تازہ تر ین

عمران خان حکومت کی اپوزیشن بھوک ہے

تجزیہ : امتنان شاہد

بھوکے مزدور لوگ فیملیوں سمیت سڑکوں پر نکل آئے ہیں ، ان کا ہوٹلوں اور دکانوں پر حملہ آور ہونا خارج ازا مکان نہیں
احساس پروگرام وزیراعظم کی اچھی کوشش ، فیصل آباد میں احساس پروگرا م کے 5 لاکھ چوری کا واقعہ مذاق ہے سسٹم کو فول پروف بنانے کی ضرورت
تجویز ہے کہ لاک ڈاو¿ن آہستہ آہستہ نرم ، کچھ دن بعد پھر سخت ہوگا ، تنخواہ دار ، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقہ یوٹیلیٹی بلز ، کرایہ دینا ہے کہاں سے دے گا
ٹائیگر فورس اس لئے بنائی گئی ہے کہ قرنطینہ کئے گئے علاقوں کو سیل کر کے ان میں راشن پہنچائیں ، اسے فوری طور پرACTIVEکرنا ہوگا
ٹائیگر فورس کو فوج اور سکیورٹی فورسز کی مدد درکار ، اصل مقصد ضرورت مندوں کو فورا گھر گھر راشن پہنچانا ہونا چاہیے
وزیراعظم عوام کو تیار کر رہے ہیں کہ شاید کروناایک سال چل سکتا ہے ، لگتا نہیں ہم اگلے6 ماہ معمول کی زندگی میں واپس آسکیں
امریکہ اور برطانیہ کرونا مریضوں کو نہیں سنبھال سکے ہمارے ہسپتالوں میں تو 1580 مریضوں کیلئے ایک بیڈ ہے

ملک کے چاروں صوبوں میں 14 اپریل تک لاک ڈاﺅن کی صورت حال ہے ہماری معلومات کے مطابق حکومتی حلقوں میں یہ تجویز

زیر غور ہے کہ 14 اپریل کے بعد کچھ دنوں کے لئے شاید لاک ڈاﺅن میں نرمی لائی جائے اور کچھ سیکٹر کھولے جائیں تعمیراتی سیکٹر بارے تو وزیراعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم اس کو بتدریج کھولیں گے اور چار دیواری کے اندر رہ کر کنسٹرکشن کے معاملات کئے جا سکیں گے۔ اس وقت یہ تجویز زیر غور ہے کہ 4 یا 5 روز کے لئے 14 سے 18 اپریل تک غالباً اس لاک ڈاﺅن میں تھوڑی نرمی کی جائے تا کہ کاروبار زندگی واپس آ سکے جس کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ محنت کشوں کے معاملات بہت حد تک بگڑ رہے ہیں خاص طور پر وزیراعظم کی پورٹل پر شکایتوں کے انبار ہیں اور تصویریں ہیں جو ان کو بار بار دکھائی گئی ہیں اور انہیں کہا گیا ہے کہ اس لاک ڈاﺅن کو تھوڑا سا نرم کیا جائے تا کہ وہ دیہاڑی دار، مزدوروں کو کچھ ریلیف مل سکے۔ جہاں تک حکومتی ریلیف کی بات ہے۔یہ ریلیف اس کے علاوہ ہے۔ یہ بات غریب کی روٹی روزگار ہے چاہے وہ کچھ دنوں کے لئے ہی ہو۔ اسی طرح تاجر نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ کسی تاریخ کے بعد دکانیں کھولنے کے لئے تیار ہیں۔ وزیراعظم اس بارے میں سوچ رہے ہیں اور یہ تجویز بہت شدت سے دی جا رہی ہے کہ 14 اپریل کے بعد کچھ روز کے لئے اس میں نرمی کی جائے۔ لیکن اگر 18 اپریل تک صورت حال قابو میں نہیں آتی کرونا زیادہ بگڑ جاتا ہے۔ سب لوگ ٹی وی چینلز پر سن رہے ہیں کہ وزیراعظم بار بار قوم کو بتا رہے ہیں کہ موذی مرض میں اضافہ ہونا باقی ہے یہ آہستہ آہستہ بڑھے گا۔ کم نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں آج بھی بیان دیا ہے کہ اس وائرس کی شدت کم نہیں ہو گی اضافہ ہو گا۔ اس میں انہوں نے ایک سال تک کا کہا ہے۔ حکومت اور وزیراعظم کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج نہ کوئی اپوزیشن ہے نہ اپوزیشن رہنما ہے اس وقت عمران خان حکومت کی اصل اپوزیشن بھوک ہے 25 فیصد وہ لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ سڑکوں پر دیکھا ہو گا کہ دیہاڑی دار مزدور اور محنت کش لوگ جو ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں وہ سڑکوں پر موجود ہیں، ہم چونکہ ایک خبریں رضا کار مہم بھی چلا رہے ہیں۔ ہمیں جو فیڈ بیک ملا ہے۔ آج اس کا پانچواں چھٹا روز ہے پہلے دن سے لے کر اس میں اضافہ ہوا ہے۔ مزدوروں کی فیملیز بھی سڑکوں پر آ چکی ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر ان کو بروقت مدد نہ ملی تو شبہ ہے وہ مختلف جگہوں پر جہاں کھانے کے سٹاک ہوں گے گاڑیاں ہوں گی جہاں سے ان کو پیسے ملیں گے وہ ان پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں لاہور سے اسلام آباد جا رہا تھا رستہ میں ٹول پلازہ پر موجود ہاتھوں میں کچھ اوزار پکڑے ہوئے لگ، بیلچے، کدالیں پکڑیں ہوئے، ہتھوڑیاں پکڑے ہوئے مزدور محنت کش سامنے آ گئے جنہوں نے گاڑیوں کو اس وقت جانے نہیں دیا جب تک ان کو کچھ ملا نہیں، یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج وزیراعظم اور حکومت کے لئے یہی ہے۔ اس میں مسئلہ یہ پیدا ہو گا کہ یہ جتنی دیر ہو گی تیزی سے ٹائیگر فورس بن گئی، بہت اچھی بات ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اس کا کام کب شروع ہو گا۔ جس کو بھوک لگی ہوتی ہے وہ پندرہ دن انتظار نہیں کرتے وہ ابھی فوراً بندوبست کرنے کا کہتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ فوری طور پر نہ ہوا تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھوکے لوگ جو سڑکوں میں بیروزگاری کی حالت میں بیٹھے ہیں وہ کسی نہ کسی طور پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ لہٰذا بہت بڑا چیلننج وزیراعظم صاحب کے لئے حکومت پاکستان کے لئے ہے کہ جو بھی فورس بنا رہے ہیں اس کی تشکیل کرتے رہیں، لیکن فوری ریلیف کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ خاص طور پر کل احساس پروگرام کے سلسلے میں جو پیسوں کی تقسیم شروع ہوئی ہے پنجاب اور کے پی کے کچھ علاقوں میں۔ جو وقت آتی ہے جو رپورٹ مجھے ملی ہے فیصل آباد میں جن صاحب کو وہ پیسے تقسیم کرنے کے لئے دیئے گئے تھے حلقہ 190 میں غالباً وہاں انہوں نے رپورٹ درج کروا دی کہ 5 لاکھ روپے کسی نے میری جیب سے چرا لئے ہیں لہٰذا یہ صورتحال بڑی خوفناک ہے چند لوگوں کو تقسیم پر رکھا گیا ہے کیا وہ قابل اعتبار ہیں۔ فوری طور پر حکومت کو کام کرنے کی ضرورت ہے سروے کروائیں کیا یہ ممکن نہیں کہ گھر گھر جا کر راشندیں لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ جو مزدور طبقہ سڑکوں پر بیٹھا ہے اس کے لئے فوری ریلیف کا کام کیا جائے۔ اگر غربت کنٹرول نہیں ہوتی۔ جو لوگ غربت سے تنگ ہیں جن میں تنخواہ دار طبقہ مڈل کلاس لوگ ہیں وہ کتنی دیر تک انتظار کریں گے بہر حال انہوں نے یوٹیلیٹی بلز دینے ہیں۔ کرائے دینے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ فیصلہ درست ہے کہ انہوں نے کرفیو نہ لگا کر درست اقدام کیا۔ تحمل سے ساری چیز کو سوچا لیکن بات یہ ہے کہ چیزوں پر عملدرآمد ہوتا نظر آئے۔ یہ جو 12 ہزار دینے شروع کئے اچھی کوشش ہے یہ اس طبقے کو ملے ہیں جو تنخواہ دار طبقہ ہے یہ ریلیف دیہاڑی داروں کے لئے نہیں ہے۔ ٹائیگر فورس کو فوری طور پر ایکٹو کرنے کی ضرورت ہے چاہے 5 لاکھ، 10 لاکھ رجسٹریشن ہوتی ہیں اس ٹائیگر فورس جو میری تجویز پر بنائی گئی تھی اس کو فوری طور پر ایکٹو کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ راشن ان لوگوں تک پہنچائیں جو غربت کی وجہ سے سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ بلکہ اب ان کی فیملیاں بھی آ کر بیٹھ گئی ہیں۔ میری اطلاع ہے کہ سوچا جا رہا ہے کہ محلے کے یوٹیلیٹی سٹورز کو استعمال کیا جائے ان کریانہ سٹورز کو استعمال کیا جائے اس کو راشن تقسیم کرنے کا طریقہ کار ابھی واضع نہیں کیا گیا اس ٹائیگر فورس کا ایشو یہ ہے کہ برطانیہ میں اس طریقے سے ہوا کہ بورس جانسن نے جو والنٹیرز بنائے گئے۔ اس کی تعداد 3 لاکھ تک ہے ہمارے ٹائیگر فورس کی تعداد 3 لاکھ تک ہے ہمارے ٹائیگر فورس کی تعداد 9 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ برطانیہ میں والنٹیرز کو وہاں کی ہیلتھ فورس سے اٹیچ کیا گیا تھا کہ جہاں کوئی علاقہ سیل کرنا ہے قرنطینہ میں لا جاتا ہے وہاں ان لوگوں نے راشن پہنچانا ہے۔ ابھی تو ان علاقوںکا تعین کرنا ہے کہ جہاں کرونا کا سب سے زیادہ حملہ ہوا۔ مثال کے طور پر اسلام آباد میں بارہ کہو 4,3 دن تک سیل رہا۔ لاہور میں امامیہ کالونی کئی دن سیل رہا غالباً ابھی تک سیل ہے کراچی میں کچھ علاقے سیل ہیں۔ ان علاقوں میں ٹائیگر فورس اور مقامی انتظامیہ کو ساتھ ملانا پڑے گا۔ یہ ٹائیگر فورس کی تشکیل ان علاقوں کے لئے ہے جہاں لوگ قرنطینہ ہوں گے جن کو سیل کیا جائے گا۔ جو 12 ہزار کی تقسیم ہے حکومت کی طرف سے احساس پروگرام کے تحت ایک شرط رکھی گئی ہے کہ اتنی سیلری کے لوگ شامل ہوں گے اس میں کسی نہ کسی طرح مقامی انتظامیہ کو ملانا ضروری ہے۔ اگلے دنوں میں مختلف علاقوں سے شکایاتت آنی شروع ہو جائیں گی کہ فیصل آباد کا واقعہ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ یہ مذاق ہے۔ جب تک انتظامیہ کی پولیس کی مدد شامل نہیں ہو گی یہ کبھی سسٹم فول پروف نہیں ہو گا۔ وزیراعظم خود کہہ چکے ہیں کہ مریضوں کی تعداد شاید 50 ہزار سے زیادہ ہو جائے اور ہمارا ہیلتھ سسٹم ہر 1580 بندوں کے لئے پاکستان میں ایک ہسپتال کا ایک بیڈ موجود ہے۔ اگر ایک دومہینے چلتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اگلے 6 ماہ تک تو واپس اس زندگی میں نہیں جا سکتے ہیں جو جنوری کے وسط میں تھے جب کرونا کی صورت حال نہیں تھی۔ امریکہ میں سوچا جا رہا ہے کہ امریکہ میں 15 سے 20 لاکھ اموات ہوں گی کل آبادی 31 کروڑ ہے۔ ہم نے احتیاط نہ کی، لاک ڈاﺅن کو سیریس نہ لیا تو بہت بڑی تعداد میں نمبر بڑھ سکتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain