تازہ تر ین

کرپشن خاتمہ کا ایجنڈا خوش آئند ، پاکستان کو امیج بہتر بنانا ہو گا : سبکدوش سفیر یورپی یونین کی چینل ۵ کے پروگرام ’ڈپلو میٹک انکلیو “ میں گفتگو

اسلام آباد(انٹرویو :ملک منظور احمد ،تصاویر: نکلس جان) سبکدوش ہونے والے یورپی یونین کے سفیر مسٹر جین فرانسز کوتاں نے کہا ہے کہ یو رپی یونین اور پاکستان کے درمیان طویل مدتی بنیادوں پر مستحکم سیاسی سفارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں پاکستان کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اپنے امیج کو بہتر بنانا ہو گا۔موجودہ حکومت کا کرپشن کے خا تمے کا ایجنڈا خوش آئند ہے پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل درخشاں دیکھ رہا ہوں۔پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان باہمی تجارتی حجم 13ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو پاکستان کی کل تجارت کا 35فیصد حصہ ہے یو رپی یونین پاکستان کو معا شی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتی ہے یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس دیے جانے کے بعد پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر ترقی دینے کے اصلاحاتی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں وہ ایجنڈا خوش آئند ہے۔دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کی قربانیاں لازوال ہیں پاکستان میں سیکورٹی کے حوالے سے صورتحال بہت بہتر ہو چکی ہے لیکن اب بھی بیرونی دنیا کے لو گ پاکستان کو محفوظ نہیں سمجھتے ان لوگوں کو آہستہ آہستہ اس بات پر یقین آئے گا۔میرے 4سالہ دور میں یو رپی یونین اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو بہت فروغ ملا ہے میں پا کستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں۔ان خیالا ت کا اظہار انھوں نے چینل فائیو اور خبریں کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے کیا۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسٹر کوتاں نے کہا کہ پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 13ارب ڈالر ہے ،جو کہ پا کستان کی کل تجارت کا 35فیصد حصہ بنتا ہے ،پاکستان کی برآمدات کا سب سے بڑا حصہ بھی یورپی یونین کو ہی جاتا ہے ،پاکستان کا یورپی یونین کے ساتھ برآمدات کا توازن 600ملین یورو تک مثبت ہے جو کہ پا کستان کے لیے بہت ہی اچھی چیز ہے حال ہی میں پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تجارت میں 60فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور پا کستان اور یورپی یونین دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی برآمدات بڑھا دی ہیں،جو کہ اچھی بات ہے۔ہم پاکستان کے ساتھ اپنی تجارت سے بہت مطمئن ہیں ،لیکن میرے خیال میں پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے ،پاکستان یورپی یونین کو روایتی شعبوں یعنی ٹیکسٹائل ،چمڑے کی مصنوعات ،سرجیکل آلات اور جوتے وغیرہ درآمد کرتا ہے ،پاکستان کو اپنی برآمدات میں مزید وسعت لانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی معیشت کا 40فیصد حصہ ابھی بھی زراعت پر مبنی ہے پاکستان کو اس کافا ئدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زرعی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہوگا ،اس سے پا کستان میں زراعت سے وابستہ افراد کو بہت فائدہ ہو گا اور پا کستان کے دہی علاقوں سے غربت کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔اس حوالے سے ہم سندھ حکومت کے ساتھ مل کر ایک پروگرام بھی چلا رہے ہیں اس پروگرام کے تحت سندھ حکومت ،چھوٹے شہروں اور دیہات میں غربت کے پر توجہ دے رہی ہے ہمیں امید اس پروگرام کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ایک سوال کے جواب میں یورپی سفیر نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں پاکستان میں جمہوری نظام نے تقویت پکڑی ہے ،اور ہمارے اوبزور مشن نے بھی پا کستان میں الیکشن کا معائنہ کیا ،مسٹر اوگیلو کی سربراہی میں اس کمیشن نے انتخابات کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں انھوں نے الیکشن پراسیس کو بزات خود شفاف قرار دیا ہے لیکن انھوں نے اس رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کچھ قوتوں نے مداخلت کی ،ہمارے اسی مشن نے پا کستان کے 2013ئ کے انتخابات کوبھی مانیٹر کیا تھا اور الیکشن میں ہمارے مشن کی جانب سے حکومت پا کستان کو دی جانے والی تجاویز پر 2018ئ کے الیکشن میں کسی حد تک عمل درآمد بھی کیا گیا ہے ،اب بات آگے بڑھنے کی ہے ،ان انتخابات کے بعد بھی ،ہمارے الیکشن آبزرورز نے حکومت پا کستان کو انتخابات کی بہتری کے لیے ،30تجاویز پیش کیں ہیں،اب دیکھنا یہ کہ ان تجاویز پر کتنا عمل درآمد کیا جاتا ہے،اگر ان تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے تو الیکشن کی شفافیت اور خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہو گا ،اس بار کے الیکشن میں پا کستان میں براہ راست الیکشن کے ذریعے آنے والی خواتین کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے ،ہماری سفارشات سے اس کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ایک سوال کے جواب میں مسٹر کوٹا نے کہا کہ ،اگر ہم پا کستان تحریک انصاف کے منشور پر نظر ڈالیں،تو حکومت غربت کے خاتمے پر کام کرنا چاہتی ہے ،عدم مساوات پر توجہ دینا چاہتی ہے ،تعلیم اورصحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ،کرپشن کے خاتمے اور گورننس کے نظام کو بھی بہتر کرنا چاہتی ہے ،یورپی یونین بھی ان تمام شعبوں میں پاکستان کے ساتھ پہلے ہی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔پاکستان کو کچھ معاشی مشکلات کا سامنا بھی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ پا کستان کی حکومت ان مشکلات کے باوجود اپنے منشور پر عمل درآمد کر پاتی ہے یا نہیں۔پاکستان میں یورپی سرمایہ کاری ،کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ،انھوںنے کہ ،سرمایہ کار کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ،اس ملک میں ان کا سرمایہ محفوظ ہو گا یا نہیں ،پاکستان کی نئی حکومت کا اس حوالے سے وڑن مثبت ہے ،اور پاکستان میں کاروبار کرنے کے حوالے سے ،آسانی میں دس پوائنٹس کی بہتری ضرور آئی ہے لیکن اب بھی پورپین یونین میں پا کستان کو کاروبار کے حوالے سے ایک مشکل ملک سمجھا جاتا ہے ،اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستان کا بیرونی دنیا میں امیج بہتر کیا جائے ،پاکستان میںسیکورٹی کی صورتحال ،بہت بہتر ہوچکی ہے لیکن اب بھی بیرونی دنیا کے لوگ پا کستان کو اتنا محفوظ نہیں سمجھتے ،ان لوگوں کو اس بات کا آہستہ آہستہ ہی اندازہ ہو گا کہ پا کستان اب 2010ئ یا 2011والا پاکستان نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود سرمایہ کاروں کی بہتری اور کاروبار کی بہتری کے لیے ون ونڈو آپریشن اور ڑیدڈ ٹیپ کا خاتمہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ایک اور ایشو یہ ہے یہ حکومت این جی اوز کے خلاف کاروائی کر رہی ہے اور اس سے یورپی سرمایہ کاروں کو تحفظات ہیں ،اس مسئلہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے ،ایک اور شعبہ ہے جس میں یورپی سرمایہ کار سرمایہ کاری کر سکتے ہیں وہ توانائی کا شعبہ ہے ،پاکستان میں سی پیک کے تحت کوئلہ سے چلنے والے منصوبے لگائے گئے ہیں ،یورپین سرمایہ کار پا کستان میں ہوا اور سورج سے چلنے والے توانائی منصوبے لگانے میں مدد دے سکتے ہیں ،ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ،یورپی یونین صرف پا کستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے بہت کام کر رہی ہے ،یورپی یونین جمہوریت ،قانون کی بالا دستی اور انسانی حقوق کے احترام کے اصولوں پر قائم ہے ،یہ ہماری خارجہ پالیسی کے اصولوں کاحصہ ہے ،پا کستان میں ہم نے ہومن رایٹس فلم فیسٹول کا آغاذ تین سال قبل کیا تھا اس فیسٹول میں ہمارے پاس دنیا بھر سے فلمز آتیں ہیں ،ان فلمز میں انسانی حقوق سے متعلق اچھی اور بری کہانیاں پیش کی جاتیں ہیں ہم یہ کہانیاں پاکستان کی یونیورسٹیوں اور سینما میں بھی نمائش کے لیے پیش کر رہے ہیں ،اس کے علاوہ پہلی بار کراچی ،لاہور اور اسلام آباد کے علاوہ ،کئی چھوٹے شہروں مثلا گجرات ،سوات پشاور سمیت کئی اور شہروں میں بھی یہ فلمیں دیکھائی جا رہی ہیں ،یہ بہت ضروری ہے کہ ان فلموں اور ان کے موضوعات سے متعلق سوچا جائے اور بحث بھی کی جائے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یورپی کمیشن کے ساتھ پا کستان کی میٹنگ ہر سال ہوتیں ہے،یہ سیاسی سطح پر نہیں بلکہ سفارتی سطح پر ہوتی ہے۔ان ملاقاتوں میں سیاسی صورتحال ،معاشی مسائل ،ملٹری ٹو ملٹری بات چیت ، جمہوریت اور انسانی حقوق سمیت ہر قسم کے ایشوز پر بحث کی جاتی ہے۔یہ بات چیت ایک ہفتہ تک جاری رہتی ہے ،اور اس میں دونوں اطراف سے اختلاف رائے بھی سامنے آتا ہے،پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہو ئے مسٹر کوتاںکا کہنا تھا کہ ،اس حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت نہیںہے ، کستان کے دہی علاقوں کے عوام پہلے ہی اس حوالے سے بہت باشعور ہیں ،میں جہاں بھی گیا چاہے وہ سندھ ہو یا بلوچستان کے پی کے یا کوئی اور علاقہ ،وہاں کے عوام ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے واقف ہیں ،اگر کوئی بھی انسان کسان ہے تو اسے پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں اگاہی حاصل ہے ،یورپی یونین بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ،اگر ہم سال کا 100ملین ڈالر پا کستان میں خرچ کرتے ہیں تو اس کا 20 فیصد ہم ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس سے منسلک امور پر خرچ کرتے ہیں،اس کے ساتھ منسلک ایک مسئلہ اور بھی ہے جو کہ بہت ہی گھمبیر ہے وہ پا کستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے ،پا کستان کی آبادی سالانہ بنیادوں پر 2.4فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو 2050ئ میں پا کستان کی آبادی 40کروڑ تک پہنچ جائے گی ،اگر کسی بھی ملک کی آبادی اتنی تیزی سے ہی بڑھتی رہے تو کوئی بھی ملک اپنے عوام کو تعلیم ،صحت اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم نہیں کر سکتا۔مجھے خوشی ہے کہ پا کستان کی حکومت اس مسئلہ پر بھرپور توجہ دے رہی ہے۔پاکستان میں پانی کی کمی کے حوالے سے انھوںنے کہا کہ ،یورپی یونین اس حوالے سے بھی پا کستان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے ،خاص طور پر حکومت بلوچستان کے ساتھ ،میں نے کچھ عرصہ قبل بلوچستان کا دورہ کیا اور ،وہاں کے ایک وزیر سے یہ پو چھا کہ آپ یورپی یونین سے کس شعبے میں زیادہ تعاون چاہتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ پانی کی فراہمی کے حوالے سے ،میں نے پشین کا دورہ بھی کیا ،وہاں کے کسانوں کے ساتھ بات چیت بھی کی ان سب کا یہی کہنا تھا کہ پانی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،یورپی یونین کوشش کر رہی ہے کہ اس حوالے سے نئی ٹیکنالوجی متارف کروائی جائے ،جس سے پا نی کے وسائل بڑھانے میں مدد مل سکے ،یورپ میں بھی کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پانی کی کمی ہے ہم نے وہاں پر کچھ ایسے طریقے متعارف کروائے ہیں جن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو پا نی کی کمی نہیں ہوتی۔پاکستان کو وفاقی سطح پر اس حوالے سے ایک مربوط پا لیسی اپنانی ہوگی ،یورپی یونین اس حوالے سے مدد دے سکتا ہے۔موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی سمت درست نظر آرہی ہے ،اور لگ رہا ہے کہ یہ حکومت عوام کے لیے اچھی ثابت ہوگی لیکن پا کستان میں صرف 10لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں یہ شرح بہت ہی کم ہے لوگوں کو ٹیکس دینا ہوگا ،پاکستان کی ایک فارم اکانومی کے ساتھ ایک ان فارمل اکانومی بھی ہے اس کو بھی قومی دھارے میں لانا ہو گا ،یہ مشکل کام ہے اور اس میں حکومت کے لیے بہت سی مشکلات بھی ہیں لیکن ،عوام کی بہتری کے لیے یہ کام کرنا ہو گا۔پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان دفاعی تعاون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ،یورپی یونین ایک دفاعی ادارہ نہیں ہے ،ہم سیکورٹی کے لیے اپنے رکن ممالک پر انحصار کرتے ہیں ،یورپی یونین کی کوئی فوج نہیں ہے ،اس لحاذ سے یورپی یونین ایک الگ تنظیم ہے ،لیکن اس کے باوجود ہم اقوام متحدہ کے امن 17امن مشنز میں حصہ لے رہے ہیں،بحری قذاقی کے خلاف بھی ہم بہت ہی فعال ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain