لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ناظرین اور قارئین کو پتہ چلے کہ گزشتہ روز جو کارروائی ہوتی ہے اس میں کہاں تک پہنچے اور کس نتیجے تک پہنچے اور فیصلہ آج ہے اور بڑا اریخی موقع ہے کہ ایک طریقے سے خود چیف جسٹس صاحب نے یہ پوچھ بھی لیا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کب ہے ان کو بتایا گیا کہ کل رات کو ہو جائے گی اس لئے لگتا ہے وہ اس کا فیصلہ کل ہی کر دیں گے۔ آج ایک اور فیصلہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے غالباً یہ بھی ارشاد فرمایا ہے پرویز مشرف کے بارے میں جو ایک درخواست آئی ہوئی تھی کہ ان کا فائنل فیصلہ نہ سنایا جائے اس پر انہوں نے کہا کہ ان کو یہاں پیش ہو کر صفائی کا موقع ملنا چاہئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک سابق آرمی چیف کے بارے میں انہوں نے جس طرز عمل کا اظہار کیا ہے ظاہر ہے جو موجودہ آرمی چیف ہیں ان کے بارے میں بھی پروسیجنل ان کی جو بھی باتیں ہیں ان کی گفتگو کا جو مطلب میں سمجھ سکا ہوں وہ لے ڈاﺅن کرنا چاہتے ہیں قانون کو اور قانون کی موشگافیوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں تا کہ آئندہ کوئی اس قسم کا مسئلہ سامنے نہ آئے چنانچہ بار بار انہوں نے بار بار یہ پوچھا کہ کیا سول میں لوگوں کی ایکسٹینشن ہوتی ہے کیا ججز کو بھی ایکسٹینشن ملتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ججوں کو نہیں ملتی لیکن جو روایت رہی ہے کہ پرویز مشرف بھی آخری 6 برس تک ہر سال اپنے لئے ایک سال کی توسیع لیتے رہے تا کہ وہ آرمی چیف رہ سکیں۔ ویسے تو وہ اتنی دیر نہیں رہ سکتے تھے۔ اشفاق پرویز کیانی صاحب نے بھی 3 سال توسیع لی تھی یہ واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اب اگر چیف جسٹس کوئی نئے قانون یا قانون کی وضاحت میں کوئی نئی روایت سیٹ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی صوابدید ہے جو جس طرح سے چاہیں کر سکتے ہیں۔ غالباً اس کا آج فیصلہ ہو جائے گا اگر وہ آج بھی فیصلہ ہوا اور پرسوں پر کیس چلا گیا تو آرمی چیف آج رات کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ فروغ نسیم صاحب آرمی چیف کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے ہیں لہٰذا یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ خود پیش ہوئے دوسری بات یہ کہ اس پر اعتراض کیا گیا کہ فروغ نسیم صاحب وزیر قانون تھے اور انہوں نے اس کے لئے استعفیٰ دیا ہے اس کے لئے اس پر جج صاحبان نے کہا کہ اس پر کل غور کریں گے یہ کیا نقطہ ہے کیا وزیراستعفیٰ دے کر معترض کے خیال میں ان کو یہ کیس نہیں لڑنا چاہئے تھا ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ سرکاری ملازمتوں میں لوگ تھے اور انہوں نے استعفیٰ دے کر اگلے روز ہی کسی کی طرف سے وکالت کی۔ اعتزاز احسن کی رائے کی وزیراعظم کو آرمی چیف مقرر کرنے کا اختیار ہے یہ تو ان کی رائے ہے۔ وہ اگر کمرہ عدالت میں کسی فریق کی طرف سے اپنی رائے کا اظہار کرتے تو اس رائے پر ججمنٹ کی جاتی۔ اس کمنٹ کی اہمیت تو ہے کہ بڑے قانون دان کی رائے ہے ظاہر ہے جو فیصلہ کرنا ہے موجودہ ججز نے ہی کرنا ہے۔ اخبار کی رپورٹ تھی کہ جس نے آرمی چیف تقرری کے حوالہ سے درخواست دی تو کل عدالت میں موجود تھا اور انہوں نے کسی سے پوچھا کہ کیا میرا کیس لگا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ آپ کا کیس لگ گیا ہے وہ صاحب فوراً اٹھ کر کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے گویا وہ خود پیش نہیں ہونا چاہتے تھے اس طرح سے آج بھی ان کا ان بطور درخواست گزار نہیں آئے۔ وہ تو کہنے آئے تھے میری درخواست واپس کر دیں۔ آج سماعت کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جو جج حضرت نے کرنا ہے جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ جو ان کو قانون کے مطابق بہتر نظر آئے گا فیصلہ کریں گے۔ گزشتہ توز کی بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں معاملات کو کسی قانون کی زد میں لانا چاہتے ہیں۔ ایک مختصر فیصلہ ہوتا ہے ایک تفصیلی فیصلہ ہوتا ہے جو بعد میں آتا ہے اس میں قانونی موشگافیاں ایک ایک پوائنٹ پر ڈسکس ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازموں کو ملازمت میں توسیع کی مثالیں موجود ہیں جج صاحبان کو توسیع بارے معلوم نہیں۔ بیرون ملک بیٹھے لوگوں کی رائے جوڈیشری کے ساتھ، خالد رانجھا نے وائس آف امریکہ میں بھی انٹرویو دیا ہے اور انہوں نے بھی کہا ہے کہ میں تو اس حق میں ہوں کہ ادارے چلنے چاہئیں افراد کی کوئی ویلیو نہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ آرمی چیف نے بڑی شائستگی کا ثبوت دیا ہے کہ قطعی طور پر کوئی بیان بازی نہیں کی۔ پاکستان کی آرمی سے مجھے خوشی ہوئی کہ ریٹائرڈ افسر جو اس قسم کے معاملات میں بہت بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور اپنی واضح طور پر کھلی رائے دیتے ہیں وہ بھی بالکل خاموش ہیں اور پوری آرمی اور سابق آرمی کے لوگ وہ مکمل طور پر خاموش ہیں کسی نے اپنی کوئی زبان نہیں کھولی۔ میں فروغ نسیم کے حوالہ میں بھی پڑھا تھا کہ انہوں نے کہا کہ میرا لائسنس کینسل نہیں ہوا۔ نمبر دو کیانی صاحب کو بھی 3 سال کی توسیع ملی تھی، پرویز مشرف ہر سال توسیع لیتے رہے صرف توپوں کا رخ باجوہ صاحب کی طرف کیوں ہے۔ کسی بھی طریقے سے یہ بات نہیں ہوئی کہ پروسیجر کی غلطیاں جو ہوتی ہے کہ پہلے وزیراعظم کو مشورہ دینا چاہئے تھا وہ مشورہ صدر کے پاس جاتا پھر صدر دستخط کرتے، پھر ویلڈ طریقے سے توسیع ہو سکتی تھی۔ یہ تو ایک اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ مجھ سے زیادہ آپ قانون جانتے ہیں کہ اگر کوئی غلط ہو جائے تو اس کو ریکٹی فائی کیا جا سکتا ہے اس کی تصحیح کر لی تو اس کو قانون کی نظر میں لیتا ہے کہ اب یہ تصحیح شدہ ہے اس کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ غلطی ہوئی ہے لیکن یہ عمران خان کی ٹیم ہے آرمی چیف کو درمیان کو کیوں لا رہے ہیں۔ آرمی چیف جس کی اتنی خدمات ہیں کہ پاکستان پر انڈیا نے حملہ کیا طیارے بھیج دیئے، کریڈٹ تو بہرحال آرمی چیف کو جائے گا کہ اس کا بھرپور جواب دیا اور آپریشن ردالفساد کو جاری رکھا راحیل شریف کے زمانے میں بھی اکا دکا کارروائیاں ہوتی تھیں۔ یہاں لاہور میں ہوتی نہیں۔ گوجرانوالہ ملتان میں ہوئی تھیں۔ وہ شخص کہہ رہا ہے کہ میں نہیں بننا چاہتا ہے مجھے حکومت نے کہا مجھے مجبور کیا یہ بات ڈی جی آئی ایس پی آر بھی کہہ چکے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں۔ پنجابی میں ہم کہتے ہیں ”آٹا گن دی تے ہلدی کیوں اے“ اب سارے کام بھی جروا لئے۔ اب جب اس نے خواہش بھی نہیں کی بلکہ خود وزیراعظم نے خواہش کی اور خود کہہ رہے ہیں وضاحت کر رہے ہیں کہ میں امیدوار نہیں تھا اب سب لوگ ان کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ خاص طور پر قوم کے دانشور یا خاص طور پر باہر بیٹھے جرنلسٹ نورانی صاحب ہوں یا کوئی اور ہر وہ شخص جس کا لکھنے پڑھنے سے تھوڑا سا تعلق ہے خواہ اس کا کوئی کیلی بر ہے وہ اس وقت دانشور اعظم بنا ہوا ہے اور وہ اس بارے میں بار بار کہہ رہا ہے کہ ادارہ ہونا چاہئے۔ اس وقت آپ کہاں گئے تھے جب دس سال کے لئے ایوب خان یہاں دندناتا رہا، اور دس سال تک جنرل پرویز مشرف کو دندناتا رہا اور جب ضیاءالحق بھی دس سال تک رہے اس وقت تو کسی نے آئینی بحث نہیں چھیڑی تھی۔ اب انہوں نے کیا قصور کر دیا ہے۔ ذاتی تکلیف پہنچی اور یا آرمی چیف سے کوئی ایسا کام سرزد ہو گیا جس سے آپ کو نقصان پہنچا ہو۔