کابل /واشنگٹن(اے این این ، آن لائن) افغان طالبان کے ترجمان ذبیخ اللہ مجاہد نے ہفتے کی صبح جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ افغانستان کے لیے امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ اسلام آباد میں کوئی ملاقات نہیں ہو گی۔ یہ بات انہوں نے پاکستانی میڈیا میں گردش کرتی خبروں کے نتیجے میں کی، جن کے مطابق طالبان قیادت کی اسلام آباد میں افغان حکام سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک سینئر طالبان رہنما نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہا کہ وہ متعدد مرتبہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ ہم افغان حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ کوئی بھی ملاقات نہیں کریں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ ان کے مطالبات پورے کرنے کے اہل نہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کر کے ذبیح اللہ مجاہد کے اکانٹ سے بیان جاری کیا گیا جس میں اسلام آباد میں امریکی نمائندوں اور طالبان کے درمیان ہونے والی متوقع ملاقات کی اطلاعات کو غلط قرار دے دیا گیا۔دوسری جانب امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا کہ انہیں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والے مذکراتی عمل میں ٹھوس پیش رفت کا انتظار ہے۔واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد مذاکراتی عمل کی بحالی کے سلسلے میں 4 ملکی دورے کے دوران پاکستان میں تھے جہاں انہوں نے وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات کی تھی۔وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے انہوں نے اسے اچھی ملاقات قرار دیا، جس کے دوران افغانستان میں قیامِ امن میں معاونت کے لیے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے کردار پر گفتگو کی گئی۔ان کے دورے کا مقصد طالبان کی جانب سے افغان حکومت سے بات چیت کرنے سے انکار کے بعد مذاکراتی عمل میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو ختم کرنا تھا۔خیال رہے کہ امریکا نے طالبان کے براہِ راست مذاکرات کے سلسلے کا آغاز گزشتہ برس جولائی میں کیا تھا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تعاون کی درخواست کے لیے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط کے بعد پاکستانی کوششوں سے گزشتہ دنوں ابو ظہبی میں ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا ۔جس کی وجہ سے واشنگٹن کی جانب سے اسلام آباد پر زور ڈالا جارہا ہے کہ وہ طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے بھی راضی کرے۔قبلِ ازیں زلمے خلیل زاد کی وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں دونوں نے مفاہمتی عمل کی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔اس سلسلے میں سامنے آنی والی رپورٹس اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہیں کہ پاکستان امریکی نمائندوں اور طالبان قیادت میں مذاکرات کروانے کی کوششیں کررہا ہے تا کہ دونوں فریقین بات چیت کے ذریعے ڈیڈلاک کو دور کرنے کی راہ تلاش کریں۔تاہم یہ واضح نہیں کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کی دوبارہ مذاکرات میں شمولیت کے لیے کس قسم کے اقدامات کیے جارہے ہیں، اس سلسلے میں اطلاعات یہ بھی تھیں کہ پاکستان نے طالبان کے اہم رہنما حافظ محب اللہ کو پشاور سے حراست میں لیا تھا تا کہ عسکری گروہ پر امریکی نمائندوں سے مذاکرات کرنے کے لیے دبا ڈالا جاسکے