واشنگٹن(نیٹ نیوز) امریکہ نے ایک بار پھر کرونا وائرس کو چین سے جوڑتے ہوئے تحقیقات شروع کردیں۔ 190 کے قریب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے والی وبا سے اب تک 20 لاکھ 65 ہزار سے زائد افراد متاثر جب کہ ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں مگر بدقسمتی سے اب تک دنیا کی بہت بڑی آبادی اس وبا کے حوالے سے تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے. وبا کے شروع ہونے سے لے کر اب تک اس سے متعلق سازشی اور جھوٹی تھیوریز سامنے آتی رہی ہیں جب کہ امریکا اور چین بھی اس حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے ہیںجہاں امریکا نے کرونا وائرس کو چینی وبا قرار دیا وہیں چین نے بھی امریکا پر الزام لگایا کہ دراصل امریکی فوج ہی کرونا کوووہان لے کر آئی تھی مگر ایسے الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور یہ سب صرف بیانات اور میڈیا کی خبروں کی زینت تک محدود رہے. معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے امریکی خفیہ ایجنسی کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے انکشاف کیا کہ امریکی ماہرین اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا واقعی کرونا وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا اور اسے اتفاقی طور پر انسانوں میں منتقل ہونے کے لیے چھوڑا گیا رپورٹ کے مطابق خفیہ ایجنسی کے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ خفیہ اداروں کے ماہرین اس تھیوری پر یقین نہیں رکھتے کہ کرونا کو لیبارٹری میں ہی تیار کیا گیا.تاہم ماہرین یہ بات جاننے کی کوشش کریں گے کہ کہیں لیبارٹری میں کام کرنے والے کسی شخص سے تو کوئی متاثر نہیں ہوا اور وہیں سے اس وبا کی شروعات ہوئی ہو اسی حوالے سے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز نے بھی اپنی رپورٹ میں ذرائع سے بتایا کہ امریکی حکومت اور خفیہ اداروں کے ماہرین کو شک ہے کہ چین نے امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے کرونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کیا، تاہم فی الحال اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں. فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں دعوی بھی کیا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے چینی حکومت دنیا سے شیئر کیے جانے والے ڈیٹا کے حوالے سے بھی بدنیت ہے اور چینی حکومت شفاف انداز میں ڈیٹا کا تبادلہ نہیں کر رہی. واشنٹگن پوسٹ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کرونا وائرس شروع ہونے سے2 سال قبل ہی امریکی سائنسدانوں اور ماہرین نے ووہان کی مذکورہ گوشت مارکیٹ اور ووہان کے بائیوٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے دوران ماہرین کی جانب سے دیکھی گئی چیزوں کا تفصیلی احوال انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کو بھجوایا تھا. اخبار کے مطابق چین میں امریکی سفارتخانے کے تعاون سے امریکی ماہرین نے ووہان کی گوشت مارکیٹ کے دورے سمیت ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی (ڈبلیو آئی وی) کا دورہ بھی کیا تھا جو کہ بائیوٹیکنالوجی کا ایک اہم ادارہ ہے. رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی ماہرین کی جانب سے دورے کے بعد چین میں موجود امریکی سفارتخانے نے امریکی محکمہ خارجہ کو مراسلے بھیجے تھے جس میں سفارتخانے نے ووہان میں وائرس جیسے امکانات کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور گوشت مارکیٹ سمیت بائیوٹیکنالوجی ادارے میں ہونے والی تحقیقات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا تاہم ان مراسلوں میں واضح طور پر نہیں لکھا گیا تھا کہ وہاں پر کسی وائرس کی تیاری کی جا رہی ہے. واشنگٹن پوسٹ کااپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ اگرچہ 2018 میں ہی امریکی ماہرین نے ووہان میں وائرس کے شروع ہونے کے خدشات کا اظہار کیا تھا تاہم متعدد امریکی اداروں کے ماہرین نے دسمبر 2019 میں ووہان سے شروع ہونے والے کرونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کیا جانے والا وائرس نہیں کہا. واشنگٹن پوسٹ کی طرح برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ نام نہاد ماہرین کے کچھ گروپس ایسے ہیں جنہوں نے دعوی کیا ہے کہ کرونا وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا، تاہم اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ وائرس چین نہیں بلکہ مغربی دنیا میں تیار ہوا جسے بعد ازاں چین بھجوایا گیارپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک گروپ کے دعوے کے مطابق معروف فلاحی ادارے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فانڈیشن نے انگلینڈ کے پربرائٹ انسٹی ٹیوٹ کو ایسے ہی کسی وائرس کے تیار کرنے کے لیے امداد فراہم کی تھی اور پھر انگلینڈ کے ادارے نے کرونا کو لیبارٹری میں تیار کیا. رپورٹ میں ایک گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اگرچہ اس دعوے کو کئی ماہرین امریکی و برطانوی ادارے افواہ قرار دیتے ہیں تاہم اس دعوے کے مطابق انگلینڈ کے ادارے نے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فانڈیشن کی امداد کے تحت نہ صرف کرونا کو تیار کیا بلکہ اسے رجسٹرڈ بھی کرا لیا تھا. رپورٹس کے مطابق بعد ازاں اسی وائرس کو دوسرے ممالک کے اداروں کے ساتھ مل کر چینی شہر ووہان منتقل کیا گیا، تاہم اس دعوے پر بھی کسی مستند ادارے کو یقین نہیں اور کئی ماہرین ایسے دعووں کو سازشی تھیوری قرار دیتے ہیں ایسے ہی متضاد دعووں کے بعد حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اشارہ دیا کہ امریکی حکومت کرونا وائرس کے لیبارٹری میں ممکنہ تیاری کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے. تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے محض 2 دن بعد ہی سی این این نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ امریکی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں اس بات کی تحقیقات کر رہی ہیں کہ کیا واقعی کرونا وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا؟ سی این این نے رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور نیشنل سیکیورٹی کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی حکومت اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا واقعی کرونا وائرس ووہان کی گوشت مارکیٹ سے نہیں پھیلا بلکہ اسے ممکنہ طور پر کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟. رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ اگرچہ امریکی حکومت کے زیادہ تر عہدیداروں کو یقین ہے کہ کرونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا تاہم پھر بھی اب حکومت اور خفیہ ادارے مل کر اس بات کی کھوج لگائیں گے کہ کیا واقعی کرونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے. رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت اور خفیہ اداروں کی جانب سے کرونا کی ممکنہ طور پر لیبارٹری میں تیاری کی تحقیقات کے معاملے نے اس وقت تقویت پکڑی جب امریکی صدر کے انتہائی قریبی اور ان کی پارٹی کے کچھ ارکان کانگریس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر کرونا وائرس کے حوالے سے ہونے والی تنقید پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس حوالے سے امریکی صدر پر تنقید بے جا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں امریکا کے چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارک ملی کے حوالے سے بتایا کہ کسی کو اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم مذکورہ معاملے کو انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں نہیں پتہ کہ سچائی کیا ہے لیکن ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں. ماضی میں جہاں کچھ تحقیقات میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ کرونا کا وائرس چین کے شہر ووہان کی گوشت مارکیٹ سے شروع ہوا اور اس حوالے سے دو مختلف تحقیقات میں 2 مختلف دعوے کیے گئے تھے ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس 2 اقسام کے سانپوں یعنی چینی کوبرا اور کرایت سے شروع ہوا ہوگا اور پھر اسی مارکیٹ کا دورہ کرنے والے انسانوں میں یہ وائرس سانپوں کے ذریعے داخل ہوا ہوگا یا انہوں نے ان کا گوشت کھایا ہوگا.چین نے امریکی سینیٹ کے ایک اجلاس کی کارروائی کی ویڈیو کو بنیاد بناتے ہوئے دعوی کیا کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مذکورہ وائرس کو امریکی فوج چین کے شہر ووہانلے کر آئی تھی۔ اس سے قبل چینی حکومت امریکا پر کرونا سے متعلق افواہیں اور خوف پھیلانے جیسے الزامات لگاتی آئی تھی امریکا اور چین کی طرح دنیا کے دیگر ممالک کے سیاستدان، مذہبی رہنما، ماہرین اور عام افراد کی رائے بھی کورونا سے متعلق متفرق دکھائی دی جس وجہ سے بھی کورونا وائرس کا مقابلہ کرنا حکومتیں کے لیے مشکل بنتا گیا یہی نہیں بلکہ کورونا وائرس کے حوالے سے اور بھی کئی دیگر سازشی نظریات سامنے آئے جس وجہ سے بھی دنیا کی بہت بڑی آبادی پریشانی کا شکار رہی۔
