لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو دیکھ کر مایوسی ہوئی، مجھ سمیت ہر پاکستانی کی خواہش تھی کہ حکومت اور اپوزیشن مسئلہ کشمیر پر ایک نظر آتے اور کہتے کہ ہم شہریوں کے دکھ درد میں ساتھ کھڑے ہیں اس سے بھارتی حکومت میڈیا پارلیمنٹ اور عوام کو پیغام جاتا کہ پورا پاکستان متحد کھڑا ہے۔ پارلیمنٹ میں کبھی تقریر پہلے کرنے پر بحث ہوتی رہی کبھی اس پر بحث ہوتی رہی کہ وزیراعظم تب آئیں گے کہ ان کی تقریر میں مداخلت نہ کی جائے، تمام چینلز بھی کائٹ فلائنگ کرتے رہے اپنے اپنے تبصرے کرتے رہے کہ اب یہ اختلاف چل رہا ہے اب دوسرا ہے بڑی بدقسمتی ہے کہ صرف ایک دن اور کشمیر جیسے مسئلہ پر بھی حکومت اور اپوزیشن اکٹھے نہ ہو سکے۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں وزیراعظم کے لتے لئے اور تنقید کی۔ بلاول بھٹو کی تقریر بری متوازن اور اچھی تھی اس میں کوئی اختلاف رائے ظاہر نہ ہوتا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے جاتے وقت شہباز شریف کو کہا کہ آپ تو چاہتے تھے کہ ہم اسی وقت جنگ کا اعلان کر دیں۔ اگر جنگ کا اعلان کرنا تھا تو تینوں مل کر کرتے اور کہتے کہ بھارت اگر اپنے اقدام واپس نہیں لیتا تو ہم اعلان جنگ کرتے ہیں۔ مشترکہ اجلاس اگر کشمیر جیسے نازک موضوع پر تھا تو اس تک محدود رہنا چاہئے تھا اور تمام پارلیمنٹرینز کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح ساتھ کھڑے ہونا چاہئے تھا۔ امریکہ نے بھارت کے مذموم اقدامات پر بڑے نرم الفاظ استعمال کئے صرف اتنا کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تشویش ہے، یہ الفاظ ناکافی ہیں امریکہ کو آگے بڑھ کر یہ مضبوطی کے ساتھ کردار ادا کرنا چاہئے۔ بعض بھارتی چینلز دعویٰ کر رہے ہیں کہ مودی سرکار نے امریکہ کو ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی آگاہ کر دیا تھا۔ لندن تو آدھا کشمیریوں سے بھڑا پڑا ہے وہاں تو بھارت کے خلاف طوفان کھڑا ہو جانا چاہئے تھا وہاں سے بھی کوئی سخت ردعمل کا سامنے نہ آنا اچھا تاثر نہیں ہے، بھارت نے جیسا ایکشن کیا تھا لندن میں مقیم کشمیریوں نے ویسا ردعمل نہیں دیا۔ کشمیر میں ظلم و بربریت کا کھیل جاری ہے۔ حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما علی گیلانی بڑی نفیس شخصیت ہیں انہوں نے ا±مت مسلمہ سے بڑی دردمندانہ اپیل کی ہے اس وقت تمام مسلم ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور کشمیر میں بھارتی مظالم کو روکنا چاہئے۔
