تازہ تر ین

ملیحہ لودھی کی بہو کے مودی سے مراسم، بینظیر بھٹو نے امریکی سفیر تعینات کیا

لاہور (نیٹ نیوز) ملیحہ لودھی کے خلاف سوشل میڈیا پر گزشتہ چند ماہ سے ایک مہم بھی چل رہی تھی جس میں ان کے بیٹے فیصل شیروانی کی اہلیہ کو مبینہ طور پر ایک بھارتی خاتون بتایا گیا تھا۔ بعض سوشل میڈیا پوسٹس میں دعوی کیا گیا تھا کہ فیصل شیروانی کی اہلیہ کے خاندان کے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بھی مراسم ہیں۔ملیحہ لودھی نے اپنے خلاف چلنے والی اس مہم کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ بعد ازاں ایک شخص نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جس میں وہ امریکہ میں ایک تقریب کے دوران ملیحہ لودھی سے ان کی کارکردگی پوچھ رہے تھے اور پاکستانی عملہ اس شخص کو روک رہا تھا۔اس تناظر میں ملیحہ لودھی کی غیر متوقع سبکدوشی نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے اور سوشل میڈیا پر کئی افراد اس معاملے پر رائے زنی کر رہے ہیں۔صحافی خرم حسین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ملیحہ لودھی کو عہدے سے اس وقت ہٹایا گیا جب (عمران خان کے) دورے کو کامیاب قرار دیا جا رہا تھا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ملیحہ لودھی کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد مختلف سابق سفارت کاروں نے انہیں بہترین سفارت کار قرار دیا ہے۔تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ ملیحہ لودھی کو ان کی تعیناتی کا وقت مکمل ہونے کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے۔ ان کے بقول ملیحہ لودھی کو بہترین سفارت کار مانا جاتا ہے اور ان کی جگہ منیر اکرم کو لانا معمول کی بات ہے۔سینئر صحافی شاہین صہبائی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ملیحہ لودھی پر الزام عائد کیا کہ وہ سینئرز اور جونیئرز کا احترام نہیں کرتیں اور بہت زیادہ اپنی ذات میں گم رہنے والی خاتون ہیں۔ملیحہ لودھی پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ بعض افراد نے ان کی تعریف بھی کی ہے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں ملیحہ لودھی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے بہت بااعتماد اور قابلِ احترام انداز میں ملک کی نمائندگی کی۔سابق سفیر عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ملیحہ لودھی کو دفترِ خارجہ میں بہت زیادہ تجربہ کار سمجھا جاتا ہے اور شاید انہیں کوئی اور اہم ذمہ داری سونپی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ملیحہ لودھی کی تعیناتی کی مدت رواں سال فروری میں مکمل ہوگئی تھی جس کے بعد انہیں توسیع دی گئی تھی۔عاقل ندیم نے بتایا کہ ملیحہ لودھی کی تعیناتی میں توسیع کی مدت بھی گزشتہ ماہ مکمل ہو گئی تھی جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس تک کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر میلحہ لودھی کو ان کے عہدے سے فارغ کرنا مقصود ہوتا تو وزیرِ اعطم عمران خان کی حکومت کو ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ انہیں شروع میں ہی اس عہدے سے ہٹایا جاسکتا تھا۔سینئر خاتون صحافی ماریانہ بابر کا کہنا ہے ملیحہ لودھی خود اپنا عہدہ چھوڑنا چاہ رہی تھیں۔ اس لیے اگر انہیں ہٹانا مقصود تھا تو اس کا اعلان انہیں خود کرنے دینا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں ملیحہ لودھی کے اچھے کیریئر پر حرف آتا نظر آ رہا ہے۔ملیحہ لودھی لندن اسکول آف اکنامکس سے فارغ التحصیل ہیں اور وہ پاکستان کے دو بڑے اخبارات کی ایڈیٹر بھی رہ چکی ہیں۔ملیحہ لودھی نے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا۔ انہیں پہلی مرتبہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں 1994 میں امریکہ میں پاکستانی سفیر تعینات کیا گیا تھا۔دوسری بار انہیں 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والے جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے 1999 سے 2002 تک امریکہ میں سفیر مقرر کیا تھا۔ملیحہ لودھی نے سال 2003 سے 2008 تک لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کے طور پر فرائض بھی سر انجام دیے تھے۔ 2015 میں ان کا تقرر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب کی حیثیت سے کیا گیا تھا اور اب سال 2019 میں فراغت تک وہ اسی عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ اقوامِ متحدہ میں تعینات ہونے والے نئے مستقل مندوب منیر اکرم سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت 2002 سے 2008 تک اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اقوامِ متحدہ سے ان کے قتل کی تحقیقات سے متعلق بعض امور پر منیر اکرم کے پیپلز پارٹی کی حکومت سے مبینہ طور پر اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق منیر اکرم کی عمر ستر برس سے زیادہ ہے اور وہ بھارت کے خلاف سخت خیالات کے حامی ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ ان کی تعیناتی پاکستان کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر ایک سخت موقف اپنانے کا نتیجہ ہو۔ دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ منیر اکرم ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں اور پاکستان ان کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔دریں اثنا ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے منیر اکرم کو ان کی تعیناتی کے حوالے سے مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں اپنی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کو سبکدوش کر کے ان کی جگہ منیر اکرم کو تعینات کرنے کی خبر کو بھارتی میڈیا میں نمایاں کوریج دی جا رہی ہے۔انگریزی روزنامہ ‘ٹائمز آف انڈیا’ کے مطابق سابق سفیر منیر اکرم کو 15 برس کے وقفے کے بعد دوسری مدت کے لیے نیویارک بھیجا جا رہا ہے۔انہیں 2003 میں گھریلو تشدد کے ایک معاملے کے بعد واپس بلایا گیا تھا۔ اس وقت حالات اتنے حراب ہو گئے تھے کہ امریکی وزارتِ خارجہ نے پاکستان سے ان کا سفارتی استثنی واپس لینے کا بھی کہہ دیا تھا۔روزنامہ ‘ہندوستان ٹائمز’ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ملیحہ لودھی کی برطرفی کا تعلق مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کے حق میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی سے ہے۔بھارتی اخبار ‘ٹائمز نا’ نے لکھا ہے کہ عمران خان اپنے دورہ امریکہ میں ملیحہ لودھی کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے۔انڈیا ٹی وی کے مطابق ملیحہ لودھی سے غلطیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہٹایا گیا ہے۔پاک بھارت تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار مفیض جیلانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی خود کو ایک عالمی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے دنیا کو درپیش چیلنجز پر اظہار خیال کیا۔ان کے بقول بھارت کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ مانتا ہے اور اس میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو تسلیم نہیں کرتا اسی لیے بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ تاکہ تنازع کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے پاکستانی موقف کو تقویت نہ مل سکے۔مفیض جیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عالمی سطح پر کشمیر کا معاملہ اٹھائیں گے۔ لہذا عمران خان نے اقوام متحدہ میں وہی کیا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain