تازہ تر ین

بلوچ علیحدگی پسند ، دہشتگرد ایران سے آئے : شاہ محمود قریشی

اسلام آباد (صباح نیوز‘ این این آئی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اورماڑہ واقعے پر کہا ہے کہ اس میں بلوث بلوچ دہشت گرد تنظیموں کے الائنس بی آر اے کے تربیتی کیمپ ایران میں ہیں اور اس سلسلے میں پڑوسی ملک کو قابل عمل معلومات فراہم کردی ہیں،واقعے میں ملوث دہشت گرد تنظیم بی آر آئی اے کے تانے بانے افغانستان سے بھی ملتے ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ علی الصبح بزی ٹاپ کے پاس پیش آیا، جہاں بسوں کو روکا اور لوگوں کی نشاندہی کے بعد 14 پاکستانیوں کو شہید کیا گیا، جس میں 10 پاکستان نیوی، 3 پاک فضائیہ اور ایک پاکستان کوسٹ گارڈ کے جوان تھے، اس واقعے پر ہمیں دکھ و تکلیف ہے کیونکہ جس بے دردی سے ہمارے سپائیوں کو شہید کیا گیا، اس پر پوری قوم کو غم و غصہ ہے اور وہ جانتا چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ کیوں ہوا اور کس نے کیا۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ایک الائنس بی آر اے سامنے آچکا ہے، جس میں مختلف بلوچ دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں اور انہوں نے اس واقعے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بغیر اطلاع کے الزامات لگانے کا بھارتی روایت نہیں دہرانا چاہتا تھا، اسی لیے مصدقہ اطلاعت کے بعد ہی پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرنے کا سوچا تھا اور اب ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ یہ واقعہ بلوچ دہشت گرد تنظیموں کی کارستانی ہے اور اس نئے الائنس بی آر اے کے تربیتی اور لاجسٹکل کیمپ ایران کی سرحد کے اندر ہیں اور تحقیق و تصدیق کے بعد قابل عمل معلومات ایرانی حکام کے حوالے کردی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کیمپ کے مقامات کی نشاندہی کردی ہے اور بتادیا ہے کہ ان عناصر کے کیمپ یہاں موجود ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ایران ہمسائے اور برادرانہ تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے ان تنظیموں کے خلاف ایکشن لے گا۔گفتگو کے دوران شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ ساتھ ہم افغان بھائیوں سے بھی کارروائی کی امید کر رہے ہیں کیونکہ بی آر اے کے تانے بانے افغانستان میں بھی جاتے ہیں، افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اور ہم وہاں امن و استحکام کے خواہش مند ہے، ہمیں توقع ہے جس جذبے سے ہم ان کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی ہماری مدد کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس واقعے کے فارنزک ثبوت بھی ہیں جو ان دہشت گردوں تک پہنچنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ اس راستے کو پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا، میری ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے بات چیت ہوئی اور پاکستانی عوام کے غم و غصہ سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہم اپنے پڑوسی سے کیا توقعات کرتے ہیں۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایرانی وزیر خارجہ نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں اور ملزمان کو قرار واقعے سزا دلوانے کے لیے پاکستان کی مکمل مدد کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ایران جارہے ہیں اور اس حوالے سے بات کرنے کا موقع بھی ملے گا۔سرحد کی حساسیت کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے سرحد پر امن و امان کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں پاکستان نے شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئی 7 کمانڈ تشکیل دی ہے تاکہ نگرانی اور فوری کارروائی میں آسانی ہو، اس کمانڈ کا مرکز تربت میں قائم کیا گیا ہے تاکہ اس سرحد پر موثر نگرانی ہوسکے۔انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے ایک نئی فرنٹیئر کور بنائی ہے تاکہ سرحد کے لیے درکار نفری دستیاب ہو، اس کے علاوہ پاکستان اور ایران نے باہمی مشاورت سے سرحد کو پرامن رکھنے اور ایسے عناصر کے ناپاک عزائم کے لیے جوائنٹ بارڈر سینٹر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔اسی طرح پاک ایران سرحد پر بھی باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ ایک مہنگی مشق ہے لیکن اس کے باوجود یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور اس عمل کا آغاز ہوگیا ہے، باڑ لگانے کا آغاز حساس مقامات سے کردیا ہے اور 950 کلومیٹر کی سرحد کو مکمل کرنے کا ارادہ ہے۔ایرانی وزیر خارجہ سے ہونے والی بات چیت پر انہوں نے مزید بتایا کہ ایران میں ہونے والے کوئی بھی واقعے کے بعد ان کی توقعات پر پاکستان نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا اور ان کے لاپتہ گارڈ کی بازیابی میں بھی پاکستان نے سنجیدگی سے کام کیا اور 9گارڈ کو بازیاب کروایا، لہذا ہمیں بھی ایران سے ایسی ہی توقع ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ایران پاکستان مخالف عناصر کے خاتمے کے لیے معاون ثابت ہوگا۔اس موقع پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے اور ایسے عناصر موجود ہیں جو دونوں ممالک کے تعلقات بہتر نہیں دیکھنا چاہتے۔پاکستان کے تینوں پڑوسی ممالک سے تعلقات کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارا افغانستان سے مستقبل جڑا ہوا ہے، ایران سے بھی ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات بہتر ہوں، تاہم کچھ پابندیاں آڑے آجاتی ہیں،اسی طرح بھارت کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود ہمسائے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں اور ہم اس کی کوشش کر رہے ہیں۔پاک ایران سرحد پر باڑ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ دنیا بدل گئی ہے، پہلے ایسی دہشتگردی نہیں تھی، اس کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھانے پڑے اور باڑ لگانا بھی اسی کا ایک قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچ تنظیموں کی پشت پناہی کون کررہا ہے، ان کو ہتھیار کہاں سے ملتے ہیں، ان کی حمایت کون کرتے ہیں، ان کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں یہ سب کو معلوم ہے، بلوچستان میں جان بوجھ کر بدامنی پھیلائی جاتی ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاک ایران تعلقات سے غافل نہیں ہوں، اس واقعے پر غم و غصہ ہے لیکن ہم بھائی اور دوست ہیں اور اسے کے حوالے سے توقعات رکھی ہیں۔ پاکستان نے اورماڑہ میں دہشت گردی کے واقعہ پر ایران سے شدید احتجاج کیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اورماڑہ میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے 14افراد کی شہادت میں ملوث دہشتگرد وں نے ایرانی سرزمین استعمال کی ۔وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے کو احتجاجی مراسلہ بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایران کو بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے تربیتی کیمپوں اور سرحد پار لاجسٹک مراکز سے آگاہ کرچکا ہے، پاکستان نے پہلے بھی ایران سے کئی بار کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور معلومات بھی فراہم کیں لیکن پاکستان کی جانب سے انٹیلی جنس شیئرنگ کے باوجود ایران نے ان دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔مراسلے میں کہا گیا کہ 18 اپریل کو ایف سی یونیفارم میں ملبوس 15 سے 20 دہشت گردوں نے بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں بری ٹاپ کے قریب 3 سے 4 بسوں کو روکا، یہ بسیں اورماڑہ سے گوادر کوسٹل ہائی وے پر سفر کر رہی تھیں جنہیں بوزی ٹاپ کے قریب روکا گیا، دہشت گردوں نے 14 افراد کو بسوں سے اتار کر قتل کردیا جن میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے۔مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران سے تعلق رکھنے و الے دہشتگردوں کی جانب سے 14 افرد کا قتل انتہائی تشویشناک ہے۔واضح رہے کہ 18 اپریل کو بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں کوسٹل ہائی وے پر دہشت گردوں نے بس سے اتار کر 14 افراد کو شناخت کرکے شہید کیا جس میں پاک بحریہ کے اہلکار بھی شامل تھے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain