تازہ تر ین

میڈیا پر کوئی سنسر شپ نہیں،باتیں کر نیوالے ثبوت پیش کریں چیئرمین پیمرا سلیم بیگ

اسلام آباد ( انٹر ویو : ملک منظور احمد ، تصاویر : نکلس جان )چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا ) محمد سلیم بیگ نے کہا ہے کہ پاکستان میں میڈیا پر کوئی سنسر شپ نہیں ہے اس حوالے سے لگائے جانے والے الزامات غلط ہیں ،جو لوگ سنسر شپ کی باتیں کرتے ہیں وہ ثبوت پیش کریں ۔پاکستان میں میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے ۔فیک نیوز ایک بین الا اقوامی مسئلہ ہے ،فیک نیوز کا تدارک ضروری ہے ۔پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا مستقبل روشن ہے ۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار مجموعی طور پر انتہائی مثبت ہے ۔ بعض اوقات بریکنگ نیوز کی دوڑ میں چینلز پر غلط خبریں چلا دی جاتی ہیں جس سے ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے ۔ پیمرا کے معاملا ت میںسیاسی مداخلت نہیں ہے ۔ کرونا وائرس کے حوالے سے عوام کو آگاہی پہنچانے کے لیے میڈیا نے انتہائی ذمہ درانہ کردار ادا کیا ہے۔ ڈی ٹی ایچ سروس کا اجرا اس سال کے آخر تک کر دیا جائے گا۔ ڈی ٹی ایچ کے ایک لا ئسنس کا اجرا کر دیا ہے ،جس سے پیمرا کو 5ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو ا ۔ڈی ٹی ایچ کے مزید دو لا ئسنسز کا اجرا کریں گے ۔ڈی ٹی ایچ کے آنے سے ہم ڈیجیٹا ئز یشن کی طرف جا ئیں گے اور چینلزکی پلیسمنٹ کا مسئلہ ختم ہو جائے گا ،لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ میڈیا کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے ۔آزادی اظہار رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے خبریں کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے کیا ۔ایک سوال کے جواب میں سلیم بیگ کا کہنا تھا کہ پیمرا کے ادارے کا قیام یکم مارچ 2002ءکو عمل میں آیا اور اس ادارے نے اپنے قیام سے لے کر اب تک براڈ کاسٹ میڈیا کی لینڈ سکیپ ہی بد ل ڈا لی ہے ۔اس وقت سے لے کر اب تک 7مختلف کیٹیگریز میں 95چینلز چل رہے ہیں ۔257ریڈیو سٹیشنز ہیں ۔پیمرا نے ایک ڈی ٹی ایچ لا ئسنس جاری کر دیا ہے ،امید ہے سال کے آخر تک فعال ہو جائے گا ۔مزید دو لا ئسنس ابھی اجرا کے مراحل میں ہیں ۔ڈی ٹی ایچ کے آنے سے ہم ڈیجیٹلا ےزیشن کی طرف جائیں گے ،چینلز کے لیے جگہ کا ایشو ختم ہو جائے گا ۔مالی طور پر بھی ڈی ٹی ایچ لا ئسنس کے فوائد پیمرا کو حاصل ہوں گے ڈی ٹی ایچ کا ایک لا ئسنس 5ارب روپے میں دیا گیا ہے ۔ڈی ٹی ایچ کا نظام آنے سے سپیل اوور اثرات ہوں گے اور میڈیا انڈسٹری کے اندر روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 2002ءمیںپاکستان میں پیمرا کے تحت کوڈ آف کنڈیکٹ بنایا گیا تھا اور اس کے بعد سپریم کو رٹ کی احکامات کی روشنی میں 2014ءمیں تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد کوڈ آف کنڈیکٹ بنایا گیا ۔میڈیا انڈسٹری پر ا ئیوٹ سیکٹر ہے اور نجی شعبے میں کو ڈ آف کنڈیکٹ کی خلا ف ورزیاں تو ہو تی ہیں ۔ہم اس حوالے سے چینلز کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود بریکنگ نیوز کی ریس میں غلط خبریں بھی چلا دی جا تیں ہیں اس سے ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے ۔ پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو یہ ایڈ وائس دی تھی کہ اپنے اداروں کے اندر ان ہا ﺅس ایڈ یٹو ریل بورڈ کا قیام بھی عمل میں لے کر آئیں اور اس نظام کو مضبوط کریں تاکہ غلط خبروں کا تدارک کیا جا سکے ۔ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہم صرف پیمرا کے کو ڈ آف کنڈیکٹ پر عمل درآمد کرواتے ہیں ،ہمارے ادا رے پر سنسر شپ کا الزام بالکل ہی غلط ہے ۔الزامات لگانے آسان ہو تے ہیں ،لیکن ان کا ثبوت لانا مشکل ہوتا ہے ۔متعدد بار ٹی وی سکرینز پر قابل اعتراض زبان کا استعمال تک ہو گیا اس قسم کے معاملات کا تدارک کرنا ہمارے ادارے کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے یہ ہمارا مینڈیٹ ہے کہ ہم ان معاملات پر چیک رکھیں ۔اگر ہم ان معاملات پر بھی کاروا ئی نہیں کریں گے تو ہمارے ادارے کی ناکامی تصور ہو گی ۔امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی یو رپی ممالک میں ریگولیٹری باڈیز کا تصورموجود ہے اور یہ ریگولیٹرز سخت فیصلے بھی لیتے ہیں ۔امریکہ میں ایک ریڈیو سٹیشن کو 50ملین ڈالر کا جرمانہ کر دیا گیا ۔اس ی طرح برطانیہ میں ایک بہت ہی پرانا اخبار تک بند ہو گیا ۔ایک سوال کے جواب میں محمد سلیم بیگ نے کہا کہ چیئرمین پیمرا کے پاس کسی بھی ٹی چینل کا لا ئسنس معطل کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔اس حوالے سے کلیدی کردار ہماری کونسل آف کا مپلینٹس (سی او سی ) کا ہے ۔سی او سی ایسے معا ملا ت کوڈ آف کنڈیکٹ کے تحت ڈیل کرتی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کے معاملا ت میں سیاسی مدا خلت نہیں ہے ۔پیمرا اپنا کام کرتا ہے ۔جب تک انسانی زندگی ہے تب تک میڈیا رہے گا ۔اس کی گرو تھ مسلسل بڑھتی ہی جائے گی ۔امریکہ میں پہلے ریڈیو کا آغاز 1925ءمیں ہوا تھا ۔اس کے بعد سے میڈیا مسلسل بڑھ رہا ہے ۔دنیا کی آبادی 7ارب سے بڑھ گئی ہے ۔اس کے ساتھ میڈیا بھی بڑھ رہا ہے ۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا جمہوریت میں کلیدی کردار ہے ۔کسی بھی جمہوری ملک میں قانون کی حکمرانی اور احتساب کے حوالے سے میڈیا اہم ترین کردار ادا کرتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ریاست اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ہم ریاست کے ملازم ہیں اور ریاست کے لیے کام کرتے ہیں ۔پیمرا نے حالیہ کچھ عرصے میں مختلف کیٹیگریز میں نئے لا ئسنس جاری کیے ہیں ۔ آنے والے چینلز میں میں سیاحت ،صحت ،زراعت سمیت کئی اور چینلز بھی شامل ہیں ۔حکومت نے کیبل پر ایک ایجوکیشن چینل لا نچ کرنے کا اعلان کیا ہے پیمرا کا اس حوالے جو کردار ہو گا ہم ادا کریں گے ،کیبل آ پریٹرز کو ایک سی ڈی چینل اس کے لیے مختص کرنا ہو گا ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کیبل آپریٹرز کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں کیبل آپریٹرز کے کئی مسا ئل حقیقی ہیں اور وزن رکھتے ہیں ،پیمرا بطور ادارہ کیبل آ پریٹرز کے کردار کو سراہتا ہے ۔کیبل آپریٹرز نہایت ہی کم قیمت میں عوام کو آگاہی اور تفریح کی سروسز مہیا کر رہے ہیں ۔کیبل آپریٹرز کو صنعت کا درجہ ملے گا تو ہی اس شعبے میں ترقی ہو گی ۔ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر الیکٹرانک میڈیاکا کردار قابل تعریف ہے ۔میڈیا مجموعی طور پر ملک میں عوام کو تفریحی ،آگاہی سمیت کئی دیگر شعبوں میں بر وقت اور درست معلومات احسن انداز میں مہیا کر رہا ہے ۔میڈیا کا کسی بھی جمہوری معاشرے میں کلیدی کردار ہوتا ہے ۔پاکستان میں میڈیا کرونا وائرس کی آگاہی کے حوالے سے بھی بہت اچھا کام کر رہا ہے ۔ہم نے میڈیاکو اس حوالے سے یہ ایڈ وائس دی تھی کہ عوام میں خوف و ہراس پیدا نہ کریں بلکہ عوام کو امید بھی دیں اور مجھے خوشی ہے کہ میڈیا نے ذمہ درانہ کردار ادا کیا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کا کو ڈ آف کنڈیکٹ بھی چینلز والا ہی ہے ۔اور ریڈیو کے حوالے سے معاملا ت کو بھی کوسی او سی ہی دیکھتی ہے ۔ریڈیو سٹیشنز کے قیام کے حوالے سے مرحلہ وار 11بڈنگز ہو چکی ہیں اور اس وقت ملک میں تقریبا ً 254ریڈیو اسٹیشن کام کررہے ہیں ۔پاکستان میں ریڈیو کی صنعت نے بھی بہت ترقی کی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پیمرا ایک پرو انڈسٹری ادارہ ہے اور ہم پاکستان میں میڈیا کی صنعت کا فروغ چاہتے ہیں ۔میڈیا کو اس وقت مسائل درپیش ہیں پیمرا نے اس حوالے سے ہمیشہ میڈیا کا ساتھ دیا ہے ،میڈیا کے اشتہارات کے حوالے سے پالیسی معاملات حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں پیمرا میڈیا کی حمایت کرتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ معا شرہ اسی وقت مہذب ہو گا جب معاشرے میں بحث و مبا حثہ،کا کلچر عام ہو گا ،معاشرے میں ڈبیٹ ،ڈسکشن اور ڈا ئیلاگ پروان چڑھے گا تب ہی معاشرے میں برداشت کا عنصر بھی پیدا ہو گا اور ہما را معاشرہ بھی مہذب معاشرہ کی طرف جائے گا ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پیمرا کے ملک بھر میں 13دفاتر ہیں پیمرا کے دفاتر تمام صوبائی دا رلحکومتوں میں موجود ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ دنیا ایک گلو بلا ئزڈ ورلڈ کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے ۔دنیا سے کٹ کر 100سال پہلے تک رہا جا سکتا تھا ،70سال پہلے تک بھی رہا جا سکتا تھا لیکن اب اس طرح رہنا مشکل ہے ۔ہمارے بچوں کا مقابلہ اب دنیا کے ساتھ انھوں نے دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پیمرا کی کو نسل آف کمپلینٹس میں آنے والی ہر شکایت کا ازالہ 60سے 90دن میں کر دیا جاتا ہے اس حوالے سے ہمارا نظام بہت ہی اچھا ہے لیکن مسئلہ تب آتا ہے جب ہمارے فیصلوں کو ہا ئی کورٹس میں چیلنج کر دیا جاتا ہے اس وقت پیمرا سے متعلق 550کیسز ہا ئی کو رٹس میں زیر التوا ہیں ۔اس حوالے سے ہمیں بھی تا خیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔آئین کے آرٹیکل 10اے کے تحت ڈیو ڈیلیجنس اور رول آف لا ءکے تحت فیصلے لیے جاتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کونسل آف کیمپلینٹس کے ارکان کی تقری وفاقی حکومت اتھارٹی کی سفارش پر کرتی ہے ۔اس کونسل میں نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہو تے ہیں ایسے افراد کو لیا جاتا ہے جن کی نجی شعبے میں ساکھ بہترین ہو تی ہے ۔ملک میں کیبل اور چینلز پر بھارتی مواد کو نشر کرنے کی جازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی اس پابندی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر موجود ویب چینلز ،پیمرا کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے ۔ ان چینلز کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے پیمرا نے تجویز دی تھی لیکن انسانی حقوق کی پارلیمانی کمیٹی نے اس حوالے سے ہماری تجاویز کو رد کر دیا ۔پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور ہر شخص کو آزادی اظہار رائے حاصل ہے ،آزادی اظہار رائے جمہوریت معاشروں کے لیے انتہائی اہم ہے ۔بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ آزادی اظہار رائے جمہوریت کی روح ہے ،جمہوریت کی جان ہے ۔ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈراموں کو بھی پیمرا ریگو لیٹ کرتا ہے ،ہم نے اس حوالے سے ایڈ وائس دی تھی کہ ڈراموں میں پاکستان کی سماجی ،ثقافتی اور مذ ہبی اقدار کے بر خلا ف کو ئی چیز نہ دکھائی جائے ۔بعض اوقات ایسے ڈرامے تیار کیے جاتے ہیں جن کے موضوعات پاکستان کے سماجی اورمذہبی اقدار کے ساتھ ہم آ ہنگ نہیں ہو تے ۔اس حوالے سے ایک ایشو یہ بھی ہے کہ تھرڈ پارٹی سے خریداری کی جاتی ہے ڈرامہ پڑو دیوس کو ئی اور کرتا ہے اور نشر کوئی اور کرتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 40بین الا ا قوامی چینلز کو پاکستان میں لیڈنگ رائٹس حاصل ہیں ،کیبل آپریٹرز کو زیادہ سے زیادہ پانچ کیبل چینلز چلانے کی اجازت ہے ۔پیمرا میں ہم سیلف ریگولیشن کے اصول کے قائل ہیں ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain