راولپنڈی:(ویب ڈیسک)ایوی ایشن ڈویژن نے پائلٹس کے لائسنسز کی جانچ اور تصدیق کے دوران مزید 68 پائلٹس کے لائسنسز معطل کردیے جس کے بعد معطل کیے جانے والے پائلٹس کی مجموعی تعداد 161 ہوگئی۔ مشکوک لائسنسز کے حامل 262 پائلٹس میں 28 کے لائسنسز پہلے ہی منسوخ کردیے گئے تھے جبکہ اب تک 161 پائلٹس کے منسوخ کردیے گئے۔دیگر 73 پائلٹس سے متعلق فیصلہ آئندہ 2 روز میں کیا جائے جبکہ ایوی ڈویژن نے کہا ہے کہ وہ تمام اقدامات/ فیصلے ‘ ڈبل چیک’ کے بعد کررہے ہیں۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں پاکستانی پائلٹس کے مشکوک لائسنس کے اعلان کےبعد آج (بروز منگل) حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں فضائی مسافروں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے گی۔ک لائسنسز کے حامل 262 پائلٹس میں 28 کے لائسنسز پہلے ہی منسوخ کردیے گئے تھے جبکہ اب تک 161 پائلٹس کے منسوخ کردیے گئے۔دیگر 73 پائلٹس سے متعلق فیصلہ آئندہ 2 روز میں کیا جائے جبکہ ایوی ڈویژن نے کہا ہے کہ وہ تمام اقدامات/ فیصلے ‘ ڈبل چیک’ کے بعد کررہے ہیں۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں 262 پاکستانی پائلٹس کے مشکوک لائسنس کے اعلان کےبعد آج (بروز منگل) حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں فضائی مسافروں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے گی۔خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو ‘مشکوک’ قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ‘جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں’۔جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔
29 جون کو ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پر مقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔اگلے روزیورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوا۔اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی ‘تجویز کردہ فہرست’ سے ہٹا دیا تھا۔جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔اس کے بعد 3 جولائی کو ملائشیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر نے پاکستانی لائسنس رکھنے والے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا۔جس کے بعد 4 جولائی کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد مزید 30 ’مشتبہ لائسنس’ کے حامل پائلٹس کو اظہار وجوہ کے نوٹسز بھیجے جاچکے ہیں۔
7 جولائی کو یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے 32 رکن ممالک کو ‘پاکستان میں جاری کردہ پائلٹ لائسنسز سے متعلق مبینہ فراڈ’ کے حوالے سے خط لکھا اور ان پائلٹس کو فلائٹ آپریشن سے روکنے کی سفارش کی تھی۔اسی روز سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ‘مشکوک’ لائسنسز سے متعلق انکوائریاں مکمل ہونے کے بعد پی آئی اے کے 34 پائلٹس کے کمرشل فلائنگ لائسنسز معطل کردیے تھے۔بعدازاں 9 جولائی کو امریکا نے بھی پاکستانیوں کی واپسی کے لیے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی خصوصی پروازوں کے اجازت نامے کو منسوخ کردیا تھا۔
10 جولائی کو ایوی ایشن ڈویژن نے مختلف ممالک کی ایئرلائنز میں کام کرنے والے 95 فیصد پائلٹس کے لائسنز کلیئر کردیے تھے جبکہ باقی کی تصدیق کا عمل آئندہ ہفتے مکمل کرنے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔