اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح بیماری پھیل رہی ہے ہمیں خطرہ ہے کہ اس مہینے کے آخر میں کہیں ہسپتالوں میں جگہ کم نہ پڑ جائے۔ اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی تک صرف 40لوگ مرے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے پاکستانیوں کی قوت مدافعت زیادہ ہے یا شاید ہمیں یہ بیماری اثر نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا کا واسطہ اس غلط فہمی میں نہ پڑیں کیونکہ اگر یہ سوچ آ گئی تو یہ وبا بہت خطرناک ہے اور ہمارے لوگ یہ سوچ کر احتیاط نہیں کررہے کہ پاکستانیوں کو فرق نہیں پڑے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح یہ وبا بڑھتی جا رہی ہے تو ہمیں خوف ہے کہ مہینے کے اختتام تک جن چار یا 5 فیصد لوگوں کو ہسپتال جانا پڑے گا ان کی تعداد اتنی ہو جائے گی کہ ہمارے ہسپتالوں میں آئی سی یو یا شدید بیمار مریضوں کیلئے جگہ نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم شدی بیمار لوگوں کا علاج کرنے سے قاصر ہوں گے، ہمارے ہسپتالوں میں اتنے وینٹی لیٹر نہیں ہوں گے اور ہم ان کا علاج نہیں کر سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم احتیاط کریں گے تو اگر بیماری کم شدت سے پھیلتی ہے تو ابھی ہمارے ہسپتالوں میں جگہیں ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ تین ہفتے پہلے ہم نے لاک ڈان کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ہم نے اسکول، یونیورسٹیز کے بعد فیکٹریاں دکانیں وغیرہ بند کردی تھیں لیکن یورپ، امریکا اور چین میں ہونے والے لاک ڈان سے ہمارا لاک ڈان مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا یعینی تقریبا پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو ہمیں لاک ڈان کا یورپ اور چین کی طرح نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر ہم ان کی طرح لاک ڈان کریں گے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جو روزانہ دیہاڑی کمانے والے ہیں، رکشا چلانے والے، چھابڑی والے، دکاندار وغیرہ پر لاک ڈان کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ سارا دن دیہاڑی کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ انہوں نے نے کہا کہ اس لیے ہم نے کوشش کی کہ کسی طرح سے توازن قائم ہو جائے، لاک ڈان بھی ہو تاکہ بیماری نہ پھیلے اور اس کمزور طبقے پر بھی بوجھ نہ پڑ جائے اور یہی وجہ ہے تمام صوبوں اور وفاق کا ردعمل مختلف تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا جیسے ملک میں بھی مختلف ریاستوں میں مختلف رویہ ہے، کئی نے پورا لاک ڈان کردیا ہے، کئی نے جزوی لاک ڈان کیا ہوا ہے، یورپ میں بھی سوئیڈن کا مختلف ہے جبکہ جرمنی کا اسپین اور اٹلی سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے زراعت کے شعبے میں لوگوں کو کام کرنے دینا ہے کیونکہ ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے 22کروڑ لوگ ہیں جنہیں ہمیں کھانا پینا بھی دینا ہے خصوصا اب گندم کی کٹائی شروع ہو چکی ہے تو ہم نے دیہاتوں میں کہا ہے کہ کوئی لاک ڈان نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اصل لاک ڈان شہروں میں کیا ہے، اب شہروں میں بھی سب کو خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ لوگوں کے حالات برے ہیں، مزدوروں اور دیہاڑی کمانے والوں کے برے حالات ہیں تو اس کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ شعبہ تعمیرات کو کھول دیا جائے تاکہ لوگوں کو نوکریاں ملیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے کہ ہم اپنے سب سے غریب طبقے کا کیسے خیال رکھیں تو اسی سلسلے میں ہم کل سے احساس پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام میں ساڑھے تین کروڑ لوگوں نے درخواست دی ہے کہ وہ انتہائی غریب ہیں اور ان کی مدد کی جائے اور اس پروگرام میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نظام میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا اور یہ نادرا کی جانب سے فراہم کیے ڈیٹا کی بنیاد ہر خودکار نظام کے تحت میرٹ پر چل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے تحت ہر خاندان میں ایک فرد کو 12ہزار روپے دیے جائیں گے اور پورے پاکستان میں 17ہزار جگہیں ہیں جہاں سے یہ پیسہ تقسیم کی جائے گا جس کے تحت اگلے سے دو سے ڈھائی ہفتے میں ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں کو یہ پیسہ دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایس کے ذریعے ساڑھے 3 کروڑ لوگوں نے رابطہ کیا ہے، میرٹ پر یہ پیسہ ملک میں 17 ہزار جگہوں پرسے دیا جائے گا۔ احساس پروگرام میں مزید بہتری کرنا پڑے گی تو وہ ہم کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹائیگر فورس کی مدد سے نچلی سطح پر مزید غریب لوگوں کو ڈھونڈین گے، احساس پروگرام کے ذریعے 144 ارب روپے نچلی سطح تک دئیے جائیں گے، 14 اپریل سے کنسٹرکشن انڈسٹری کھولنے سے مزدوروں کو روزگار ملے گا۔ عمران خان نے کہا کہ ہم سب کو سمجھنا چاہئے احتیاط سے بہت بڑے مسئلے سے بچ سکتے ہیں، بیماری کے بدترین اثرات سے بچنا ہمارے ہاتھ میں ہے، زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں تو بیماری تیزی سے پھیلتی ہے یہ سب سے خطرناک ہے، جن لوگوں کو بیماری لگتی ہے ان میں سے 85 فیصد لوگوں کو خاص فرق نہیں پڑے گا، کرونا سے متاثرہ 4 یا 5 فیصد ایسے لوگ ہیں جنہیں اسپتال جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ کرونا بیماری سے 100 میں سے ایک یا ڈیڑھ انسان مر سکتا ہے، جب بھی زیادہ لوگ جمع ہوں گے تو یہ بیماری خطرناک بن جاتی ہے، دیکھ رہا ہوں کہ کئی علاقوں میں لوگ پرواہ نہیں کررہے ہیں، نوجوان کو بیماری ہوئی تو وہ گھر جائے گا تو ان کے ماں باپ بھی متاثر ہوسکتے ہیں، ہم سب کو ذمہ داری لینی ہے اور احتیاط کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر ملک کے اندر کرونا وائرس کا پھیلا مختلف ہے، اسپین یا نیویارک میں ہر روز 700 لوگ مررہے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں شاید پاکستان میں زیادہ افراد متاثر نہیں ہوں گے، چانسز یہ ہیں کہ بیماری اتنی نہیں پھیلے گی تو ہمارے اسپتال کنٹرول کرلیں گے، تین ہفتے پہلے ہم نے لاک ڈان کا فیصلہ کیا تھا، اسکول، عوامی مقامات اور فیکٹریز کو بند کیا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں 5 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، ہمیں معلوم ہے لاک ڈان کریں گے تو غریب ترین طبقے پر اس کے اثرات کیا ہوں گے، جو دن بھر محنت کرکے بچوں کو پالتے ہیں ان کو مشکلات کا سامنا ہے، ہماری کوشش ہے کہ کمزور طبقے پر مشکلات نہ پڑجائیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کیا ہے کہ دیہاتوں میں کوئی لاک ڈان نہیں کرنا ہے، شہروں میں مزدوروں اور ڈیلی ویجز ملازمین کو مشکلات کا سامنا ہے، کنسٹرکشن انڈسٹری کو کھولنے سے مزدوروں کو روزگار ملے گام، دوسری طرف ہمیں ساتھ ساتھ کرونا کے تدارک کو بھی دیکھنا ہے۔
