عمران خان کا کامیاب دورہ ، کشمیر پر ثالثی پیشکش ، بدلا ہوا ٹرمپ نظر آیا : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران کے دورہ امریکہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ بنیادی بات کو پاکستان کے نقطہ نظر سے تو یہ ہےکہ امریکہ نے جو ایک زمانے تک صدر بش کے حوالہ سے کل بھی اپنے پروگرام میں بتایا تھا کہ میں نے صدر بش سے وال کیا کہ آپ کشمیر کے معاملے میں کیوں مداخلت کرتے اور کوشش کیوں کرتے کشمیر کے سلسلے میں جو طے ہوا تھا اور جس پر قرارداد پر دستخط کئے ہوئے ہیں خود امریکہ نے اس پر عملدرآمد کروائے اور وہاں استصواب رائے کروائے یعنی ووٹنگ ہو تو اس پر صدر بش نے یہ کہا کہ ہم مداخلت نہیں کر سکتے کیونکہ جب سے شملہ معاہدہ میں آپ نے طے کیا ہے کہ تیسرا ملک دخل نہیں دے سکتا تو ہم اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ جب میں نے کہا کہ جب کشمیر کی قرارداد پاس ہوئی اس پر تو شملہ معاہدہ موجود نہیں تھا اور امریکہ دستخط کر چکا ہے تو صدر بش نے کہا کہ ہم سہولت کار کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اب صدر ٹرمپ نے واضح انداز میں کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر وہ ثالثی کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اب امریکہ اس پوزیشن میں ہے اور انہوں نے کہا کہ میری مودی سے بات بھی ہوئی تھی اور وہ اس کے لئے تیار ہیں اس پر انڈین ٹی وی چینلز نے شورمچا رکھا ہے کہ مودی صاحب یہ کیا کیا ہے آج کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا مودی صاحب نے واقعی کہا یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ صدر ٹرمپ اتنے ذمہ دار پوزیشن میں ہیں غلط بیانی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے یقینا مودی صاحب سے بات کی ہو گی اور اس لئے انہوں نے پیش کش کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہی کشمیر ہے لہٰذا اس سلسلے میں کوئی ثالثی کی پیش کش ہوتی ہے اور یاد رہے کہ اس سے قبل روس بھی ثالثی کی پیش کش کر چکا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا ڈرامہ ہونے والا ہے یہ اچھی بات ہے کہ اگر کوئی کشمیر کا حل نکل آئے کشمیر کے مسئلہ کا کیونکہ جس طرح کہ امریکہ نے خواہش ظاہر کی ہے اور امریکہ افغانستان نکلنا چاہتا ہے اور پاکستان کے ذمے وہ دہشت گردی کے خلاف ایک جنگ اس کی سونپنا چاہتا ہے اگر ایسے موقع پر اگر جب تک ہمیں اپنی مشرقی سرحدوں سے مکمل طور پر امن اور آشتی کی ہوا نہ آئے اس وقت ہم کسی اور طرف توجہ نہیں دے سکتے ہیں۔ مودی صاحب نے ٹرمپ سے پہلے حامی بھری اور پھر اس سے پہلوتہی کیوں کی ہے۔ اگر مودی صاحب نے اپنا نقطہ نظر دیا تھا ٹرمپ کو ورنہ صدر ٹرمپ اتنی بڑی بات نہیں کہہ سکتے تھے تو پھر ااج صبح سے انڈین چینلز نے ایک شور شرابا مچایا ہوا اس کی کیا وجہ ہے۔ضیا شاہد نے کہا کہ دوسری طرف افغانستان میں جو مذاکرات ہونے جا رہے ہیں ان کے سلسلے میں عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں طالبان کو آمادہ کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں حکومت جو امریکہ کی اشیرباد سے قائم ہوئی وہ حکومت تقریباً 60 فیصد علاقے پر لاگو ہی نہیں ہوتی اور اس کا عملدرآمد بہت کم علاقے میں ہے ان حالات میں طالبان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کرنا آسان ہو گا۔ ٹرمپ برسراقتدار آئے تھے تو ان کا رویہ مسلمانوں کے خلاف کافی مخالفانہ تھا اور وہ اس کا اظہار کرتے پھرتے اس کے بعد پاکستان کے حوالے سے بھی مسلسل یہی دہراتے رہے کہ ڈومور محسوس ہوتا تھا کہ وہ پاکستان کے رویے سے اور پاکستان کی کاوش سے مطمئن نہیں ہیں عمران خان کے دورے سے پہلے بھی ان کا رویہ کافی بدل چکا تھا دورے کے دوران تو انہوں نے آ?ٹ آف دی وے جا کر بدلے ہوئے ٹرمپ کا ثبوت دیا۔ یہ وہ صدر ٹرمپ نہیں ہیں جنہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کے بعد بائی دی وے پاکستان میں نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف علم جنگ بلند کر رکھا تھا یہ تبدیلی بڑے حیرت انگیز ہے اور اب اسی تبدیلی کا شاخسانہ ہے کہ عمران خان کا دورہ جو ہے بہتت حد تک کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ضیا شاہد نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ بدلا ہوا امریکہ ہم سے کیا چاہتا ہے اب تک بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ ہم روس کے مقابلے میں امریکی افواج کی حمایت کر کے اور مجاہدین کو پاکستانی فوج میں ٹرینڈ کر کے افغانستان میں بھجوانے کے جس عمل کا آغاز کیا تھا اس کے بعد میں پاکستان کو نقصان پہنچا اور ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہےکہ ایک بار پھر ہم امریکہ کے ہاتتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے ہوں گے۔ اشرف غنی کی حکومت کا رجحان انڈیا نواز رہا اور اینٹی پاکستان رہا اور وقتاً فوقتاً اشرف غنی صاحب بھی پاکستان پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے رہے۔ ضیا شاہد نے کہا جب عمران خان کے دورہ امریکہ کا اعلان ہوا تو اپوزیشن کی جماعتوں کا یہ کہنا تھا کہ فلاں امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ ععمران خان نام کا کوئی بندہ آ بھی رہا ہے۔ عمران خان کا دورہ بھی ہوا اور کامیاب بھی جا رہا ہے۔

ماہرہ خان اور بلال اشرف کی فلم ’’سپر سٹار‘‘ کی پروموشن کیلئے لاہور آمد

لاہور: (ویبڈیسک) معروف اداکارہ ماہرہ خان اور بلال اشرف فلم ”سپر سٹار“ کی پروموشن کیلئے لاہور پہنچ گئے، فلم عید الاضحی پر ریلیز ہو گی جس کا شائقین شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ ماہرہ اور بلال اشرف نے گزشتہ روز لاہور کے مختلف شاپنگ مالز کا دورہ کیا اور ٹی وی پروگراموں میں شرکت کی۔ اس حوالے سے ماہرہ خان نے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لاہور میں بہت انجوائے کر رہی ہیں۔واضح رہے کہ مذکورہ فلم عیدالاضحی کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کی جائے گی جس کے ہدایتکار محمد احتشام الدین ہیں۔

 

صدر ٹرمپ کی کشمیر میں ثالثی کی پیشکش سے بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے: میاں حبیب ، رانا ثنا کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ منشیات فروش کو بی کلاس نہیں ملتی: میاں افضل ، عافیہ صدیقی کی شکیل آفریدی کے بدلے رہائی کی بات مناسب ہے: عبدالباسط ، امریکہ کے رویہ کا کوئی پتہ نہیں آج کچھ اورکہتا ہے کل کچھ اور کہے گا: شاہد اقبال ، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار“ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگار عبدالباسط نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں کی نسبت موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی بہت بہتر ہے کشمیر ایشو کی بات بہت سے مبصرین کے لئے حیران کن تھی وہیں ثالثی کی بات پر بھارت میں کہرام سا مچ گیا ہے۔ چینل فائیو کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کشمیر میں ظلم کر رہا ہے۔ انڈین میڈیا میں تو صف ماتم بچھ گئی ہے بھارتی میڈیا اپنے حواس کھو بیٹھا ہے۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا منتخب ہونا اہم بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی کی شکیل آفریدی کے بدلے رہائی کی بات مناسب ہے شکیل آفریدی جاسوس ہے لیکن کچھ لینے کے لئے کچھ دینا پڑتا ہے۔ کالم نگار میاں حبیب نے کہا ہے کہ عمران خان کا دورہ امریکہ بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے خاص طور پر کشمیر پر امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش سے بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے بھارتی میڈیا چیخ رہا ہے۔ عمران خان کے دورہ امریکہ کے اندرونی سیاست پر بھی مثبت اثرات پڑیں گے۔پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر پوری دنیا میں آواز اٹھانی چاہئے مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ بھارت کے تصور میں نہیں تھا کشمیر ایشو اجاگر ہو سکتا ہے۔ کالم نگارمیاں افضل نے کہا کہ میرے خیال میں ملکی سیاست اپنی جگہ لیکن عالمی ایشوز پر پاکستانی سیاستدانوں کو ایک ہونا چاہئے۔ اپوزیشن جماعتوں کو چاہئے کشمیر ایشو اور افغان مسئلہ اٹھانے پر عمران خان کو سپورٹ کریں۔ماضی کی حکومتوں نے تو کبھی کشمیر کا ذکر تک نہ کیا۔آخرکشمیری کب تک لاشیں اٹھائیں گے اس کا حل تو نکلنا چاہئے۔ اگر امریکہ مسئلہ کشمیر پر ثالث بنتا ہے تو یو مثبت اقدام ہوگا۔ رانا ثنائ اللہ کے حوالے سے انہوں نے کہا منشیات فروش کو بی کلاس نہیں دی جاتی۔ کالم نگارشاہد اقبال بھٹی نے کہا امریکہ کے رویے کا کوئی پتہ نہیں آج کچھ کہتا ہے کل کچھ لیکن آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہو گی۔ایران میں بہت ٹینشن چل رہی ہے جسے پس پشت ڈالا جا رہاہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہونی چاہئے تاکہ عوام کو بھی ریلیف ملے۔ مسئلہ کشمیر اور افغان ایشو اجاگر کرنا مثبت اقدام ہے۔ ہمیں سفارتی محاذ پر امریکہ کو شکست دینی چاہئے۔ ٹرمپ کا کشمیر پر بیان پاکستان کی فتح ہے۔ اگر راناثنااللہ سے منشیات برآمد ہوئی ہے تو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔

لاہوریوں کیلئے خوشخبری ، فری وائی فائی سروس بحال کرنے کا فیصلہ

لاہور(ویب ڈیسک)لاہوریوں کے لئے خوشخبری آ گئی ہے، پنجاب حکومت نے فری وائی فائی منصوبہ پھر سے بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، شہریوں نے کہا ہے کہ حکمرانوں کو عوام سے ایسی سہولتیں چھیننا ہی نہیں چاہئیں۔ مفت انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھانے والے مایوس نہ ہوں، فری وائی فائی سروس دوبارہ شروع کرنے کیلئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ( پی آئی ٹی بی )اور پی اینڈ ڈی کو ٹاسک دے دیا گیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق دور حکومت میں شہر کے دو سو مقامات پر انٹرنیٹ کیلئے رآوٹرز لگائے گئےتھے جو کمپنیوں کو واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث بند پڑے تھے۔ اب حکومت نے ان کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کے اس اعلان کو شہریوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھی سہولت تھی، اس سے پڑھائی اور خاص طور پر ریسرچ وغیرہ میں مدد ملتی تھی۔ حکومت کی طرف سے فری وائی فائی اور لیپ ٹاپ دئے جانے کی وجہ سے غریب اور نادرا طلبہ اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔وائی فائی منصوبے کی کئی ماہ سے بندش پر لاہوریوں نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ ہم نیوز سے گفتگو میں بعض شہریوں نے کہا کہ ایسے سہولیاتی پروگرام کی دیکھ بھال کا مناسب نظام مرتب کیا جائےاور یہ سہولت پہلے کی طرح حکومتی نااہلی کہ وجہ سے واپس نہیں لینی چاہیئے۔لاہور کے کچھ طلبہ نے ہم نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اب یہ راوئٹرز بند پڑے ہیں کیا فائدہ؟ حکومت ان کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام کرے اور انہیں مسلسل چلانے کے لئے اہل لوگوں کو اس کی نگرانی پر مامور کیا جائے۔سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی ہدایت پر پنجاب حکومت کی طرف سے یہ پراجیکٹ ستائیس کروڑ کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبےکے تحت عوام کو ائر پورٹ،، جنرل بس اسٹینڈز،، میٹرو بساسٹیشنز اور سرکاری اسپتالوں سمیت دوسرے مقامات پر فری وائی فائی کی سہولت میسر تھی۔

ترجمان وزیراعلی پنجاب کا مریم صفدر کے ٹوئیٹ پر ردعمل

لاہور (ویب ڈیسک)ترجمان وزیراعلی پنجاب کا مریم صفدر کے ٹوئیٹ پر ردعمل۔محترمہ آپ کی حقیقت سے کون واقف نہیں۔ امریکی یوم جمہوریہ کے دن جا کر آپ کے والد محترم نے صدر کلنٹن سے کیا خفیہ ڈیل کی تھی۔ آپ تو معاہدہ کر کے ملک سے باہر جا کر بھی اس بات کا

اقرار کرنے سے گریز کرتے رہے۔ملکی اداروں کی تضحیک اور جھوٹ بولنا آپ کا شیوہ ہے۔آپ ہر اس بات پر شور مچائیں گئی جس سے ملک و قوم کی بہتری ہو کیونکہ آپ کو صرف ذاتی مفاد عزیز ہے.

ایل او سی پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے خاتون شہید، بزرگ شہری زخمی

راولا کوٹ(ویب ڈیسک) لائن آف کنٹرول کے گوئی سیکٹر میں بھارتی فوج کی گولہ باری سے ایک خاتون شہری شہید ہوگئی۔ذرائع کے مطابق لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج نے ایک بار پھر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادی کو نشانہ بنایا ہے، بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے گوئی سیکٹر پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جس کے نتیجے میں ایک خاتون جان بیگم شہید ہوگئی۔بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے تتہ پانی سیکٹر پر بھی شہری آبادی کو نشانہ بنایا، بھارتی فوج کی فائرنگ سے سہڑہ گاو¿ں کے رہائشی 60 سالہ سردار نسیم زخمی ہوگئے، بزرگ شہری کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کوٹلی منتقل کردیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ دوپہر ڈھائی بجے سے شروع ہوا، جب کہ پاک فوج کی جانب سے بھی بھرپور جوابی کارروائی کی جارہی ہے۔

امریکی خاتون اول نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تصاویر پوسٹ کردیں

واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کو خوشگوار قرار دے دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیں۔تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ میلانیا ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے اپنے بیان میں امریکی خاتون اول نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے وائٹ ہاو¿س میں ملاقات بہت اچھی رہی۔یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وائٹ ہاﺅس میں امریکی صدر سے ملاقات کی ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا پر مطالعے سے یادداشت اور توجہ کو نقصان پہنچتا ہے، تحقیق

اوسلو(ویب ڈیسک) ناروے میں آٹھویں جماعت کے بچوں پر کیے گئے ایک وسیع مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ لوگ جو اسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر اسکرین پر کتابیں اور دوسرا تحریری مواد پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں، انہیں کسی خاص موضوع پر توجہ مرکوز کرنے میں دشواری کا سامنا رہتا ہے جبکہ وہ بہت بے صبرے اور غیر متحمل مزاج بھی بن جاتے ہیں۔اوسلو یونیورسٹی کی پروفیسر مارٹی بلکسٹاڈ بالاس نے ناروے میں بچوں پر ایک تفصیلی تحقیق میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس تحقیق میں آٹھویں جماعت کے مقامی بچوں میں ریاضیاتی صلاحیتوں اور دوسری متعلقہ مہارتوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس مطالعے کے دوران ریاضی سے ہٹ کر یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان بچوں کی یادداشت، بیس سال پہلے اسی جماعت میں پڑھنے والے بچوں کی نسبت بہت کمزور ہوچکی تھی۔”اساتذہ کے لیے یہ بات پریشان کن ہے کہ 20 سال قبل کے (اسی جماعت کے طالب علموں کے) مقابلے میں، آج کے طالب علموں کےلیے لمبے جملے پڑھنا بہت مشکل ہوگیا ہے،“ بلکسٹاڈ بالاس نے ایک مقامی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔ ان کے مطابق، اگرچہ ہمارا دماغ ڈیجیٹل میڈیا پر بھی تحریر کو تحریر کے طور پر ہی سمجھتا اور پڑھتا ہے لیکن اس (ڈیجیٹل) میڈیا پر تحریر میں تصویروں کے علاوہ بھی خلل ڈالنے والی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے دماغ میں کسی نکتے پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور ہمیں تسلسل سے طویل جملے پڑھنے کی عادت نہیں رہتی۔ پھر یہ بھی ہے کہ چھوٹے جملے پڑنے کی عادت ہوجانے کی وجہ سے ہمارے مزاج میں بے صبرا پن ا?جاتا ہے جو کسی بھی نئی چیز کو سیکھنے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔بلکسٹاڈ بالاس نے نئی نسل کی یادداشت خراب ہونے کی بڑی ذمہ داری ”گوگل ایفیکٹ“ پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ا?پ کو شعوری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر ”سرچ“ کرنے سے ہر طرح کی معلومات مل جائیں گی، تو آپ ہر چیز کو یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھتے؛ اور اس طرح کم عمری میں یادداشت بھی متاثر ہوتی ہے۔”اس کے مقابلے میں روایتی کتابیں ہاتھ میں تھام کر پڑھنے سے یادداشت بہتر ہوتی ہے،“ یونیورسٹی ا?ف اسٹاوینجر کی محقق، اینی مینجن نے بلکسٹاڈ بالاس کی تائید کرتے ہوئے کہا۔واضح رہے کہ ناروے میں ڈیجیٹل کتابیں بڑی تعداد میں قیمتاً فروخت کی جاتی ہیں جبکہ ان کی چوری پر سخت سزائیں مقرر ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث ناروے میں کاغذ پر چھپی کتابوں کا رواج بہت کم رہ گیا ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت نئے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں جنہیں حل کرنے کےلیے وہاں کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھنے کی تیاری کررہے ہیں۔

شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی پربات ہوسکتی ہے، وزیراعظم

واشنگٹن(ویب ڈیسک) وزیر اعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی پربات ہوسکتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا امریکاکےساتھ قیدیوں کے تبادلے پربات ہوسکتی ہے، شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کورہاکرنے پربات ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا پاکستان کاجوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم انتہائی موثراورجامع ہے، ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت ایٹمی ہتھیارترک کردے، ہم بھی استعمال نہیں کریں گے، پاکستان اوربھارت میں تنازعات کی اصل جڑمسئلہ کشمیرہے، 72 سال سےتصفیہ طلب مسئلہ حل کیے بغیرامن ممکن نہیں، پاکستان پڑوس میں کسی اورتنازع کامتحمل نہیں ہوسکتا۔وزیراعظم نے کہا پاکستان اوربھارت میں ثالثی امریکاہی کرواسکتاہے، مسئلہ کشمیرحل ہوجائے تومہذب ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ پاکستان، امریکا دہشتگردی کےخلاف جنگ میں قریبی اتحادی رہے، ماضی میں عدم اعتمادکی فضا سے دونوں ملکوں نے نقصان اٹھایا، امریکا کےساتھ عدم اعتماد ختم کرکے روابط کی نئی ترتیب چاہتے ہیں۔عمران خان نے کہا پاک فوج پیشہ ور، چیلنجزسے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، افغانستان میں طاقت کے استعمال سےامن قائم نہیں ہوسکتا، امریکا نے 4 دہائیوں تک افغانستان میں جنگ لڑی، امن نہیں ہوسکا، طالبان مقامی جنگجو ہیں، افغانستان سے باہرکارروائیاں نہیں کرتے، افغان امن عمل میں طالبان کوسیاسی عمل کاحصہ بنانا ضروری ہے۔ افغانستان میں آزادانہ انتخابات کے بعد ہی امن ممکن ہے، امریکا ایران تنازع سے خطے کا امن، معیشت متاثرہونے کاخطرہ ہے، داعش پاکستان، افغانستان، امریکاہی نہیں باقی دنیا کے لیے بھی خطرہ ہے۔وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا اول آفس میں امریکی صدر سے ملاقات کرکے بہت خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ سیدھی بات کرنے والے انسان ہیں نا کہ لفظوں میں الجھانے والے، صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میرے پورے وفد کو امریکی صدر سے مل کر اچھا لگا۔وزیر اعظم نے کہاافغانستان کی عوام پچھلے چار دہائیوں سے تشدد کا نشانہ بنتے آرہے ہیں، آخری چیز جو افغانستان اس وقت چاہتا ہوگا وہ شاید مزید تشدد اور ہلاکتیں ہوں گی، امریکا کے پاس دنیا کی سب سے طاقت ور ترین جوہری ہتھیار ہیں اگر وہ چاہے تو افغانستان کو ختم کر سکتا ہے لیکن یہ تباہ کن ہوگا۔ افغانستان کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وزیر اعظم نے کہا طالبان جس حکومت کا حصہ ہوں گے وہی حکومت افغانستان میں چل پائے گی اور عوام کوامن نصیب ہوگا۔

بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

لندن(ویب ڈیسک) سابق وزیر خارجہ بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق وزیرخارجہ بورس جانسن نے 92 ہزار سے زائد ووٹ لیکر اپنے مدمقابل وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ کو شکست دے دی، جیرمی ہنٹ کو 47 ہزار ووٹ پڑے۔ بورس جانسن ں کل سے اپنا عہدہ سنبھال لیں گے جب کہ تھریسامے کا آج بطور وزیراعظم آخری دن ہے۔برطانوی وزیراعظم کے انتخاب کے لیے 10 امیدوار میدان میں موجود تھے تاہم مختلف مراحل میں ہونے والے اس انتخاب کے آخر تک پہنچتے پہنچتے صرف 2 امیدوار جیرمی ہنٹ اور بورس جانسن میدان میں رہے گئے۔ یوں یہ مقابلہ موجودہ اور سابق وزرائے خارجہ کے درمیان ہوا۔55 سالہ بورس جانسن 2016 سے 2018 کے درمیان بطور وزیر خارجہ خدمات انجام دیتے آئے ہیں تاہم وزیراعظم تھریسامے کی ’بریگزٹ ڈیل‘ سے اختلافات کے باعث مستعفی ہوگئے تھے جب کہ وہ 2008 سے 2016 تک لندن کے میئر بھی رہے۔اپنے مختصر خطاب میں نو منتخب وزیراعظم نے سبکدوش ہونے والی وزیراعظم تھریسامے اور مدمقابل امیدوار جیرمی ہنٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی ذمہ داریوں اور وعدوں کا مکمل ادراک ہے، قوم کو مایوس نہیں کروں گا۔دوسری جانب کچھ وزراءنے بورس جانسن کی نامزدگی پر اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہے ان میں فارن آفس منسٹر سر الان ڈنکین، وزیر تعلیم اینی ملٹن، چانسلر پلپ ہموند اور جسٹس سیکرٹری ڈیوڈ گوئیکے شامل ہیں۔واضح رہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر وزیراعظم تھریسامے کی بریگزٹ ڈیل کو شدید عوامی مخالفت کے علاوہ اپوزیشن اور اپنی کابینہ کے وزراءکی ناراضی کا سامنا بھی تھا اور بار بار پیدا ہونے والے بحران پر تھریسامے نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا۔