تازہ تر ین

ارکان اسمبلی اکثر فنڈز لینے کے لیے وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اصل میں جب ذاتی دشمنیاں آ جائیں اور ہر کام اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے کہ یہ کام کرنے سے پہلے کسی کو فائدہ ہو گا اور کسی کو نقصان تو پھر وہ قومی سیاست نہیں رہتی وہ ایک جوڑ توڑ کا ذریعہ بن جاتی ہے جن کو سامنے لانا مقصود ہوتا ہے انہی کو گھوم پھر کر ساری ٹوپیاں پہنائی جاتی ہیں چنانچہ مسلم لیگ ن کی یہی پوزیشن ہے بہتر ہوتا کہ مسلم لیگ ن اچھی پارٹی ہے ان کی اچھی اکثریت تھی آج بھی ہے جس طرح کہ اب افواہیں پھیل رہی ہیں کہ 15 لوگ ان کے جا رہے ہیں کوئی 20 کہہ رہا ہے۔ یہ جمہوریت کے لئے خوش آئند چیز نہیں ہے۔ اکثر دوستوں کا خیال ہے کہ یہ جو طاہر القادری کی پارٹی کے جو لوگ شہید ہوئے تھے یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملی ہے ورنہ رانا ثناءاللہ پڑھے لکھے آدمی ہی سمجھدار آدمی ہیں وہ کوئی کسی کریمنل بیک گراﺅنڈ کا آدمی ہے ہی نہیں۔ یہ مریم اورنگزیب صاحبہ کا نقطہ نظر ہے کہ یہ انتقامی کارروائی ہے وہ ن لیگ کی سینئر رہنما ہیں۔ میرا اب بھی یہ ایمان ہے میں نے ایک بہت پرانا واقعہ ہے جماعت اسلامی کا ایک جلسہ ہو رہا تھا بھائی گیٹ لاہور میں اور امیر محمد خان اس وقت گورنر مغربی پاکستان تھے انہوں نے جلسہ میں کچھ بدمعاش بھجوا دیئے جنہیں کہا گیا کہ اس جلسے کو الٹ دو وہ لوگ وہاں گئے ان کے پاس گنیں تھیں اور باقاعدہ مسلح تھے انہوں نے جا کر کچھ گولیاں چلائیں ایک کارکن عبدالمالک شہید ہو گئے اور اس کے بعد لوگ ادھر ادھر منتشر ہو گئے میں جو بات کہتا ہوں کہ یہ کسی بھی انسان کے سامنے آ جاتی ہے اور جس شخص نے ملک امیر محمد خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو کامیاب کرانے کے لئے جماعت اسلامی کا جلسہ ختم کروایا تھا اور ایک کارکن کو ناحق شہید کروایا تھا وہ لاﺅڈ سپیکروں پر لگے ہوئے تھے اس کا انجام ہوا کہ ملک امیر محمد خان جو تھے جو ان کے بیٹے جو ان کے ولی عہدہی تھے وہ خود سیاہ و سفید کے مالک تھے ملک امیر خان قتل ہوئے اس کے علاوہ جس شخص نے پلان کیا تھا یہ پولیس کا حملہ یہ ریکارڈ پر موجود ہے وہ کہتے ہیں وہ کوڑی ہو کر مر گیا تھا اس کے پاس کوئی جا نہیں سکتا تھا اور بھی اس قسم کے کتنے واقعات ہیں یہ یہ سمجھتا ہو ںکہ اگر آپ نے کسی کی جان لی ہے تو اس دنیا میں تو جو اصول ہے وہ انسانی جان وہ لے کے دیتی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج بھی اس قسم کا ماحول ہے خواہ کوئی بھی حکومت ہو، پی ٹی آئی کی حکومت ہو، لیکن یہ ذہن میں رکھے کہ اگر اس نے اپنے رستے سے بھٹک کر کوئی غلط قدم اٹھایا تو تاریخ اس کے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہو جائے گی۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ضیاءالحق کے بارے میں تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سارے معاملات پر میں نے خود لکھا ہے اور چھاپا ہے کہ ایک مرتبہ کچھ ویڈیو فلمیں، تصاویر اور کچھ چیزیں آ گئیں تو انہوں نے جنرل رفاقت سے کہا کہ اسے فوراً اس وقت تلف کر دو بلکہ وہ اٹھ کر اپنے کمرے سے نکلے اور آرمی ہاﺅں پرانے میں سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے اور جہاں کارپارکنگ تھی وہاں کھڑے ہو کر صدیق سالک بھی میرے پاس تھا اس نے کہا کہ انہوں نے اپنے سامنے ان ویڈیو کو جلوا دیا کہ نعوذ باللہ ہم بھی بیٹیوں والے ہیں۔ میں نے یہ سمجھتا ہوں کہ تاریخ میں جن حکمرانوں نے ان روایات کو برقرار رکھا اور اس افراط و تفریط کی حد تک گئے اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی طرف سے مہربانی بھی دکھائی۔ جنرل ضیاءالحق کے بارے جو کہا جاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ ایک فوجی ڈکٹیٹر شپ کی نمائندگی کرتے تھے لیکن لوگوں سے طرز عمل اور رویہ اور میل ملاپ میں ایک نرم خو تھے۔ یہ ایک عجب تھیوری ہے کہ اعجاز الحق ان کے صاحبزاے تھے لیکن آپ حکومت میں تھے اور مسلسل حکومتوں میں رہے اس کے باوجود ہر سال ایک مرتبہ تو یہ یقین سے اعلان کیا کرتے تھے کہ ان کے قتل کا کھوج لگایا جائے نوازشریف دور میں تحقیقات نہیں ہوئی تھی تو ان کو وزارت چھوڑ دینی چاہئے۔ اگر تحقیقات ہو جاتی تو اتنا بڑا راز تھا اس ملک کا اب تک اس پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ کیا ہوا تھا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے جن لوگوں نے عمران خان سے ملاقات کی ہے ان کو چاہئے کہ بتائیں کہ وہ کس لئے ملے تھے انن کا حق ہے عوام کا بھی حق ہے کہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے انہیں ووٹ دیئے تھے آج وہاں نہیں ہیں جہاں ان کوووٹ دیئے تھے یہ ایک اخلاقی طور پر عوام کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے امیدوار سے پوچھیں کہ آپ پارٹی کیوں تبدیل کی۔ اور کس وجہ سے تبدیل کی۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں مثال کے طور پر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کافی سخت سست باتیں کرتا رہتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جس طرح کے حالات ہیں۔ موسم ہیں اس میں بھی آپ دیکھیں تو ایک چیز کی بڑی شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ آب و ہوا جانوروں کی افزائش کے لئے چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک میدان میں وہ جس وقت نیچے کچے فرش پر سب کچھ چل رہا ہوتا ہے بیٹھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس ملک میں وہ ایک ملک میں بھی جس میں چاروں طرف بند اندھیرا ہے اور ہر طرف دروازے بند ہیں اور اندر سے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ ایسی اقسام متعارف کرنی چاہئے جو مختلف موسموں کے اندر نشوونما پا سکیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم میں جو3 دن کی توسیع کر دی ہے بہرحال یہ ان کا نقطہ نظر ہے وہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت کو کیا کرنا ہے لیکن عام طور پر کسی بھی ملک کے وزیراعظم کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے کھل کر بات کر سکیں۔ اسد عمر صاحب جو وزیرخزانہ ہوتے تھے ان کے زمانے سے شروع ہو کر وزارت خزانہ پر اتنا جالا جمع ہو چکا ہے بڑا مشکل ہے ہر چیز کو نتار کر دھو دھلا کر پیش کرنا، پھر شبر زیدی صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ جس نقطہ نظر سے ایک چیلنج قبول کر کے آئے اس میں آپ کو کس حد تک کامیابی ہوئی۔ آپ اس وقت چیزوں کو کس طرف جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کیا عمران خان صاحب یہ خواہش ہے کہ عنقریب معاملات اتنے اچھے ہو جائیں گے کہ سب لوگ دعائیں مانگا کریں گے کہ یہ یا اللہ کاش یہ دن پہلے آ جاتے۔
آصف زرداری بڑے متحمل مزاج آدمی ہیں وہ طیش میں آنے والے آدمی نہیں ہیں ورنہ پیپلزپارٹی اپنے چیئرمین کی گرفتاری پر جس طرح جذباتی ہو رہی تھی اس کے سنجیدہ نتائج بھی برآمد ہو سکتے تھے۔ نوازشریف کیس اب دو تین ہفتے کا کھیل ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ کوئی این آر او نہیں دیا جائے گا اپوزیشن کہتی ہے کہ کوئی این آر او نہیں مانگ رہے۔ حکومت کے اہم وزراءبیان دے رہے ہیں کہ ڈیل ہو رہی ہے اب کس کی بات کو درست تسلیم کیا جائے۔ معاشی مسائل اب دوچار ماہ کا کھیل ہے اسے زیادہ کھینچا نہیں جا سکتا حکومت کو اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain