اسلام آباد (ویب ڈیسک)سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے وزرائے خارجہ ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے۔اسلام آباد کے نور خان ایئربیس پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور امارتی ہم منصب عبداللہ بن زاید بن سلطان النہیان کا پرتپاک استقبال کیا۔اس دوران شاہ محمود قریشی نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے غیر رسمی گفتگو بھی کی۔بعد ازاں وزیرخارجہ کے ہمراہ سعودی وزیر عادل الجبیر اور اماراتی وزیر عبداللہ بن زاید بن سلطان دفترخارجہ گئے، جہاں تینوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان بات چیت ہوئی۔سعودی عرب اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ اپنے دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کریں گے۔واضح رہے کہ اس سے قبل 7 مارچ کو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔مارچ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کرنے کے لیے سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر اہم دورے پر پاکستان پہنچے تھے، جہاں انہوں نے پاکستانی رہنماو¿ں سے پاک بھارت کشیدگی اور خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی تھی۔واضح رہے کہ اماراتی وزیر خارجہ بھی ایسے وقت میں دورہ کر رہے ہیں جب خطے کی مجموعی صورتحال بھارت کی جانب سے 5 اگست کے اقدامات کے باعث کشیدہ ہے۔تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جاری صورتحال کے دوران ہی 24 اگست کو متحدہ عرب امارات نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا تھا۔متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد بن زید النہیان نے نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور انہیں امارات کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’آرڈر آف زیاد‘ سے نوازا تھا جبکہ اس دوران انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’آپ (ایوارڈ) کے حقدار ہیں‘۔بعد ازاں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات یا کسی بھی ملک کو اپنی مرضی سے کسی بھی ملک کے ساتھ باہمی تعلقات قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیے جانے پر میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ‘بین الاقوامی تعلقات مذہبی جذبات سے بالاتر ہوتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان سرمایہ کاری کے حوالے سے تعلقات کی تاریخ ہے تاہم میں جلد یو اے ای کے وزیر خارجہ سے ملاقات کروں گا اور انہیں مقبوضہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے بتاو¿ں گا’۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔بھارتی آئین کی دفعہ 35 ‘اے’ کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاﺅن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔
