ملک بھر کی جیلیں منہ تک بھرگئیں42%قیدی گنجائش سے زائد

اسلام آباد: (ویب ڈیسک)وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں موجود 98 جیلوں میں 56 ہزار 495 قیدیوں کی گنجائش کے باجود 80 ہزار 145 افراد قید ہیں جو گنجائش سے تقریباً 42 فیصد زائد تعداد ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معلومات عدالت عظمیٰ میں وفاقی محتسب کے دفتر کی جانب سے سینئر وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر کے ذریعے جمع کروائی گئی رپورٹ میں فراہم کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق 80 ہزار 145 میں سے 45 ہزار 423 قیدی پنجاب کی 42 جیلوں، 16 ہزار 739 سندھ، 15 ہزار 696 خیبرپختونخوا اور 2 ہزار 14 بلوچستان کی جیلوں میں قید ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ قیدیوں کی اس تعداد میں ایک ہزار 135 قیدی نابالغ ہیں اس کے علاوہ ان قیدیوں میں 24 ہزار 280 قیدی سزا یافتہ جبکہ 51 ہزار 710 زیر تفتیش ملزمان ہیں۔سپریم کورٹ کو یہ معلومات ملک کی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی صورتحال کے حوالے سے لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران فراہم کی گئیں۔رپورٹ میں وفاقی محتسب نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب کی 28 جیلوں میں 785 خوتین قیدی موجود ہیں، ان تمام جیلوں میں خواتین قیدیوں کے لیے علیحدہ بیرکس اور عمارتیں تعمیر کی گئیں ہیں۔ان خواتین کے بلاکس کی نگرانی خواتین عملہ کرتا ہے جبکہ تمام جیلوں میں خواتین قیدیوں کو چارپائیاں اور واش روم کی سہولیات بھی میسر ہیں۔رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران 5 نئی جیلیں ڈسٹرک جیل لودھراں، ہائی سیکیورٹی جیل میانوالی، سب جیل سمندری، سب جیل پنڈی بھٹیاں اور سب جیل گوجرہ کی تعمیر مکمل ہوجائے گی جس میں 2 ہزار 644 قیدیوں کی گنجائش ہوگی۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں میں بھی سالانہ ترقیاتی منصوبے کے تحت 3 ضلعی جیلوں کی تعمیر کا عمل جاری ہے جبکہ آئندہ سال کے ترقیاتی منصوبے کے تحت بھی ایک ضلعی جیل تعمیر کی جائے گی۔وفاقی محتسب کے مطابق وزارت داخلہ نے انہیں بتایا ہے کہ اسلام ا?باد ماڈل پرزن کے لیے سیکٹر ایچ-16 میں 720 کنال زمین حاصل کرلی گئی ہے جبکہ تعمیر کے لیے پی سی-1 بھی منظور کروایا جاچکا ہے اس منصوبے پر 3 ارب 90 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد خطرے میں گروپنگ کھل کر سامنے آگئی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) : گذشتہ روز سینیٹ میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے اور صادق سنجرانی کو توقع سے زیادہ ووٹ ملنے پر اپوزیشن تلملا ا±ٹھی جس کے بعد متحدہ اپوزیشن کو دھوکہ دینے والے سینیٹرز کا س±راغ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے رہنماو¿ں میں بھی کئی سخت ج±ملوں کا تبادلہ ہوا جس کے بعد اب اپوزیشن کا اتحاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔اس حوالے سے قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق حاصل بزنجو اور ان کے قریبی ساتھیوں نے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو باغی ارکان سامنے لانے کا مطالبہ کر دیا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اس قدر تلخی پیدا ہو گئی ہے کہ دو اپوزیشن جماعتوں کے لیڈرز نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اب آ گے چلنا ممکن نظر نہیں آ رہا ،اس چیز کا پہلے ہی خدشہ تھا لیکن ہمیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ایسا نہیں ہو گا۔ایسا لگتا ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے کئی اہم رہنما شاید اس ساری گیم میں کسی نہ کسی جگہ خود بھی شامل تھے۔با وثوق ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے بیٹے نے تو سخت ترین الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ پارلیمنٹ کو چھوڑیں حکومت کو ختم کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلیں ،اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ حکومت پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی سے ختم ہو سکتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تجویز کی صرف اے این پی نے حمایت کی باقی تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے تو یہ کہہ کر بات ختم کی کہ ہم کسی ایسے کام میں نہیں شامل ہوں گے جو جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو۔ ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ن لیگ اور پیپلزپا رٹی کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور دیگر سیاسی جماعتوں نے واضح طور پر کہا کہ آ پ دونوں سیاسی جماعتوں کے اراکین ادھر گئے ہیں اور اگر آپ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے تو پھر آ پ بھی اس کا حصہ ہیں جس پر ن لیگ کے ایک اہم رہنما نے بھی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا شنید تو یہ بھی ہے کہ ایک مذہبی جماعت کے اہم رہنما کے بھائی نے بھی اپنا ووٹ ضائع کرنے کے لیے کچھ لیا ہے۔ذرائع کے مطابق تلخ ترین ماحول کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے رہنماﺅں نے یہ کہہ کر معاملے کو ٹھنڈا کیا کہ اگر آئندہ متحدہ اپوزیشن کو لے کر چلنا ہے تو سب سے پہلے جو لوگ بکے ہیں تمام سیاسی جماعتیں اپنے اندر سے ان کو ڈھونڈیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں پھر ہی متحدہ اپوزیشن آ گے چل سکے گی۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ ساتھ دو اور اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز کے حوالے سے بھی میٹنگ میں نام لیے گئے جس پر بلاول اور شہباز شریف نے کہا کہ ابھی تفتیش کرنے دیں فیصلہ بعد میں کریں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ موجود ایک لیگی سینیٹر نے بلاول بھٹو کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کہ آ پ کو تو علم ہے کہ صادق سنجرانی جب چیئر مین سینٹ بنے تھے اس وقت کون کون سے ووٹ آ پ نے لیے تھے اب بھی انہی پر نشان لگایا جائے۔ اس پر اس سے پہلے کہ بلاول کچھ کہتے ، پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رہنما نے غصہ سے کہا ایسی گفتگو کرنے سے اتحاد ٹوٹے گا اور شک تو ہم کو بھی بہت سے لوگوں پر ہے جو آ ج بڑھ چڑ ھ کر بول رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ حاصل بزنجو کے حوالے سے ن لیگ کے ایک اہم رہنما نے کہا کہ آ پ کو ہرانے کا مقصد نوازشریف کو ہرانا تھا کیونکہ آ پ نوازشریف کے امیدوار تھے اس میں ہماری جماعت کے اندر چند افراد کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

سینٹ میں عدم اعتماد کی ناکامی کن 9کھلاڑیوں نے میچ کھیلا۔۔جانیے

 لاہور: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلیے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے 9 بہترین کھلاڑیوں کی ٹیم بنائی تھی۔ پس پردہ جہانگیر ترین کی بھی اپوزیشن کے سینٹیرز سے اہم ملاقاتیں ہوئیں اور ایک درجن سے زائد اپوزیشن سینیٹرز نے جہانگیر ترین کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو جب یہ حتمی یقین دہانی کروا دی گئی کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلیے نمبرز پورے ہو گئے ہیں تو اس وقت تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے یہ خواہش اور تجویز پیش کی تھی کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروا لیا جائے لیکن عمران خان، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی سمیت متعدد سینئر رہنماوں نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ حکومت بلا وجہ کی محاذ آرائی نہیں چاہتی۔ذرائع کے مطابق بعض اپوزیشن سینیٹرز نے حکومت کے ساتھ اپنے عہدکو وفا کرنے کیلیے دانستہ طور پر مہریں اس طرح سے لگائیں کہ ووٹ مسترد ہو جائے۔اپوزیشن جماعتوں کے قائدین تحریک عدم اعتماد کی جنگ تو ہار گئے ہیں لیکن ان کیلیے اب بڑا چیلنج اپنے ان سینیٹرز کو تلاش کرنا ہے جو اپوزیشن کے مشترکہ اجلاسوں میں بھرپور شرکت کرتے رہے ہیں۔

سینٹ الیکشن سے قبل اپوزیشن سینٹر صبح شام جہانگیر ترین کے گھر پھیرے لگاتے رہے شاہد مسعود کا دعوی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 02 اگست 2019ء) : معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا ہے کہ چئیرمین سینیٹ کے معاملے پر اپوزیشن کے اندر بہت زیادہ کانفیڈنس تھا۔ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ ایک بات تو طے ہے کہ چئیرمین سیبنٹ کے معاملے میں کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی۔اور اس حوالے سے جہانگیر ترین پر بھی بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔اتفاق کی بات ہے کہ میری رہائش گاہ جہانگیر ترین کی رہائش گاہ کے قریب ہی ہے۔اور ایک دن میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ ان کے گھر کے باہر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ گھوم رہے ہیں کہیں ہمارے سینیٹر تو ان کے گھر نہیں جا رہے۔اس لیے نہ تو جہانگیر ترین نے اس معاملے میں کوئی کردار ادا کیا اور نہ ہی کوئی ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔واضح رہے کہ جمعرات کے روز چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کی اپوزیشن اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی تبدیلی کی حکومتی کوششیں ناکام ہوگئیں جس کے بعد صادق سنجرانی چیئر مین اور سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔ چیئرمین سینٹ کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ کے دور ان میر حاصل بزنجو نے 50اور صادق سنجرانی نے 45ووٹ حاصل کئے ، پانچ ووٹ مسترد ہوگئے ، جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ، چوہدری تنویر بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹ کاسٹ نہ کر سکے ، اسحاق ڈار نے حلف ہی نہیں اٹھایا۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ایک سنجرانی سب پر بھاری کے نعرے لگائے گئے۔ جمعرات کو سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کی قرارداد پر رائے شماری ہوئی،ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی گئی۔پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان کیا کہ آئین کے مطابق قرارداد کے حق میں 50 ووٹ پڑے جس کی وجہ سے یہ قرارداد متعلقہ ایک چوتھائی ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کی جاتی ہے۔

کہاں گے ارکان۔۔۔اپوزیشن پریشان چیئر مین سنیٹ کوووٹ دینے والے ارکان کےخلاف کاروائی کا فیصلہ

 اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب ِ اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں کچھ ضمیر فروشوں نے ضمیر فروشی کی۔چیئرمین سینیٹ  کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک  ناکام ہونے پر اپوزیشن چیمبر میں شہباز شریف کی زیر صدارت اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، خورشید شاہ،  (ن) لیگ اور جے یو آئی (ف) کے ارکان نے شرکت کی۔اجلاس میں اپوزیشن کی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے عوامل کا جائزہ لیا گیا اورپارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے اراکین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے  شہبازشریف کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت ضمیرفروش سے سینیٹ میں جیت گئی، دھاندلی زدہ الیکشن کی تاریخ آج پھردہرائی گئی،  ہمارے 14 ووٹ چیئرمین صادق سنجرانی کو گئے، تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کچھ ضمیر فروشوں نے ضمیر فروشی کی، کن لوگوں نے ایسا کیا ضرور پتہ لگائیں گے، اگلے ہفتے ہم پھراے پی سی کال کریں گے۔

ماں کا کردار کرچکی اب نانی دادی کا کردار کرنا چاہتی ہوں، ماہرہ خان

کراچی:(ویب ڈیسک) پاکستانی سپر اسٹار ماہرہ خان نے سینئر اداکار فردوس جمال کی تنقید کے جواب میں کہا ہے کہ وہ ماں کا کردار اداکرچکی ہیں اور اب ان کا منصوبہ نانی، دادی اور پرنانی کے کردار کرنے کا ہے۔اداکارہ ماہرہ خان اورسینئر اداکار فردوس جمال کا تنازع ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتاجارہا ہے۔ فردوس جمال کے ماہرہ خان کے بارے میں تبصرے نے سوشل میڈیا پر آگ لگائی ہوئی ہے۔جہاں ماہرہ خان کے مداح مسلسل اپنی پسندیدہ اداکارہ کی حمایت میں تبصرے کررہے ہیں وہیں اداکار فردوس جمال کے چاہنے والے بھی ان کا دفاع کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہر انسان کی اپنی رائے ہوتی ہے اوریہ اس کا حق ہوتا ہےکہ وہ کسی بھی بارے میں آزادانہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔اداکارہ ماہرہ خان فردوس جمال کے اس تبصرے پر اپنا ردعمل دے چکی ہیں تاہم اسی حوالے سے ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ ماں کا کردار پہلے ہی کرچکی ہیں اور اب تو وہ نانی، دادی بلکہ پرنانی کے کردار ادا کرناچاہتی ہیں۔ماہرہ خان نے کہا کہ میں اس طرح کے موضوعات پر کچھ بھی کہنے کے بجائے خاموشی اختیار کرنا پسند کرتی ہوں لیکن میں ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ میری حمایت میں جس طرح پوری انڈسٹری باہر آئی میں اس کے لیے شکر گزار ہوں۔فردوس صاحب کے تبصرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرہ نے کہا کہ ماں کا کردار تو میں ڈراما سیریل”ہمسفر“میں نبھاچکی ہوں اور آگے بھی اگر موقع ملا تو نبھاو¿ں گی، بلکہ میں تو اس انڈسٹری میں اتنا کام کرنا چاہتی ہوں کہ نانی، دادی اور پرنانی کے کردار اداکرسکوں۔

وزیر اعظم کا دورہ لاہور بیوروکریسی کی تنخواہوں میں ڈیڑھ گنا اضافہ کی بھینٹ چڑھ گیا، امتنان شاہد

وزیراعظم عمران خان کی کفایت شعاری مہم کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگا ہے جب 1883 بیورو کریسی کے افسران کی تنخواہوں یں 1.5 گنا اضافہ کر دیا گیا اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا۔ وزیراعظم پاکستان جس روز سے حکومت میں آئے، اسی روز سے انہوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ خود سادگی کی مثال بنیں گے جبکہ ان کی حکومت ماضی کی حکومتوں کی نسبت اپنے اخراجات میں کمی لے کر آئے گی۔ اس اعلان کے پیش نظر پہلے روز سے ہی کبھی وزیراعظم ہاﺅس کی گاڑیاں بک رہی تھیں تو کبھی بھینسیں۔ بچت کی اس مہم کے دوران ہی وزیراعظم نے امریکہ کا دورہ کیا اور کفایت شعاری کی مہم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نجی ایئر لائن کے ذریعے مختصر وفد کے ہمراہ امریکہ گئے۔ اس پر وزیراعظم کے فیس بک پیج پر تشہیر بھی کی گئی اور تقابلی جائزہ پیش کیا گیا کہ ماضی کے حکمرانوں کی نسبت اس حکومت نے اس اہم دورے پر کتنی بچت کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ اپنی کئی پریس کانفرنسوں اور تقاریر میں بار بار یہ حوالہ دیتے ہیں کہ یہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے گی اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کر دے گی۔ یہی بات ان کی مرکزی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب شہباز گل اور اس سے پہلے صمصام بخاری ہر پریس کانفرنس میں بیان کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ دوسرا موقع ہے کہ عمران خان نے 1883 پنجاب کے سرکاری افسروں کی بنیادی تنخواہوں میں ڈیڑھ گنا اضافے پر اظہار ناپسندیدگی کیا اور ایک ذرائع کے انکشاف کے مطابق انہوں نے اپنا دورہ لاہور بھی جو کہ ہر جمعرات کو کیا جاتا ہے، ملتوی کیا۔ قارئین کو یہ بھی یاد ہو گا کہ اس سے قبل جب پنجاب اسمبلی میں صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ میں اضافے کا بل منظور ہوا تو وزیراعظم کی سخت ہدایت کے بعد اس بل کو روک دیا گیا اور تنخواہوں میں اضافہ رک گیا۔ وزیراعظم ہاﺅس میں ایک دوسرے معتبر ذرائع کے مطابق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنا یہ دورہ امریکی معاون خصوصی زلمے خلیل زاد کی آمد کی وجہ سے ملتوی کیا ہے البتہ یہ بات بھی درست ہے کہ انہوں نے ان مشکل معاشی حالات میں تنخواہیں بڑھانے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اپنے رفقاءکو کہا ہے کہ اس حوالے سے وہ شاید وزیراعلیٰ پنجاب سے خود بات کریں گے۔

کہاں گے ارکان ۔اپوزیشن پریشان ۔چیئر مین سینٹ کو ہٹانے کے لیے اپوزیشن مطلوبہ اعتماد تو بناتی

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگار عبدالباسط نے کہا کہ یہ بات کلیئر نظر آ رہی تھی اپوزیشن میں اعتماد ہی نہیں تھا کہ وہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹا پائیں گے ۔ دوسری بات چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کون سا جرم کر دیا جو ان کے خلاف تحریک عدم تماد پیش کی گئی۔ چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصل میں اپوزیشن صرف حکومت کو دباﺅ میں لانا چاہتی تھی جس میں وہ بری طرف ناکام ہوئی ویسے بھی اس قرار داد کا اخلاقی جواز کوئی نہیں تھا۔کوئی بھی ہارس ٹریڈنگ نہیں کی گئی اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔اصل میں ہمارے ہاں عوام کو تعلیم سے بہرہ مند نہیں ہونے دیا گیا جان بوجھ کر پیچھے رکھنے کی کوشش کی گئی۔بارشوں کی صورتحال پر انہوں نے کہا بھارت ہمارا دشمن ہے بارشوں کے بعد آبی جارحیت کر رہا ہے۔ہمیں بھی چاہئے ڈیمز بنائیں۔کالم نگار ضمیر آفاقی نے کہا کہ بہت سی چیزیں پہلے سے طے ہو چکی ہوتی ہیں پینسٹھ والے ہار جاتے ہیں پینتیس والے جیت جاتے ہیں۔چودہ لوگوں نے ضمیر کے برعکس فیصلہ کیا اور باقی سینیٹرز کے ووٹ کی توہین کی۔لوگوں کے ووٹ خرید کر جمہوریت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلاول ایک میچور سیاستدان ہیں جو بھی کریں گے اسمبلی میں بیٹھ کر ہی کریں گے۔آزاد اراکین تو کسی کے ساتھ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔جو بھی اصول سے ہٹ کر سیاست کرتا ہے اس سے باز پرس کرنی چاہئے میرے خیال میں سینیٹ معاملے پر اپوزیشن منقسم نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہی نہیں ہم خود بھی اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ کالم نگاراظہر صدیق نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو حق ہے جسے چاہیں ووٹ دیں ۔جمہوریت تو سب کو برابر کے حقوق دیتی ہے۔حاصل بزنجو نے اس ملک کو دیا ہی کیا ہے بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار یہی شخص ہے ۔جن لوگوں نے اسے ووٹ نہیں دیا انہیں بے ضمیر نہ کہا جائے ۔جس احسن طریقے سے صادق سنجرانی نے ہاﺅس چلایا وہ خوش آئند ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔صرف باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔وزیراعظم عمران خان ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں انہوں نے ڈیم شروع کیا امریکی دورے کے ثمرات جلد سامنے آئیں گے۔کالم نگار میاں حبیب نے کہا ہے کہ 64سینیٹرز نے کھڑے ہو کر چیئرمین سینیٹ کی مخالفت میں ہاتھ اٹھائے تھے لیکن جب ووٹ پڑے تو صرف پچاس ہی ووٹ تحریک عدم اعتماد کے حق میں پڑے۔تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر اپوزیشن ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا رہی ہے جبکہ اچنبے کی بات ہے قبل ازیں اپوزیشن نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی ۔کہا جا رہا ہے سینیٹ الیکشن کے رزلٹ سے اپوزیشن مزید بکھر جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ضیاءشاہد نے بھارتی آبی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی اور مہم بھی چلائی تھی۔

تحریک اعتماد لانا کوئی غیر جمہوری عمل نہیں تھا،مہرین بھٹو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ سیون کی ٹیم اپوزیشن اورحکومتی سینیٹرز سے گفتگو کرنے سینٹ ہاﺅس پہنچ گئی۔پیپلز پارٹی کی رہنما مہرین بھٹو نے بتایا کہ پیپلز پارٹی جمہوری پارٹی ہے تحریک عدم اعتماد کی تحریک لا کر اپوزیشن نے کوئی غیر جمہوری روایت قائم نہیں کی۔تحریک انصاف کی عالیہ حمزہ نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں صرف کرپشن بچانا چاہتی ہیںجب ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو یہ اکٹھے ہو گئے۔ جے یو آئی ف کی رہنما عالیہ کامران نے بتایا کہ حکومت نے ہارس ٹریڈنگ کی ،موجودہ حکومت نااہل ہے ۔عظمی کاردار نے کہا عمران خان قوم سے مخلص ہیں اپوزیشن جمہوریت کو کمزور کرنے میں ناکام ہو گئی صادق سنجرانی کی جیت سے اپوزیشن کا پول کھل گیا سینیٹرز نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا۔پیپلز پارٹی کی ناز بلوچ نے کہا کہ یہ اپوزیشن کی ناکامی نہیں حکومت نے تعداد کہاں سے پوری کی اپوزیشن ایک ہے متحرک ہے۔خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کی جمہوریت میں گنجائش نہیں ہوتی جوں جوں جمہوریت مضبوط ہو گی ہارس ٹریڈنگ کا امکان ختم ہو گا۔تحریک انصاف کے صداقت عباسی نے کہا کہ اپوزیشن کے دعوے جھوٹ ثابت ہوئے مافیا اپکسپوز ہو رہا ہے۔

اپو زیشن خفیہ ووٹنگ پر اعتراض اُٹھاتی ہے تو قانون تبدیل کرائے،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں، تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایوان بالا میں ہونے والی خفیہ ووٹنگ میں صادق سنجرانی کامیاب ہوئے ہیں اپوزیشن کے 9 ارکان نے سنجرانی کو ووٹ دیئے جبکہ 5 ووٹ مسترد قرار پائے وہ بھی مشکوک معاملہ ہے کہ ایک آدھ ووٹ میں توغلطی سے دوبار مہر لگ سکتی ہے اتنے سینئر ارکان کے پانچ ووٹ کیسے ضائع ہو سکتے ہیں۔ ایوان بالا میں خفیہ ووٹنگ اسی لئے رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی رکن اپنے ضمیر کے مطابق اپنی پارٹی کے فیصلہ کیخلاف بھی جانا چاہے تو اسے آزادی حاصل ہو۔ خفیہ ووٹنگ آئین کے مطابق کرائی جاتی ہے۔ اپوزیشن کو اگر یہ غلط لگنے لگی ہے تو اسے تبدیل کرانے کی کوشش کرے اور اوپن ووٹنگ کا مطالبہ کرے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ووٹر اپنی پارٹی کے ساتھ نہیں چلے۔ بات اگر ووٹ حریدنے کی ہے تو نوازشہباز اور زرداری سے زیادہ کون امیر ہے۔ اول چیز تو یہ سامنے آئی ہے کہ متحدہ اپوزیشن اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اپوزیشن غصے میں ہے اب لگتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لانے کی کوشش کرے گی تا کہ حکومت کو گرایا جا سکے، اس سے جو بن پڑے گا کرے گی۔ الزام تراشی کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا ہر پارٹی دوسری پر الزام لگائے گی کہ ان کے ارکان نے ووٹ نہیں دیا جیسے ن لیگ کے سنیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ لیگی سنیروں نے ووٹ دیا ہے یعنی دوسری پارٹیوں پی پی، اے این پی، جے یو ایس ف وغیرہ کے ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ دو چار دن میں الیکشن کی اندرونی کہانیاں سامنے آ جائیں گی ان کے نام بھی آئیں گے جنہوں نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا اس طرح الزام تراشی کی جائے گی اور ایک نئی بحث شروع ہو جائے گی۔ بلاول بھٹو کی سوچ ابھی اتنی پختہ نہیں ہے جتنی آصف زرداری کی ہے کہ باوجود کھانوں کی دعوتوں کے عین وقت پر ارکان دوسری طرف چلے گئے وزیراعظم عمران خان نے افسروں کی تنخواہوں میں اضافے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے گورنر سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ جس طرح ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ واپس لیا گیا تھا اسی طرح یہ موجودہ فیصلہ بھی واپس لے لیا گیاہے۔ عمران نے درست وقت میں درست فیصلہ لیا، مہنگائی کے مارے عوام اسی وقت افسر شاہی کی تنخواہوں میں اضافہ ہر گز پسند نہیں کریں گے۔ ہوش سنبھالنے سے اب تک یہی سنتا آیا ہوں کہ سیلاب میں اتنے دیہات بہہ گئے یہ اصل میں پلاننگ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے انہیں ایسے نشیبی علاقوں میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہئے جہاں سیلاب آتے ہوں بھارت نے بھی وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ویسے تو ہمیں پانی کی بوند بوند کو ترساتا ہے اور برسات میں سیلابی پانی بغیر اطلاع کے چھوڑ دیتا ہے حالانکہ یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کو آواز اٹھانی چاہئے کہ بھارت اسمعاہدے کی پاسداری کرے حکومت کو پورے ملک میں گندم اور روٹی کی قیمت ایک کرنی چاہئے یا معمولی فرق ہونا چاہئے جو بار برداری کے باعث ہوتاہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ اس کیلئے ایک خصوصی ٹارک فورس بنائیں جو اس بات کو یقینی بنائے۔