لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بیمار بھی سیاسی ہے اور عیادت بھی سیاسی ہے اور عیادت کے وقت بھی بلاول بھٹو کی گفتگو بھی سیاسی تھی۔ اس میں انہوں نے کہا ہے کہ عیادت کرنا جو ہے ہماری مذہبی روایت ہے۔ باقی مذہبی روایات پر وہ عمل کرتے ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ میرے خیال میں جو بھی کچھ بھی کہنا تھا سب سیاست ہی سیاست ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ نوازشریف کو صحت یاب کرے اب تو عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگر عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں جو بھی سہولت وہ دینا چاہیں ان کو ساری سہولتیں ملنی چاہئے میں خود اس چیز کا قائل ہوں لیکن میں یہ سمجھتا ہو ںکہ یہ سارے کا سارا بناوٹی کھیل ہو رہا ہے۔ اب چونکہ نوازشریف اور پیپلزپارٹی کا آپس میں مک مکا ہو چکا ہے یہی بلاول بھٹو صاحب تھے میاں صاحب پہلے بھی بیمار تھے تو کتنا ان کو پوچھتےتھے کتنا ان کو پوچھتے تھے کیا ہم سب ان حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ کتنے ان کے دل آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
عورتوںکی آزادی کے دن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ میرے پاس کچھ نعرے ہیں۔ فیس بک پر جو فلمیں آئی ہیں کراچی اور لاہور میں جو جلوس نکلے ہیں۔ کچھ جملے تو میں ادا ہی نہیں کر سکتا لیکن جو بتا سکتا ہوں جو خالصتاً گالیاں ہی ہیں۔ پہلا جملہ ذرا ملاحظہ کریں: یہ کراچی کے جلوس کے سلوگن سے ہے جو لوگوں نے لڑکیوں نے پکڑے ہوئے تھے یہ این جی او کی تنخواہ دار ملازمین تھے۔ عنوان یہ ہے ”اکیلی آوارہ گرد اور اازاد“ یہ ایک آئیڈیل بتایا گیا ہے پاکستانی عورت کو ”اکیلی آوارہ گرد اور آزاد“ دوسرا یہ ہے: یہ سڑک اتنی ہی میری ماں کی۔ جتنی تمہارے باپ کی ہے۔ اندازہ کریں ذرا تمیز کا۔ اس کے بعد ایک لڑکی انتہائی قابل اعتراضحالت میں بیٹھی ہوئی ہے اور اس کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا ہے فکر نہ کرو مجھے ٹائربدلنا آتا ہے۔ تیسرا جملہ ہے کہ میں آوارہ گرد میں بدچلن کر لو جو کرنا ہے۔ اندازہ کریں یہ پاکستانی تہذیب کی اس سے بڑی نشاندہی ہوتی ہے کہ لڑکی جو ہے وہ کہہ رہی ہے اپنے آپ کو کہہ رہی ہے کہ میں آوارہ، میں بدچلن کر لو جو کرنا ہے۔ اس کے بعد آگے ہے اگر دوپٹہ اتنا ہی پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھ لو۔اس سے آگے ہے نکاح کو ختم کرو۔ عورت کو آزادی دو یعنی نکاح کو ختم کرو اور عورت کو آزاد کرو نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔ ناچ میری بلبل تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ میں بے شرم بے ہودہ کر لو جو کرنا ہے۔ کر لو جو کرنا ہے یہ ٹیب کا بند ہے۔ شادی کے علاوہ بھی اور بہت سے کام ہیں۔ شادی کے علاوہ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔ اب روٹی نہیں پکاﺅں گی جو مرضی آئے کر لو۔ آﺅ کھانا مل کر بنانا ہو گا۔ آج سے کھانا مل کر بنائیں گے ورنہ بھوکے رہو۔“ یہ جو چند جملے ہیں اس میں کچھ لاہور میں جو جلوس نکلا تھا اس میں سے سلوگن ہے اس کی تصویریں ہیں کچھ جو تھے کراچی کا جو جلوس تھا اس میں جو سلوگن تھے ان کے میں نے نعرے بتائے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستانی عورت کی کیا تصور اور عورتوںکی آزادی کے دن پر بتائی گئی ہے جاری ہے اور میں بتا نہیں سکتا کیونکہ میں عزت کرتا ہوں خواتین کی جس خاتون نے کراچی کا جلوس آرگنائز کیا ہے اس کے باپ کا نام اتنا بڑا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس کا نام لیتے وقت سر جھک جاتا ہے اور جو بگڑی جو ہے وہ گلے میں آ جاتی ہے۔ میں بتانا نہیں چاہتا کیونکہ یہ بھی ایک توہین سمجھتا ہو ںکہ اتنے بڑے آدمی کا نام لیا جائے کہ اس کی یٹی نے یہ جلوس نکلوایا تھا، اس میں کئی ایسے سلوگن ہیں جن میں ننگی گالیاں ہیں اور کوئی شریف اس کو پڑھ کر سنا نہیں سکتا۔ ایک ایسی پروگرام میں جو گھروں میں بھی دیکھا جاتا ہے جو بچیاں بھی دیکھتی ہیں بچے بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ فیس بک پر موجود ہیں آپ دیکھ لیجئےگا اس میں جو سلوگن بڑے کر کے دکھائے گئے ہیں وہ بھی پڑھ لیجئے گا۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ آج ہمارے اخبار میں تعریف جیسی ہوئی ہے سی سی پی او لاہوہر کی۔ سی سی پی او لاہور واقعی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ ان کی نگرانی میں مال روڈ لاہور پر یہ جلوس نکلا اور کراچی کے پولیس حکام کو اور چیف منسٹر کو بھی مبارکباد دو کہ انہوں نے اتنے بڑے زبردست گندی گالیوں والے سلوگن لکھوا کر لڑکیوںکے ہاتھ میں پکڑا کر جلوس نکالنے دیئے۔ اگر خواتین کی آزادی کا مطلب گند بکنا ہے خرافات لکھنا ہے اور بکواس کرنا اور اس قسم کے الفاظ ادا کرنا ہیں جو گالیوں کی ذیل میں ااتے ہیں تو معاف کیجئے اس قسم کی آزادی سے ہم بغیر آزادی کے بھی اچھے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے معاشرےے کی ایک فیصد عورتیں بھی ایسی نہیں ہیں یہ جو این جی او کی جو اس قسم کے نعرے سلوگن لے کر جاتی ہیں۔ کیا یہ الفاظ اس قابل ہیں کہ ایک لڑکی جو ہے اس کا پوسٹر بنائے اور بازار میں چلے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ایک ایسی ریاست میں جس کا دین اسلام اس کا مذہب ہو۔ اس میں میں اکیلی، میں آوارہ گرد اور میں بدشلن“ یہ سلوگن ہاتھ پر لکھوا کر اورہاتھ میں بینر لے کر کیا آپ پر سڑک پر چل سکتے ہیں۔ کیا اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے۔ کیا اس ملک کے سی سی پی اوز اور ضلعی انتظامیہ کو نظر نہیں آ رہا کہ عورتیں اس قسم کے سلوگن لے کر جا رہی ہیں اور یہ سلوگن نہ ہمارے دین کی نظر میں، نہ قانون کی نظر میں، نہ ہمارے فیملی لاز آرڈیننس کی نظر میں کسی طور پر برداشت نہیں کئے جا سکتے۔ یہ سارے نعرے سوشل میڈیا پر درج ہیں۔ کراچی اور لاہور کے جلوس کے بھی اور یہ مجھے بتائیں کہ کسش قسم کی انتظامیہ ہے جو اس کے جلوسوں کی اجازت دیتی ہے جو فحص تصویریں بنا کر نیچے لکھ رہی ہے کہ میں ٹائر بدل سکتی ہوں اور اس کے اوپر جو تصویر ہے وہ آپ دیکھ نہیں سکتے۔ اگر یہ عورتیں پوسٹر اور بڑے بڑے بینر لے کر سڑک پر مارچ کیں گی جن پر لکھا ہو گا ”میں اکیلی میں آوارہ اور میں آزاد۔ کرلو جو کرنا ہے۔ کیا اس کی اجازت دی جا سکتی ہے پولیس والے ویسے تو بات بات پر ڈنڈے مارتے ہیں کہ جلوس کیوں نکالا ہے ان عورتوں کو کیوں کچھ نہیں کہتے۔ اسلام تو اجازت نہیں دیتا لیکن پولیس کیا کرتی ہے جو جلوس لے کر نکل رہا ہوتا ہے اس کے سلوگن نہیں دیکھ سکتی کہ ان پر کیا لکھا ہوا ہے۔ شرم نہیں آتی پولیس والوں کو اس قسم کے سلوگن لے کر چلنے والی لڑکیو ںکومال روڈ لاہور اور کراچی صدر میں نکلنے دیتے ہیں اور سڑکوں پر فحاشی پھیلاتے ہیں۔ ایک عورت اپنے طور پر کیا کرنا چاہتی ہے اس کا مسئلہ ہے وہ جانے قانون جانے لیکن کھلے عام لوگوں کو سب لوگوں کو دکھا کر آپ سلوگن نہیں پھیلا سکتے۔ میں اکیلی، میں آوارہ گرد اور کر لو جو کرنا ہے۔ اس کے بینر لگا کر سڑکوں پر نہیں گھوم سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نکاح کے خلاف سلوگن بنا کر سڑکوں نہیں نکل سکتے۔ کیونکہ وہ فیملی لا آرڈیننس جس میں نکاح کو ضروری قرار دیا گیا ہے نکاح کے بغیر آپ اکٹھے نہیں رہ سکتے آپ اس نکاح کو جس پر بنیاد قائم ہے اسلامی معاشرے کی، جس میں مشرقیت کا ایک بنیادی نقطہ ہے نکاح اور نکاح کے بغیر عورتوں کو کس طرح سے کہنے کی کھلی چھٹی دے سکتے ہو کہ وہ کہیں کی کوئی ضرورت نہیں۔ نکاح کے بغیر آزادی سے رہے رہو۔
کسی شہر میں کوئی جلوس نکلتا ہے تو اس کا دھیان رکھنا کہ کون لوگ ہیں کس قسم کے نعرے درج ہیں کیا نعرے لگا رہے ہیں ضلعی انتظامیہ کا کام ہے، اگر جلوس کے شرکاءایسی نعرے بازی کرتے ہیں جو قانون اور مسلمہ قدروں کیخلاف ہو تو پولیس کا فرص ہے کہ اسے روکیں یہ این جی اوز میں جو اس طرح کے بیہودہ ایجنڈے پر چل رہی ہیں جو حرکتیں کی جا رہی ہیں مذہب اور شائستگی کی حدود سے باہر ہیں۔ ہماری کسی بھی طبقے کی خواتین ایسی خرافات پسند نہیں کرتیں۔ صوبے کا آئی جی اور سی سی پی او ان خرافات کے ذمہ دار ہیں۔ کراچی میں تو معاملہ انتہا کو پہنچ گیا اور ایسے نعرے لکھے تھے جو بیان بھی نہیں کئے جا سکتے۔ وہ پولیس اہلکار جو ان نعروںکو پڑھ کر اورخواتین کو دیکھ کر دانت نکالتے رہے انہیں شرم آنی چاہئے۔
وزیراعظم عمران خان نے 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا اب اس پر کچھ کر کے بھی دکھائیں 5 لاکھ گھر ہی پہلے بنا دیں ۔ اس منصوبہ پر غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک بھی کیا جا سکتاہے۔ سستے گھر بنا کر آسان اقساط پر لوگوں کو دیئے جائیں۔
نوازشریف قیدی ہیں انہیں علاج کی یہ سہولت ملنی چاہئے ان پر جیل میں کسی قسم کا ذہنی و جسمانی تشدد نہیں ہو رہا۔ اگر کوئی چیز مریض کیلئے فائدہ مند نہ ہو تو اس سے منع کرنا تشدد کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم بھی نوازشریف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دے سکتے صرف عدالت ہی اجازت دے سکتی ہے۔
سراج درانی کو بھی وہ تمام سہولتیں دی جانی چاہئیں جو کسی بھی زیرحراست ملزم کو ملتی ہیں تاہم انہیں صوبائی سپیکر کو ملنے والی سہولتیں نہیں دی جا سکتیں۔
