیق اختر کے پاس بھی جاتے رہے ہیں۔ جبکہ ان کے ایک قریبی ساتھی اعجاز نے ملتان شیخ امین سے بھی ان کا رابطہ کرایا تھا۔ شیخ امین نے عمران خان کو ہر وقت درود شریف پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ رابطہ کرنے پر صحافی عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی شادی سے متعلق اپنی خبر پر وہ قائم ہیں۔ اس حوالے سے اگر انہیں کسی قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ جبکہ اس سلسلے میں انہوں نے پارٹی کے لوگوں کا موقف بھی لیا ہے۔ کسی نے اس کی تردید نہیں کی۔ عمر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ۔” میں نے اس خبر کی تصدیق نکاح پڑھانے والے مفتی سعید سے بھی کرنا چاہی، کیونکہ مفتی سعید جھوٹ نہیں بولتے۔ پہلے تو مفتی صاحب نے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن جب ان سے اصرار کیا گیا کہ وہ یکم جنوری 2018ءکو لاہور میں عمران خان کا نکاح پڑھانے کی تردید یا تصدیق کریں تو انہوں نے تردید اور تصدیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے معذرت چاہی۔ “ عمر چیمہ کے بقول ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان ریحام خان کی طرح بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی سے بھی دوبارہ نکاح کا ڈرامہ رچائیں گے۔ کیونکہ نومبر 2014ءمیں ریحام خان کے ساتھ ان کا نکاح ہو چکا تھا لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہے اور پھر جنوری 2015ءمیں دوبارہ نکاح پڑھایا۔عمران خان کی تیسری شادی کی خبر کی تصدیق کے لئے میڈیا نے تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا….” میری ابھی عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ ملاقات ہو گی تو میں ضرور ان سے پوچھوں گا لیکن یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔“لاہور (خصوصی رپورٹ) عمران خان کی روحانی پیرنی بشریٰ بی بی المعروف ”پنکی“ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو بتایا تھا کہ ان کے روحانی علم کے مطابق اگر ان دونوں کی شادی ہوجائے تو نہ صرف کپتان اپنے سیاسی حریفوں کو پچھاڑ دیں گے بلکہ آئندہ الیکشن جیت کر وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ دوسری جانب یہ راستہ ہموار کرنے کیلئے ”پنکی پیرنی“ نے اپنے پہلے شوہر کو کہا تھا کہ انہیں روحانی طور پر مرشد کی جانب سے حکم ہوا ہے کہ وہ ان سے الگ ہوجائیں۔اسی تناظر میں بشریٰ بی بی نے اپنے پہلے شوہر سے خلع لی۔ چیئرمین عمران خان کی خفیہ تیسری شادی کی خبر معروف صحافی عمر چیمہ نے بریک کی ہے ۔ حیرت انگیز طور پر عمران خان نے تاحال اس خبر کی تردید نہیں کی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما بھی اس خبر کی تردید کرنے سے گریزاں ہیں۔ اسلام آباد میں موجود پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ معاملہ چونکہ انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے لہٰذا اس کی تفصیلات خاندان کے صرف چند لوگوں اور پارٹی کے بعض رہنماﺅں کے علاوہ جن میں جہانگیرترین ، اسد عمر اور عون چودھری شامل ہیں، کسی کے پاس نہیں ۔ جبکہ نکاح کے بعد دلہن لاہور سے دوبارہ پاکپتن منتقل ہوچکی ہے اور یہ کہ اس شادی کو آئندہ انتخابات کے بعد تک خفیہ رکھنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ عہدیدار کے بقول اگرچہ بشریٰ بی بی کو چیئرمین پی ٹی آئی سے شادی کی خبر اب بریک ہوئی ہے، لیکن اس سلسلے میں پارٹی کے اسلام آباد سیکرٹریٹ میں کئی ماہ سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ چونکہ اس سمیت پارٹی کے دیگر عہدیداروں سے بھی اعلیٰ قیادت بارے میں کوئی بات کرنے سے گریزاں ہے لہٰذا اصل حقائق چند روز بعد ہی سامنے آئیں گے۔ عہدیدار کے مطابق ریحام خان سے عمران خان کی شادی کی خبر بریک ہونے کے بعد بھی بالکل ایسی ہی صورتحال تھی۔ پارٹی کے بیشتر رہنما اور عہدیداران اس سے لاعلم اور لوگ ان کو فون کرکے ان سے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ بالآخر چیئرمین پی ٹی آئی کو اس شادی کا اعتراف کرنا پڑا تھا اور لگتا ہے اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ بشریٰ بی بی اور عمران خان کے درمیان شادی ہوئی ہے یا انہیں؟ اس کی باضابطہ تصدیق آنے والے وقت میں ہوجائیگی۔ تاہم اب تک کی صورتحال سے خبر کے درست ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔ پی ٹی آئی پاکپتن کے ایک سینئر عہدیدار ، جو خود بھی اپنے پارٹی رہنماﺅں کے ذریعے اس خبر کی تصدیق کے لیے کوشاں ہیں کا کہنا تھا کہ جب 2016ءمیں برطانیہ میں مقیم بشریٰ بی بی کی بہن مریم کے ساتھ عمران خان کی شادی کی خبر چلی تھی تو عمران خان نے ٹویٹ کے ذریعے اس خبر کی تردید کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ لیکن اس بار چوبیس گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود خاموش ہیں اور پارٹی کارکنان سمیت دیگر لوگ ان کے ٹویٹ کے منتظر ہیں۔ چند کھوکھلی تردیدیں پارٹی کے بعض رہنماﺅں کی طرف سے آئی ہیں، تاہم بیشتر رہنما تردید کرنے سے گریزاں ہیں۔ عہدیدار کے مطابق دوسری جانب چکوال میں تیسری شادی سے متعلق صحافیوں کے سوالات کا جواب دئیے بغیر عمران خان اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ” دال میں کچھ کالا ہے“۔ عہدیدار نے تصدیق کی کہ قریباً پچھلے سوا دو برس سے عمران خان کا پاکپتن آنا معمول تھا۔ کیونکہ یہ آمد عموماً رات کے اندھیرے میں خاموشی سے ہوا کرتی تھی، جبکہ پارٹی چیئرمین کے ہمراہ صرف ذاتی محافظ ہوا کرتے تھے، لہٰذا اسے بھی اکثر صبح ساتھیوں کی زبانی معلوما ہوتاتھا کہ خان صاحب پاکپتن آئے تھے۔ عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ”خان صاحب، جب بھی پاکپتن آتے تو بابا فرید گنج شکرؒ کی درگاہ پر لازمی حاضری دیا کرتے تھے کیونکہ بشریٰ بی بی نے انہیں تاکید کر رکھی تھی کہ وہ دشمنوں کے بداثرات سے بچنے کیلئے پاکپتن آئیں تو بابا کے مزار پر ضرور جائیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان کو بشریٰ بی بی کے ”پیرکامل“ ہونے کا اس قدر یقین ہے کہ وہ جب بھی کسی مصیبت میں پھنسے تو فوری پاکپتن کا رخ کیا۔کپتان نے اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلی میں عقیق احمر جڑی چاندی کی انگوٹھی بھی بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی ہدایت پر پہن رکھی ہے۔ اس انگوٹھی پر کچھ وظائف بھی کندہ ہیں‘ جو نحواست دور کرنے کیلئے بشریٰ بی بی نے تجویز کئے تھے جبکہ پنکی پیرنی کا دعویٰ تھا کہ اس انگوٹھی کی موجودگی میں عمران خان پر ہر قسم کا جادو ٹونا بے اثر رہے گا۔ کپتان نے یہ انگوٹھی اس وقت پہنی تھی جب پیرنی نے انہیں بتایا تھا کہ ان پر جادو ٹونا کیا گیا ہے۔ خاص طور پر بنی گالہ میںواقع عمران خان کے گھر کے کچن اور فارم میں آسیبی سایوں اور جادوئی اثرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس جادو کے توڑ کیلئے بشریٰ بی بی نے کپتان کی رہائش گاہ پر قیام بھی کیا تھا۔ وہ روز عمران خان پر دم بھی کرتی تھیں۔ عمران خان نے اپنی پیرنی سے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی شادی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہتی لہٰذا وہ اس مسئلے کا روحانی حل بھی تجویز کریں‘ جس پر بشریٰ بی بی نے انہیں غریب اور بے سہارا لڑکیوں کی شادیاں کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس ہدایت کے پیش نظر عمران خان نے دو برس قبل پشارو میں 45جوڑوں کی شادیاں کرائی تھیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کی باغی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے جب عمران خان کے خلاف نازیبا ایس ایم ایس بھیجنے سمیت دیگر انکشافات کئے تھے تو اس مشکل سے جان چھڑانے کیلئے بھی کپتان نے بشریٰ بی بی کے در پر حاضری دی تھی۔ گزشتہ برس اگست میں جب قومی اسمبلی کااہم اجلاس چل رہا تھا تو عمران خان اس اجلاس کو چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں پاکپتن روانہ ہو گئے تھے۔ عمران خان کے پہنچنے پر بشریٰ بی بی نے انہیں چند وظائف بتائے‘ چند گھنٹے بعد وہ بابا فرید گنج شکرؒ کی درگاہ پر حاضری دے کر واپس اسلام آباد روانہ ہو گئے تھے۔ عمران خان اپنی پیرنی بشریٰ بی بی کے اصل معتقد اس وقت ہوئے جب انہوں نے 2015ءمیں لودھراں کی نشست این اے 154کے ضمنی الیکشن میں جہانگیرترین کی کامیابی کی پیش گوئی کی تھی۔ اس سے چند ماہ قبل ہی عون چودھری نے عمران خان کو بشریٰ بی بی سے پہلی بار متعارف کرایا تھا۔ ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کی کامیابی سے متعلق بشریٰ بی بی کی پیش گوئی تو درست ثابت ہوگئی لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہی تھیں کہ اس کامیابی کے دو برس بعد نہ صرف ترین کو اس سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ وہ انتخابی سیاست کیلئے بھی نااہل ہو جائیں گے۔ 40سالہ بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کی شادی اسلام آباد میں کسٹم کے ایک اعلیٰ افسر خاور فرید مانیکا کے ساتھ ہوئی تھی جو ایک سابق وفاقی وزیر اور بااثر سیاستدان غلام فرید مانیکا کے بیٹے ہیں۔ بشریٰ بی بی کا اپنا تعلق وٹو فیملی سے ہے جو مانیکا قبیلے کی ذیلی شاخ ہے۔ بشریٰ بی بی اپنے شوہر خاور فرید مانیکا سے خلع لے چکی ہیں۔ پہلے شوہر سے ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے ابراہیم کی عمر 20برس کے لگ بھگ ہے جبکہ تین بیٹیوں میں سے ایک معروف سیاستدان میاں عطا مانیکا کی بہو ہے۔ یاد رہے کہ دو برس پہلے عمران خان کی بشریٰ بی بی کی بہن قرار دی جانے والی مریم نامی خاتون سے شادی کی خبر بھی چلی تھی جو برطانیہ میں مقیم ہیں تاہم خود بشریٰ بی بی نے اس شادی کی تردید کر دی تھی۔ کپتان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان ہمیشہ روحانی استادوں کے معتقد رہے ہیں۔ وہ فیض حاصل کرنے معروف روحانی شخصیت پروفیسر رقیق اختر کے پاس بھی جاتے رہے ہیں۔ جبکہ ان کے ایک قریبی ساتھی اعجاز نے ملتان شیخ امین سے بھی ان کا رابطہ کرایا تھا۔ شیخ امین نے عمران خان کو ہر وقت درود شریف پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ رابطہ کرنے پر صحافی عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی شادی سے متعلق اپنی خبر پر وہ قائم ہیں۔ اس حوالے سے اگر انہیں کسی قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ جبکہ اس سلسلے میں انہوں نے پارٹی کے لوگوں کا موقف بھی لیا ہے۔ کسی نے اس کی تردید نہیں کی۔ عمر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ۔” میں نے اس خبر کی تصدیق نکاح پڑھانے والے مفتی سعید سے بھی کرنا چاہی، کیونکہ مفتی سعید جھوٹ نہیں بولتے۔ پہلے تو مفتی صاحب نے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن جب ان سے اصرار کیا گیا کہ وہ یکم جنوری 2018ءکو لاہور میں عمران خان کا نکاح پڑھانے کی تردید یا تصدیق کریں تو انہوں نے تردید اور تصدیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے معذرت چاہی۔ “ عمر چیمہ کے بقول ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان ریحام خان کی طرح بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی سے بھی دوبارہ نکاح کا ڈرامہ رچائیں گے۔ کیونکہ نومبر 2014ءمیں ریحام خان کے ساتھ ان کا نکاح ہو چکا تھا لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہے اور پھر جنوری 2015ءمیں دوبارہ نکاح پڑھایا۔عمران خان کی تیسری شادی کی خبر کی تصدیق کے لئے میڈیا نے تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا….” میری ابھی عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ ملاقات ہو گی تو میں ضرور ان سے پوچھوں گا لیکن یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔“

پاکستان پر سر جیکل سٹرائیک کا خطرہ

لاہور (نیااخبار رپورٹ) غیب کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے پاس نہیں۔ ستارہ شناسی محض حساب کتاب پر مشتمل ایک دنیاوی علم ہے۔ ایک ستارہ شناس ماضی اور حال میں ستاروں کی پوزیشن کا موازنہ کر کے اپنا تجزیہ اور اندازہ بیان کرتا ہے‘ لہٰذا ان ”پیش گوئیوں“ کو اس تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ آسٹرولوجسٹ حضرات کی بیان کردہ باتیں درست ہی ثابت ہوں۔ شہرت یافتہ آسٹرولوجسٹ سید انتظار حسین زنجانی کا کہنا ہے کہ ”پاکستان کا ایک زائچہ اگست 1947ءکا ہے اور دوسرا زائچہ ملک دولخت ہونے کے بعد 20دسمبر 1971کو بنایا گیا۔ اب آسٹرولوجسٹ اس نئے زائچے کو ہی فالو کرتے ہیں۔ اس زائچے میں اس وقت زحل آخری گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور 20جنوری 2020ءتک وہیں رہے گا۔ علم نجوم میں زحل‘ عدلیہ اور حکمرانوں سے منسوب ہے‘ لہٰذا اگلے اڑھائی برس تک عدلیہ اور کسی بھی حکومت کے درمیان مثالی ہم آہنگی کا امکان نہیں‘ یعنی حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو‘ باہمی کشمکش جاری رہے گی‘ چونکہ عدلیہ سے منسوب ستارہ مضبوط پوزیشن میں چل رہا ہے لہٰذا اس کشمکش میں اسی کے غالب رہنے کا امکان ہے۔ ستاروں کی خرابی جنوری سے شروع ہو رہی ہے۔ رواں برس کے تین ابتدائی مہینے کیلئے زیادہ موافق نہیں ہیں۔ جنرل الیکشن وقت مقررہ پر نہیں ہوں گے۔ چند ماہ آگے بڑھ جائیں گے۔ اس کے بعد مئی‘ جون‘ جولائی‘ اگست‘ ستمبر اور اکتوبر یہ 6ماہ بہت اہم ہیں۔ ان چھ ماہ کے دوران کیونکہ پاکستان کے زائچے میں راہو اور کیتو متصادم پوزیشن میں آ جائیں گے اور یہ طالع اور پاکستانی زائچے کے چوتھے گھر کے درجات سے ٹکرا رہے ہیں‘ لہٰذا اس عرصے کے دوران پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات بڑھ سکتے ہیں اور دشمن ممالک کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک کا خطرہ ہے۔ اس مہم جوئی کیلئے امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت اور افغانستان ایک ہو جائیں گے‘ یوں فوج کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔ ممکنہ سرجیکل سٹرائیک کے نتیجے میں عوام میں حب الوطنی کا جذبہ 65ءکی طرح عروج پر پہنچ جائے گا۔ سوائے غداروں کے تمام عوام اور پارٹیاں آپس کے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں گی اور پاک فوج ممکنہ سرجیکل سٹرائیک کا منہ توڑ جواب دے گی۔ ملک کے سارے عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ یوں دشمن کو خفت اٹھانا پڑے گی۔ نئے برس کا آغاز پیر کے دن سے ہو رہا ہے۔ پیر‘ قمر سے منسوب ہے جبکہ قمر کا تعلق دھرتی اور ماں سے ہے۔ یوں بنیادی طور پر 2018ء”دھرتی ماں“ کا سال ہے۔ جس طرح 65ءاور 71ءمیں عوام کا جذبہ ابھرا تھا‘ اسی طرح 2018ءمیں بھی عوام میں وطن سے محبت کا جذبہ ابھرے گا۔ 2018ءغیرمعمولی آئینی تبدیلیوں کا برس بھی ہو گا۔ 1973ءکے بعد پہلی بار آئین میں ریکارڈ تبدیلیاں متوقع ہیں‘ تاہم یہ تبدیلیاں مثبت ہوں گی۔“ سید انتظار حسین زنجانی کا ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ….” نواز شریف کی سیاست کا دور مکمل ہو گیا۔ میاں صاحب نے جس طرح وزرات عظمیٰ کیلئے اگلا امیدوار اپنے بھائی شہباز شریف کو نامزد کیا ہے۔ اسی طرح انہیں پارٹی اختیارات بھی بھائی کو ٹرانسفر کر دینے چاہئیں۔ اس سے انہیں خاصا ریلیف ملے گا۔ نواز شریف کو این آر تو نہیں البتہ چند رعایتیں ملنے کا امکان ضرور ہے۔ جب تک نواز شریف کی والدہ حیات ہیں، ان کی بچت ہوتی رہے گی۔ اگرچہ مصیبتیں، بحران اور مشکلات آئیں گی، لیکن یہ مستقل نہیں ہوں گی اور وہ بچ نکلیں گے۔ پھر یہ کہ آسٹرولوجی کے لحاظ سے 2018ءکا برس ” ماں“ سے منسوب ہے۔ یہ چیز بھی سابق وزیراعظم کے حق میں جا رہی ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی دولت و شہرت میں اضافہ ہو گا لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود پانی کا گلاس بھرے گا نہیں۔ یعنی سارے اسباب ہوں گے اور انتخابی مہم کے دوران یوں محسوس ہو گا کہ اب اقتدار تحریک انصاف کو ہی ملے گا۔ تاہم وزارت عظمیٰ کپتان سے دور رہے گی۔ جبکہ 2018ء پیپلز پارٹی کی سیاسی بقا کا سال ہے۔ تمام تر رکاوٹوں اور مختلف الائنس بننے کے باوجود پیپلز پارٹی اگلے الیکشن میں سندھ میں خاصی سیٹیں حاصل کر لے گی‘ تا ہم باقی دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی کو برائے نام نشستیں حاصل ہو سکیں گی۔ پیپلز پارٹی کو اگلے الیکشن کے بجائے 2023ءکے جنرل الیکشن پر فوکس کرنا چاہئے، کیونکہ اس برس اس کے ستارے خاصے گردش میں ہیں۔ آئندہ الیکشن میں اگر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو کو فری ہینڈ دیدیں تو پھر بھی کچھ بہتری ہو سکتی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم الطاف کا سورج غروب ہونے کا میں نے ایک برس پہلے ہی بتا دیا تھا، اب یہ سورج طلوع ہونے کا امکان نہیں۔ جہاں تک ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کا تعلق ہے، تو ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے میں مصطفی کمال کا زائچہ زیادہ مضبوط ہے۔“2018ءکے بارے میں معروف آسٹر ولوجسٹ ڈاکٹر نثار ملک کا کہنا ہے کہ…. ” ملکی حالات کے حوالے سے رواں برس کے ابتدائی تین ماہ انتہائی اہم ہیں۔ بالخصوص مارچ تک معاملات خراب ہو جائیں گے۔ نئے برس میں پانچ گرہن بھی لگ رہے ہیں۔ دو سورج اور تین چاند گرہن۔ ان کے اثرات بھی ملکی حالات پر ہوں گے‘ تاہم یہ طے ہے کہ 2007ءسے مارشل لاکا دور ختم ہو چکا ہے اور اب ملک میں مارشل لاءکا کوئی امکان نہیں‘ جبکہ عدلیہ سے منسوب سیارہ زحل طاقتور پوزیشن میں آ چکا ہے لہٰذا جوڈیشل مارشل لاء کے زیادہ امکانات ہیں۔ اس کے پیچھے مریخ ہو گا، جو فوج سے منسوب سیارہ ہے۔ 2018ءمیں عام آدمی کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاہم پوش طبقہ زیادہ رگڑا جائے گا۔ پاکستان کے زائچے میں ستاروں کی پوزیشن یہ بھی بتا رہی ہے کہ جنرل الیکشن ہوں گے لیکن وقت مقررہ پر نہیں‘ بالخصوص جنوری‘ فروری اور مارچ میں کسی ایسے بڑے واقعہ کاخطرہ ہے جس کا اثر براہ راست الیکشن کے انعقاد پر پڑے گا اور یہ مقررہ وقت پر نہیں ہو سکیں گے۔ تاہم جب بھی الیکشن ہوئے اور اس کے نتیجے میں جو بھی حکومت آئی وہ زیادہ مستحکم نہیں ہو گی۔ عدلیہ پاور فل رہے گی۔ اگر ملک کی تین بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے زائچوں کو دیکھا جائے تو یہ تینوں پارٹیاں اپنی جگہ پر قائم رہیں گی‘ لیکن ان کی اعلیٰ قیادت کے لئے رواں برس اور آنے والے سال نیک شگون نہیں۔ شریف بردران کو مطلوبہ این آراو نہیں ملے گا۔ البتہ جب بھی الیکشن ہوئے مسلم لیگ (ن) ہی مرکز میں اکثریت حاصل کرے گی تاہم مائنس نواز شریف کے ساتھ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر مائنس زرداری ہو گیا، جس کا خاصا امکان ہے تو پھر شاید اگلے الیکشن میں پی پی کی پوزیشن کچھ بہتر ہو جائے۔ دوسری جانب آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو اقتدار ملنا مشکل ہے۔ یوں عمران خان کی وزیراعظم بننے کی خواہش ایک بار پھر پوری نہ ہو سکے گی‘ البتہ تحریک انصاف کو اتنی سیٹیں ضرور مل جائیں گی کہ پریشر گروپ کے طور پر اس کا وجود قائم رہے۔ دوسری جانب جہانگیر ترین کے بعد اگلی باری علیم خان کی ہے ۔ ان کے فارغ ہونے کے بعد تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کی پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی‘ حتیٰ کہ اسد عمر بھی ان کی پوزیشن کو متاثر نہیں کر سکیں گے۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے پس منظر میں چلے جائیں گے۔ ایک نئی قیادت کمان سنبھالے گی۔ 60 برس بعد ستارے اپنی پوزیشن تبدیل کر رہے ہیں، اسی لئے یہ ساری تبدیلیاں متوقع ہیں“۔ مقبول آسٹرولوجر عبداﷲ شوکت چودھری عرف ماموں نے 2018ءکو گزر جانے والے برس سے زیادہ مختلف قرار نہیں دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ”جون 2015ءسے لے کر 2017ءتک اڑھائی برس کے عرصے میں پاکستان لگن سے گزرا ہے۔ یہ اچھا شگون نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرصے کے دوران ملک میں سیاسی عدم استحکام اور فراتفری دیکھنے میں آتی رہی۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ اس لگن نے دسمبر 2017ء میں پاکستان کی جان چھوڑ دی ہے‘ لہٰذا نئے برس میں پاکستان امن و امان اور معیثت کے لحاظ سے بہتری کی طرف جاتا دکھائی دے گا۔ تاہم سیاسی افراتفری برقرار رہے گی۔ نوازشریف کی تحریک میں تیزی آئے گی، لیکن جس طرح کا این آراوسابق وزیراعظم چاہتے ہیں وہ ملنے کا امکان نہیں۔ وہ جیل بھی جا سکتے ہیں، تاہم قید کا عرصہ طویل نہیں ہو گا۔ دوسری جانب 2018ءمیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ تاہم آئندہ الیکشن میں بھی ان کی پارٹی کو اتنی سیٹیں ملنے کا امکان نہیں کہ عمران خان کی وزیراعظم بننے کی خواہش پوری ہو جائے۔ الیکشن بھی مقررہ وقت پر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ نئے برس کے اواخر میں الیکشن کا امکان ہے، اگر نہیں ہوئے تو پھر اگلے برس یعنی 2019 ءمیں ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔“

 

کالم نگاروں کی بڑی رائے سامنے آگئی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگار رحمت علی رازی نے کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی زیرو ہے اگر ہمارے حکمران چاہیں تو امریکہ کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں لیکن ان میں اتنی ہمت ہی نہیں۔ چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج تک ملک میں ایسی پالیسی نہیں بن سکی جو عوامی امنگوں کے مطابق ہو۔ جب تک معاملات کو سنجیدہ نہیں لیں گے مسائل حل ہونا ناممکن ہے قومی سلامتی کے ایشو پر تمام جماعتوں کو یکجا ہونا چاہئے اگر امریکی سپلائی بند کر دی جائے تو اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ تجزیہ کار منور انجم نے کہا ہے کہ ہم سفارتی طور پر مکمل ناکام ہو چکے ہیں اور نواز شریف نے ساڑھے چار سال تک کسی کو اہم وزارت نہیں دی اور اپنے پاس ہی رکھیں جس کے باعث ہم ہر محاذ پر ناکام ہوئے یہ ناکامی عوام کی ناکامی ہے اس لئے کہ ہمارے نمائندے امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات نہیں کرتے اس وقت فوری طور پر آل پاکستان پارٹیز کانفرنس بلانے کی ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم امریکہ پر دباﺅ ڈالیں وہ ہم پر دباﺅ ڈال رہا ہے۔ کالم نگار افضال ریحان نے کہا کہ خارجہ معاملات کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے دنیا سے لڑائی کرنی ہے سفارتکاری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے دشمنی کو کم کرنا اور دوستی کو بڑھانا ہے۔ میں نہیں سمجھتا امریکہ سے پاکستان کی دشمنی پاکستان کے حق میں ہے۔ قوموں پر جب بھی مشکلات آتی ہیں انہیں بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجزیہ کار امجد اقبال نے کہاکہ ہم اندرونی طور پر بھی انتشار کا شکار ہیں اس وقت ایک صوبے میں ہمیں کافی انتشار نظر آ رہا ہے ثناءاللہ زہری نے وزیر اعظم کو فون کیا کہ مجھے بچاﺅ۔ اب اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حالات کیا ہے۔ میرے خیال میں سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکے۔

شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرنسز، 4گواہوں کے بیانات قلمبند

اسلام آباد(ویب ڈیسک )سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت 4 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جانے کے بعد 16 جنوری تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر تین ریفرنسز کی سماعت کی، اس موقع پر عدالت کے طلب کیے جانے پر 5 میں سے 4 گواہان پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر العزیزیہ ریفرنس میں نیب کی گواہ سدرہ منصور کا بیان ریکارڈ کیا گیا جو ایس ای سی پی کی ڈائریکٹر ہیں جب کہ انہوں نے عدالت میں رمضان ٹیکسٹائل کا 2003 کا نامکمل فارم پیش کیا اور فاضل جج کو بتایا کہ پیش کیا گیا فارم اے نامکمل ہے۔گواہ سدرہ منصور نے عدالت کو بتایا کہ ایس ای سی پی میں جوائنٹ رجسٹرار کے طور پر کام کررہی ہوں، 25 اگست 2017 کو نیب راولپنڈی میں تفتیشی افسر کو نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف ریکارڈ دیا اور بیان قلمبند کرایا۔اس موقع پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ کو کس نے بتایا کہ ریکارڈ العزیزیہ اور ہل میٹل سے متعلق ہے جس پر انہوں نے کہا کہ نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا تھا۔گواہ نے بتایا کہ جو ریکارڈ پیش کیا وہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے متعلق نہیں جب کہ تفتیشی افسر نے نہیں پوچھا کہ ایس ای سی پی کے پاس ایسا ریکارڈ ہے یا نہیں۔سدرہ منصور نے عدالت میں حسین نواز کی مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق حسین نواز مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کے شیئر ہولڈر تھے اور شیئرز فروری 2001 میں شریف ٹرسٹ کو منتقل ہوئے جب کہ 4 لاکھ 87 ہزار شیئرز کی مالیت فی شیئر دس روپے تھی۔گواہ نے مزید بتایا کہ مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کی کوئی ٹرانزیکشن العزیزیہ اسٹیل ملز سے متعلق نہیں، پیش کردہ ریکارڈ اور فارمز نہ میں نے تیار کیے اور نہ ہی میرے سامنے تیار ہوئے جب کہ دیگر گواہوں کی جمع کرائی گئی دستاویزات کا متن دیکھ کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔نیب کی گواہ سدرہ منصور نے انکشاف کیا کہ مہران رمضان ٹیکسٹائل کا 2003 کا پیش کیا گیا فارم اے نامکمل ہے، میرے علم کے مطابق مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کے کاروبار پر ایس ای سی پی نے کبھی اعتراض نہیں کیا اور تفتیشی افسر نے بھی اس میں بےضابطگی یا غیر قانونی کام کا نہیں پوچھا۔ا?ج کی سماعت کے دوران استغاثہ کے دیگر گواہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب عزیر ریحان، ان لینڈ ریونیو کے تسلیم خان اور نجی بینک سے تعلق رکھنے والے زبیر محمود کا بیان قلم بند کیا گیا۔عدالت نے غیر حاضر رہنے والے گواہ عمر دراز گوندل سمیت دیگر مزید دو گواہوں کو ا?ئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے مزید کارروائی 16 جنوری تک کے لئے ملتوی کردی۔

 

قانون توڑنے والوں کے خلاف ایکشن ہو گا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سانحہ ماڈل ٹاو¿ن پر انصاف عدالتوں نے دینا ہے، حکومت نے نہیں، طاہرالقادری کا ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف ایکشن ہو گا، رانا ثناءاللہ کی وارننگ۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 17 جنوری کا احتجاج سانحہ ماڈل ٹاو¿ن پر نہیں، کسی اور ایجنڈے کا حصہ ہے، سانحہ ماڈل ٹاو¿ن پر انصاف عدالتوں نے دینا ہے، حکومت نے نہیں۔ وزیر قانون پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ عوامی تحریک عدالت میں فریق ہے اور کارروائی میں حصہ دار ہے، جمہوریت میں پرامن احتجاج کی اجازت ہے مگر قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کیخلاف قانون حرکت میں آئے گا، ہماری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی طاہرالقادری کا احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آخری گولی کی بات کرنیوالوں نے اسلام آباد میں قبریں بھی کھودی تھیں، احتجاج سے کوئی پریشان نہیں، حکومتی رٹ کے لئے ممکنہ اقدامات کریں گے، ان کا احتجاج ہی ان کے انجام کا باعث بنے گا، طاہرالقادری کی منزل اسلام آباد نہیں، کینیڈا ہو گی۔ رانا ثناءاللہ نے یہ بھی کہا کہ سیاسی قوتیں احتجاج کو اپنے انتخاب کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں گی لیکن کسی کی چیخ و پکار حکومتی رٹ پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، قومی املاک اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور کسی کو شہروں کی بندش کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنماءطلال چوہدری نے کہا ہے کہ طاہر القادری کی تحریک کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری فنڈنگ کر رہے ہیں، قادری صرف فرنٹ مین کے طور پر کام کر رہے ہیں، مسلم لیگ(ن) کے سیاسی مخالفین صبح صبح اٹھ کر منگتوں کی طرح استعفا دو استعفا دو شروع کردیتے ہیں، اپوزیشن کا یہ اتحاد اس بار پھر ناکام ہوگا۔ عوامی تحریک کی جانب سے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کے اعلان کے بعد اپنا ردعمل دیتے ہوئے لیگی رہنماءکا کہنا تھا کہ یہ اتحادمسلم لیگ(ن)سے کئی مرتبہ ہارنے والے شکست خوردہ افرادکاہے، یہ اتحاد شکست خوردہ لوگوں کا ہے جو پہلے بھی کئی بار ہارے، پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف نے طاہرالقادری کو بٹھا کر اتحادکرلیا ہے اور قادری کی تحریک پہلے کی طرح تحریک شرمندگی ثابت ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قادری صاحب ایک بہانہ ہیں، اتحاد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے بنایا ہے اور قادری کو صرف ایک فرنٹ مین کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ قادری صاحب جب آتے ہیں ان کی تاریں کہیں نہ کہیں سے ہلائی جاتی ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کو گرایا جائے۔ طاہرالقادری ہمیشہ جمہوری نظام پرحملے کرتے ہیں۔ ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے کہا ہے کہ باقر نجفی رپورٹ میں کسی پر ذمے داری عائد نہیں کی گئی، طاہرالقادری انصاف کے حصول کے لیے عدالت جائیں کیونکہ عدالت ہی واحد فورم ہے جہاں سے انہیں انصاف ملے گا۔ شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے استعفے کے مطالبے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری کی اے پی سی نے سیاسی اعلامیہ جاری کیا تھا، طاہرالقادری نے آصف زرداری سے بھی 2012 میں استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ ملک احمد خان کا کہنا تھا طاہرالقادری دھرنا نہیں دیں گے کیونکہ دھرنوں نے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں دیا، عام انتخابات جولائی میں ہوں گے۔

 

زخموں کو بھولنے والا نہیں ۔۔۔۔نواز شریف دل کی بات زبان پر لے آئے

چکوال (این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر ¾سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے والوں کی شکلیں یاد رکھیں ¾میری نا اہلی کے فیصلے کے بعد ملک میں انتشار پھیل رہا ہے ¾یہ زخم نوازشریف کے سینے پر نہیں پاکستان کے قوم کے سینے پر لگ رہے ہیں ¾ہم نے دن رات کام کیا ¾ بجلی کے اتنے منصوبے لگائے آج لوڈشیڈنگ خدا حافظ کہہ رہی ہے ¾2013میں ہر جگہ پر دہشتگردی کاراج تھا ¾کراچی کو پر امن بنایا، سی پیک شروع کیا، پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کب ہوا تھا ¾ دہشتگردی پھر سراٹھارہی ہے تو اس فیصلے سے پوچھو جس میں نوازشریف کو نا اہل کیا گیا ¾کیس پاناما کا تھا تو اسی پر فیصلہ ہونا چاہیے تھا ¾ ملک میں 10روپے کی کرپشن بھی کی ہے تو عوام کو بتا دو ¾ کتنے مہینے ہو گئے، آج تک یہ نہیں پتا چل سکا کہ نوازشریف پر الزام کیا ہے ¾فخر سے کہتا ہوں کہ نوازشریف پر ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام بھی نہیں ہے ¾اسی لیے تو کرپشن پر نہ نکال سکے ¾ عوام ووٹ دے کر وزیراعظم منتخب کرتے ہیں اور 5 آدمی اسے نکال دیتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ ناانصافی نہیں چلے گی۔ پیر کو چکوال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرحوم رہنما چوہدری لیاقت کی رہائش گاہ پر تعزیتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ میں نے ہمیشہ خلوص نیت سے پاکستان کی خدمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک سے بے دخل کیا گیا، 7 سال تک وطن واپس نہیں آنے دیا گیا ¾یہاں تک کہ والد کے انتقال پر بھی ملک نہیں آنے دیا گیا لیکن پھر عوام نے اپنا فیصلہ دیا اور ہمیں منتخب کیا ¾پچھلے 4 سالوں میں عوامی خدمت کے جذبے میں کمی نہیں آئی۔ نواز شریف نے کہا کہ جو زخم لگے انہیں پاکستان کی خاطر بھلانا چاہتا ہوں، زخم در زخم نہ لگا، یہ زخم نوازشریف کے سینے پر نہیں لگتے پاکستانی قوم کے سینے پر بھی لگ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میرا وژن تھا کہ ملک میں سڑکیں اور موٹرویز بننی چاہئیں، یہاں کاشتکار خوشحالی زندگی بسر کریں ¾تاجر مزدور اور غریبوں کو بھی روزگار میسر ہو، اور اس وژن کے لیے ہم نے دن رات کام کیا، بجلی کے اتنے منصوبے لگائے آج لوڈشیڈنگ خدا حافظ کہہ رہی ہے۔ صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ عوام 2013 کو یاد رکھیں ¾جب ڈکٹیٹر اور جمہوریت کا راگ الانپنے والوں نے پاکستان کے عوام پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط کررکھا تھا ¾وہ لوگ اب کہاں ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ جب ملک میں ہر جگہ پر دہشت گردی کا راج تھا، ہم نے دہشتگردو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا آپریشن کیا، اور دہشتگردی ختم کرکے رکھ دی، اگر آج دہشتگردی پھر سر اٹھارہی ہے تو پوچھو اس فیصلے سے جس میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ ہم ختم کررہے ہیں ¾کراچی کو پر امن بنایا، سی پیک شروع کیا، پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کب ہوا تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ لوگ خوشحال ہورہے تھے لیکن اس فیصلے کے بعد انتشار پھیلا جس نے ہمیں نااہل قرار دیا، کیا یہ شاہد خاقان کا قصور ہے، نہیں یہ ان کا قصور نہیں، اس فیصلے سے پوچھو جو 28 جولائی کو جاری ہوا، اور وہ فیصلہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ تھا کہ نواز شریف کا معاملہ پاناما کا تھا ¾نوازشریف کو اقاما کو نااہل کیا، اگر کیس پاناما کا تھا تو اسی پر فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔ نوازشریف نے کہا کہ عوام جاننا چاہتی ہے ¾ نوازشریف نے کون سی کرپشن کی اس ملک میں 10 روپے کی کرپشن بھی کی ہے تو عوام کو بتا دو۔ کتنے مہینے ہوگئے، آج تک یہ نہیں پتا چل سکا کہ نوازشریف پر الزام کیا ہے، نکالنا تھا تو کسی چیز پر نہ سہی اقامے پر نکال دیا، یہ کوئی ماننے والی بات ہے۔ صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اگر نوازشریف نے کرپشن کی ہوتی تو نکالتے اچھے لگتے، میں کبھی منہ دکھانے کے قابل نہ ہوتا لیکن آج فخر سے کہتا ہوں کہ نوازشریف پر ایک دھیلے کا الزام بھی نہیں ہے، اسی لیے تو کرپشن پر نہ نکال سکے، بیٹے سے ایک خیالی تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کہا کہ عوام ووٹ دے کر وزیراعظم منتخب کرتے ہیں اور 5 آدمی اسے نکال دیتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے، کیا عوام کے ووٹ کا یہی تقدس اور اہمیت ہے کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے ووٹ پھاڑ کر پھینک دے، یہ ناانصافی نہیں چلے گی اب عوام کو سامنے آنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ ملک کیسے چلانا ہے۔ اور پوچھنا ہوگا کہ نوازشریف کو کیوں نااہل کیا گیا۔

 

شہبازشریف کا نظام الد ین سیالوی سے رابطہ

ساہیوال (خصوصی رپورٹ) وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور مستعفی ہونے والے ایم پی اے صاحبزادہ غلام نظام الدین سیالوی میں ٹیلی فونک رابطہ، میاں شہباز شریف نے پیر خواجہ حمیدالدین سیالوی سے ملاقات کر نیکی ایک بار پھر خواہش ظاہر کی ہے، شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے خواجہ حمیدالدین ہمارے قابل احترام بزرگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ (ن) لیگ کی مدد کی، تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کیلئے خواجہ محمد قمرالدین سیالوی کی عملی خدمات قابل تحسین ہیں، انہوں نے کہا رانا ثناءاللہ کے حوالے سے خواجہ حمیدالدین سیالوی کے تحفظات دور کرینگے۔