راولپنڈی(ویب ڈیسک)پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کشمیری عوام کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج جدوجہد آزادی میں کشمیریوں کے ساتھ ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے پریس کے آغاز میں کہا کہ آج بریفنگ کا بنیادی مقصد مقبوضہ کشمیر ہی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں بہادر کشمیریوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آزادی کی اس جدوجہد میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہماری سانسیں آپ کے ساتھ چلتی ہیں، 72 سال آپ نے بھارتی دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے، آپ کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی جیسے ناپسندیدہ عمل سے تابیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ آپ کی ثابت قدمی کو سلام ہے، ہمیں آپ کی موجودہ مشکلات کا بھرپور احساس ہے، ہم آپ کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور انشااللہ کھڑے رہیں گے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہمیں رب سے امید ہے کہ آپ اپنا جائز حق خود ارادیت حاصل کرکے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ثابت قدم رہیں، آزادی کی جدوجہد بہت لمبی ہوتی ہے، پاکستان کی آزادی کی جدوجہد 1947 میں شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا آغاز 1857 سے ہوگیا تھا، اتنی لمبی جدوجہد کرکے ہم نے پاکستان حاصل کیا اور کشمیر کے لیے بھی اس جدوجہد پر نہ کوئی سمجھوتہ ہوگا اور نہ اس میں کوئی کمی آئے گی۔
’مسئلہ حل نہیں ہوا تو جنگ کا آپشن مجبوری ہوجائے گا‘
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی افواج اس کی خودمختاری اور سلامتی کی محافظ ہوتی ہیں، اگر قومی طاقت کے دوسرے عناصر مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو روکنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوتے تو جنگ لڑنا مجبوری میں ایک آپشن بن جاتا ہے اور پھر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اس کے لیے ہم کوئی بھی قدم اور کسی بھی انتہا تک جائیں گے خواہ اس کی ہمیں کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے، پاکستانی عوام، حکومت اور افواج پاکستان آخری گولی، آخری سپاہی، آخری سانس تک پرعزم ہیں اور رہیں گے۔
’بھارت جنگ کا بیج بورہا ہے‘
بھارت کی بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں وہاں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلت سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف مظالم جاری ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت بھارت میں ہٹلر کے پیرور کا فاشسٹ مودی کی حکومت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، اور خطہ بھی امن کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن بھارت اس وقت نئی جنگ کا بیج بو رہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت ثالثی کی پیشکش کو قبول نہیں کرتا تو پھر نریندر مودی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں جو بات کررہے ہیں اسے کیا کہتے ہیں؟میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت مانتا ہے کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے، تاہم اس نے ا?رٹیکل 370 ختم کرکے یہ معاملہ ختم کیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت حکومت کی خواہش ہے کہ وہ کچھ اس طرح دباو¿ بڑھائے کہ وہاں لوگ مشتعل ہوں جسے وہ دہشتگردی کا نام دے۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان اب دھوکے میں نہیں آئے گا، کیونکہ پاکستان کشمیر میں اس طرح کی کارروائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
’وزیراعظم دیگر ممالک کے سربراہان سے رابطے میں ہیں‘
انہوں نے کہا کہ جنگ لڑنا جنگ کا حصہ ہے، تاہم اس سے قبل ملک کے دیگر عوامل جس میں سفارتکاری، معیشت، قانون، انٹیلی جنس اور معلومات کا رد عمل چلتا رہتا ہے۔اپنی بات جو جاری رکھتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ سفارتی سطح پر پاکستان کشمیر کا معاملہ 50 سال بعد سلامتی کونسل میں لے کر گیا جو بڑی کامیابی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے تقریباً 13 ممالک کے سربراہان سے بات چیت کی ہے اور نہیں کشمیر کے بارے میں آگاہ کیا۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ جو مسئلہ پہلے دبا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے آرہا ہے اور دنیا اس معاملے کو اپنے سامنے رکھ رہی ہے۔ان یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے کہ یہ معاملہ جنگ کے بجائے پر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
’پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کے نو-فرسٹ-یوز کی کوئی پالیسی نہیں‘
اسٹریٹجک صلاحیت اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق سوال کے جواب میں میجر جنرل ا?صف غفور نے کہا کہ یہ معاملہ سنجیدگی نوعیت کا ہے جس پر عام مقامات یا پریس کانفرنس پر بات نہیں کی جاسکتی۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے میجر جنرل ا?صف غفور نے کہا کہ یہ عوام کے کرنے کی باتیں نہیں ہیں، بس انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اثاثہ ہیں اور جب انہیں خطرہ ہوگا تو انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت نے اپنی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی نو-فرسٹ-یوز کی کوئی پالیسی نہیں ہے، تاہم اگر بھارت پہلے استعمال کرتا ہے تو یاد رکھے کہ پہلے کے بعد دوسرا بھی آتا ہے‘۔آزاد کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ کا محور مشرقی سرحد ہی ہے، تاہم اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہماری مغربی سرحد کو کمزور بنادے گا تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے بھارت کو واضح رہنا چاہیے۔
’اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں پروپیگنڈا ہیں‘اسرائیل سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہائبرڈ جنگ سے نبرد آزما ہے اور اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ قوم میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اسرائیل سے متعلق گزشتہ 72 سال سے جوموقف رہا ہے وہ برقرار ہے اور اس میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور اس کے تسلیم کرنے سے متعلق باتیں پروپیگنڈا ہیں۔
’ملکی استحکام خطے کے ماحول سے جڑا ہوتا ہے‘
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان کے مشرق میں ایک ایسا ملک ہے جس کے خطے کے بڑے پلیئرز کے ساتھ معاشی مفادات جڑے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے شمال میں دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت چین ہے، جس کے بھارت کے ساتھ کچھ اختلافات موجود ہیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہمارے مغرب میں افغانستان ہے جو دنیا کی بڑی طاقتوں کا مرکز رہا ہے جبکہ جنوب مغرب میں ایران موجود ہے جس سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن مشرق وسطیٰ کے ماحول کی وجہ سے اس ملک کو مسائل درپیش ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملکی استحکام اندرونی اور خطے کے ماحول سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
’آرمی چیف ایکسٹینش نہیں چاہتے تھے‘
آرمی چیف سے متعلق سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آرمی چیف وزیراعظم کے ماتحت ہیں وہ اسی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ خود بھی آرمی چیف کے عہدے پر براجمان نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ 41 سال فوج میں سروس کرنے کے بعد ہس شخص آرام کرنا چاہتا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پہلی مرتبہ کسی چینی صدر نے کسی بھی پاکستانی آرمی چیف کو بلایا اور ان سے ملاقات کی۔اپنی بات جو جاری رکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے زیر استحقاق رکھا گیا (آرمی چیف کو ایکسٹینشن دی گئی)، تاہم اس کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج ایک پیشہ ور فوج ہے، جس طرف آرمی چیف دیکھتے ہیں، پوری فوج اسی طرف دیکھنے لگتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔بھارتی آئین کی دفعہ 35 ‘اے’ کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ
ا?ئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں ا?ئی۔بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔
عالمی میڈیا نے بھارت کے کردار پر سوالات اٹھادیے
واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔
پاکستان کے جوابی اقدام
بھارتی اقدام کے بعد پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوگیا، جبکہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کردیے تھے۔علاوہ ازیں پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی اور ثقافتی تعلقات بھی معطل کردیے تھے۔کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی اور بھارتی اقدام کی مذمت کے خلاف قومی اسمبلی سے متفقہ قرارداد منظور ہوئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ’کشمیر ا?ور‘ منانے کا بھی اعلان کیا تھا۔
سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک
بھارتی کی جانب سے ا?رٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ، دیگر ممالک سے رابطے میں ہیں بلکہ اسلام ا?باد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوا جبکہ یورپی یونین کے اجلاس میں بھی اس پر بات چیت ہوئی۔یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی ا?نکھ میں ا?نکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔علاوہ ازیں امریکی۔ کینڈین نیوز چینل ‘وائس نیوز’ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دنیا کو باور کروایا تھا کہ ’ بھارت اس وقت ا?گ سے کھیل رہا ہے جو اس کے سیکولرزم کو جلا کر راکھ کردے گی‘۔
