واشنگٹن (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے امریکہ میں پریس بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ سعودی عرب نے مجھے ایرانی صدر سے بات کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے بھی ایرانی صدر سے بات کرنے کو کہا ہے، ملاقات کے حوالے سے ابھی نہیں بتا سکتا، ٹرمپ نے ایران سے ڈیل کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوشش ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت جلد شروع ہو جائے۔وزیراعظم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر عالمی برادری نے مایوس کیا ہے، 51دن سے کشمیر سے کوئی خبر نہیں آرہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک بحران کا آغاز ہے، پوری دنیا کو اسکا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آسکتی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کر سکتا ہے، مودی آر ایس ایس کے نظریے پر چل رہا ہے جبکہ آر ایس ایس کو کئی بار بھارت میں انتہا پسند تنظیم قرار دیا جا چکا ہے اور اسے کئی بار پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت جھوٹا پرپیگنڈہ کر رہا ہے کہ پاکستان کے اندر سے دراندازی ہو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 11قراردادوں میں مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ کہا لیکن بھارت کی انتہا پسند حکومت مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتی ہے، مقبوضہ کشمیر سے اچھی کبریں نہیں ارہی ہیں، کرفیو ہٹنے پر مقبوضہ کشمیر میں بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے، کوئی عقل والا شخص ایٹمی جنگ کے بارے میں نہیں سوچ سکتا لیکن اس بحران کی صورت میں دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آسکتی ہیں۔پاکستان نے امن کے لیے بھارتی پائلٹ کو واپس بھیجا لیکن اسے پاکستان کی کمزوری سمجھا گیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر 9لاکھ فوجیوں کے محاصرے میں ہے۔ 80لاکھ لوگوں کو کھلی جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے، جوانوں کو گھروں سے ہٹایا جا رہا ہے، بھارت ہمیشہ مذاکرات سے عاری رہا ہے، ہم نے پلوامہ واقعے کے ثبوت مانگے تو بھارت نے حملہ کر دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر 80لاکھ کی بجائے 8امریکن یا یہودیوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا کیا تب بھی دنیا کا یہی ردِ عمل ہوتا؟ وزیراعظم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت جیلوں میں ہے، بھارت نے بمباری کی ہم نے ان کے دو جہاز مار گرائے، کشمیری 70 سالوں سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں کی جا رہی ہی جوکہ اقوامِ متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا کو سامنے آنا ہو گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے لیے آواز اٹھانے پر ترک صدر اردوان کا بھی شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ طالبان کا وفد ان سے ملنا چاہتا تھا لیکن افغان حکومت نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔
