تازہ تر ین

عمران خان کا خود تھر پار کر جا کر صحت کارڈ دینا قابل تحسین : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایک ایسی جگہ جہاں پینے کا پانی نہیں ملتا، جہاں خوراک کی بھی کمی ہے جہاں بیماری اتنی زیادہ ہے کہ سوکڑا جہاں غذا کی کمی کی وجہ سے بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات، تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے بچے بہت کمزور دبلے پتلے اور سوکھے ہوئے پیدا ہوتے ہیں اکثر ان کی شرح اموات جو ہے پیدائش کے وقت اور اوائل عمری میں بہت زیادہ ہے میں یہ سمجھتا ہوںکہ یہ بہت اچھا قدم ہے اور اچھا جسچر ہے عمران خان کی طرف سے کہ ایک ایسے علاقے کا انتخاب کیا گیا جہاں غذا کا قحط پانی کی کمی ہے اور بیماریاں بہت زیادہ ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہو ںکہ جب حکومت کارڈ بھی تقسیم نہیں کرے گی بلکہ پھر یہ بھی دیکھنا پرے گا کہ کارڈ جو ہیں وہ تو موبائل ہسپتال کا پروگرام بنایا ہے کہ وہاں ہسپتال اور ڈسپنسریاں بھی کم ہیں اور موبائل ہسپتال قائم کئے جائیں گے جو جگہ جگہ پر جہاں تھوڑی آبادی ہو وہاں وہ چکر لگاتے رہیں۔
بلاول بھٹو بارے عمران خان کے اس بیان پر کہ نام بدلنے سے کوئی سیاستدان نہیں ہو جاتا صیا شاہد نے کہا کہ سیاستدانوں کی آپس میں چپقلش چلتی رہتی ہے لیکن یہ ایک بات صحیح ہے یہ تو ایک پرانی بات ہے کہ بلاول بھٹو زرداری دراصل تو بلاول زرداری ہیں تو اپنے والد کی مناسبت سے تو ان کا نام بلاول زرداری ہونا چاہئے اب نانا کے نام سے کبھی کوئی نواسہ پہچانا نہیں جاتا یا چونکہ ان کے نانا بڑے عظیم پائے کے سیاستدان تھے لہٰذا ان کے ساتھ ملانے کے لئے بھٹو لگایا جاتا ہے۔ یہ جو بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں عمران خان نے جو اٹیک کھولا ہے اور یہ کہا ہے کہ کوئی نام بدلنے سے بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔ پاکستان پوتا نام کا وارث ہوتا ہے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے شاید یہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہو نواسہ کا نام نانا پر رکھا گیا ہو۔ سیاستدان بہرحال ایسی باتیں ایک دوسرے کو کرتے رہتے ہیں۔ یہ بات درست ہے البتہ یہ بات تو صحیح ہے کہ جو دقت زرداری صاحب کو پیش آ رہی ہے، سندھ کے وزیراعلیٰ کو پیش آ رہی ہے ان کی بہن فریال تالپور کو پیش آ رہی ہے پھر بلاول بھٹو صاحب کو پیش آ رہی ہے وہ سب سے زیادہ یہی ہے کہ جو منی لانڈرنگ میں ان کے نام بار بار آ رہے ہیں اور ہر چوتھے دن آتا ہے کہ کچھ اور ثبوت مل گئے تو اب جو ااخری خبر اس سلسلے میں آئی ہے وہ کوئی چھ سات دن پہلے آئی تھی کہ کچھ اور ثبوت مل گئے کچھ اور کاغذات سامنے آ گئے۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ زرداری صاحب اس مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں دیکھیں وہ کس طرح سے اس سے نکلتے ہیں۔ ان کے جو بھی حالات ہوں آخر کار یہ شکنجہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے اور آہستہ آہستہ یہ اس میں پھنستے جا رہے ہیں اب کتنی دیر تک ضمانتیں آگے بڑھیں گی۔ آخر کار اگر کرائم سامنے آ جاتا ہے اور اگر کرائم سے یہ بچ نہ سکے تو پھر ان کا سیاست میں آگے بڑھنا مشکل ہو جائے گا۔ بلاول کے عمران خان کو ٹویٹ پر بزدل کہنے پر بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بات برائے بات ہے کہ ضروری نہیں اسمبلی میں بات ہو سکتی ہے تھرپارکر میں یہ بیان دینا جو ہے سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو زیادہ چبھے گا کہ ظاہر ہے کہ تھرپارکر ان کا علاوہ ہے ان کے صوبے میں جا کر اٹھیک کھولا ہے۔
مریم نواز کی آج اپنے والد نواز شریف سے ملاقات اور والد کو قائل کرنے کی کوشش کی اور ایک دفعہ میاں نوازشریف نے انکار کر دیا کہ میں کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہوں گا اس حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ سیاست میں اس قسم کی بات چلتی رہتی ہے اور اس سے بُرا نہیں منانا چاہئے اسمبلیوں میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے کہ سپیکر کے سامنے نماز نیت کر کے کھڑے ہونا ویسے آگے پیچھے نماز پڑھی ہو یا نہ ہو۔
ضیا شاہد نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ نوازشریف کی صحت بارے میں پنجاب حکومت کو عمران خان صاحب نے جو حکم دیا تھا کہ ان کے لئے جس ہسپتال میں وہ عاہیں اس کا بندوبست کیا جائے اور جو اب تک تھوڑی دیر پہلے بھی جو ہسپتال پتہ چلا ہے اس میں حکومت پنجاب نے کہا ہے کہ ایک تو انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیا لوجی لاہور جو ہے اس میں اگر نوازشریف چاہیں تواس میں ایڈمشن مل سکتا ہے وہ دل کے امراض کا ہسپتال ہے دوسرا پنڈی میں جو اس قسم کا انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیا لوجی ہے اس میں بھی داخلہ مل سکتا ہے اور تیسرا الشفائ۔ الشفاءکے بارے میں مجھے تھوڑا سا شک ہے چونکہ میری معلومات کے مطابق شفاءانٹرنیشنل جو ہے وہ ایک پرائیویٹادارہ ہے اور الشفاءالبتہ سیمی گورنمنٹ ادارہ ہے بہرحال جو بھی ان میں سے کہا ہو کیا اس مرحلے پر آج اوریا مقبول جان کی ایک لیڈ سٹوری صبح کے اخبار میں ایوننگر میں چھپی ہے وہ یہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ 4 دن میں نوازشریف جو ہیں ان کو باہرجانے کی اجازت مل جائے گی۔ تو مجھے بہت لوگوں نے ٹیلی فون کئے پھر دوپہر کے بعد سے بھی کم از کم 6,5 ٹیلی فون آئے ہیں جس میں لوگوں نے یہ پوچھا ہے کہ یہ بتائیں کہ کیا جو سیاسی ہوں یا مالی بدعنوانی کے ہوں بہر حال نوازشریف ملکی قانون کی نظر میں قیدی ہیں اور کیا قیدی کو باہر جانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ مجھے کچھ لوگوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کسی قانون دان سے پوچھ کر بتائیں کہ اگر نوازشریف صاحب کو اس مرحلے پر آج وہ ہیں یعنی سپریم کورٹ میں ابھی فائنل نہیں ہوا اور کیا اس مرحلے پر صدر مملکت کو اگر اپیل کریں تو کیا صدر مملکت ان کو باہر جانے کی اجازت دے سکتے ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صدر مملکت جو ہیں وہ کسی قیدی کی مکمل سزا معاف کر سکتے ہیں تو یہ تو چھوٹی سی بات ہے کہ ان کو مرضی کے ہسپتال میں یا اپنی مرضی کے ڈاکٹر کے لئے انگلینڈ جانے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ آپ فرمائیں کہ قانونی شکل کیا ہے۔ کیا صدر مملکت ان کو پاکستان سے باہر بھیجنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور کیا ان کا حکم جو ہے وہ عدالتوں سے ملنے والی سزائیں جو ہیں ان کو اووررول کر سکتا ہے۔ ابھی چونکہ سپریم کورٹ سے ابھی فائنل نہیں ہوا ہے کہ کیا سٹیج پر کہ مقدمہ پینڈنگ ہے کیا اس سٹیج پر سزا کی معافی ہو سکتی ہے اور لوگ یہ پوچھتے ہیںکہ پلی بار گیننگ کا قانون جو ہےے یعنی اگر نوازشریف صاحب جو ہیں کچھ پیش کش کر دیں کہ مجھ پر جتنے الزامات ہیں اس کے بدلے میں اتنے پیسے جمع کروا دیتا ہوں تو پھر تو نیب ان کی بات ماننے پر مجبور ہو گا کیا اس طرح سے ان کو رہائی مل سکتی ہے۔
مریم نواز اپنے والد کیلئے جذباتی گفتگو کر رہی ہے تاہم انن کی گفتگو کو قانون کے دائرہ کار میں دیکھنا ہو گا جو جذبات کو نہیں دیکھتا نوازشریف ایک قیدی ہیں اور ان پر وہی قوانین لاگو ہوں گے جو قیدیوں کے لئے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ نوازشریف جاتی عمرا کے میڈیکل سٹی میں علاج چاہتے ہیں جہاں ذاتی معالج ہوں گے۔ قانون کے مطابق کسی قیدی کیو ذاتی معالج سے علاج کی سہولت نہیں دی جا سکتی دوپہرکے اخبارات کی خبر ہے ایک معروف اینکر پرسن اوریا مقبول نے دعویٰ کیا ہے کہ نوازشریف کو چار پانچ دن میں لندن جانے کی اجازت مل جائے گی، اس بارے قانونی ماہرین سے رائے لی تو جواب ملا کہ ایسی اجازت ملک کے چیف ایگزیکٹو عمران خان بھی نہیں دے سکتے۔ وزیراعظم کسی ایسے قیدی کو جو کا ٹرائل جاری ہے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
بھارتی فوج میں اکھاڑ پچھاڑ ان کا اندرنی نجی معاملہ ہے تاہم انہیں پائلٹ نندن کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے اگر کوئی جنگی قیدی اپنے ساتھ کئے جانے والے اچھے سلوک کی تعریف کرتا ہے تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ تو ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ایک معالج بھی تھے انہوں نے صلیبی جنگوں کے دوران اپنے حریف عیسائی بادشاہ رچرڈز کو بیمار ہونے پر علاج کرنے کی پیشکش کی تھی۔ جنگوں میں ہارجیت تو ہوتی ہے تاہم کبھی کسی نے اس طرح کی اکھاڑ بچھاڑ نہیں کی جو بھارت کر رہا ہے۔ نریندر مودی اتنے بڑے ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں ان کے منہ سے چھوٹی بات زیب نہیں دیتی۔ بھارت کے مقابلہ میں پاکستان کی افواج میں سامان حرب اور جنگی طیاروں کی دیکھ بھال کا معیار بہت اعلیٰ ہے امریکہ جیسی سپر پاور کا افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنا خوش آئند ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain