Yearly Archives: 2018
شریف شریف نہیں رہے انٹرنیشنل ڈان بن چکے ہیں ،ڈاکٹر عاصم
چاہتا ہوں میاں صاحب سارے راز فاش کر دیں ،آصف زرداری
دہشتگردی کیخلاف پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں ،آئی ایس پی آر
ٹرمپ پاکستان کی امداد روکنے سے کانگریس کو آج آگاہ کرینگے

برطانوی جوڑے کے 20بچوں نے سب کو حیرا ن کر دیا
لندن (خصوصی رپورٹ) برطانیہ میں ایک جوڑے کے 20بچے ہیں جن کی عمریں تین ماہ سے 28سال کے درمیان ہے۔ 42سالہ سو اور اس کے 46سالہ شوہر نیل ریڈفورڈ کا تعلق لنکا شائر سے ہے۔ دونوں کے 11لڑکے اور 9لڑکیاں ہیںاور بیسویں بچے کی پیدائش پر دونوں نے عزم ظاہر کیا کہ یہ ان کا آخری بچہ ہے۔ میاں بیوی اور ان کے بیس بچوں نے گزشتہ روز آئی ٹی وی کے پروگرام میں شرکت کی جس سے پورا سٹوڈیو ان کے خاندان سے بھر گیا۔ پروگرام میں اظہار خیال کرنے والوں نے خاندان کی خوب تعریف کی۔ پروگرام میں درجنوں ناظرین نے ان سے سوالات کئے۔

1947سے2018 تک کب پاک امریکہ تعلقات خراب ہوئے؟
لاہور (نیا اخبار رپورٹ)پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات پاکستان بننے کے دو ماہ بعد ہی قائم ہوگئے تھے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کئی بار خراب ہوئے،امریکا نے پاکستانی امداد روک کر حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی اور سی آئی اے کیلئے کام
کرکے ایبٹ آباد آپریشن میں کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا،واشنگٹن 1998ءمیں جوہری تجربات،1999ءمیں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے پر امریکا بھی خوش نہیں تھا، اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ حملے پر دونوں ملکوں میں تناﺅ بڑھا،تفصیلات کے مطابق امریکا ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد اس سے سفارتی تعلقات قائم کیے،20 اکتوبر 1947 ءکو 2 ماہ اور6 روز بعد ہی پاکستان اور امریکاکے تعلقات قائم ہوئے گزشتہ 7 دہائیوں میں دونوں ملکوں کے کئی بار تعلقات میں تناﺅ آیا ،ریسرچ کے مطابق امریکا نے پاکستان کو انسداد دہشتگردی اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں کیلئے 70 ارب ڈالرز دیئے،یہ رقم پاکستان کو وقتاً فوقتاًدی گئی اور کئی مقامات پر امریکی امداد روکی بھی گئی،ریسرچ کے مطابق 1972ءمیں رچرڈ نکسن کے چین کے دور ے کے موقع پر پاکستان نے اہم کردار ادا کیا،1979 ءمیں پاکستان کے جوہری پروگرام پر امریکا نے تحفظات کا اظہار کیا،1990 ءمیں امریکی صدر نے کانگریس میں کہا کہ پاکستان کے پاس نیو کلیئر ہتھیار نہیں ہیں اور ان کا یہ بیان مثبت رہا لیکن جب پاکستان نے 28 مئی 1998 ءکو نیوکلیئر تجربات کیے تو امریکا ایک بار پھر ناراض ہوگیا ،1999ءمیں جنرل مشرف کے نوازشریف کو اقتدار سے ہٹانے پر بھی امریکا خوش نہیں تھا، حالیہ برسوں میں 27 جنوری 2011 ءکو سی آئی اے کنٹریکٹرریمنڈ ڈیوس کی لاہور میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ،2 مئی 2011 ءکو اسامہ کیخلاف ایبٹ آباد آپریشن کے واقعے پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی ہوگئی،اسی طرح سال 2011 ءمیں ہی 26 نومبر کو پاک افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں 28 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔دونوں ملکوں کےدرمیان تعلقات میں مزید تناﺅ بڑھ گیا۔اس کے بعد امریکی انتظامیہ نے ایبٹ آباد میں سی آئی آپریشن کے کردار ڈا کٹر شکیل آفریدی کی رہائی کامطالبہ کردیا ،فروری 2015 ءمیں امریکی محکمہ خارجہ نے 2016 ءکے عالمی بجٹ میں سے تقریباً900 ملین ڈالرز پاکستان کیلئے دینے کا کہا جس میں سے 500 ملین ڈالرز انسداد دہشتگردی کیلئے تھے۔ اس کے بعد مئی 2016 ءمیں امریکی کانگریس نے ایف -16ڈیل کیلئے ایک ہفتہ قبل امداد روک کر پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کیلئے دباﺅ ڈالا ،پھر مئی 2016 ءمیں ہی ایک بار پھر پاکستان پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے دباﺅ کی بات ہوئی ، امریکی صدر ٹرمپ اس وقت سپر پاور کی صدارت کیلئے انتخابی امیدوار تھے،اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ چودھر ی نثار نے ٹرمپ کو اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان امریکی کالونی نہیں ہے اور ڈاکٹر شکیل کا فیصلہ پاکستان کریگا ،اس کے بعد امریکا نے جماع الدعوةکے امیر حافظ سعید کے سر کی قیمت 10 ملین ڈالرز مقرر کردی ،امریکی سیکرٹری ویندے نے بھارت دورے کے موقع پر کہا کہ حافظ سعید اور عبدالرحمن مکی کے سر کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔امریکا اور بھارت نے 26 نومبر 2008 ءکو ممبئی حملوں کا الزام حافظ سعید پر لگایا،سال 2014 ءاور 2015 ءمیں پاکستان اور امریکا میں ڈرون حملوں پر بات کی گئی اور امریکا نے پاکستان کوانتہائی مطلوب دہشتگردملا فضل اللہ پر ڈرون حملہ کیا جس میں وہ بچ گیا ،پاکستان میں امریکی نمائندوں اور سفارتخانوں پر حملوں کے بھی واقعات پیش آئے ،نومبر 1979 ءمیں ایسی اطلاعات سامنے ا ٓئیں کہ امریکا مسجد حرام میں قبضے میں ملوث ہے جس کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر آگ لگادی اور جانی نقصان ہوا،سال 1989ءمیں اسلام آباد میں امریکی مرکز پر حملہ ہوا اور اس میں 6 پاکستانی جاں بحق ہوئے۔مارچ 1995 ءمیں کراچی میں ایک حملہ ہو جس کے نتیجے میں 2 امریکی ملازمین ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔نومبر 1997 ءمیں 4 امریکی بزنس مین کراچی میں قتل ہوئے ،مارچ 2002 ءمیں اسلام آباد کے ایک چرچ میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں امریکی سفارتخانے کے 2 اہلکار ہلاک ہوئے ۔مئی 2002 ءمیں امریکی سفارتخانے پر دہشتگردوں کا ایک حملہ ناکام ہوا ،اس کے بعد بھی دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوگئے ،نومبر 2005ءمیں کراچی میں امریکی اور دیگر بزنسس کے قریب ایک بم حملہ ہوا جس میں 3 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔2 مارچ 2006ءکو دھماکا خیز مواد سے بھری کار کا خودکش دھماکہ ہوا جس میں امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر کو نشانہ بنایا گیا ،کراچی میں ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک جبکہ 52 دیگر زخمی ہوئے تھے،ستمبر 2008 ءمیں دھماکا خیز مواد سے بھرے ٹرک سے میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر حملہ کیا گیا اس حملے میں امریکی سفارتخانے کا ایک اہلکار ہلاک ہوا۔

ٹرمپ کے بعد اسکا مشیر بھی زہر اگلنے لگا، پاکستان پر سنگین الزامات کی بوچھاڑ
واشنگٹن (ویب ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل (ر) ایچ آر مک ماسٹر نے الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اور اسلام آباد بعض دہشت گرد گروہوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے جزو کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔وائس آف امریکا کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں مک ماسٹر کا کہنا تھا، ‘ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے رویے سے مایوس ہیں، پاکستان بدستور دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہا ہے، اس نے اپنی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی نہیں کی، یہ بلیم گیم نہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ہمارے تعلقات مزید تضادات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مک ماسٹر نے کہا، امریکا کو تشویش یہ ہے کہ پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی قیادت کو محفوظ ٹھکانے اور مدد فراہم کرکے اپنے ہی عوام کے مفادات کے خلاف جارہا ہے، یہ گروہ صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی تباہی مچاتے ہیں۔مک ماسٹر نے مزید کہا کہ ‘ہمیں افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا’۔انٹرویو کے دوران مک ماسٹر نے ایران میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ ایرانی شہری عوام کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے دہشت گردوں کو برآمد کرنے والے نظام کے خلاف مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔مک ماسٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے گزشتہ 15 برسوں میں اسلام آباد کو احمقوں کی طرح 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے لیکن بدلے میں اسے جھوٹ اور دھوکہ ملا۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا، ‘امریکا نے گزشتہ 15 برس میں احمقوں کی طرح پاکستان کو 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے اور انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا’۔امریکی صدر نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ ‘پاکستان نے ہمارے حکمرانوں کو بے وقوف سمجھا، جن دہشت گردوں کو ہم افغانستان میں ڈھونڈتے رہے پاکستان نے انہیں محفوظ پناہ گاہیں دیں اور ہماری بہت کم معاونت کی، لیکن اب مزید نہیں’۔
بعدازاں وائٹ ہاو¿س کی ترجمان سارا سینڈرز نے کہا تھا کہ امریکا نے پاکستان کی 255 ملین ڈالرز (25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر) یعنی 28 ارب روپے کی فوجی امداد پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

امریکی ڈیڈلائن ختم ، اب کیا فیصلہ ہونے والا ہے ۔۔۔؟
واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) حقانی نیٹ ورک، جماعة الدعوہ اور دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان کو دی گئی 48 گھنٹوں کی امریکی ڈیڈلائن آج (جمعرات) کو ختم ہوگئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ واشنگٹن دباﺅ بڑھانے کے لئے کیا قدامات کرتا ہے۔ منگل کو وائٹ ہاﺅس کی ترجمان سارا مینڈرز نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان پر دباﺅ بڑھانے کے لئے 24 سے 48 گھنٹوں میں مخصوصاً اقدامات کا اعلان کی جائے گا۔ اس حوالے سے امریکی ڈلائن لائن کا آج آخری دن ہے۔ بعض امریکی حکام اور میڈیا نے عندیہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ مبینہ دہشت گرد کیمپوں‘ حقانی نیٹ ورک اور طالبان رہنماﺅں کو نشانہ بنانے کے لئے پاکستان کے اندر خود کارروائی اور ڈرون حملے کرسکتا ہے۔ پاکستانی وزیر دفاع خرم دستگیر نے بھی اس امکان کو رد نہیں کیا‘ ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پارہ صفت انسان ہیں‘ اس لئے امریکی کارروائی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے خیال میں اس کا امکان کم ہے واشنگٹن کو پتہ ہے اس کے بعد پاکستان کے پاس بھی سپیس کم رہ جائے گی۔ وزیرداخلہ احسن اقبال نے واضح کیا کہ رعب اور دباﺅ میں نہیں آئیں گے‘ کسی کو حق نہیں کہ ہماری عزت نفس پر حملہ کرے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے امریکی سفیر کو جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ اگر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کردار کو نہ سراہا تو ہم اپنے تعلقات اور تعاون پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ امریکہ کو اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر نہیں ڈالنا چاہئے۔ یکطرفہ حملے کی اطلاعات پر پاکستانی حکام نے واضح کیا کہ اپنی سلامتی‘ خودمختاری اور حدود کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی یکطرفہ کارروائی یا ڈرون حملے کا سخت جواب دیں گے۔ امریکہ کے انتہائی سخت بیانات‘ دھمکیوں‘ پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے کے اشاروں اور پاکستانی ردعمل نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو خطرناک ترین موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستانی سول و عسکری قیادت‘ مادر وطن کے دفاع اور جغرافیائی حدود کے تحفظ کے لئے متحدہ و مشفق اور عزم کئے ہوئے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مادر وطن پر تین بیٹے اور دو بھتیجے قربان کرنے والے محمد علی خان کے گھر پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دھمکانے والی بیرونی قوتیں سمجھ لیں جس قوم کے پاس ایسے والدین اور بچے ہوں ان کا کوئی بال بیکا بھی نہیں کرسکتا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسی فوج کے چیف ہیں جس کے جوان ہر وقت ملک پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ کوئی رقم ان بہادروں کی حب الوطنی اور قربانیوں کی قیمت نہیں چکا سکتی۔ ان کی قربانیاں ہی ہمیں پرامن اور مستحکم پاکستان کی طرف لے جارہی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے علاقے گڑھ جیل کرک محمد علی خان کے چھ بچے پاک فوج کا حصہ رہے،3بچوں نے اپک وطن کی حفاظت کیلئے شہادت پائی جبکہ ان کے بھتیجے بھی شہید ہوئے۔ دریں اثنا آئی ایس پی آر ڈی جی میجر جنرل آصف جنجوعہ نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے ردعمل کو خوش آئند قرار دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی و عسکری قیاد تاور عوام یک زبان ہو کر ایک بیانیہ اپنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمارا اتحادی ہے اس سے جنگ نہیں ہوسکتی۔ لیکن واشنگٹن ایسا کوئی ایکشن لیتا ہے تو فیصلہ ریاست اور حکومت نے کرنا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں ایک تیسری قوت بڑھانا چاہتی ہے ہم سے شمالی وزیرستان آپریشن اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ایچ آرمک ماسٹر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان بعض دہشتگردوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک جزو کے طورپر استعمال کر رہا ہے۔ وائس آف امریکہ انٹرویو دیتے ہوئے مک ماسٹر نے کہا کہ پاکستان بدستور دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہا ہے اور اس نے اپنی حدود میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی نہیں کی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان سے متعلق حالیہ ٹوئٹ پاکستان کے اس رویے کے بارے میں صدر کی مایوسی کا اظہار ہے۔ امریکی مشیر نے کہاکہ پاکستان سے کیے جانے والے مطالبات محض الزامات کا تبادلہ نہیں بلکہ اس کا مقصد پاکستان پر واضح کرنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید تضادات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

والدہ اور اہلیہ کی آنکھوں میں خوف تھا، لگا انہیں مار پیٹ کر لایا گیا، کلبھوشن کا ویڈیو بیان
اسلام آباد(ویب ڈیسک) دفتر خارجہ نے بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کی اہلخانہ سے ملاقات کے بعد ریکارڈ کیا جانے والا ایک ویڈیو بیان جاری کردیا۔دفتر خارجہ کی جانب سے گرفتار بھارتی جاسوس کے جاری کردہ ویڈیو بیان میں دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ اہلخانہ سے ملاقات کرانے پر کلبھوشن یادیو نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ خیال رہے کہ پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سزائے موت کے قیدی بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اہلخانہ سے 25 دسمبر کو دفتر خارجہ میں ملاقات کرائی۔ویڈیو بیان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کلبھوشن یادیو نے کہا کہ ملاقات کے دوران محسوس ہوا والدہ اور اہلیہ خوفزدہ تھیں جب کہ اس موقع پر بھارتی اہکار ملاقات کے دوران والدہ کو دھمکا رہا تھا۔جاسوس کلبھوشن یادیو نے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ میری والدہ کو جہاز میں مار پیٹ کر لایا گیا ہے، بھارتی سفارت کار ملاقات کے بعد میری والدہ پر کیوں چیخ رہا تھا۔کلبھوشن یادیو نے کہا کہ بھارتی عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں بھارتی بحریہ کا کمیشنڈ آفیسر ہوں، میرے انٹیلی جنس ایجنسی کے لئے کام کرنے کو کیوں جھٹلایا جا رہا ہے۔بھارتی جاسوس کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی والدہ اور اہلیہ کی آنکھوں میں خوف دیکھا اور وہ سہمی ہوئی تھیں، ان کے ساتھ ایسا کیا ہوا، ان کی آنکھوں میں خوف اور ڈر نہیں ہونا چاہیے تھا۔بھارتی جاسوس نے مزید کہا کہ میری والدہ اور اہلیہ کے ساتھ آنے والے بھارتی سفارتکار ملاقات ختم ہونے کے بعد ان پر چیخے، وہ انہیں ملاقات پر دھمکا رہے تھے۔کلبھوشن یادیو نے کہا کہ پاکستان میں مجھے کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا جب کہ والدہ بھی صحت مند دیکھ کر خوش ہوئیں۔